عرفانِ الٰہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریمﷺدنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے (قسط اول)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ 26؍ اکتوبر 1930ء بر موقع جلسہ سیرت النبیؐ۔ قادیان)
جب ہندوؤں کی طرف سے آنحضرتﷺ کے متعلق انتہائی دل آزار کتب ‘رنگیلا رسول’ اور رسالہ ‘ورتمان’ وغیرہ شائع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء کے ماتحت 1927ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کی تحریک جاری فرمائی تا کہ ہندوستان بھر میں جگہ جگہ ایک ہی دن جلسے منعقد کر کے نبی کریمﷺ کی سیرت بیان کی جائے۔
حضورؓ کی یہ بابرکت تحریک بفضلِ خدا بہت کامیاب ہوئی اور مسلمان ملک بھر میں مقررہ تاریخ پر ہر سال جلسوں میں آنحضرتﷺکی پاک سیرت بیان کرنے لگے۔ اس تحریک کے مطابق 1930ءمیں ‘‘سیرۃ النبیﷺ’’ کے جلسوں کے لیے 26؍اکتوبر کا دن مقرر ہوا۔ چنانچہ اس دن قادیان میں جو جلسہ منعقد ہوا اس میں حضورؓ نے یہ تقریر فرمائی اور عرفان الٰہی اور محبت باللہ کا وہ بلند مقام بیان فرمایا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے۔
حضورؓ نے عرفان الٰہی کے پانچ مقام بیان فرمائے نیز فرمایا کہ ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق رکھا ہے کہ ہم رسول کریمؐ کی مکمل پیروی کریں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا کامل عرفان حاصل تھا۔ اب وہی شخص عرفانِ الٰہی حاصل کر سکتا ہے جو مکمل طور پر آنحضرتﷺ کی اطاعت اور پیروی کرے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گو میری صحت تو مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں آج کوئی تقریر کروں۔ لیکن چونکہ اس دن سارے ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی بعض مقامات پر مسلمان رسول کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرنے کے لئے جمع ہوں گے اور چونکہ یہ دن آج نہیں تو کل ساری دنیا کے لئے نہیں تو کم از کم ہندوستان کی قوموں کے لئے صلح کا پیش خیمہ بننے والا ہے اور ہندوستان میں سے کم از کم بنگال میں تو ابھی سے یہ نظر آ رہا ہے کہ ہر سال غیر مذاہب کے لوگ اس دن کے منانے میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا اظہار کر رہے اور زیادہ حصہ لے رہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جوں جوں غیر مذاہب کے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہ کوئی مذہبی تبلیغ کا دن نہیں بلکہ مختلف اقوام میں صلح و اتحاد پیدا کرنے کا دن ہے۔ دلی منافرت اور بغض جو کہ بعض اسباب کی وجہ سے عرصہ دراز سے چلا آتا ہے،اس کے ازالہ کا ذریعہ ہے تو لوگوں میں خود بخود اس دن کا احترام اورشوق پیدا ہوتا جائے گا۔ ہمیشہ ایک نیک قدم اٹھانے سے دوسرا نیک قدم اٹھانے کی توفیق ملتی ہے۔ اور ایک نیک خیال پیدا ہونے سے دوسرا نیک خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس تحریک کے سلسلہ میں مَیں دیکھتا ہوں کہ اب دوستوں کی طرف سے ایک اَور تحریک پیش کی جا رہی ہے جو بہت معقول ہے اور میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد اس تحریک کے ماتحت بھی جلسے منعقد کرائے جائیں۔ وہ تحریک یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جو پرافٹ ڈے (PROPHET DAY) نہ ہو بلکہ پرافٹس ڈے (PROPHETS DAY) ہو۔ یعنی رسول کریم ﷺ کی ذات کے لئے ہی جلسے نہ منعقد کئے جائیں بلکہ تمام انبیاء کی شان کے اظہار کے لئے اس دن جلسے کئے جائیں۔ ایسے جلسوں میں ایک مسلمان کھڑا ہو جو رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار کی بجائے کسی دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرے۔ اسی طرح ایک عیسائی کھڑا ہو کر بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے حضرت بدھ علیہ السلام یا حضرت کرشن علیہ السلام کی خوبیاں بیان کرے۔ ایک ہندو کھڑا ہو کر بجائے حضرت کرشنؑ اور رام چندر جیؑ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوبیاں پیش کرے۔ ایک زرتشتی کھڑا ہو کر بجائے زرتشت کی خوبیاں بیان کرنے کے رسول کریم ﷺ کی خوبیاں بیان کرے۔ یہ ایک نہایت ہی معقول تجویز ہے۔ مگر فی الحال دقّت یہ ہے کہ اگر ایک ادھورے کام میں دوسرا کام شروع کر دیا جائے تو پہلے کام میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ دو تین سال کے بعد ایسے جلسے منعقد کرانے کی تجویز کی جائے جن میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے دوسرے مذاہب کے بانیوں کی خوبیاں بیان کرے۔ اس قسم کے جلسے ہندوستان جیسے ملک سے بہت سے تفرقے اور رنجشیں دور کر سکتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کسی ایک بزرگ کا نہیں بلکہ بزرگوں کا دن منانے کے لئے ہم کھڑے ہوں گے۔ اس میں شرط یہ رکھی جائے کہ کوئی شخص اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں نہ بیان کرے بلکہ دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں پیش کرے۔
اس کے بعد میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ رسول کریمﷺ کی تعریف کرنا بے شک ایک مسلمان اپنے مذہب کے لحاظ سے ثواب کا کام سمجھتا ہے اور غیر مذاہب والے بھی جنہیں رسول کریم ﷺ کے حالات پڑھنے کا موقع ملا ہو اور جو صداقت کے اظہار کی جرأت رکھتے ہوں۔ اظہارِ صداقت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی تعریف و توصیف کریں۔ مگر ایک چیز ہے جسے ہم کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتے اور کسی کے لئے بھی قربان نہیں کر سکتےخواہ وہ رسول کریم ﷺ کی ذات ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لئے کوئی بات ایسی نہیں کہنی چاہئے جس میں شرک کا ایک شائبہ بھی پایا جاتا ہو۔ ہمیں محمد ﷺ کی ذات سے محبت اس لئے ہے کہ آپ کی ذات خدا نما ہے۔ اگر خدانمائی کو آپؐ کی ذات سے علیحدہ کر دیا جائے۔ تو پھر آپ بھی ایسے ہی انسان ہیں جیسے دوسرے انسان۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بعض اشعار میں بے شک ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں رسول کریم ﷺ کی روح کو مخاطب کیا ہے مگر ملہم اور غیر ملہم کے کلام میں فرق ہوتا ہے۔ ملہم جسے مخاطب کرتا ہے اسے اپنی آنکھ سے اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ کہ میں نے جاگتے ہوئے حضرت علیؓ حضرت حسینؓ اور حضرت فاطمہؓ سے باتیں کیں۔ پس اگر آپؑ یہ کہتے ہیں کہ اے رسول اللہﷺ!یہ بات یوں ہو تو یہ سچ ہے لیکن وہ جسے یہ حالت حاصل نہیں وہ اگر یہ کہتا ہے کہ اے رسول اللہؐ! آپ کی مجھ پر نظر عنایت ہو۔ تو غلط کہتا ہے۔ نظر عنایت خدا ہی کی ہوتی ہے۔ ہم مشرک نہیں اس لئے ہم خداتعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش کرنے کے لئے تیار نہیں۔ خواہ محمدﷺ کی ذات ہی کیوں نہ ہو۔ ہماری جماعت کے شاعروں کو اپنے کلام میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے اگر ‘‘حفظ مراتب نہ کنی زندیقی’’۔
حفظ مراتب کرنا ہمارا فرض ہے۔ پس ضروری ہے کہ جس امر کی حفاظت کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں ہر حال میں اس کی حفاظت کریں۔ لیکن اگر وہی چیز جس کی حفاظت کے لئے رسول کریم ﷺ کھڑے ہوئے اسے ضائع کر دیتے ہیں تو پھر رسول کریم ﷺ کی شان کے اظہار سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے بعد میں اصل مضمون کو لیتا ہوں جو اس سال کے جلسوں کے لئے خصوصیت سے مقرر کیا گیا ہے اور جو یہ ہے کہ ‘‘عرفان الٰہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریم ﷺ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے’’۔ عرفان عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہچاننے اور شناخت کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کی نسبت کم ازکم ایک مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ وراء الوراء ہستی ہے اور مجسمّ نہیں۔ اس لئے ممکن نہیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ سکیں۔ یا انسانی ہاتھ اسے چھو سکیں۔ یا دوسرے ظاہری حواس اسے محسوس کر سکیں۔ پس وہ ذات جس کے متعلق یہ یقین ہو کہ وہ نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے۔ نہ ہاتھوں سے چھوئی جا سکتی ہے اس کے پہچاننے کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں یقینی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پہچاننے کا وہ مفہوم نہیں ہو سکتا جو دوسری چیزوں کے پہچاننے کا ہوتا ہے۔
مادی چیزوں کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ ہم انہیں آنکھوں سے دیکھتے یا زبانوں سے چکھتے یا کانوں سے سنتے یا ہاتھوں سے چھوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی نہیں جو دیکھنے،سننے،سونگھنے یا چکھنے سے معلوم ہو سکے۔ چنانچہ وہ ذات خود اپنے متعلق فرماتی ہے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(الانعام:104)
کہ وہ ایسی ذات ہے جسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں مگر وہ خود آنکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پس جب ہم اسے دیکھ نہیں سکتے تو پھر پہچاننے کے لئے کوئی اَور ذریعہ اختیار کرنا ہوگا اور وہ ذریعہ یہی ہے کہ جو ہستی خالق ہے اور جس کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ وہ سارے جہان کی خالق ہے۔ اس کی پہلی شناخت اپنی ذات سے ہوگی۔ کیونکہ جو چھوا، چکھا، دیکھا اور سنا نہ جا سکے۔ اس کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ اس کے کام دیکھیں۔ اور خدا تعالیٰ کے کاموں کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز ہماری اپنی ذات ہی ہے۔ پس سب سے پہلی شناخت خدا تعالیٰ کی اپنی ذات میں ہی انسان کر سکتا ہے۔ اور جو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے خدا تعالیٰ بھی اسے پہچان لیتا ہے۔ اسی لئے صوفیاء کہتے ہیں
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ دوسری شناخت کی صورت یہ ہے کہ دوسری کامل چیزوں میں خدا کو دیکھا جائے۔ میں نے خدا تعالیٰ کی شناخت کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے کامل چیزوں کو مقدم رکھا ہے۔ حالانکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی زیادہ آسانی کے ساتھ دیکھی جا سکے گی۔ مگر یہ درست نہیں کیونکہ جتنی کوئی چیز زیادہ کامل ہوگی اتنی ہی وراء الوراء ہوتی چلی جائے گی۔ اس لئے کامل چیزوں میں خدا کا دیکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی پہچان کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات میں خدا تعالیٰ نظر آ جائے۔ یہ سب سے بالاوبلند مقام ہے۔ اس سے دوسرا مقام یہ ہے کہ کامل انسانوں میں خدا نظر آ جائے اور تیسرا مقام یہ ہے کہ باقی انسانوں میں خدا نظر آئے۔ کامل انسان میں خدا تعالیٰ کا دیکھنا مشکل ہے۔ مگر عام انسانوں میں خدا کو دیکھنا بھی آسان نہیں۔ ایک انسان اگر جنگل میں کوئی خوشکن سبزہ زار دیکھے تو بے اختیار سبحان اللہ کہے گا اور خدا تعالیٰ کی طرف اس کی توجہ پھر جائے گی۔ لیکن اس سے بہتر اس کا ہمسایہ ہوگا مگر اس سے لڑتا جھگڑتا رہے گا۔ وہ سبزہ میں تو خدا کو دیکھ لے گا لیکن ہمسایہ میں اسے نظر نہ آئے گا۔ وہ گانے والی چڑیا کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کا جلوہ محسوس کرے گا۔ مگر بولنے والے انسان میں اسے کچھ نہ نظر آئے گا کیونکہ رقابت کی وجہ سے اس میں دیکھنا مشکل ہوتا ہے تو یہ تیسرا درجہ ہے۔ اس سے اتر کر چوتھا درجہ باقی مخلوق میں خدا تعالیٰ کو دیکھنا ہے۔ اس میں بھی خدا تعالیٰ کی رئویت کے اعلیٰ مقامات ہیں۔ پھر پانچواں مقام یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھائے۔ ہر کمال جو انسان کو حاصل ہوتا ہے اس کے دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خود اسے سمجھے۔ دوسرے یہ کہ دوسروں کو سمجھا سکے۔ ایک طالب علم خود جس قدر جغرافیہ اور تاریخ سمجھ سکتا ہے اسے اگر کہا جائے کہ اسی قدر دوسرے لڑکوں کو سمجھا دو تو وہ نہیں سمجھا سکے گا۔ پس پانچواں مقام یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خدا دکھا سکے۔
وقت کی کمی کی وجہ سے میں مضمون کو مختصر کر رہا ہوں ورنہ خدا تعالیٰ کی شناخت کے اَور بھی مقام ہیں۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو پہچان لینے کی علامتیں کیا ہوتی ہیں۔ بعض لوگ دوسروں کو پہچان لیتے ہیں مگر وہ خود نہیں پہچانے جاتے۔ انسانوں میں اس قسم کا معاملہ روز ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اور بندہ میں اس طرح نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کا علم محدود ہوتا ہے وہ پہچاننے والوں کو پہچاننے سے محروم ہو سکتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ سب کو جانتا ہے۔ اس لئے جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لے تو خدا تعالیٰ بھی اپنی پہچان فوراً اس پر ظاہر کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ سب کو پہچانتا ہے مگر بندوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لئے اپنے مقام کو ان سے مخفی رکھتا ہے۔ لیکن جب بندہ اس کی تلاش کرتا اور اسے پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی بندے پر ظاہر کر دیتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ پس خدا تعالیٰ کو بندہ کے پہچاننے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ بندہ کو پہچان لے۔ جب بندہ خدا تعالیٰ کو پہچان لیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اسے جواب میں پہچانتا ہے۔
عام عرفان کے متعلق رسول کریم ﷺ نے ایک آیت پیش فرمائی ہے۔ اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ میں پہلے وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (آل عمران:32)
کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ اس آیت میں پانچ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو انسان پا سکتا ہے۔ پہلے جتنے بزرگ گزرے ہیں جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدا کو پا لیا تو انہوں نے غلط نہ کہا بلکہ بالکل درست کہا کیونکہ انسان خدا کو پا سکتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ رسول کریمﷺ کو فرماتا ہے۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
کہ اگر تم خدا تعالیٰ کو ملنے کی خواہش رکھتے ہو تو آئو اس کا ذریعہ میں تمہیں بتائوں کہ کس طرح مل سکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ انسان کو مل سکتا ہے۔ دوسری جگہ اس بات کی اس طرح تصدیق کی گئی کہ فرمایا
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)
جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ ہمیں پا لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور زمانہ میں ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے کہا کہ خدا مل گیا۔ مثلاً ایران میں حضرت زرتشت نے کہا۔ ہندوستان کے کئی بزرگوں حضرت کرشن، حضرت رام چندر،حضرت بدھ کے کلام کو دیکھا جائے گا تو صاف طور پر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کو ہم نے پا لیا۔ چین میں کنفیوشس ایسے ہی بزرگ گذرے ہیں۔ شام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مل جاتے ہیں۔ عرب میں حضرت صالح اور حضرت ہود پائے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)