متفرق مضامین

اللہ تعالیٰ کےچنیدہ اور پسندیدہ افراد (قسط اوّل)

یہ جاننے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل اور جامع کتاب میں باقی ساری آسمانی کتب کی بنیادی تعلیمات کو جمع کردیا ہے ان کتب کا مطالعہ بھی کسی حد تک مفید ثابت ہوسکتا ہے

کلام پاک رحمان، قرآن کریم جس کی حفاظت کا وعدہ خود اسی میں اللہ تعالیٰ نے

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَ اِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ(الحجر:10)

کے الفاظ میں کیا ہے، اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتب جن کا اگرچہ ایک بہت بڑا حصہ خود ان کے ماننے والوں کے نزدیک کچھ دانستہ اور کچھ نادانستہ طور پر محرف و مبدل ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود ان میں ایک بہت بڑا حصہ اب بھی ایسا موجود ہے جس کی کسی حد تک تصدیق کلام الٰہی یعنی قرآن مجید سے ہوتی ہے۔

اس نقطہ نظر سے بعض دفعہ ان گذشتہ صحف انبیاء کا مطالعہ بھی بعض طبائع کے لیے قرآن پاک کی معرفت و بصیرت کو بڑھانے کا موجب ہو سکتا ہے۔

اب خاکسار اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہے۔

سورۃ الانبیاء آیت 105میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔ جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیا تھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے۔ یقیناً ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔ اور یقیناً ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماً موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیں گے۔ اس میں یقیناً ایک اہم پیغام ہے عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے۔

سورۃ الانبیاء کی اس آیت میں زبور کی جس آیت کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ

کیوں کہ بد کردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں جسم نابود ہوجائے گا۔ تُو اس کی جگہ کوغور سے دیکھے گا پروہ نہ ہوگا لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے…ان کی میراث ہمیشہ کےلیے ہوگی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گےا ور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔

(زبور۔باب37آیت9-11.،18،اور29)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الانبیاء آیت نمبر 106

وَلَقَدْکَتَبْنَا فِی الزُّبُوْرِ مِنْ بَّعْدِ الذِّ کْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یَرِثُھَاکا لفظ دوام کو چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ اگر آخر ی نوبت فاسقوں کی ہوتو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعدہو۔’’

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 354)

ایک اور موقع پر فرمایا:

‘‘اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اَ لْاَرْضسے مراد جو شام کی سرزمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جو اَب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے یَرِثُھَا فرمایا یَمْلِکُھَانہیں فرمایا۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خداتعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے۔ ارضِ شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو۔ ’’

(الحکم مورخہ 10؍نومبر1902ء صفحہ7)

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ زبور کی یہ آیات اورقرآن کریم ایک ہی حکمت اور بیان کا سلسلہ ہیں ۔ گو کہ مسلمان چاروں آسمانی کتب پر یقین رکھتے ہیں مگر پھر بھی بعض لوگ توریت، زبور یا انجیل کو پڑھنا معیوب سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ جاننے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل اور جامع کتاب میں باقی ساری آسمانی کتب کی بنیادی تعلیمات کو جمع کردیا ہے جیسا کہ

فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (اَلْبَیِّنَۃ: 4)

میں فرمایا گیا ہے۔ ان کتب کا مطالعہ بھی کسی حد تک مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی بیان کرتا چلوں کہ تمام آسمانی کتب میں سب سے کم سمجھی جانے والی کتاب زبور ہے اور بہت کم مسلمانوں کو زبور کے بارےمیں معلومات ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں استعارات و تمثیلات سے بہت کام لیا گیا ہے جو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ انگلش بائبل میں زبور کو (PSALMS)کے نام سے درج کیا گیا ہے۔ یہ دراصل دعاؤں اور نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے کچھ حصے بنی اسرائیل کے لوگ اپنی عبادت میں بھی استعمال کرتے تھے۔ PSLAMSایک یونانی لفظ ہے جس کا ترجمہ ہے ‘‘ایک ایسا گانا جس کو ساز کے ساتھ گایا جائے۔’’ کہا جاتا ہے کہ زبور کے پانچ حصے اس لیے کیے گئے تھے کیونکہ توریت کے بھی پانچ حصے تھے مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پانچ حصے اس لیے کیے گئے کہ ہر حصہ اس کا ایک مختلف بیان ہے۔

