عہد نامہ قدیم و جدید کے انبیاء کا صبر و استقامت (قسط دوم۔ آخری)
حضرت میکا یاہؑ
اخی آب اور یہو سفط بنی اسرائیل کے بادشاہ تھے۔انہوں نےشام پر حملے کا ارادہ کیا تو بعل کے پجاریوں نے اخی آب کی فتح کی خبر دی۔جب یہوسفط نے میکایا ہ نبی سے دریافت کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبرپا کربادشاہ کو شکست کی اطلاع دی اور بعل کے پجاریوں کا جھوٹ واضح کیا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی گئی خبر بتانے پر اخی آب نے آپ کو قید کرنے اور تکلیف دہ خور ونوش دینے کی ہدایت کی۔اس کے با جود آپ بادشاہ کو عذاب کی خبر دیتے رہے۔
(ماخوذ از سلاطین 1 باب22)
حضرت ایوبؑ
بے انتہا مصائب جھیلنے والے اور صبر کی مثال کا درجہ رکھنے والے حضرت ایوبؑ کے حالات کا تفصیلی ذکر عہد نامہ قدیم میں آپ کے نام سے موسوم کتاب میں ملتا ہے۔آپ ایک کامل راستباز، متقی اور بدی سے دُور رہنے والے انسان تھے۔اللہ تعا لیٰ نے آپ کو اولاد اور مال و دولت کی نعما ء سے بھی نواز رکھا تھا۔ لیکن آپ اموال کے ضائع ہو جانے اورتمام اولاد کے مر جانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ سے شاکی نہ ہوئے۔آپ کا یہ قول محفوظ ہے:
’’…خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔خداوند کا نام مبارک ہو۔اِن سب باتوں میں ایوب نے نہ تو گناہ کیا اور نہ خدا پر بےجا کام کا عیب لگایا۔ ‘‘
(ایوب باب1آیت21تا22)
آپ کی آزما ئش اموال و اولاد کے ختم ہو جانے تک نہ تھی بلکہ اس کے بعد آپ کی صحت بھی جاتی رہی لیکن ان تمام حالات کے بعد بھی آپ نے تقدیر کو الزام نہ دیا۔ اس واقعہ کا ذکر اس طرح ملتا ہے:
’’…شیطان خداوند کے سامنے سے چلا گیا اور ایوب کو تلوے سے چاند تک دردناک پھوڑوں سے دُکھ دیا۔اور وہ اپنے کو کھجانے کے لیے ایک ٹھیکر الےکر راکھ پر بیٹھ گیا۔تب اُس کی بیوی اُس سے کہنے لگی کہ کیا تو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہےگا ؟ خداوند کی تکفیر کر اور مر جا۔پر اُس نے اُس سے کہا کہ تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سُکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں ؟ اِن سب باتوں میں ایوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔‘‘
(ایوب باب2آیت7تا10)
بائبل ان واقعات کے بعد ذکر کرتی ہے کہ آپ نے اپنے تین دوستوں کے سامنے خدا تعا لیٰ کی شکایت کی، اپنے جنم دن پر لعنت کی اور ان خیالات کا اظہار کیا کہ باوجود ہر طرح کی نیکی کرنے کے مجھ پر عذا ب نازل ہوا اور شریر لوگ ہر لحاظ سے بار آور ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی جو دعا بیان فرما ئی ہے اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ درحقیقت آپؑ انبیاء کی شان کے مطابق خدا تعالیٰ سے ہرگز شاکی نہ تھے بلکہ آپ نے اپنی تکالیف کو شیطان کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع فرمایا اور اللہ تعا لیٰ نے آپ کو معجزا نہ شفا دینے کے لیے ایک چشمہ کی طرف آپ کی رہ نمائی فرمائی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہصمیں فرماتا ہے:
وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘاِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ۔ اُرۡکُضۡ بِرِجۡلِکَ ۚ ہٰذَا مُغۡتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ۔ (ص:42تا43)
