ہماری جماعت ہماری جنت
(نوشابہ واسع بلوچ ۔جرمنی)
اس فانی دنیا میں انسان وہی کام کرنا چاہتا ہے جس کا نتیجہ اس کی پسند کا ہو یا کم از کم اس کے لیے بہتر ہو۔ایسا ہی ایک اچھے مسلمان کا عمل بھی ہوتا ہے یاوہ ایسا عمل کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے جس کا انجام بخیر ہو۔ اس بخیر انجام کا تصور ہمارے ذہنوں میں لفظ جنت سے جڑا ہے۔ جنت کا تصور آنکھیں کھلی ہوں یا بند،پھلوں سے لدے باغات،ہر قسم کے میوے،دودھ اور شہد کی بہتی نہریں،پاکیزہ جوڑوں سے خود بخود جُڑتا ہے۔ اور ایسا حسین تصور اور یقین کیوں نہ ہو جبکہ قرآن پاک نے اس نقش کو جمانے میں ہماری خوب رہ نمائی کی ہےجیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ یَتَغَیَّرۡ طَعۡمُہٗ ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ ۬ۚ وَ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّی ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغۡفِرَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ(محمد :16)
ترجمہ:اُس جنت کی مثال جس کا متقیوں کو وعدہ دیا جاتا ہے (یہ ہے کہ) اُس میں کبھی متعفن نہ ہونے والے پانی کی نہریں ہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزا متغیر نہیں ہوتا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے سراسر لذت ہے۔ اور نہریں ہیں ایسے شہد کی جو خالص ہے۔ اور ان کے لیے اُس میںہر قسم کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سےعظیم مغفرت بھی۔
اس ابدی جنت کا تصور باندھ کر ہر انسان اس فانی دنیا میں بھی اپنی ایک جنت قائم کرنے کی بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس لیے یہ فقرہ زبان زد خاص و عام ہے ‘‘میرا گھر میری جنت’’جس کے لیے انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ سہو لیات، زیب و آرائش سے مزین ایسا خوبصورت گھر بنائے جس میں وہ آرام و سکون سے رہ سکے۔ایسا ہی ایک مضبوط گھر جس کی چار دیواری میں ہم سب مل کر رہتے ہیں جہاں حقیقی سکون اور حقیقی رہ نمائی ملتی ہے وہ ہے:‘‘ ہماری جماعت ہماری جنت’’جس میں عربی ہو یا عجمی، کالا ہو یا گورا،سب رنگ و نسل، ذات پات کی بیڑیوں سے آزاد ایک ہی نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں ‘‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ’’ کیونکہ سب محبت اور اطاعت کی ڈوری سے بندھے ایک رشتہ سے منسلک ہیں۔ ایک ایسا رشتہ جو ہمارے پیارے آقا و مولا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا کہ ‘‘خبردار ہو کہ عیسیٰ بن مریم (مسیح موعود علیہ السلام ) اور میرے درمیان کوئی نبی یا رسول نہیں ہوگا۔خوب سن لو کہ وہ میرے بعد امت میں میرا خلیفہ ہو گا …یاد رکھو جسے بھی اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میرا سلام ضرورپہنچائے۔’’
(طبرانی الاوسط والصغیر،حدیقۃ الصالحین حدیث :952)
اسلام کی وہ شمع جو زمانے کی گردشوں سے مدہم پڑ چکی تھی اور ہزاروں نیک روحیں مسیح و مہدی کے انتظار میں پرواز کر گئیں۔آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی و محبت کے سائے تلے اس مردِ مجاہد کا ظہور ہوا جس کا صدیوں سے انتظار تھا۔جس نے بھٹکتی،پریشان نیک روحوں کو زندگی کا جام پلایا اور امامت کے فرائض انجام دیے۔
یارو! مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مرگئے
وہ پیڑ ہو رہے تھے جو مدت سے چوب ِخشک
پڑتے ہی ایک چھینٹا دُلہن سے نکھر گئے
پُر کر گئے فلاح سے جھولی مراد کی
دامانِ آرزو کو سعادت سے بھر گئے
(کلام محمود)
مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ایسے گھر کی بنیاد رکھی جس کے باہر خاتم الا نبیاء،امام الاصفیاء،ختم المرسلین،فخرالنبیینﷺ کی تختی لگی ہے۔ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور اس کے مسیحؑ کے گھر کے باسی ہیں۔ ایک ایساگھر،ایک ایسی جماعت جس کے بارے میں خود محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘‘میری امت ایک مبارک امت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری( یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔)’’
(حدیقۃ الصالحین حدیث 961)
ایسی شان و شوکت والی امت کی سربراہی تو کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے بھی چاہی۔جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : …اے موسیٰ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم مخلوق میں مجھے اُس (محمدؐ) سے زیادہ پیارا کوئی نہیں لگتا۔ میں نے اُس کا نام عرش پر اپنے نام کے ساتھ لکھ دیا ہے۔میں نے آسمان و زمین، شمس و قمر پیدا کرنے سے بیس لاکھ سال پہلے اُس کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھ دیا تھا۔مجھےاپنی عزت و جلا ل کی قسم ! محمدؐ اور اُس کی اُمّت سے پہلے کسی کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گا۔ حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا اس عظمت و جلال والے کی اُمّت میں کیسے لوگ ہوں گے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ حمد کرنے والے ہوں گے۔وہ بلندیوں پر چڑھتے اترتے اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے۔ دین کی خدمت کے لیے ہر وقت کمربستہ رہیں گے۔ ان کے پہلو پاکیزہ ہوں گے۔ دن کو روزہ رکھیں گے اور راتیں رہبانیت کی حالت میں گزاریں گے میں ان سے تھوڑا عمل بھی قبول کر لوں گا۔صرف لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی شہادت دینے پر ان کو جنت میں لے جاؤں گا۔حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا۔اے میرے رب!مجھے اس اُمّت کا نبی بنا دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس اُمّت کا نبی اسی امت میں سے ہو گا۔ پھر موسیٰؑ نے کہا مجھے اس اُمّت کا ایک فرد ہی بنا دیجیے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔تیرا زمانہ پہلے ہے وہ نبی بعد میں آئے گا …