یہودیوں کے مطابق اس امر پر اختلاف ہےکہ زبور حضرت داؤد علیہ السلام نے لکھی یا کسی اَور نے۔ کچھ کہتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے لکھی اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ کتاب چند لوگوں نے لکھ کر حضرت داؤد علیہ السلام کے نام منسوب کردی۔ مگر اکثریت اس پر اتفاق کرتی ہے کہ حضرت داؤدؑ نے لکھی جب کہ مسلمان اس کتاب کوجو حضرت داؤدؑ پر اتری تھی آسمانی صحیفہ شمار کرتے ہیں ۔ مگر یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ اس موجودہ کتاب(زبور) کے کچھ حصے حضرت داؤد علیہ السلام نے نہیں لکھے۔ جیسے زبور نمبر 72اور 127حضرت سلیمانؑ کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ زبور نمبر 90حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے۔ اگر زبور کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ فی زمانہ جو زبور کی شکل ہے اس میں کئی صدیوں تک اضافے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے زبور نمبر 90میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا میں انسانی کمزوری کا ذکر ہے مگر زبور نمبر 137میں اس زمانے کا ذکر ہے جب یہودی بابل (BABYLON)میں قید تھے اور یہ واقعہ 573قبل مسیح کا ہے۔ جبکہ حضرت داؤد کی مملکت کا زمانہ 130قبل مسیح کا ہے۔ یہاں قارئین کےلیے زبور کی ایک نظم نقل کرتا ہوں جو زبور باب 20میں ہے۔

‘‘مشکل کے وقت اللہ میری فریاد سنتا ہے۔ اسرائیل کا خدا تم کو سب مشکلوں سے بچائے۔ اور وہ تمہاری مدد غیب سے کرے! اور یروشلم سے تمہیں اور مضبوط اور طاقتور کر کے اور وہ تمہارے سارے تحائف یاد رکھے اور وہ تمہاری نظر اور دین کا اجر دے اور وہ تمہاری ہر مراد پوری کرے اور ہم خوشی سے شور مچانے لگیں جب تمہاری فتح کی خبر آئے ! اللہ کے حضور اپنا پرچم لہراؤ اور اللہ تمہاری ہر دعا کا جواب دے۔ ’’

حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے 16بار کیا ہے ان میں سورۃ البقرۃ، النساء، المائدۃ، الانعام، بنی اسرائیل، الانبیاء، النمل، سبا اور ص شامل ہیں۔ سورۃ الانعام آیت85میں ہے:

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔

اور اس کو ہم نے اسحٰق اور یعقوب عطا کئے۔ سب کو ہم نے ہدایت دی۔ اور نوح کو ہم نے اس سے پہلے ہدایت دی تھی اور اُس کی ذرّیت میں سے داوؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو جزا عطا کیا کرتے ہیں۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضۡلًا ؕ یٰجِبَالُ اَوِّبِیۡ مَعَہٗ وَ الطَّیۡرَ ۚ وَ اَلَنَّا لَہُ الۡحَدِیۡدَ۔ اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ۔

(سبا:11تا12)

اور یقیناً ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے ایک بڑا فضل عطا کیا تھا (جب یہ اِذن دیا کہ) اے پہاڑو! اس کے ساتھ جھک جاؤ اور اے پرندو! تم بھی۔ اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ (اور داؤد سے کہا) کہ تُو جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے والی زرہیں بنا اور (ان کے) حلقے تنگ رکھ اور تم سب نیک کام کرو۔ یقیناً جو کچھ تم کرتے ہو میں اس پر گہری نظر رکھنے والا ہوں۔

یہاں تک ہم داؤدؑ کی زندگی اور اس کی اہمیت کا موضوع ختم کرتے ہیں اور بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک اور ورق پلٹتے ہیں ۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہوں گے کہ حضرت داؤدؑ نے اپنی وفات سے قبل حضرت سلیمانؑ کواپنا جانشین مقررکردیا تھا مگر ان کے بھائی ادونیاہ (ADONIHA)نے بادشاہت کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ حضرت سلیمانؑ نے اوائل شباب میں ہی اللہ تعالیٰ سے فراست اور مہارت کی دعا کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اور اس خداداد فراست کی وجہ سے حضرت سلیمانؑ نے کچھ تاریخی فیصلے بھی کیے۔ سب سے پہلے یہ کہ د و عورتیں ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کرتی تھیں تو حضرت سلیمانؑ نے ایک تلوار سے بچے کے جسم کے دو ٹکڑے کرنے کا حکم دیا۔ یہ سن کر ایک عورت چلّانے لگی اور کہا کہ ایسا نہ کریں اور یہ بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے۔ حضرت سلیمانؑ نے حکم دیا کہ بچہ قتل نہ کیا جائے اور اس عورت کودے دیا جائے جو اس بچے کے ٹکڑے نہیں چاہتی۔

