انا کے قیدی
کہیں پڑھا تھا کہ قیدی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں کسی جرم کی پاداش میں قید کیا جاتا ہے دوسرے وہ جو اپنے احساس کے ہاتھوں،کبھی محبت اور کبھی نفرت کے اسیر ہوتے ہیں۔ محبت کی اسیری واحد ایسی اسیری ہے جس میں انا نہیں ہوتی جبکہ نفرت کی اسیری انسان کو اپنے خول میں بند ہونے پہ مجبور کردیتی ہے۔ غرض کہ نفرت کی اسیری میں انسان صرف خود کو تباہ نہیں کرتا بلکہ اپنے ساتھ پورے معاشرے کو تباہ کردیتا ہے۔ ایک حساس نگاہ سے دیکھیں تو ہر شخص کہیں نہ کہیں اپنی انا کا قیدی ہے۔ اس انا کو فنا کرنے میں ہی اس کی روح کی بقا ہے۔انا کے اس خول سے انہیں گھبراہٹ توہوتی ہے لیکن اکثر لوگ اس کو اپنی ذات کا، شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ہر انسان میں صلاحیت ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکے لیکن اکثر اوقات لوگ حالات سے مقابلہ کرنے کی بجائے شکوے و شکایات شروع کردیتے ہیں جس سے حالات تو وہی رہتے ہیں بس زندگی بدل جاتی ہے۔بے جا غصہ،برا رویہ، زندگی سے مایوس ہونا خدا سے شکوے کی چند صورتیں ہیں۔ ہماری مثبت یا منفی سوچ ہمارے آنے والے کل کا تعین کرتی ہے کیونکہ مثبت سوچ سکون اور اطمینان پیدا کرتی ہے اسی لیے قرآن کریم میں ہے کہ
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ (الرعد:29)
(یعنی) وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔سنو!اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔
(ترجمہ حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)
اگر ہمارا خدا سے پختہ تعلق ہو تو وہ ہمیں بھٹکنے نہیں دے گا اور معاشرے میں انتشار کی کیفیت نہیں ہوگی۔لیکن بسا اوقات زندگی کے سفر میںبہت سے مقامات پرہم انائوں کےایسے اسیر ہوتے ہیں۔ جیسے چاہت کے سمندر کے کنارے کوئی تشنہ لب بیٹھا سیرابی کا منتظر ہو مگر انا ہمیں آگے بڑھ کر سیرابی کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر رشتوں کو ہی لے لیں۔انا کی دیوار حائل ہوتے ہی صدیوں کےفاصلے، دوریاں دلوں میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔اور بعض دفعہ یہ اَن دیکھی خلیج اتنی وسیع ہوجاتی ہے کہ انانیت کےقدموں تلے رستے دھندلانے لگتے ہیں، منزلیں ناآشنا ہونے لگتی ہیں۔گھر اور دل بنجر، ویران،اجاڑ اور بیابان مکان کی طرح ہوجاتے ہیں۔ نارسائی کے تپتے صحرا میں بھٹکتے ہوئے ہم اپنی خطائوں کو ہمیشہ دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر اپنی انا کا پرچم فخر سے بلند رکھتے ہوئے، نہ ندامت کے بوجھ تلے دبتےہیں اور نہ ہی سر کو جھکاتے ہیں کہ شاید غلطی ہماری ہی ہو۔ بلکہ اس غرور اور تکبر میں ہماری گردنیں اَور زیادہ اکڑ جاتی ہیں کہ قصور ہمارا نہیں تو پھر ہم معافی کیوں مانگیں؟ جبکہ جس پاک مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا ہم دعویٰ کرتے ہیں وہ تو اپنی کتاب کشتیٔ نوح میں فرماتے ہیں کہ
’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔…تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں۔ وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو تا تم بخشے جاؤ۔‘‘ فرماتے ہیں ’’نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12-13)
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ اصل پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الأدب باب الحذر من الغضب حدیث 6114)
یہ اناپرستی اور غصہ انسان کی عقل و دانش کو ایسے چاٹ جاتی ہے کہ جھکنا جو عباد الرحمٰن کا وصف ہے تودرکنار اپنی ذات میں اور سختی پیدا کرلیتے ہیںجبکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے
وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ(الانفال:2)
کہ اپنے درمیان اصلاح کرو۔
وَالصُّلْحُ خَیْرٌ(النساء:129)
صلح بہرحال بہتر ہے۔
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال:62)
کہ اگر وہ صلح کے لئے جھک جائیں تو تُو بھی ان کے لئے صلح کے لئے جھک جا۔ اگر دشمن صلح کے لئے جھک جائے یا دوسرا فریق صلح کی طرف مائل ہو تو پھر صلح کرو۔ پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا(الفرقان:64)
کہ اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا(الفرقان:73)
اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’اس جماعت کو تیار کرنے میں غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہوں۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے اور دوسرا چُپ رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے‘‘۔ فرمایا کہ’’سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینے کو ہرگز نہ بڑھاوے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو خدا تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔‘‘ فرمایا ’’خدا تعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں کوئی ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7صفحہ 127-128۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