بائبل میں درج واقعات کے آخر پر بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ایوب کو بے قصور ٹھہرایا جانا اور آپ کی گفتگو کا بر حق قرار پانا اسی امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ آپ کی جا نب منسوب بیانا ت درست نہیں۔آپ نے انتہائی صبر اور حوصلے کے ساتھ تمام آزمائشوں کو برداشت کیا اور اس کے نتیجہ میں آپ کو پہلے سے بڑھ کر نعما ء سے نوازا گیا۔ ایوب کی کتاب کے آخری باب میں لکھا ہے:
’’…میرا بندہ ایوب تمہارے لیے دُعا کرےگا کیونکہ اُسے تو میں قبول کروں گا تاکہ تمہاری جہالت کے مطابق تمہارے ساتھ سلوک نہ کروں کیونکہ تم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے جیسے میرے بندہ ایوب نے کہی …اور خداوند نے ایوب کو قبول کیا۔اور خداوند نے ایوب کی اسیری کو جب اُس نے اپنے دوستوں کے لیے دُعا کی بدل دیا اور خداوند نے ایوب کو جتنا اُس کے پاس پہلے تھا اُس کا دوچند دیا۔‘‘
(ایوب باب42آیت8تا10)
حضرت یرمیاہؑ
جب بنی اسرائیل شرک میں بہت بڑھ چکے تھے اس وقت یرمیاہ نبی اُن کی جانب مبعوث ہوئے ۔آپ نے بنی اسرائیل کو ان کے گناہوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کواللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا کہا نیز خدا تعالیٰ سے خبر پا کر پیشگوئی کی کہ قوم کے توبہ نہ کرنے کی صورت میں بہت جلد یروشلم پر ایک سنگدل، بے رحم اور بڑی قوم حملہ آور ہو گی جو بنی اسرائیل کو اسیر کر کے لے جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے علا قہ عنتوت کے لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔خدا تعالیٰ کے اس احسان کا تذکرہ آپ نے ان الفاظ میں کیا:
’’خداوند نے مجھ پر ظاہر کیا اور میں جان گیا۔ تب تو نے مجھے اُن کے کام دکھائے۔لیکن میں اُس پالتو برّہ کی مانند تھا جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور مجھے معلوم نہ تھا کہ اُنہوں نے میرے خلاف منصوبے باندھے ہیں کہ آؤ درخت کو اُس کے پھل سمیت نیست کریں اور اُسے زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالیں تاکہ اُس کے نام کا ذکر تک باقی نہ رہے۔ ‘‘
(یرمیاہ باب11آیت18تا19)
اس کے بعد بھی آپ پیغام حق کی تبلیغ میں لگے رہے اور آپ کے دشمنوں کی آپ کے خلاف منصوبہ بندی اور قتل کی سازشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس کا ذکر حسب ذیل آیات میں ملتا ہے:
’’تب اُنہوں نے کہا آؤ ہم یرمیاہ کی مخالفت میں منصوبے باندھیں کیونکہ شریعت کاہن سے جاتی نہ رہے گی اور نہ مشورت مُشیرسے اور نہ کلام نبی سے …اَے خداوند!… اُنہوں نے میری جان کے لیے گڑھا کھودا …اُنہوں نے مجھے پھنسانے کو گڑھا کھودا اور میرے پاؤں کے لیے پھندے لگائے۔ پر اے خداوند تو اُن کی سب سازِشوں کو جو اُنہوں نے میرے قتل پر کیں جانتا ہے۔ ‘‘
(یرمیاہ باب18آیت18تا23)
شرک پر اصرار کرنے کے باعث بنی اسرائیل عذا ب کے مستحق ہو چکے تھے اس لیے یرمیاہ نے خدا کے حکم سے ہیکل میں جا کر یروشلم اور گردو نواح کی بستیوں پر عذا ب آنے کی خبر دی۔اس پر آپ کو زد و کوب کا نشانہ بنایا گیا۔ اور ایک روز کے لیے بند کر دیا گیا۔
’’فشحور بن امیر کاہن نے جو خداوند کے گھر میں سردار ناظم تھا یر میاہ کو یہ باتیں نبوت سے کہتے سنا۔تب فشحور نے یرمیاہ نبی کو مارا اور اُسے اُس کاٹھ میں ڈالا جو بنیمینکے بالائی پھاٹک میں خداوند کے گھر میں تھا۔اور دُوسرے دن یوں ہوا کہ فشحور نے یرمیاہ کوکاٹھ سے نکالا۔‘‘
