نماز کی حقیقت(حصہ سوم)
پھر نماز پڑھتے وقت ان مفاد کا حاصل کرنا بھی ملحوظ ہو جو اُس سے ہوتے ہیں اور احسان پیشِ نظر رہے۔
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ(ہود:115)
۔نیکیاں بدیوں کو زائل کردیتی ہیں۔ پس ان حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے ۔کہ وہ نماز جوکہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے۔ وہ نصیب کرے۔یہ جو فرمایا ہے ۔
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ (ہود:115)۔
یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کودُور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ رُوح اور راستی کے ساتھ۔ وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ اُن کی رُوح مُردہ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا ۔اور یہاںجو حسنات کا لفظ رکھا الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا۔ باوجودیکہ معنے وہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حُسن وجمال کی طرف اشارہ کرے ۔کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی رُوح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً بُرائیوںکو دور کرتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔ نماز کا مغز اور رُوح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سُرور اپنے اندر رکھتی ہے۔
ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست وبر خا ست ہیں۔انسان کو خدا تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آ داب خد متگا ر ان میں سے ہے۔ رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیا ری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گر دن جھکا تا ہے۔ اور سجدہ کمال آداب اور کمال تذلّل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصو د ہے ظاہر کرتا ہے۔ یہ آداب اور طرق ہیں جو خدا تعالیٰ نے بطور یاد داشت کے مقرر کر دیئے ہیں اور جسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے۔ اب اگرظاہری طریق میں (جو اندرونی اورباطنی طریق کا ایک عکس ہے )صرف نقال کی طرح نقلیں اُتاری جاویں اور اسے ایک بار گر اں سمجھ کر اُ تا ر پھینکنے کی کوشش کی جاوے تو تم ہی بتاؤ اس میں کیا لذت اور حظّ آ سکتا ہے۔ اور جب تک لذت اور سرور نہ آئے ۔اُ س کی حقیقت کیو نکر متحقق ہو گی ۔اور یہ اس وقت ہوگا ۔جبکہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلّل تام ہو کر آستانہ الوہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے روح بھی بولے۔ اس وقت ایک سرور اور نور اور تسکین حاصل ہو جاتی ہے۔میں اس کو اَور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدر مراتب طے کرکے انسان ہوتا ہے۔ یعنی کہاں نطفہ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور ان کی ساخت اور بناوٹ۔ پھر نطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ۔پھر جوان۔ بوڑھا۔ غرض ان تمام عالموں میں جو اس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو۔ اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے تو بھی وہ اس قابل ہوسکتا ہے ۔کہ ربوبیت کے مدِّمقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے۔ غرض مدّعا یہ ہے کہ نمازمیں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پرتَو اس پر نہیں پڑتا۔ اور اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑ ھ کر کوئی حظّ نہیں ہے۔ اس مقام پر انسان کی رُوح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے۔ اورما سویٰ اللہ سے اسے انقطاعِ تام ہو جاتا ہے۔ اس وقت خدائے تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے۔ اس اتصال کے وقت ان دوجو شوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے۔ ایک خاص کیفیت پیداہو تی ہے۔ اس کا نام صلوٰۃ ہے پس یہی وہ صلوٰۃ ہے۔جوسَیِّئَات کو بھسم کر جاتی ہے۔ اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے۔ جو سالک کو راستہ کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے۔ اور ہر قسم کے خس وخاشاک اور ٹھو کرکے پتھروں اور خاروخس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہیں ۔آگا ہ کرکے بچاتی ہے اور یہی وہ حالت ہے۔ جبکہ
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ(العنکبوت:46)
کا اطلاق اس پر ہوتا ہے۔کیونکہ اُس کے ہاتھ میں نہیں اُس کے دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلّل، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر گناہ کا خیال اسے کیونکرآسکتا ہے۔ اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ فحشاء کی طرف اس کی نظر اُٹھ ہی نہیں سکتی غرض ایک ایسی لذت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے ۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اسے کیو نکربیان کروں۔ …
(جاری ہے)
(ملفوظات جلدنمبر 1 صفحہ 163-166۔ ایڈیشن 1984ء)