(تلخیص1سلاطین باب3)

لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کے عدل اور فراست سے مرعوب تھے خدائی وعدوں کے مطابق تائیدالٰہی سے حضرت سلیمانؑ نے پورے اسرائیل پر حکومت کی۔ بائبل کے مطابق حضرت سلیمانؑ کی فراست مشرق اور مصر کے تمام قابل لوگوں سے ملا کر زیادہ تھی۔ حضرت سلیمانؑ کے 3000؍اقوال اور 1005؍نظمیں موجود ہیں۔ بادشاہ اپنے مصاحب حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس دانائی اور فراست سیکھنے کے لیے بھیجتے تھے۔

حضرت سلیمانؑ کے سلسلہ میں بنی اسرائیل نے ان کی عظمت اور جبروت کے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ نہایت عجیب و غریب ہیں ۔ اگر انہیں بیان کیا جائے تو ایک طلسم ہو شربا بن جائے۔ یہ قصّے زیادہ تر یہودی کتابوں میں ملتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ

(الانبیاء:82)

اور سلیمان کے لئے (ہم نے) تیز ہوا (مسخر کی) جو اس کے حکم سے اُس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی جبکہ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔

اس طرح کی آیات سورۃ سبا اور سورۃ جنّ میں بھی آئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے دَور میں ہی بحری بیڑوں کا رواج ہوگیا تھا۔ اور ان کے بحری بیڑے اسی موافق ہوا کی وجہ سے دور دراز مقامات تک سفر کرتے تھے۔

ماہرین آثار قدیمہ کو ODOMکے علاقے میں ایک بھٹی ملی ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ یہاں لوہا پگھلا کر بحری جہاز تیار کیا کرتے تھے جس کے لیے قرآن کریم کہتا ہے کہ وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ(سبا:13) اور ہم نے اس کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔

سورۃ سبا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

…وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ

…اور جنوں (یعنی جفاکش پہاڑی اقوام) میں سے بعض کو (مسخر کردیا) جو اس کے سامنے اُس کے ربّ کے حکم سے محنت کے کام کرتے تھے۔ اور جو بھی ان میں سے ہمارے حکم سے انحراف کرے گا اسے ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔

یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ

وہ اس کے لئے جو وہ چاہتا تھا بناتے تھے (یعنی) بڑے بڑے قلعے اور مجسمے اور تالابوں کی طرح بڑے بڑے لگن اور ایک ہی جگہ پڑی رہنے والی (بھاری) دیگیں۔

یہاں یہ بات قارئین کی دلچسپی کا موجب ہو گی کہ مجسموں سے مراد بےجان چیزوں کی شبیہ ہے۔ یعنی پودے، درخت اور نقش و نگار وغیرہ۔ کیونکہ اس وقت کے عقائد کے مطابق زندہ چیزوں کی تصاویر بنانا ممنوع امر تھا۔

سیدنا حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سورۃ الانبیاء کی آیت 79تا82کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ان آیات کی بنا پر مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں پہاڑ بھی تھے، جنّ بھی تھے۔ پرندے بھی تھے اور وہ سب مل کر حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ ذکر الٰہی کرتے تھے۔ جب وہ کہتے سبحان اللہ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جنّ بھی اور حیوانات بھی سب سبحان اللہ کہنے لگ جاتے۔ جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد خود سستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں ۔ ‘‘پڑھو درود’’۔ وہ بھی گویا اسی طرح کرتے تھے۔ جب خود ذکرالٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ کر تسبیح اور وہ تسبیح کرنے لگ جاتا۔ پھر جب انہیں آرام آجاتا تو کہتے چپ کرجاؤ۔ اب میں تسبیح کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں ۔ پہاڑوں وغیرہ کا سبحان اللہ کہنا کونسی بڑی بات تھی وہ باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے۔ جب حضرت داؤد سجدہ میں چلے جاتے۔ اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے۔ بعض کہتے ہیں اس تاویل سے بھی مزہ نہیں آیا۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت داؤدؑ جہاں بھی جاتے۔ پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے۔ حضرت داؤدؑ تھے شام میں اور یہ ہمالیہ شوالک اور ایلپس سب آپ کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے۔ ان دنوں چڑیاں چوں چوں نہیں کرتی تھیں۔ بکریاں میَں میَں نہیں کرتی تھیں۔ بلکہ سب سبحان اللہ کہا کرتی تھیں ۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا۔ کیونکہ تفسیروں میں اسی طرح لکھا ہے۔ غرض وہ عجیب زمانہ تھا۔ اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک مہربانی کی۔ اور وہ یہ کہ جنّ اُن کے اشارے پر کام کرتے تھے۔ جب وہ چلتے تو پرندے اُن کے اشارے پر کام کرتے تھے۔ جب وہ چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پر پھیلا کر سایہ کردیتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نعوذبا للہ حضرت داؤدؑ بڑے شکّی طبیعت کے آدمی تھے۔ جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر جاتے۔ ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا۔ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے۔ وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آ گیا ہے۔ پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تُو اندر کس طرح آ گیا۔ وہ کہنے لگا میں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پُوچھا کیا تو ملک الموت ہے۔ اُس نے کہا۔ ہاں۔ اور اُس نے آپ کی جان نکال لی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے۔ اور انہوں نے آپ پر پروں سے سایہ کیا۔ کہتے ہیں حضرت سلیمانؑ تمام پرندوں کی بولی جانتے تھے۔ کسی نے کہا کہ جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں تو مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا کہ چلیں استسقاء کی نماز پڑھائیں حضرت سلیمانؑ نے کہا۔ گھبراؤ نہیں بارش ہوجائے گی۔ کیونکہ ایک کیڑی پیٹھ کے بل کھڑے ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی۔