(حدیقۃ الصالحین،حدیث 987صفحہ 933)
ایک ایسا وسیع گھر جو اللہ کے فضل سے دنیا کے کناروں تک پھیل چکا ہے اور اس کی روحانی شان و شوکت کے نظارے MTAکے ذریعہ ہم گھر بیٹھے دیکھتے ہیں اور ہم سب خدا کے قائم کردہ نظامِ خلافت کے پیارے وجود خلفاء کے سائے تلے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آئےکسی بھی جسمانی و روحانی مشکلات و مصائب کےوقت میں اس گھر کے نشین خود کو یتیم محسوس نہیں کرتے کہ ان کا کوئی پُرسان حال نہیں بلکہ ہر رنگ و نسل کا فرد چاہے مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا بچہ یہی سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ ہماری جماعت کا رکھوالا روحانی باپ اُسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ پیارا روحانی وجود دنیا کی مشکلات کو بھانپتے ہوئے ہر مشکل میں رہ نمائی فرماتا، حل بتاتا اور دعا کرتا نظر آتا ہے یعنی ہر لحاظ سے روحانی غذا مہیا کرتا ہے۔ مسیح کے گھر (جماعت) کا خوبصورت اور روحانی لذات سے بھر پور دستر خوان ہرسال بہت سے ممالک میں جلسہ سالانہ کی صورت میں سجتا ہے جہاں نہ صرف اس گھر کے افراد شرکت کرتے ہیں بلکہ ارد گرد کے ہمسایوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ دیکھو کہ ‘‘ہماری جماعت ہماری جنت’’کے نظارے جہاں خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں سب مِل کر بیٹھے ہیں یہاں نہ کوئی اعلیٰ ہے نہ کوئی کم تر، نہ کوئی حاکم ہے نہ کوئی غلام، سب آزاد ہیں کیونکہ سب غیر اللہ کے خوف سے آزاد ہیں اور صرف ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں۔
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا(آل عمران :104)
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
… خلافت کا انعام یعنی آخری پھل تمہیں یہ عطا کیا جائے گا کہ میری عبادت کرو گے، میرا کوئی شریک نہیں ٹھہراؤ گے، کامل توحید کے ساتھ تم میری عبادت کرتے چلے جاؤ گے اور میرے حمد وثناء کے گیت گایا کروگے۔ یہ وہ آخری جنت کا وعدہ ہے جو جماعت احمدیہ سے کیا گیا …اور مجھے یقین ہے اور جو نظارے ہم نے دیکھے ہیں اور جن کے نتیجے میں غم کے دھاروں کے علاوہ حمد کے دھارے بھی ساتھ بہ رہے ہیں اور شکر کے دھارے بھی ساتھ ہی بہ رہے ہیں ایسے حیرت انگیز ہیں کہ آج دنیا میں کوئی قوم اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔جو جماعت احمدیہ کا مقام اس دنیا میں ہے وہ کسی اور جماعت کا نہیں … پس کامل بھروسہ اور کامل توکّل تھا اللہ کی ذات پر کہ وہ خلافت احمدیہ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔ زندہ اور تازہ اور جوان اور ہمیشہ مہکنے والے عطر کی خوشبو سے معطر رکھتے ہوئے اس شجرۂ طیبہ کی صورت میں اس کو ہمیشہ زندہ قائم رکھے گا جس کے متعلق وعدہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ … ایسا شجر ۂ طیبہ ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی۔ … حمد اور شکر کا پہلو ایک ابدی پہلو ہے۔ وہ ایک لازوال پہلو ہے۔ وہ کسی شخص کے ساتھ وابستہ نہیں۔نہ پہلے کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ تھا، نہ میرے ساتھ ہے، نہ آئندہ کسی خلیفہ کی ذات سے وابستہ ہے۔ وہ منصبِ خلافت کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ، وہ پہلو ہے جو زندہ و تابندہ ہے۔اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ انشا ء اللہ تعالیٰ۔ ہاں ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے … کہ دیکھو اللہ تم سے وعدہ تو کرتا ہے کہ تمہیں اپنا خلیفہ بنائے گا زمین میں لیکن کچھ تم پر بھی ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔ تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح بجالاتے ہیں۔ پس اگر نیکی کے اوپر جماعت قائم رہی اور ہماری دعا ہے اور ہمیشہ ہماری کوشش رہے گی کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ جماعت نیکی پر ہی قائم رہے، صبر کے ساتھ اور وفا کے ساتھ۔ تو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ وفا کرتا چلا جائے گا اور خلافت احمدیہ اپنی پوری شان کے ساتھ شجرۂ طیبہ بن کر ایسے درخت کی طرح لہلہاتی رہے گی جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کررہی ہوں۔
(روزنامہ الفضل ربوہ۔ 22؍جون 1982ءصفحہ 3-4)
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت ہماری جنت کو اس کے پاسبان پیارے خلیفۃ المسیح سمیت ہمیشہ اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے اور اپنی مدد و برکات سے نوازتا رہے۔آمین۔
ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخِ انور
کیوں جمع یہاں ہوتے سب دنیا کے پروانے
(کلامِ محمود)
٭…٭…٭