(یرمیاہ باب20آیت1تا3)
کچھ عرصہ بعد ایک مرتبہ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہیکل میں آنے والے یہود کو پہنچایا اور اس کے نتیجہ میں آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ اس کا تذکرہ اس طرح ملتا ہے:
’’چنانچہ کا ہنوں اور نبیوں اور سب لوگوں نے یرمیاہ کو خداوند کے گھر میں یہ باتیں کہتے سُنا۔اور یو ں ہوا کہ جب یرمیاہ وہ سب باتیں کہہ چُکا جو خداوند نے اُسے حکم دیا تھا کہ سب لوگوں سے کہے تو کاہنوں اور نبیوں اور سب لوگوں نے اُسے پکڑا اور کہا کہ تو یقیناًقتل کیا جائےگا۔تو نے کیوں خداوند کا نام لےکر نبوت کی اور کہا کہ یہ گھر سیلاؔ کی مانند ہو گا اور یہ شہر ویران اور غیر آباد ہو گا اور سب لوگ خداوند کے گھر میں یرمیاہ کے پاس جمع ہوئے۔اور یہوداہؔ کے امرا ءیہ باتیں سن کر بادشاہ کے گھر سے خداوند کے گھر میں آئے اور خداوند کے گھر کے نئے پھاٹک کے مدخل پر بیٹھے۔ اور کاہنو ں اور نبیوں نے امراءسے اور سب لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ شخص واجب القتل ہے کیونکہ اِس نے اِس شہر کے خلاف نبوت کی ہے جیسا کہ تم نے اپنے کانوں سے سُنا۔ تب یرمیاہ نے سب امراء اور تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ خداوند نے مجھے بھیجا کہ اِس گھر اور اِس شہر کے خلاف وہ سب باتیں جو تم نے سُنی ہیں نبوت سے کہوں۔ ‘‘
(یرمیاہ باب26آیت7تا12)
اس قدر مشکل حالات بھی آپ کو پیغام حق کے باربار پہنچانے سے روک نہ سکے۔آپ نے اپنے شاگرد باروک کو وعیدی پیشگوئیوں اور توبہ کی صورت میں عذاب کے ٹل جانے کے وعدے پر مشتمل ایک طومار لکھوایا اور ہدایت کی کہ ہیکل میں تمام یہود کو پڑھ کر سنایا جائے۔جب اس کی اطلاع بیہو یقیم کو ملی جو اس وقت کا بادشاہ تھا تو اس نے باروک اوریرمیاہ دونوں کی گرفتاری کے احکاما ت جاری کر دیے۔تاہم خدا تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔
بابل کی فوج یروشلم کا محا صرہ ترک کر کے واپس گئی تو آپ پر غداری کا الزام لگا کر آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔گرفتاری اور قید کا حال اس طرح بیان ہے:
’’جب وہ بنیمین کے پھاٹک پر پہنچا تو وہاں پہرے والوں کا داروغہ تھا جس کا نا م اِریاہ بن سلمیاہ بن حننیاہ تھا اُس نےیرمیاہ نبی کو پکڑااور کہا کہ توکسدیوں کی طرف بھاگا جاتا ہے۔ تب یرمیاہ نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔میں کسدیوں کی طرف بھاگا نہیں جاتا ہوں پر اُس نے اُس کی ایک نہ سُنی پس اِریاہ یرمیاہ کو پکڑ کر اُمرا ءکے پاس لایا۔ اور اُمرا ءیرمیاہ پر غضبناک ہوئے اور اُسے مارا اور یونتن منشی کے گھر میں اُسے قید کیا کیونکہ اُنہوں نے اُس گھر کو قید خانہ بنا رکھا تھا۔‘‘
(یرمیاہ باب37آیت13تا15)
قید کے دوران بھی آپ نے بنی اسرائیل کے گناہوں کا بیان اور سزا کے طور پر یروشلم کی بربادی کی خبر دینے کا مشن جاری رکھا تو امرا ءبادشاہ سے اس طرح گویا ہوئے:
’’اُمرا ءنے بادشاہ سے کہا ہم تجھ سے عرض کرتے ہیں کہ اِس آدمی کو قتل کروا کیونکہ یہ جنگی مردوں کے ہاتھوں کو جو اِس شہر میں باقی ہیں اور سب لوگوں کے ہاتھوں کو اُن سے ایسی باتیں کہہ کر سُست کرتا ہے کیونکہ یہ شخص اِن لوگوں کا خیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ ہے۔ تب صدقیاہؔ بادشاہ نے کہا وہ تمہارے قابو میں ہے کیونکہ بادشاہ تمہارے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔تب اُنہوں نے یرمیاہ کو پکڑکر ملکیاہؔ شاہزادہ کے حوض میںجو قید خانہ کے صحن میں تھاڈالدیا اور اُنہوں نے یرمیاہؔ کو رسّے سے باندھ کر لٹکا یا اور حوض میں کچھ پانی نہ تھا بلکہ کیچ تھی اور یرمیاہ کیچ میں دھس گیا۔‘‘