(تفسیر ابن کثیر بر حاشیہ فتح البیان جلد7صفحہ 204تا210)

(تفسیر کبیر جلد 5صفحہ540تا541)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تفاسیر میں آنے والی ان روایات کو بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں :

‘‘یہ وہ واقعات ہیں جو استعارے اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسرین کو گھڑنے پڑے ہیں حالانکہ بات بالکل صاف تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے داؤدؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا جو تسبیح کرتے تھے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کر دئیے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَلَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَ رْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(الجاثیۃ:13-14)

فرماتاہے۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کافرو اور اے منافقو !ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے نشانات ہیں۔ اب اس آیت سے حضرت داؤد علیہ السلام والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کے لئے مسخر ہیں اب عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور داؤدؑ کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے۔ اگر داؤدؑ کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہیں۔ اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت داؤدؑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔

اب رہا سوال تسبیح کا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پہاڑ اور پرندے حضرت داؤدؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں دے دیا ہے۔ فرماتا ہے

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِ یْزِالْحَکِیْمِ (الجمعۃ:2)

یعنی سورج بھی تسبیح کررہا ہے۔ چاند بھی تسبیح کررہا ہے۔ ستارے بھی تسبیح کررہے ہیں اسی طرح مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَ رْضِ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کررہے ہیں۔ درخت بھی تسبیح کررہے ہیں اُن کے پتے بھی تسبیح کرر ہے ہیں ۔ آم بھی تسبیح کررہا ہے۔ کیلا بھی تسبیح کررہا ہے بلکہ کیلے کا چھلکا جو ہم اتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کررہا ہے۔ روٹی بھی تسبیح کررہی ہے تھالی بھی تسبیح کررہی ہے۔ جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کررہے ہوتے ہیں۔ چائے بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے۔ مصری یا کھانڈ بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے۔ پیالی بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے۔ پرچ بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے۔ اسی طرح مکان بھی اور چھت بھی اور دیواریں بھی اور دروازے بھی اسی طرح وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو وہ بھی، بستر کی چادر اور توشک اور رضائی بھی سب سبحان اللہ، سبحان اللہ کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور جب ہر چیز سبحان اللہ کہہ رہی ہوتی ہے تو حضرت داؤدؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آجائیں تو اس کے لئے معنے بن جاتے ہیں ۔ دیکھ لو۔ وہ دونوں باتیں جو حضرت داؤدؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں ۔ ہمارے لئے بھی خد اکہتا ہے کہ میں نے ہر چیز مسخر کردی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں بھی ہر چیز تسبیح کررہی ہے۔ بلکہ حضرت داؤدؑ کے لئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کررہی ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کررہا ہے، لیکن حضرت داؤدؑ نے چونکہ صرف جبال یعنی اہلِ جبال سے عیب دُور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت داؤدؑ کے لئے صرف جبال نے تسبیح کی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف رسول تھے۔ اس لئے آپؐ نے فرمایا جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کررہا۔ اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائے گی۔ پس یُسَبِّحُ لِلّٰہِ والے مضمون کو داؤدؑ کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِکے لئے تھے۔ اور حضرت داؤدؑ صرف چند اہلِ جِبَال کے لئے۔

