اللہ تعالیٰ کےچنیدہ اور پسندیدہ افراد (قسط دوم)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طَیر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ ہے یا نہیں۔ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طَیرکئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَا ئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلَّا اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ(الانعام:39)
کہ زمین پر چلنے والے جانور اور پرندے سب تمہاری طرح قومیں اور گروہ ہیں۔ اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خد اتعالیٰ نے پرندوں کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ کہ وہ پرندے جو اپنے پروں کے ساتھ اڑتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پرندہ ایسا بھی ہوتا ہے جو پروں سے نہیں اڑتا۔
پھر اس سے بھی واضح ایک اور آیت ملتی ہے جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طَیرکسی اور چیز کا نام ہے۔ سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَمْ تَرَ اَ نَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْعَلِمَ صَلوٰتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِّمَا یَفْعَلُوْنَ(النور :42)
فرماتا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذوی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔ وہ طیر بھی جو صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان ذوی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے۔ یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طَیرسے مراد پرندے نہیں۔ اوّل مَنْ کا لفظ ہمیشہ ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غیر ذوی العقول کے لیے نہیں پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
میں صرف طَیرکو کیوں نکالا۔ جنّات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا۔ کیا اس سےصاف طورپر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طیر کوئی الگ چیز ہے۔ پھر فرماتا ہے
کُلٌّ قَدْعَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ
اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ …ایسے طَیرتو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ پس مَنْکا استعمال
کُلٌّ قَدْعَلِمَ صَلوٰتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ
کا استعمال اور
وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِّمَایَفْعَلُوْنَ
کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے خصوصاً وہ بلند مرتبہ انسان جو باجماعت نمازیں ادا کیا کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر طَیرسے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طَیرکیوں کہا گیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو یا فطرتی طاقت ہواسے عربی میں طَائِرکہتے ہیں۔ اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے
فَاِذَا جَآءَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْابِمُوْسیٰ وَمَنْ مَّعَہٗ اَلآ اِنَّمَا طَائِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(الاعراف:132)
فرماتا ہے جب ان کو کوئی خوشی پہنچتی ہے۔ تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ موسیٰؑ کے بد عمل کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اِنَّمَاطَائِرُھُمْ عِنْدَاللّٰہِ
ان کا پرندہ خدا کے پاس ہے۔ اب وہ تو کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰؑ کی وجہ سے عذاب آیا ہے۔ اور خد اکہتا ہے تمہارا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا اس کے لیے لُغت دیکھی جائے تو حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ لُغت میں لکھا ہے کہ طَائِرانسانی عمل کو بھی کہتے ہیں (اقرب) اور اس جگہ یہی معنے مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے تمام اعمال ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ پھر فرماتا ہے
قَالُوا طَّیَّرْنَابِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُم عِنْدَاللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ(النمل: 48)
جب قوم ثمود کے پاس حضرت صالحؑ نبی ہو کرآئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے بُرے عمل کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں۔ جیسے آج کل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں۔ فرماتا ہے اُن کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طَائِرُ کُمْ عِنْدَاللّٰہِ کہ تمہارا طائر خدا کے پاس ہے
بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو جس کے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے۔
پھر تین رسولوں کا سورت یٰس میں ذکر کر کے فرماتا ہے۔