(یرمیاہ باب38آیت4تا6)
اس کے بعد آپ یروشلم کے سقوط تک قید ہی رہے جبکہ حملہ آور حکمران نبو کد نضر نے شہر فتح کرنے کے بعد آپ کو آزاد کر دیا۔
حضرت حزقیلؑ
حزقیلؑ بھی بنی اسرائیل کی جلا وطنی کے آغاز میں مبعوث ہوئے اور آپ نے بھی بنی اسرائیل کے گناہوں کی پاداش میں ان کے اسیر ہونے اور شہر کے ویران ہونے کی خبر دی۔ آپ پر اس رنگ میں آزمائش آئی کہ آپ کی اہلیہ کی اچانک وفات ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ افسوس کرنے کے روایتی طریق کی بجائے خامو شی سے سوگ منائیں اور روز مرہ لباس پہن کر کام کاج جاری رکھیں۔ چنانچہ بائبل میں آتا ہے کہ
’’پھر خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔کہ اے آدمزاد دیکھ میں تیری منظورِنظر کو ایک ہی ضرب میں تجھ سے جدا کروں گا لیکن تو نہ ماتم کرنا نہ رونا اور نہ آنسو بہانا۔چپکے چپکے آہیں بھرنا۔مردہ پر نوحہ نہ کرنا۔سر پر اپنی پگڑی باندھنا اور پاؤں میں جوتی پہننا اور اپنے ہونٹوں کو نہ ڈھانپنا اور لوگوں کی روٹی نہ کھانا۔‘‘
(حزقی ایل باب24آیت15تا17)
یہ اس بات کی علامت کے طور پر تھا کہ بنی اسرائیل کو بھی ہیکل اور شہر کی تباہی کے وقت اپنے عزیزوں کی موت پر نوحہ زاری کا موقع نہ ملے گا۔ اس کی وضا حت بھی کر دی گئی کہ
’’پس لوگوں نے مجھ سے پوچھا کیا تو ہمیں نہ بتائے گا کہ جو تو کرتا ہے اس کو ہم سے کیا نسبت ہے ؟سو میں نے ان سے کہا کہ خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔ کہ اسرائیل کے گھرانے سے کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھو میں اپنے مقدس کو جو تمہارے زور کا فخر اور تمہارا منظورِنظر ہے جس کے لیے تمہارے دل ترستے ہیں ناپاک کروں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں جن کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو تلوار سے مارے جائیں گے۔اور تم ایسا ہی کرو گے جیسا میں نے کیا۔تم اپنے ہونٹوں کو نہ ڈھانپوگے اور لوگوں کی روٹی نہ کھاؤگے۔ اور تمہاری پگڑیاں تمہارے سروں پر اور تمہاری جوتیاں تمہارے پاؤں میں ہوں گی اور تم نوحہ اور زاری نہ کرو گے پر اپنی شرارت کے سبب سے گُھلو گے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی سانسیں بھرو گے۔ چنانچہ حزقی ایل تمہارے لیے نشان ہے۔سب کچھ جو اس نے کیا تم بھی کرو گے اور جب یہ وقوع میں آئے گا تو تم جانو گے کہ خداوند خدا میں ہوں۔‘‘
(حزقی ایل باب24آیت19تا24)
حضرت دانیالؑ
حضرت دا نیالؑ یہود کے شاہی خاندان کےجلا وطن کیے جانے والے افراد میں سے تھے۔ خدا تعالیٰ کی جانب سے خبر پا کر بادشاہ کی خواب اور اس کی تعبیر بیان کرنے پر آپ کو اعلیٰ عہدہ پر فائز کیا گیا۔خدا داد صلاحیت اور لیاقت کے باعث آپ دیگر تمام وزراء پر سبقت لے گئے اور بادشاہ نے آپ کو تمام ملک کا مختار بنانے کا ارادہ کیا۔اس پر آپ سے حسد رکھنے والوں نے بادشاہ سے یہ حکم نامہ جاری کروایا کہ تیس روز تک جو کوئی بادشاہ کے علاوہ کسی بھی اور معبود یا آدمی سے کوئی درخواست کرے اس کو شیروں کی ماند میں ڈال دیا جائے۔ یہ حکم جاری ہونے کے باوجود حضرت دانیال بدستور خدا ئے واحد کی عبادت کرتے رہے۔ اور اس کی پاداش میں آپ کو شیروں کی ماند میں ڈال دیا گیا۔ ماندکا منہ پتھر سے بند کردیا گیا۔ دشمنوں کی اس تدبیر کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔
(ماخوذ از دانیال باب6)
حضرت یحییٰؑ
حضرت یحییٰؑ کا نام عہد نامہ جدید میں یوحنا ہے اور بالعموم آپ کو یوحنابپتسمہ دینے والا کہا جاتا ہے۔آپ نے حضرت مسیح نا صریؑ کی بعثت سے قبل اعلان کیا کہ خدا کی بادشاہی قریب آرہی ہے جس میں شامل ہونے کے لیے توبہ کرنا ضروری ہے۔ آپ اپنے پیرو کا روں کو دریائے یردن کے پانی سے بپتسمہ بھی دیا کرتے تھے۔ یسوع مسیح نے بھی آپ سے بپتسمہ لیا جس کا ذکر انجیل متی کے تیسرے باب میں موجود ہے۔دستور دنیا کے مطابق گناہوں اور بد اعمال کی نشاندہی کرنے پر با اثر لوگ آپ کے مخالف ہوئے، قید کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض روایات کے مطابق آپ کوشہید کر دیاگیا۔ مرقس کی انجیل میں لکھا ہے:
’’ …ہیرودِیس نے آپ آدمی بھیج کر یوحنا کو پکڑوایا اور اپنے بھائی فلپس کی بیوی ہیرودیاس کے سبب سے اُسے قید خانہ میں باندھ رکھاتھا کیونکہ ہیرودیس نے اُس سے بیاہ کرلیا تھا۔اور یوحنا نے اُس سے کہا تھا کہ اپنے بھائی کی بیوی کو رکھنا تجھے روا نہیں۔پس ہیرودیاس اُس سے دُشمنی رکھتی اور چاہتی تھی کہ اسے قتل کرائے مگر نہ ہوسکا۔ کیونکہ ہیرودیس یوحنا کو راستباز اور مقدس آدمی جان کر اُس سے ڈرتا اور اُسے بچائے رکھتا تھا اور اُس کی باتیں سُن کر بہت حیران ہوجاتا تھا مگر سُنتا خُوشی سے تھا۔اور موقع کے دن جب ہیرودیس نے اپنی سالگرہ میں اپنے امیروں اور فوجی سَرداروں اور گلیل کے رئیسوں کی ضیافت کی۔اور اُسی ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیرودیس اور اُس کے مہمانوں کو خُوش کیا تو بادشاہ نے اُس لڑکی سےکہا جو چاہے مجھ سے مانگ مَیں تجھے دوں گا۔اور اُس نے قسم کھائی کہ جو تُو مجھ سے مانگے گی اپنی آدھی سلطنت تک تجھے دوں گا۔اور اُس نے باہرجا کر اپنی ماں سے کہا کہ مَیں کیا مانگوں ؟ اُس نے کہا یُوحنّا بپتسمہ دینے والے کا سر۔ وہ فی الفور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اُس سے عرض کی مَیں چاہتی ہوں کہ تُو یوحنّا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مجھے منگوادے۔بادشاہ بہت غمگین ہوا مگر اپنی قسموں اور مہمانوں کے سبب سے اُس سے انکار کرنا نہ چاہا۔ پس بادشاہ نےفی الفور ایک سپاہی کو حُکم دے کر بھیجا کہ اُس کا سر لائے۔ اُس نے جا کر قید خانہ میں اُس کا سرکاٹا۔اور ایک تھال میں لاکر لڑکی کو دیا اور لڑکی نے اپنی ماں کو دیا۔پھر اُس کے شاگرد سُن کر آئے اور اُس کی لاش اُٹھا کر قبر میں رکھّی۔‘‘
(مرقس باب6آیت17تا28)
حضرت عیسیٰؑ
حضرت عیسیٰؑ کے مخالفین یہود نے آپ کی شدید مخالفت کی اور نہ صر ف آپ کا انکار کیا بلکہ سا زش کر کے آپ کو گرفتار کیا گیا۔آپ پر ایک طرف کفر کا فتویٰ لگایا گیا او ر دوسری جانب بغا وت کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگا کر آپ کو حکو مت وقت کے دربار سے سزا ئے مو ت دلوائی گئی۔ ان واقعات کی تفصیل اناجیل میں مذکور ہے۔
’’سردار کاہن اور قوم کے بزرگ کائفا نام سَردار کاہن کے دیوان خانہ میں جمع ہوئے۔اور مشورہ کیا کہ یسوع کو فریب سے پکڑ کر قتل کریں۔ مگر کہتے تھے کہ عید میں نہیں۔ ایسا نہ ہوکہ لوگوں میں بلوا ہو جائے‘‘
(متی باب26آیت3تا5)