باقی رہا اَوِّ بیِْ مَعَہٗ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت داؤدؑ کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرّہ ذرّہ تسبیح میں شامل ہے۔ کوئی کہے کہ پھر حضرت داؤدؑ کی خصوصیت کیا ہوئی تو یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ ان کے لئے مسخر تھے۔ کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے مسخر کردیا ہے جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اس میں اسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے۔ پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت داؤدؑ کے لئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح تمام بنی نوع انسان کیلئے لیکن حضرت داؤدؑ کو ایک زائد فائدہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا۔ پس گو تسخیر بعینہٖ وہی ہے جو ہر انسان کے لئے ہے۔ مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے۔

اب مَیں لُغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اورمعنے بھی ہیں۔ چنانچہ جَبَلکے معنے لُغت میں سَیِّدُالْقَوْمِ کے لکھے ہیں۔ پس حضرت داؤدؑ کے لئے جبال مسخر کردینے کے معنے یہ تھےکہ حضرت داؤدؑ یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے اردگرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے تھے اور ان کے مطیع ہوگئے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یُسَبِّحْنَ کا لفظ آیا ہے تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جِبَال چونکہ مؤنث ہوتی ہےاس لئے یُسَبِّحْنَ کا لفظ آیا ہے۔ ورنہ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں۔ اور پھر اقوام کا لفظ بھی عربی میں مؤنث ہے۔ کیونکہ وہ جمع ہے اور جمع مؤنث ہوتی ہے۔

باقی رہے طُیُور۔ سو طُیُور کے لئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں اور اس امر کا کہیں ذکر نہیں ۔ کہ وہ حضرت داؤدؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ مگر لوگوں کو عربی کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا اور وہ خیال کرنے لگے کہ جبال کے ساتھ طُیوربھی تسبیح کیا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ

وَسَخَّرْ نَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَا لَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ۔

یہاں طَیرپر زبر ہے اور زبر دینے والا سَخَّرکا لفظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے داؤدؑ کے لئے پہاڑ مسخر کردئیے تھے جو تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح ہم نے طیر بھی مسخر کردئیے۔ یہاں کوئی تسبیح کا ذکر نہیں صرف اتنے معنے کئے جاسکتے ہیں کہ انہیں پرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا۔ جیسے کبوتروں سے خبر رسانی کا کام لیا جاتا ہے۔ پس قرآن میں سَخَّرْنَا الطَّیْرَ ہے یُسَبِّحْنَ کا فاعل اَلطَّیْر نہیں ہے۔

دوسری آیت یہ ہے:

اِنَّا سَخَّرْنَاالْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ وَالطَّیْرُمَحْشُوْرَۃٌ(ص:19تا20)

یہاں بھی طَیْرکا ناصب سَخَّرَہے۔

تیسری آیت یہ ہے :۔

وَلَقَدْاٰ تَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یَا جِبَالُ اَوِّ بِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ(سبا:11)

ہم نے داؤدؑ پر بڑا فضل کیا۔ اور پہاڑوں سے کہا اے پہاڑو۔ تم اس کے ساتھ گونج پیدا کرو۔ اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دئیے۔ گویا یہاں بھی اٰتَیْنَا الطَّیْرَ فرمایا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے۔ غرض طَیر کا ناصب یا سَخَّرَہے یا اٰتیٰ ہے۔ اور اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے حضرت داؤدؑ کو طَیر بھی دئیے تھے۔ لیکن میں کہتا ہوں اس کے معنے اگر تسبیح کے بھی کرلو تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کررہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی عجیب بات ہوسکتی ہے مجھے ہمیشہ آجکل کے مسلمان مولویوں پر تعجب آیا کرتا ہے۔ کہ جب حضرت داؤدؑ یا حضرت سلیمانؑ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنے لے لیتے ہیں لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آجائے تو اس کے اورمعنےکرلیتےہیں۔ حضرت داؤدؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے تو کہتے ہیں پہاڑ واقعہ میں سبحان اللہ، سبحان اللہ کیا کرتے تھے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خد اتعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین وآسمان مسخر کر دئیے۔ تو کہیں گے یہاں تشبیہ مراد ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے تو کہیں گے۔ یہاں مردوں سے روحانی مردے مراد ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آجائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوالیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کے نتھنوں میں پھونک مار کر انہیں زندہ کر دیا تھا اس وقت تک انہیں چین ہی نہیں آتا۔

(تفسیر کبیر جلد5صفحہ541تا544)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button