قَالُوْا اِنَّا تَطَیَّرْنَابِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْالَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّاعَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ قَالُوْاطَائِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِ فُوْنَ(یٰس:19تا20)
یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پا س آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ انہوں نے کہا۔ تمہارا پرندہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے عمل تمہیں تباہ کریں گے۔ ہمیں تم کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
ان تمام مقامات پر طائر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوت عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے۔ اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا بنتی ہے ؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کر تے ہیں تو ہمیں سورۂ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنَاطَائِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِ جُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَابًایَّلْقَاہُ مَنْشُوْرًا اِقْرَءْ کِتَابَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل:14تا21)
ہرانسان کے ساتھ ہم نے ایک پرندہ اس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے۔ اور ہم قیامت کے دن اس کے اعمال نامہ کو اس کے سامنے لائیں گے اور کہیں گے اسے پڑھ۔ ہم حساب نہیں کرتے تو اپنی نیکی بدی کا حساب کرلے۔ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اُس کا نقصان بھی اُسی کو ہوتا ہے۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اور ہم اس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں۔
یہاں قرآن کریم نے طائر کے نہایت لطیف معنے کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے پرندہ ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے۔ سو جب ہمیں خدا نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہرانسان کی گردن کے نیچے نہیں ہوتا۔ پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ قوت عمل یا نتیجۂ اعمال کا نام خداتعالیٰ نے طا ئر رکھا ہے۔ پس جو بھی انسان اعمال کرتا ہے۔ ان کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے۔ اگر تو انسان نیک اعمال بجا لائے تو وہ انسان کو آسمان روحانیت کی طر ف اڑا کر لے جائیں گے جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمان میں اڑا کر لے جاتا ہے۔ اور اگر بُرے اعمال ہوں گے تو لازماً پرندہ ہی کمزور ہوگا۔ اور انسان بجائے اوپر اڑنے کے نیچے کی طرف گرے گا۔ اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے۔ اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو طَائِر اسے اوپر اڑا کر لے جائے گا۔ اور اگر بُرے اعمال کرے گا تو وہ اسے نیچے گرا دے گا۔ دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَا ہُ یُھَوِّ دَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَا نِہٖ
کہ ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ترقی کی قابلیت رکھی ہوئی ہے۔ پھر ماں باپ اسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔ گویا ہر انسان میں اڑنے کی طاقت ہے۔ یہ مضمون
کُلُّ اِنْسَانٍ اَ لْزَ مْنَاہُ طَائِرَہٗ
میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا پرندہ بھی اس کے ساتھ پیدا کردیا جاتا ہے۔ پھر بعض ماں باپ اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اور بعض جو بچ جاتے ہیں ان کےلیے دوسری صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ انسانی طائر جو اچھے لوگ ہوتے ہیں عمل نیک کی وجہ سے ان کا طائر یعنی مادہ ترقی کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورت فاطر میں فرماتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَا ئِکَۃَ رُسُلًا اُولِیْ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ(فاطر:2)
کہ سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ اور جس نے فرشتوں کو بنایا جن کے پر ہوتے ہیں دو دو تین تین اور چار چار۔ پھر انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے
مَنْ کَانَ یُرِیْدُالْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا۔ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَکْرُاُولٰئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ(فاطر: 11)
یعنی تمہیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ فرشتوں کے ہم نے ترقی کے لئے کئی کئی پَر بنائے ہیں مگر اے انسانو! یاد رکھو کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی بڑھ سکتے ہو۔ یاد رکھو۔ تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں۔ یعنی جن میں خدا کا کلام داخل ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں۔ مگر خالی نہیں بلکہ
اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ
اعمال صالحہ کا اسے سہارا چاہیے۔ گویا
اَلْکَلِمُ الطّیِّبُ
ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اُڑ سکتا بلکہ اعمال صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کے دو پر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمانِ روحانیت کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا ہے۔ یعنی فضا میں اڑتا ہے دوسرے یہ کہ اس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے۔ اور بہت شاذو نادر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا آشیانہ اونچی جگہ نہ ہو۔ جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ بھی درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی کسی درخت پر بسیرا کرتے ہیں۔ نیچے نہیں بیٹھتے۔ یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ(المجادلۃ:12)
اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھو تو فوراً اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نبی یا اس کے خلیفہ کی آواز پر دوڑ پڑا کرو۔ کیونکہ
یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ
کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اونچا کردے گا۔ گویا اوپر اڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے متعلق بھی ذکر آ گیا۔
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندے اپنا آشیانہ ہمیشہ اونچا بناتے ہیں۔ اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ۔ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ(النور:37تا38)
فرماتا ہے یہ نور کچھ گھروں میں ہے جن گھروں کے متعلق ہمارا حکم ہے کہ انہیں اونچا کردیا جائے وَ یُذْ کَرُ فِیْھَا اسْمُہٗ اُن گھروں میں صبح و شام تسبیحیں ہوتی ہیں۔ مگر فرمایا رِجَالٌ ہماری مراد آدمیوں کو اونچا کرنا ہے نہ کہ گھروں کو۔ گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کردیا اور بتادیا کہ عمل صالح مومن کو اڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اُس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں دروازے کھول دو۔ ایک مومن کی روح آتی ہے مگر جب کافر مرتا ہے تو اس کی روح اٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے۔
غرض طَیْرسے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو وسعت حوصلہ اپنے اندر رکھتی ہیں اور دین کے لئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔ وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ وتیار رہتی ہیں۔
رسول کریمﷺکے سامنے کھڑے ہوکر ایک دفعہ ایک صحابی نے کہا یارسول اللہ! آپ حکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کےلئے تیار ہیں اور ذرا بھی نہیں پوچھیں گے کہ حضور نے یہ حکم کیوں دیا۔ گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں کے اندر پائی جاتی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ سفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتا اور نیچے جھکنے کی بجائے اوپر کی طرف اڑتا ہے۔
یہی حکمت ہے جس کے ماتحت حضرت داؤدعلیہ السلام پرایمان لانے والوں کا نام طَیررکھا گیا اور بتایا گیا کہ وہ آسمان روحانی کی طرف پرواز کرنے والے لوگ تھے اور اُن کے اندر خاص روحانی استعدادیں پائی جاتی تھیں۔ سفلی زندگی سے انہیں کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ پھر فرماتا ہے
وَ عَلَّمۡنٰہُ صَنۡعَۃَ لَبُوۡسٍ لَّکُمۡ لِتُحۡصِنَکُمۡ مِّنۡۢ بَاۡسِکُمۡ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ شٰکِرُوۡنَ وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ(الانبیاء:81تا82)
اور ہم نے داؤد کو زر ہیں بنانے کا فن بھی سکھایا تھا تاکہ وہ اپنی قوم کی جنگوں میں حفاظت کرے۔ اسی طرح ہم نے سلیمان پر یہ فضلکیا کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوائیں اس کے بیڑے کو مختلف جہات میں لے جاتی تھیں جن میں شام اور فلسطین بھی شامل تھے۔
انسائیکلو پیڈیا ببلیکا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خلیج عقبہ سے مشرقی عرب کے اوپر کی طرف اپنا بیڑہ بھیجتے تھے جو سونا وغیرہ لاتا تھا اور اس سے بہت فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ میں امر کی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھی۔ اگر سلیمان علیہ السلام اس جگہ مراد ہوں تو ا س سے اُن کا حکم مراد نہیں ہوگا بلکہ اس سے اُن کا کام مراد ہوگا۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد5صفحہ544تا548)
