عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری (حصہ سوم)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
لاٹری جائز نہیں
حضرت منشی برکت علی خاں صاحب صحابی حضرت اقدسؑ شملہ میں ملازم تھے۔احمدی ہونے سے پہلے انہوں نے ایک لاٹری ڈالی ہوئی تھی وہ لاٹری نکلی تو ساڑھے سات ہزار کی رقم ان کے حصے میں آئی۔(اس زمانہ میں)۔انہوں نے حضورؑ سے پوچھا تو حضورؑ نے اسے جؤا قرار دیا اور فرمایا اپنی ذات میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں ۔حضرت منشی صاحب نے وہ ساری رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی۔
(تلخیص از اصحاب احمد۔ جلد 3۔ صفحہ33۔ مطبوعہ 1957ء)
تو یہی آج کل یہاں یورپ میں روا ج ہے ،مغرب میں رواج ہے لاٹری کا کہ جو لوگ لاٹری ڈالتے ہیں اوران کی رقمیں نکلتی ہیں وہ قطعاً ان کے لئے جائز نہیں بلکہ حرام ہیں۔اسی طرح جس طرح جوئے کی رقم حرام ہے۔اول تو لینی نہیں چاہئے اوراگر غلطی سے نکل بھی آئی ہے تو پھر اپنے پر استعمال نہیں ہوسکتی۔
ایک واقعہ یہیںآپ کے ملک انگلستان کا محترم بشیر آرچرڈ صاحب کاہے جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کے بعداپنی زندگی وقف کی ۔1944ء میں احمدی ہوئے تھے اور قادیان میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور جیساکہ مَیں نے کہا ہے اپنی زندگی وقف کردی۔اور اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ عبادات الٰہی اور دعاؤں میں بے انتہا شغف پیدا ہوگیا۔ان کے قادیان کے پہلے دورہ کا سب سے پہلا ثمرہ ترک شراب نوشی تھا۔شراب بہت پیا کرتے تھے۔ فوری طورپر انہوں نے پہلے شراب ترک کی۔انہوں نے جوئے اور شراب نوشی سے توبہ کرلی اور اور ان دونوں چیزوں سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کی ،ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔
(تلخیص از الفضل۔ 10؍جنوری1978ء۔ عظیم زندگی۔ صفحہ3)
شراب کی ممانعت
اس زمانہ میں بھی، آج کل بھی چند سال پہلے بعض احمدی یہاں بھی،جرمنی وغیرہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی ایسے کاروبار جن میں ریسٹورانٹ میں، ہوٹلوں میں جہاں شراب کا کاروبار ہوتا تھا ۔حدیث کے مطابق شراب کشیدکرنے والا ، شراب پلانے والا ،شراب بیچنے والا ، رکھنے والا ، ہر قسم کے لوگوں کو کہاگیا کہ یہ جہنمی ہیں اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اعلان فرمایا تھاکہ جو بھی احمدی اس کاروبار میں ملوث ہیں ان کو فوری طورپر یہ کاروبار ترک کردینا چاہئے ورنہ ان کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا۔ تو خود ہی حضور ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھاری تعداد نے اس کاروبارکو ترک کردیا ۔ اوربعضوں کو توخداتعالیٰ نے فوراً بہت بہتر کاروبار عطا کئے اور بعضوں کو ابتلاء میں بھی ڈالا ۔ اور وہ لمبے عرصہ تک کاروبار سے محروم رہے ۔لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور پھر انہوں نے اس گندے کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
قرآن کریم سے محبت
امرتسر کے ایک غیراز جماعت میاں محمد اسلم صاحب مارچ 1913ء میں قادیان تشریف لائے تھے ۔ وہ حضرت خلیفہ اول ؓکے بارہ میں لکھتے ہیں کہ
’’مولوی نورالدین صاحب نے جو بوجہ مرزا صاحب کے خلیفہ ہونے کے اس وقت احمدی جماعت کے مسلّمہ پیشوا ہیں ۔جہاں تک مَیں نے دو دن ان کی مجالس وعظ و درس قرآن شریف میں رہ کر ان کے کام کے متعلق غورکیاہے مجھے وہ نہایت پاکیزہ اور محض خالصتاً للہ کے اصول پر نظرآیا۔ کیونکہ مولوی صاحب کاطرز عمل قطعاً ریا ء و منافقت سے پاک ہے اور ان کے آئینہ ٔدل میں صداقت اسلام کاایک زبردست جوش ہے جو معرفت توحید کے شفاف چشمے کی وضع میں قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر کے ذریعے ہروقت ان کے بے ریاء سینے سے ابل ابل کر تشنگان معرفت توحید کو فیضیاب کررہاہے۔ اگرحقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں مَیں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یہ نہیںکہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبورہیں۔ نہیں بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے۔ کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآ ن مجید کی مَیں نے ان کے درس قرآن مجید کے موقعہ پر سنی ہے غالباً دنیامیں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے‘‘۔
(بدر۔ 13؍مارچ 1913ء۔حیات نور۔ صفحہ 611-612)
پھر ایک وصیت ہے جو حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ نے اپنی اولاد کو کی۔ فرمایا: قرآن شریف کو اپنا تم دستور العمل بنائو اور اتباع سنت کی پیروی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی اور اشاعت اسلام میں ہمہ تن مصروف رہو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی انہی امور کی پابندی کے لئے تیار رکھو۔
(حضرت ڈاکٹر سیّدعبدالستار شاہ صاحب۔ صفحہ 193)
یہ نصیحت تو ہر ا حمدی کو ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہئے۔
حضرت مرزا عبدالحق صاحب لکھتے ہیں حضرت ملک مولابخش صاحب رضی اللہ عنہ کے بار ہ میں کہ
’’آپ کو قرآن کریم سے خاص عشق تھا اور قرآنی معارف و حقائق سننے کے لئے باوجود بیماری اور کمزوری کے تعہد کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک دفعہ کئی ماہ تک موسم سرما میں صبح کی نمازمحلّہ دارالفضل سے آ کردارالرحمت میں اس لئے ادا کرتے رہے تاکہ مکرم مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے درس میں شریک ہوکر ان کے حقائق و معارف سے مستفیض ہوں ۔ رمضان المبارک میں جو درس مسجد اقصیٰ میں ہوتا اس میں بھی التزام کے ساتھ شریک ہوتے … قرآن کریم کو کثرت سے پڑھتے اور غورسے پڑھتے۔ جہاں خود فائدہ اٹھاتے وہاں دوسروں کو بھی شامل کرتے۔ عمرکے آخری حصہ میں کہتے ہیںدن میں کئی کئی بارجب بھی دیکھو قرآن شریف پڑھ رہے ہوتے تھے ۔ اورکاپی اورقلم پاس رکھتے ۔ جب کسی آیت کی لطیف تفسیر سمجھ میں آتی اس کو نوٹ کرتے اوربعد میں اپنے اہل و عیال کو بھی سناتے…۔ (مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ) اس وقت (جب و ہ گھروالوں کو سنا رہے ہوتے تو) ان کے چہرہ سے یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ آپ کی اولاد قرآن کریم کی عاشق ہو۔‘‘
(اصحاب احمد۔ جلد 1۔ صفحہ 151-152۔ مطبوعہ 1951ء)
گیمبیا کے ایک عیسائی نوجوان نے احمدیت قبول کی تو ماں نے اس کی شدید مخالفت شروع کردی۔ پہلے تو وہ برداشت کرتا رہا مگر جب اس کی ماں نے قرآن کریم کی توہین شروع کی تو گھر چھوڑ کر نکل گیا اور دوبارہ اس گھر میں نہیں گیا۔
(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ۔ ستمبر1987ء۔ صفحہ6)
پس اس زمانہ میں بھی افریقہ کے دور درازملکوں میں بھی یہ معجزے رونما ہورہے ہیں۔
اسلام میں چار شادیوں تک کی اجازت ہے جس کو بعض لوگ حکم بنا لیتے ہیں، بہرحال اجازت ہے ۔ تو افریقہ میں رواج ہے کہ جتنا بڑا کو ئی آدمی ہو ، یا پیسے والا ہو یاچیف ہو تو بعض دفعہ بعض قبائل میں چار سے زیادہ نو دس تک شادیاں کرلیتے ہیں۔ سیرالیون کے علی روجرز صاحب نے جب احمدیت قبول کی تھی تو اس وقت وہ جوان تھے اور ان کی بارہ بیویاں تھیں۔ جماعت کے مربی مولانا نذیر احمد صاحب علی نے انہیں فرمایا کہ اب آپ احمدی ہوچکے ہیں اس لئے قرآنی تعلیم کے مطابق چار بیویاں رکھ سکتے ہیں ۔باقی کو بہرحال طلاق اور نان نفقہ دے کر رخصت کریں۔ انہوں نے نہ صرف اس ہدایت پر فوراً عمل کیا بلکہ ان کے کہنے پر جو پہلی چار بیویاں تھیں وہ اپنے پاس ر کھیں اور نوجوان بیویوں کو رخصت کر دیا۔ تویہ تبدیلی ایک انقلاب ہے ۔
(باقی آئندہ)