حضرت مصلح موعودؓ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ: قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت شاندار پرجوش اور پر اخلاص استقبال (قسط دوم۔ آخری)
قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت شاندار پرجوش اور پر اخلاص استقبال
ادھر حضورؓ روانہ ہوئے ادھر قادیان کے سب چھوٹے بڑے اس مقام کی طرف جانے شروع ہو گئے جو استقبالیہ کمیٹی نے قادیان اور بٹالہ کی سڑکوں کے مقام اتصال پر کنویں کے پاس مقرر کیا تھا۔ یہ جگہ شامیانے لگا کر قطعات اور رنگ برنگ جھنڈیوں سے سجا کر نہایت خوبصورت بنائی گئی تھی۔ بیٹھنے کے لئے بینچ رکھے گئے تھے اور سڑک پر بہت خوبصورت دروازہ بنایا گیا جس پر اھلاً وَّسھلاً وَّمرحبًاکے علاوہ دوسرے قطعات بھی آویزاں تھے۔ حضورؓ کی تشریف آوری سے قبل بہت بڑا مجمع ہو گیا جس میں قادیان اور بیرونی جماعت کے احمدیوں کے علاوہ قادیان کے غیر احمدی آریہ اور سکھ اصحاب بھی تھے۔ منتظمین نے نہایت عمدگی سے تمام اصحاب ایک ترتیب کے ساتھ سڑک سے لے کر شامیانے تک کھڑے کر دیے ۔سب سے آگے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ اور خاندان مسیح موعودؑ کے افراد کھڑے تھے۔
اس وقت ہر فرد ہمہ تن چشم انتظار بن کر سڑک کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا کہ دور سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی موٹر نظر آئی اور سب کے چہرے خوشی اور مسرت سے کھل گئے۔ ہر ایک کا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر سب سے پہلے اپنے محبوب آقا کے پاس پہنچے اور زیارت کرے۔ لیکن انتظام کی پابندی کی وجہ سے مجبور تھے۔ حضورؓ بھی اپنے خدام کے وفور شوق کو جانتے تھے۔ اس لئے حضورؓ نے بھی انتظام کی پابندی کرانے کے لئے کہلا بھیجا کہ ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ کھڑا رہے۔ اپنی جگہ چھوڑ دینے والے سے مصافحہ نہیں کیا جائے گا۔
یہ ارشاد پہنچ جانے کے بعد حضورؓ کی موٹر آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ موٹر پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا جو چودھری علی محمد صاحب پکڑے ہوئے تھے۔ جب حضورؓ دروازہ کے پاس پہنچے تو پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے مصافحہ ومعانقہ کیا ۔اس کے بعد حضورؓ نے بہت دیر تک باری باری تمام مجمع سے مصافحہ کیا جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو حضورؓ نے آگے بڑھ کر حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحبؓ کو گلے لگا لیا اور دیر تک معانقہ فرمایا۔ اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ آپ کے بعد حضورؓ نے حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ سے معانقہ فرمایا اور پھر تمام مجمع کے ساتھ دعا فرمائی اور اپنے رفقاء سمیت قادیان کی طرف پیدل ہی چل دیے۔ اس وقت ایک عظیم الشان ہجوم ساتھ تھا۔
حضورؓ قصبہ میں داخل ہونے سے پہلے باغ میں پہنچے۔ اس وقت پھولوں کے بہت سے ہار حضورؓ کے گلے میں تھے۔ حضورؓ نے اس موقع پر فرمایا اگر یہ جائز ہوتا۔ تو میں سارے پھول حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر چڑھا دیتا کیونکہ یہ فتوحات کا نشان آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کے ذریعہ حاصل ہوا ہے۔ اس کے بعد حضورؓ نے بہشتی مقبرہ کے پاس پہنچ کر مٹی کے لوٹے سے پانی پیا۔ پھر وضو کیا اور مزار مسیح موعودؑ پر اکیلے دعا کرنے کو تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد حضورؓ نے اپنے رفقائےسفر بھی پاس بلائے۔ پھر سب نے مل کر دعا کی۔ دعا کرنے کے بعد حضورؓ نے اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی قبر پر کھڑے ہو کر (جو آپ کے اس سفر کے دوران انتقال فرما گئے تھے) نماز جنازہ پڑھی۔
بہشتی مقبرہ سے قصبہ میں داخل ہونے لگے تو حضورؓ نے فرمایا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ داخلہ شہر کی دعا پڑھیں گے۔ سب دوست اسے بلند آواز سے دہراتے جائیں۔ اس پر حضرت حافظ صاحبؓ دعا کا لفظ لفظ بلند آواز سے پڑھتے اور سارا مجمع اسے دہراتا۔ دعا یہ تھی۔
آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ صَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ ھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ۔
حضورؓ میاں محمد اسمٰعیل صاحب و میاں محمد عبداللہ صاحب جلد ساز ان کے مکان سے متصل راستے میں سے گزرتے ہوئے مہمان خانہ کے قریب پہنچے۔ جہاں حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے خیر مقدم کیا۔ یہاں حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کے فرزند میاں عباس احمد صاحب اونچے چبوترے پر بٹھائے گئے تھے۔ جن کی طرف سے حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے ایک نان حضورؓ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ ’’یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے‘‘۔ حضورؓ نے نان لیا اور اپنے رفقاء میں تقسیم کر دیا۔
(یاد رہے کہ دراصل ایک خوبصورت بچہ کی طرف سے نان پیش کئے جانے کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ کے ایک کشف میں آتا ہے جو تریاق القلوب میں درج ہے اور اس موقع پر بھی اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دیا گیا۔ )
اس کے بعد جلوس پھر بلند آواز سے حمد کا یہ ترانہ پڑھتا ہوا۔آگے بڑھا۔ مدرسہ احمدیہ کی طرف سے سکول کے دروازوں کے قریب خیر مقدم اور خوش آمدید کے رنگین اور سنہری قطعے آویزاں تھے۔
احمدیہ چوک میں پہنچ کر حضورؓ نے سارے مجمع سمیت واپسی کی دعا پڑھی۔ اس وقت کا نظارہ نہایت ہی رقت آمیز اور موثر تھا خود حضورؓ کی آواز میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور حاضرین بھی فرط مسرت سے رو رہے تھے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ اس رقت انگیز حالت میں حضورؓ نے ڈبڈبائی آنکھوں اور دردناک لہجہ میں فرمایا۔
’’دیکھو رسول کریمﷺ کی یہ دعا کیسی لطیف ہے جس کا نظارہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہی جگہ یہی مقام اور یہی گھر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو آپ اکیلے اور تنہا تھے۔ کوئی ساتھی اور مددگار نہ تھا۔ اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ نعوذ باللہ یہ فریبی ہے یہ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور دشمن کہتے کہ ہم اسے کیڑے کی طرح مسل دیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی تائید اور نصرت کی اور آج اسی کمند میں جکڑے ہوئے ہم اس قدر لوگ یہاں جمع ہیں آپ ہی کے طفیل ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی۔ اسی کے ذریعہ اور اسی کے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عزتیں دیں جو درحقیقت اس کے لئے آئیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں ان انعامات کا وارث بنایا جن کا وعدہ آپ سے کیا گیا اور اگر حقیقت اور سچائی کو مدنظر رکھا جائے تو سچ ہے کہ ساری بڑائیاں حضرت مسیح موعودؑ کے لئے ہیں۔ محمدﷺ کے لئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے ہیں۔ ‘‘
یہ الفاظ فرمانے کے بعد حضورؓ اس دروازہ میں سے گزر کر جو مسجد مبارک کے نیچے نہایت خوبصورتی کے ساتھ بنایا اور بیل بوٹوں سے سجایا گیا تھا۔ مسقف گلی میں سے ہو کر سیڑھیوں سے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے اور مسجد کے اس حصہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسجد تھی۔ حضورؓ نے باجماعت دو رکعت نفل اپنے رفقاء سمیت ادا فرمائے۔ نماز کے بعد حضورؓ مجمع کو السلام علیکم کہہ کر اپنے گھر دارالمسیح میں تشریف لے گئے۔
اس طرح حضورؓ کا یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً چار ماہ پہلے 12؍ جولائی 1924ء کو شروع ہوا تھا 24؍ نومبر 1924ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا اور آپ یورپ کے لمبے اور طویل سفر سے کامیاب و کامران فتح مندی و کامرانی کا جھنڈا لہراتے ہوئے قادیان کی مقدس سرزمین میں رونق افروز ہوئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے اپنے رفقائے سفر اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کا شکریہ اور تحریک دعا