اُس زمانے میں TYRCکے بادشاہ نے جو کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک اچھا دوست تھا حضرت سلیمانؑ کے پاس اپنا ایک ایلچی بھیجا۔ جواب میں حضرت سلیمانؑ نے کہا کہ میرے والد ایک عبادت گاہ بنانا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ جنگوں میں اس طرح مشغول رہے کہ یہ کام نہ کرسکے مگر اب جبکہ ہر طرف خوشحالی اور سکون ہے میں یہ عبادت گاہ بنانا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنے بہترین کاری گر اور صندل کی لکڑی بھیجو۔ بادشاہ نے حضرت سلیمانؑ کی درخواست مان لی اور لکڑی کو لبنان سے بنڈل کی شکل میں دریا میں بہا کر بھیج دیا۔ حضرت سلیمانؑ نے 30؍ہزار مزدور اور ملازم رکھے جن میں سے 10؍ہزار کو ایک مہینے کے لیے لبنان بھیجا جو ایک مہینے تک وہاں کام کرتے اور دو مہینے آرام۔ اس کے علاوہ 70؍ہزار عام مزدور بھی تھے۔ 80؍ہزار سنگ تراش، 3600؍اعلیٰ درجہ کے لوگ جواس کام کی نگرانی پر مامور تھے۔ حضرت سلیمانؑ کی حکومت اور بادشاہت کے چوتھے سال موسم بہار میں اس عبادت گاہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ کام بنی اسرائیل کے مصر چھوڑنے کے تقریباً 480؍سال کے بعد شروع ہوا۔ یہ عبادت گاہ 90؍فٹ لمبی، 30؍فٹ چوڑی اور 45؍فٹ اونچی تھی اور پوری عبادت گاہ میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں لگائی گئی تھیں اور عمارت کے باہر 15؍فٹ لمبی پورچ تھی۔ بائبل میں اس عمارت کے بارے میں بڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔
اب یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس عمارت کی تکمیل کے بعد حضرت سلیمانؑ نے تمام قبیلوں کو یروشلم میں اکٹھا کیا اور تابوت سکینہ کو شہر داؤد سے جسے ZIONبھی کہتے ہیں سے اٹھا کر اس عمارت میں منتقل کردیا۔ شہر داؤد کو ZIONبھی کہا جاتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ZIONکے مطلب میں بھی فرق آتا گیا۔
بائبل میں پہلی دفعہ لفظZIONسموئیل5:7میں آیا ہے اور داؤد علیہ السلام نے شہر ZIONپر قبضہ کرلیا۔ ZIONدراصل ایک قلعہ کا نام تھا جو یروشلم کے جنوب مشرقی پہاڑی علاقے میں واقع تھا بلکہ ZIONنہ صرف اس قلعہ کا نام تھا بلکہ اس پہاڑی کا نام بھی پڑگیا تھا جس پر قلعہ واقع تھا۔ جب حضرت داؤدؑ نے یہ قلعہ فتح کیا تو اس قلعہ کا نام ’’داؤد کا شہر‘‘رکھ دیا گیا۔
قارئین کے لیے یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے SON OF ZIONکا استعمال کیا جس کا مطلب تھا کہ تمام بنی اسرائیل “ZION”کہلائے۔ مذہبی طور پر لفظ ZIONاسرائیلیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔
عیسائی لفظ ZIONکا مطلب خد ا کی روحانی سلطنت، خدا کا چرچ یا جنت اور یروشلم لیتے ہیں۔
بہر حال ایک تابوت(ARK OF CONVENA)کو اس عمارت میں رکھا گیا۔ اس تابوت میں وہ تختیاں تھیں جنہیں حضرت موسیٰؑ کوہِ سینا سے لائے تھے۔
حضرت سلیمانؑ کا تعمیر کیا ہوا بیت المقدس 967قبل مسیح میں بننا شروع ہوا اور اس کی تعمیر 960قبل مسیح میں مکمل ہوئی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں تین دفعہ عبادت گاہیں بنائی گئیں۔ حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں یہ عبادت گاہ کوہ مریاہ کے مشرقی سمت میں بنائی گئی۔ مگر بعد میں عیسائیت کا دور شرو ع ہونے پر اس بیت المقدس کا مقصد ختم ہوگیا اور نئے عیسائی لوگوں نےجو کہ پہلے یہودی تھے عبادت کے لیے چرچ کی طرف جانا شرو ع کردیا۔
اس مضمون کی اس قسط کو ختم کرتے ہوئے یہ ضرور لکھنا چاہوں گا کہ جب بیت المقدس کی تکمیل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے سلیمان !اگر تو نے میری اطاعت کی اور میرے قوانین اور قواعد کو ہمیشہ بالادستی دی تو میں تمہارے خاندان کی برتری ہمیشہ کے لیے بنی اسرائیل پر قائم کردوں گا مگر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں اس عبادت گاہ کو مستر د کرتاہوں۔ اگر تم نے دوسرے خداؤں کی عبادت کی تو میں اسرائیل کو ایک تمسخر کا ذریعہ بنا دوں گا جس پر لوگ ہنسیں گے اور میں اس عمارت کو سبق کا ایک ذریعہ بنادوں گا اور جب لوگ پوچھیں گے کہ خدا نے ایسا کیوں کیا تو جواب ہوگا کہ اس لیے کہ ان لوگوں نے خدا کو بھلا دیا تھا۔
(ماخوذ از سلاطین نمبر 1باب 1تا 10)
واضح رہے کہ یہود و نصاریٰ کے نزدیک حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ انبیاء نہ تھے۔ نہ ہی بائبل میں ان کوانبیاء کے طور پر پیش کیاگیا ہے بلکہ سلاطین بنی اسرائیل میں سے شمارکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذکر سلاطین نمبر 1 میں ملتا ہے اور ان کی تاریخ کا ذکر تواریخ میں نیز ان کے زمانہ میں مختلف انبیا ء کے وجود کا پتہ ملتا ہے جو ان کو نصائح کرتے تھے۔ مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام کو تخت داؤدی کا وارث بناتے وقت ایک نبی کا آکر حضرت سلیمان علیہ السلام کو نصائح کرنا تواریخ نمبر 1سے ثابت ہے۔
عہد نامہ جدید کے مطالعہ سے نصاریٰ کا ایک اور ظلم بھی سامنے آتا ہے کہ انہوں نے صرف حضرت عیسیٰ کی پاکیزگی ظاہر کرنے کےلیےحضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کے تمام انبیاء اور برگزیدوں پر کوئی نہ کوئی نقص نکالتے ہوئے الزام دھرا ہے اور اگر چھوڑا ہے تو صرف حضرت مسیح علیہ السلام کو تا ان کو سب سے زیادہ برگزیدہ اور پھر خدا کا مرتبہ دے سکیں۔ یہ ان کا ایک ظلم صریح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ان کے اس ظلم کا پول کھول کر انبیاء بنی اسرائیل کی عزت قائم کی ہے۔
