نماز کی حقیقت(حصہ چہارم)
پھر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دعا سے حاصل ہوتی ہے۔ غیر اللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے کیو نکہ یہ مرتبہ دُعا کا اللہ ہی کے لئے ہے۔ جب تک انسان پورے طور پر خفیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے۔ سچ سمجھو کہ حقیقی طور پر وہ سچا مسلمان اور سچا مومن کہلانے کا مستحق نہیں۔ اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ اس کی تمام طاقتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، سب کی سب اللہ تعالیٰ ہی کے آستانہ پر گری ہوئی ہوں جس طرح پر ایک بڑا انجن بہت سی کلوں کو چلاتا ہے۔ پس اسی طور پر جب تک انسان اپنے ہر کام اور ہر حرکت و سکون کو اُسی انجن کی طاقت عظمیٰ کے ماتحت نہ کر لیوے وہ کیو نکر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا قائل ہوسکتا ہے۔ اور اپنے آپ کو
اِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (الانعام:80)
کہتے وقت واقعی حنیف کہہ سکتا ہے؟ جیسے مُنہ سے کہتا ہے۔ویسے ہی اُدھر کی طرف متوجہ ہو تو لَا رَیْب وہ مسلم ہے۔ وہ مومن اور حنیف ہے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ سے سوال کرتا ہے۔ اور ادھر بھی جھکتا ہے وہ یاد رکھے کہ بڑا ہی بد قسمت اور محروم ہے کہ اُس پر وہ وقت آجانے والا ہے کہ وہ زبانی اور نمائشی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھک سکے۔
ترکِ نماز کی عادت اور کسل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ جب انسان غیر اللہ کی طرف جھکتا ہے۔تو روح اور دل کی طاقتیں اس درخت کی طرح (جس کی شاخیں ابتداءً ایک طرف کر دی جاویں اور اس طرف جھک کر پر ورش پالیں) ادھر ہی جھکتا ہے۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سختی اور تشدد اس کے دل میں پیداہو کر اسے منجمد اور پتھر بنا دیتا ہے۔ جیسے وہ شاخیں۔ پھر دوسری طرف مڑ نہیں سکتا۔ اسی طرح پر دل اور رُوح دن بدن خدا تعالیٰ سے دُور ہوتی جاتی ہے۔ پس یہ بڑی خطرناک اور دل کو کپکپا دینے والی بات ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے سے سوال کرے۔ اسی لیے نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے۔ تاکہ اوّلًاوہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہو اور رجوع الی اللہ کا خیال ہو۔ پھر رفتہ رفتہ وہ وقت خود آجاتا ہے۔ جبکہ انقطاعِ کلّی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہو جاتا ہے۔میں اس امرکو پھر تاکید سے کہتا ہوں افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے۔جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بُرا ئیاں بیان کرسکوں۔ لوگوں کے پاس جا کر منّت خوشامد کرتے ہیں۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے۔کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے۔پس وہ اُس سے ہٹتا اور اُسے دُور پھینک دیتاہے۔ میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آ سکتا ہے۔کہ جیسے ایک مردِ غیورکی غیرت تقاضا نہیں کرتی۔ کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیداکرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مر د ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا۔ بلکہ بسا اوقات ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے۔ عبودیت اور دعا خاص اسی ذات کے مدّ مقابل ہیں۔ وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اَور کو معبود قرار دیا جاوے یا پکارا جاوے۔پس خوب یاد رکھو !اور پھریاد رکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے۔ نماز اور توحید کچھ ہی کہو۔کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے۔ اُس وقت بے برکت اور بےسُود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلّل کی رُوح اورحنیف دل نہ ہو۔…(جاری ہے)
(ملفوظات جلدنمبر 1 صفحہ 166-168۔ ایڈیشن 1984ء)