دیکھا گیا ہے عائلی معاملات میں فریقین میں مسائل کے آغاز کی ایک بڑی وجہ ان کی ذاتی انا بھی ہوتی ہے۔ اس کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کرکن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کر دار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اَناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخرکار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔ پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئےاور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اَناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے۔ کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں‘‘۔
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :
’’اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے‘‘۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
اس لیے اگر ہم باہر کا جہان بدلنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر سے اپنی انا کو مارنا ہوگا۔ باہر کا جہان خود بخود بدل جائے گا۔اپنی سوچ کے جہان کو پاک کرنا ہوگا یہ وہ واحد رستہ ہے جس سےہم انسانیت کی معراج کو پاسکتے ہیں۔ناامیدی ختم کرکے خدا کی ذات پہ پختہ ایمان رکھنا ہوگا۔ آج چاہت و خلوص، دوستی و وفا، اعتبار و اتفاق، سلوک و یگانگت، کی جانب جانے والے ہر رستے ہرمنزل کو ہم نے اس انا کے ہاتھوں گنوادیا ہے یا گنوانے والے ہیں۔اپنی ذات میں کہیں نہ کہیں اپنی انائوں کے ان دیکھے حصار میں ہیں اور چاہنے کے باوجود بھی اس سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیںکہ ’’اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نہیں نکل سکتے۔‘‘ یعنی نفسانیت کے کیڑے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بہت ہی باریک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے۔ جو لوگ جذبات نفسانی سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤ گے۔ اور بہت ہوں گے جو فقیہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے۔ مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گے۔‘‘یہ صرف جاہلوں کا کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کا حق اور بندوں کے حق ادا نہیں کرتے یا موقع آئے تو لوگوں کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آپ نے فرمایا کہ بہت سارے پڑھے لکھے لوگ ایسے ہیں بلکہ علماء اور عالم لوگوں میں اور اس سے بھی بڑھ کر جو دین کا علم رکھنے والے ہیں اور عام دنیا میں وہ بڑے فقیہ اور بڑے صوفی کہلاتے ہیں، بزرگ کہلاتے ہیں وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں کہ جب اپنا موقع آتا ہے تو پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور نہ پھر ان کو خدا یاد رہتا ہے نہ بندوں کے حق ادا کرنے اور اعلیٰ اخلاق یاد رہتے ہیں۔ فرمایا’’ان بتوں سے پرہیز کرنا ہی تو بہادری ہے اور ان کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے۔ یہی بت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے اور ہزاروں کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں ان کے سبب سے ہوتی ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ’’ہر روز اور ہر آن ہوتی ہیں اور اسباب پر اس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو محض ایک عضو معطّل قرار دے رکھا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے۔‘‘جو اصل مقصد ہے، اصل مفہوم ہے توحید کا اس کو نہیں سمجھے۔ سمجھ لیا کہ
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
پڑھ دیا اور کافی ہو گیا…
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کا قائل ہونا یا توحید کا قائل ہونے والا پھر بندوں کے حقوق بھی نہیں غصب کرتا۔ فرمایا’’کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے۔‘‘ اگر
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کا مفہوم سمجھ لو تو ایک غیر معمولی تبدیلی تمہارے اندر پیدا ہو جائے۔ فرمایا کہ’’اس میں بغض، کینہ، حسد، ریاء وغیرہ کے بُت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے جب یہ اندرونی بت تکبر، خود پسندی، ریاء کاری، کینہ و عداوت، حسد و بخل، نفاق و بدعہدی وغیرہ کے دور ہو جاویں۔‘‘ حقیقی موحد بننا ہے تو پھر تکبر بھی چھوڑنا ہوگا۔ خودپسندی بھی چھوڑنی ہوگی۔ بناوٹ اور ریا کاری کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ کینہ اور عداوت رکھنا بھی چھوڑنا ہو گا۔ کوئی صلح کرنے کے لئے آتا ہے، معافی مانگتا ہے تو اس کو معاف بھی کرنا ہو گا۔ دلوں میں کینے پالنے نہیں چاہئیں۔ دشمنیاں نہیں رکھنی چاہئیں۔ حسد اور بخل کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ نفاق اور بدعہدی کو بھی چھوڑنا ہو گا۔ یہ ساری چیزیں چھوڑیں گے تو آپ نے فرمایا کہ پھر ہی سچے موحد بن سکتے ہو۔ تبھی
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’جب تک یہ بت اندر ہی ہیں اس وقت
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے؟کیونکہ اس میں توکّل کی نفی مقصود ہے۔پس یہ پکی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا۔ ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنالیا‘‘۔
(ملفوظات جلد 9صفحہ 105 تا 107۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذاتی انائوں کو ترک کرکے بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی کرنے والے ہوں۔ صلح کی بنیاد ڈالنے والے ہوں۔ توحید کا صحیح اِدراک حاصل کرنے والے ہوں۔ اور معاشرے میں محبت اور پیار بکھیرنے والے ہوں۔ دنیاوی خواہشات کوکبھی اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں ہم ہمیشہ رہیں اور یہی ہماری اوّلین ترجیح ہو۔آمین ثم آمین