فارسی کا ایک محاورہ ہے :وَلیِ راوَلی شناخت
بعینہٖ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نبی رانبی شناخت
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اقوام عالم کو محض اپنے علاقوں کے انبیاء و اولیاء کا تعارف تھا۔ رحمۃ للعالمین سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل قرآن کریم میں ایک جانب تو اللہ تعالیٰ نے بعض انبیا ء کا ذکر فرمایا تودوسری طرف اس حقیقت کو بھی آشکار کیا کہ دنیا کا کوئی علاقہ بھی نبی سے خالی نہیں رہا اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نذیر گزرا ہے۔
انبیاء بنی اسرائیل میں سے ایک عظیم بادشاہ جو اپنے وقت کا نبی بھی تھا اس کا ذکر بائبل نے جیسے بھی کیا مگر قرآن کریم نے انہیں ایک عظیم نبی قرار دیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے بارہ میں جو علم عطا کیا تھا اس کا ذکر سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’حضرت داؤدعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالیّت و عظمت کا اقرار کر کے زبور پنتالیس میں یوں بیان کیا ہے (2)تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے۔ تیرے لبوں میں نعمت بتائی گئی ہے اسی لئے خدا نے تجھ کو ابد تک مبارک کیا (3) اے پہلوان تو جاہ و جلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا(4) امانت اور حلم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی سے سوار ہو کہ تیرا داہنا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا(5) بادشاہ کے دلوں میں تیرے تیر تیزی کرتے ہیں لوگ تیرے سامنے گر جاتے ہیں (6) اے خدا تیرا تخت ابدالآباد ہے (یہ فقرہ اسی مقام جمع سے ہے جو قرآن شریف میں کئی مقام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے ) تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے (7) تو نے صدق سے دوستی اور شرسے دشمنی کی اس لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تر تجھے معطر کیا۔ بادشاہوں کی بیٹیاں تیری عزّت والی عورتوں میں ہیں۔ ‘‘
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 281تا282حاشیہ)
حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے جوان کے دنیوی اور روحانی تخت کے وارث ہوئے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیوی لحاظ سے بڑی قبولیت عطا کی اور جن کی خداداد فراست کا دنیا لوہا مانتی تھی ان کے دربار سے جانے والے ان کے ایک درباری نے ان کو ایک قریب کے علاقہ میں پائی جانے والی ایک مشرک ملکہ کی خبر دی۔ جس ملکہ کو آپ نے بغرض تبلیغ ایک موقع پر بلا بھیجا اس سارے واقعہ کا قرآن کریم نے تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں انہیں آیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے فرمایا ہے:
’’قرآن شریف میں ایک شاہزادی بِلْقِیسنام کا ایک عجیب قصہ لکھا ہے جو سورج کی پوجا کرتی تھی شاید وید کی پیرو تھی۔ حضرت سلیمان نے اُس کو بلایا اور اُس کے آنے سے پہلے ایسا محل طیّار کیا جس کا فرش شیشہ کا تھا اور شیشہ کے نیچے پانی بہ رہا تھا جب بلقیس نے حضرت سلیمان کے پاس جانے کا قصد کیا تو اُس نے اُس شیشہ کو پانی سمجھا اور اپنا پاجامہ پنڈلی سے اُوپر اٹھالیا۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ دھوکا مت کھا یہ پانی نہیں ہے بلکہ یہ شیشہ ہے پانی اس کے نیچے ہے۔ تب وہ عقلمند عورت سمجھ گئی کہ اس پیرایہ میں میرے مذہب کی غلطی انہوں نے ظاہر کی ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ سورج اور چاند اور دوسرے اجرام شیشہ کی مانند ہیں اور ایک پوشیدہ طاقت ہے جو ان کے پردہ کے نیچے کام کررہی ہے اور وہی خدا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس جگہ فرمایا
صَرْ حٌ مُّمَرَّ دٌ مِّنْ قَوَ ارِیْرَ
سو دُنیا کو خدا نے شیش محل سے مثال دی ہے جاہل ان شیشوں کی پرستش کرتے ہیں اور دانا اس پوشیدہ طاقت کے پرستار ہیں مگر وید نے اس شیش محل کی طرف کچھ اشارہ نہیں کیا اور ان ظاہری شیشوں کو پرمیشور سمجھ لیا اور پوشیدہ طاقت سے بے خبر رہا۔ ‘‘
(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 290)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں گاہے گاہے انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر ہوتا رہتا تھا ایک موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر ہوا تو فرمایا:
’’حضرت داؤد کا قول ہے کہ میں جوان تھا اب بوڑھا ہوگیا ہوں مگر میں نے متقی کو کبھی ذلیل و خوار نہیں دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 91، ایڈیشن1988ء)
خاکسار نے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر سے یہ چند نکات اخذ کر کے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں۔ دعا ہے کہ یہ مضمون قارئین کے لیے مفید ہو۔ آمین