اسی روز حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے اہل قادیان کی طرف سے نماز عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں سپاسنامہ پیش کیا۔ جس کے جواب میں حضورؓ نے سفر میں خدا تعالیٰ کی بے نظیر تائیدات پر روشنی ڈالی اور آخر میں اپنے رفقائے سفر اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’آخر میں مضمون ختم کرنے سے پہلے میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے کام کیا۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوئی ہیں۔ میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی سی ہے جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پر جوش بنانے کے لئے ہوتی ہے۔ مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں خصوصاً اس لئے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا۔ جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے نہ اپنے آرام کا اسے خیال آئے نہ وقت بے وقت دیکھے۔ جب اس طرح کام لیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کےہاتھ پاؤں بھی پھول جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی جائیں پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر خصوصیت سے جماعت کی دعاؤں اور شکریہ کے مستحق ہیں واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے … ان کی وجہ سے بھی سلسلہ کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ برادرانہ حسن سلوک کے خلاف ہو گا اگر میں اس پہلے موقعہ پر جو مجھے اظہار خیالات کا اس سفر کے بعد ملا ہے ان کی خدمات کا اظہار نہ کروں۔ ‘‘
حضرت مصلح موعوؓد کا ایک اہم مکتوب
حضرت مصلح موعوؓد نے 18؍ اکتوبر 1924ء کو خان بہادر آصف زمان صاحب آف پیلی بھیت کے نام سے حسب ذیل مکتوب سپرد قلم فرمایا۔
18؍ اکتوبر 1924ء
مکرمی شیخ صاحب
السلام علیکم۔ آپ کا خط مورخہ گیارہ ستمبر ملا۔ سفر کے حالات پر ہندوستان کے اخبار ہی حواس باختہ نہیں خود ہمارے لوگ جو اس ملک کے حالات سے واقف ہیں حیران ہیں پرانے پرانے رہنے والے اقرار کرتے ہیں کہ جس قدر ملک میں ہماری آمد پر شور ہوا ہے کسی بادشاہ کے آنے پر بھی پریس نے اس قدر نوٹس نہیں لیا۔ یہاں کا پریس اپنے آپ کو سب سے اوپر خیال کرتا ہے اور پھر اس قدر بدلنے والا ہے کہ ایک دن لکھ کر دوسرے دن لکھنا اپنی ہتک خیال کرتا ہے مگر ہمارے متعلق کوئی ساٹھ ستر اخبارات نے نوٹس لیا ہے اور بعض نے چھ چھ سات سات دفع لکھا ہے۔ لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہا آخری دن برکت دینے کی درخواست بھی مجھی سے کی گئی۔ لوگ کثرت سے سلسلہ کے حالات سے واقفیت کی طرف متوجہ ہیں آج ہی ایک شخص انگلستان کے ایک اور علاقے سے ملنے آیا ہوا تھا ایک مشہور سوسائٹی کا سیکرٹری ہے صرف ملنے کے لئے آیا تھا۔ اس سوسائٹی کی مختلف ممالک میں شاخیں ہیں اور کئی ممبر پارلیمنٹ اس میں شامل ہیں جنگ کے خلاف سوسائٹی ہے۔
لڑکے کی پیدائش مبارک ہو۔ خدا تعالیٰ اسے خاندان کے لئے بھی بابرکت کرے اور خود اسے بھی صاحب فضل بنائے نام حمید زمان رکھیں اور اگر یہ نام پہلے کسی لڑکے یا اور رشتہ دار کا ہو تو ناصر زمان۔
میری صحت بالکل خراب ہو گئی ہے آنکھیں بہت کمزور ہو گئی ہیں بظاہر پچھلے چھ ماہ سے متواتر کام نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر لمبے اور فوری آرام کا مشورہ دیتے ہیں مگر سردست یہ میسر ہوتا نظر نہیں آتا۔
وَ عَلَی اللّٰہِ التَّوَکَّل
خاکسار مرزا محمود احمد
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 463تا467)
اخبار الفضل کا خصوصی شمارہ
’خیر مقدم نمبر‘
حضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت دورۂ یورپ سے کامیاب مراجعت کے موقع پر قایان میں جس طرح کا پر شوکت استقبال کیا گیا۔ اخبار الفضل قادیان نے 25؍نومبر 1924ء(شمارہ نمبر 59 جلد 12) کو 20صفحات پر مشتمل ایک ’’خیر مقدم نمبر‘‘ شائع کرکے اپنی جانب سے جہاں جذبات مسرت کا اظہار کیا وہاں اس تاریخی واقعہ کو محفوظ کیا۔
سرورق پر حضرت مسیح موعودؑ کا مصرع
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اورالہام ’’دو شنبہ ہے۔ دو شنبہ مبارک‘‘درج کرکے خلاصۃً مراجعت کی خبر دی گئی۔ اور ساتھ ہی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا منظوم کلام بعنوان صبح مسرت شائع ہوا۔
آج ہر ذرہ سرِ طُور نظر آتا ہے
جس طرف دیکھو وہی نور نظر آتا ہے
ہم نے ہر فضل کے پردے میں اسی کو پایا
وہی جلوہ ہمیں مستور نظر آتا ہے
اور سفر یورپ سے حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی واپسی پر ہدیہ مبارک باد کے موضوع سے یہ نظم بھی شائع ہوئی:
ہو تجھ کو مبارک ! یورپ سے آنے والے
خدامِ منتظر کو چہرہ دکھانے والے
اس کے علاوہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا منظوم کلام خیر مقدم حضرت خلیفۃ المسیح علیہ السلام کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔
شکر صد شکر! جماعت کا امام آتا ہے
للہ الحمد! کہ بانَیل مرام آتا ہے
جناب قاضی اکمل صاحب، حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب دردؓ کااردو منظوم کلام اور جناب قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری اور جناب نذیر احمد صاحب ابن حقانی کی فارسی نظم اور جناب مولوی محمد احمد صاحب بی اے ایل ایل بی وکیل کپورتھلہ کافارسی قصیدہ شامل اشاعت ہے۔
اس کے بعد مختلف سپاس نامے بھی شاملِ اشاعت ہیں جن میں:
- حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کے حضور ہدیہ مبارکباد جماعت احمدیہ کی طرف سے۔
- اہل قادیان کا سپاس نامہ بحضور امام اولو العزم خلیفہ ثانیؓ۔
- حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحبؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خیر مقدم کے حوالے سے مضمون میں اپنے دلی جذبات کی عکاسی کی۔
- حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کے خیر مقدم کوتین سلسلہ کی طرف سے بارک اللہ ! مرحبا! خوش آمدی!
- پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے جو ایڈریس حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بمبئی رونق افروز ہونے پر پیش کیا وہ بعنوان ’’ساحل سمندر پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کا خیر مقدم جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے‘‘درج ہے۔
جبکہ مضامین میں :
- جانبازان جماعت کے متعلق۔ اسلام پر قربان ہونے کے لئے کابل جانے والوں کی فہرست
- جناب قاضی محمد اکمل صاحب کا مضمون بعنوان عقیدت کے چند پھول اپنے اما م کے قدموں میں
- مولانا جلال الدین شمس صاحب کا مضمون حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کا سفرِ یورپ اور ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا۔
- جناب تاج الدین صاحب لائل پوری مولوی فاضل کا مضمون حضرت خلیفۃ المسیح دمشق میں اور غیر مبائعین فسق میں۔
- حضرت خلیفۃ المسیح کا سفر یورپ اور رسول کریمﷺ کی ایک پیشگوئی۔
- اخبار ٹائمز آف انڈیا بمبئی کی خبر۔
- حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کو دورہ یورپ کے متعلق لکھے گئے احباب جماعت کے خطوط بھی شاملِ اشاعت کرنے کااس شمارہ سے سلسلہ شروع کیا گیا جس میں احباب جماعت نے دورہ یورپ کی کامیابی اور حضورؓ کی صحت و سلامتی کے لئے دعا ئیں تحریر کی تھیں۔
احباب کرام کا شکریہ
محترم غلام نبی صاحب مدیر الفضل نے محدود وقت میں خاص نمبر مرتب کیا اوراحباب کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر کیا کہ
’’اگرچہ نہایت ہی تنگ وقت اوراس قدر تنگ وقت میں کہ بیرونی احباب کو اطلاع بھی نہ دی جا سکی’’ الفضل کا خیر مقدم نمبر‘‘شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ لیکن میں ان احباب کرام کا بہت ہی ممنون ہوں۔ جنہوں نے میری مخلصانہ درخواست پر باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے فوراً مضامین اور نظمیں لکھ کر مجھے مرحمت فرمائیں۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل اور ان احباب کی مہربانی سے میں اس قابل ہو سکا کہ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی …کے حضور یہ پرچہ پیش کر سکوں۔ ‘‘
(الفضل25؍نومبر1924ء)
٭…٭…٭