جب یہود آپ کو پکڑنے کے لیے آئے تو آپ کے ایک ساتھی نے تلوار نکال کر مقابلہ کرنا چاہا لیکن آپؑ نے اس کو منع فرما دیا اور کہا:
’’کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے منت کر سکتاہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تم سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کردے گا؟‘‘
(متی باب26آیت53تا54)
گرفتاری کے بعد آپ پر یہود کی مذہبی صدر عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور کفر کا الزام لگا کر نہ صرف واجب القتل قرار دے دیا بلکہ آپ کے ساتھ شدید بدسلوکی اور تمسخر کیا اور آپ کو زد و کوب کا نشانہ بنایا۔
’’اِس پر سَردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کفر بکا ہے۔ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ دیکھو تم نے ابھی یہ کفر سنا۔ تمہاری کیا رائے ہے؟اُنہوں نے جواب میں کہا وہ قتل کے لائق ہے۔ اس پر اُنہوں نے اُس کے مُنہ پر تھوکا اور اُس کے مکے مارے اور بعض نے طمانچے مار کر کہا۔ اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ تجھے کس نے مارا؟‘‘
(متی باب26آیت65تا68)
یہود نے اسی قدر پر اکتفا نہ کیا بلکہ علا قہ کے حکمران پیلا طوس کے دربار میں لے جا کر آپ کو مصلوب کرنے کا فیصلہ کروایا۔صلیب سے پہلے بھی آپ کو تشدد اور تمسخرکا نشانہ بنایا گیا:
’’…یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا کہ مصلوب ہو۔اس پر حاکم کے سپاہیوں نے یسوع کو قلعہ میں لے جا کر ساری پلٹن اُس کے گرد جمع کی۔اور اُس کے کپڑے اُتار کر اُسے قرمزی چوغہ پہنایا۔اور کانٹوں کا تاج بناکر اُس کے سر پر رکھّا اور ایک سرکنڈا اُس کے داہنے ہاتھ میں دیا اور اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے لگے کہ اے یہودیوں کے بادشاہ آداب! اور اُس پر تھوکا اور وہی سرکنڈا لے کر اُس کے سر پر مارنے لگے۔اور جب اُس کا ٹھٹھا کر چکے تو چوغہ کو اُس پر سے اُتار کر پھر اُسی کے کپڑے اُسے پہنائے اور مصلوب کرنے کو لے گئے…اور اُنہوں نے اُسے مصلوب کیا اور اُس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے۔‘‘
(متی باب27آیت26تا35)
الغرض انبیا ئے سا بقہ کو طرح طرح کے مصا ئب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان مشکلا ت اور جان کے خطرات کے باوجود پیغام حق پہنچاتے رہے اور کسی دنیا وی عیش و آرام اور قدر و منزلت کی خواہش نے ان کو اپنے مقصد سے دور نہ کیا۔اسی لیے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انبیائےگذشتہ کی مثال دے کر فرمایا کہ
فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف:36)
یعنی پس صبر کر جیسے اُولوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔ ان صبر کے نمونوں میں تمام انبیاء سے بڑھ کر صبر کا اعلیٰ خلق دکھانے والے ہمارے آقا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے ہر قسم کی تکالیف، مخالفتوں اور حالات میں انتہائی صبر اور برداشت کا نمونہ دکھایا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اُٹھاؤ اور صبر کرو، ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے۔ مگر وہ شر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دست کش بنا لیا، جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے، جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا”۔
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ10)
٭…٭…٭