عرفان الٰہی اور محبت باللہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریمﷺ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے (قسط سوم۔ آخری)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ 26؍ اکتوبر 1930ء بر موقع جلسہ سیرت النبیؐ- قادیان)
(گزشتہ سے پیوستہ ) پھر کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان زندگی بھر دھوکا میں مبتلا رہتا ہے مگر موت کے وقت اس پر اصل بات کھل جاتی ہے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے ملہم جو دماغ کی خرابی کی وجہ سے الہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مرنے سے قبل معانی کے خط لکھ دیتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غلطی میں مبتلا تھے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفان اس درجہ کمال پر تھا کہ آپ کی آخری گھڑیوں کے متعلق لکھا ہے۔ اس وقت آپ کی زبان پر اس مفہوم کے الفاظ تھے کہ خداتعالیٰ یہود اور عیسائیوں پر لعنت کرے۔ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اس موقع سے یہود اور عیسائیوں کا کیا تعلق تھا۔ سننے والے تو مسلمان تھے پھر رسول کریمﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔ اس لئے کہ مسلمان آپ کی قبر کو ایسا نہ بنا لیں اور اس کا خطرہ اس وجہ سے تھا کہ آپ کو معلوم تھا کہ لوگوں نے مجھ میں خدا کو دیکھا ہے۔ اور اس بات کا یقین آپ کو آخر وقت میں بھی تھا۔
غرض رسول کریمﷺ عرفان الٰہی کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے اندر خدا تعالیٰ کا ایسا جلال دیکھتے تھے کہ سمجھتے تھے آپ پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا۔ بیسیوں واقعات ایسے پائے جاتے ہیں مگر اختصار کے لئے انہیں چھوڑتا ہوں۔ اس موقع پر میں یہ بھی بتا دوں کہ ایک قسم کی دلیری کا اظہار سنگ دلی کی وجہ سے بھی بعض لوگ کر دیا کرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے سنایا کہ ایک زمیندار کو آپریشن کرنے کے لیے کلورافارم دینا چاہا تو اس نے کہا اس کی ضرورت نہیں میں یونہی آپریشن کرا لوں گا۔ چنانچہ اس نے بغیر کلورافارم کے آپریشن کرا لیا تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تکلیف اور دکھ بآسانی برداشت کر لیتے ہیں مگر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں رحمت کا مادہ نہیں ہوتا اس بارے میں جب ہم رسول کریمﷺ کے متعلق دیکھتے ہیں تو آپ کی طبیعت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا آپ کی طبیعت پر بہت بڑا اثر ہوتا تھا۔ حدیثوں میں آتا ہے جب کبھی زور کی آندھی یا بارش آتی تو رسول کریمﷺگھبرا جاتے۔
پس ایک طرف تو رسول کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے استغناء اور صفات کو دیکھتے تو آپ کے قلب کی نرمی آندھی اور بارش آنے پر بھی ظاہر ہو جاتی اور دوسری طرف بڑی سے بڑی تکلیف کی بھی کوئی پرواہ نہ کرتے۔ غرض رسول کریمﷺ کے دل میں نرمی اور رافت تھی اور اس کثرت سے تھی کہ معمولی معمولی واقعات پر آپؐ کے آنسو نکل آتے تھے۔ پس آپ نے مصائب اور شدائد کے مقابلہ میں جس قوت اور حوصلہ کا اظہار کیا اس کی وجہ قساوت قلبی نہ تھی بلکہ وہ عرفان الٰہی کا نتیجہ تھا۔
دوسرا درجہ عرفان کا یہ ہوتا ہے کہ کامل ذاتوں میں خدا تعالیٰ کو پہچانا جائے۔ یہ بھی بہت بڑا کام ہے۔ دنیا میں کئی لوگ عارف ہوتے ہیں مگر ان کی پہچان اپنے تک ہی رہ جاتی ہے۔ کامل عارف کی مثال تیز نظر وا لے کی ہوتی ہے۔ ایک انسان دس گز پر کوئی چیز دیکھ سکتا ہے۔ دوسرا بیس گز پر دیکھ سکتا ہے۔ کوئی سو گز پر کوئی دو سو گز اور بعض میل میل دور سے ایک چیز کو پہچان لیتے ہیں۔ ان میں سے کس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تیز نظر والا ہے۔ اسی کے متعلق جو زیادہ دور سے ایک چیز کو پہچان لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ چونکہ مجسم نہیں اس لئے وہ دوسری چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اور ان چیزوں میں سے ایک کامل انسان ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات جن کامل بندوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ان میں دیکھنے کی رسول کریمﷺ کی نظر کیسی تھی۔ دنیا کے جس ملک کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کے ماننے والے ہوتے ہیں۔ مگر وہ اپنے بزرگوں تک ہی ساری بزرگی ختم قرار دے دیتے ہیں۔ ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن علیہ السلام اور حضرت رام چندر جی کو خدا کا اوتار مانتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوا اور کسی ملک میں کوئی اوتار نہیں ہوا۔ اسی طرح چین` ایران کے لوگ اور یہودی وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے ہیں۔ باقی سب جھوٹے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں کو دیکھتے تو ہیں مگر قریب والوں کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں عرفان تو ہے مگر بالکل قریب کی چیز کو دیکھنے کا۔ غرض تمام قوموں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دوسری کامل ذاتوں میں دیکھتی چلی آئی ہیں مگر ان کا یہ دیکھنا محدود ہے۔ یا تو وہ بالکل قریب کے بزرگ کو یا اپنے ہی حلقہ کے بزرگ کو دیکھتی ہیں اس سے باہر نہیں دیکھ سکتیں۔ لیکن خدا تعالیٰ ساری دنیا کا خدا ہے اور تمام کے تمام انسان اسی کے بندے ہیں تو ضروری ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم میں وہ ظاہر ہوا ہو۔ اور ہر قوم میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے جلوہ نمائی کی ہو۔ ایک طرف تو یہ بات ہے اور دوسری طرف یہ کہ جس چیز کو انسان ایک جگہ دیکھ کر پہچان لیتا ہے اسی قسم کی چیز اگر دوسری جگہ ہو تو اسے بھی پہچان سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ملیح آباد میں آم کو دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے تو وہ کابل میں آم کو دیکھ کر بھی پہچان لے گا اور ایران میں بھی۔ لیکن اگر کسی کے سامنے انگلستان میں آم رکھا جائے اور وہ کہے یہ آم نہیں ہے تو کون کہے گا کہ اس شخص کو آم کی پہچان ہے۔ پہچان لینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ جہاں وہ چیز نظر آئے پہچان لی جائے۔ کسی نے کہا ہے۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم
اپنے معشوق سے کہتا ہے۔ تم کسی قسم کے بھی کپڑے پہن لو۔ میری نظر سے تم چھپ نہیں سکتے۔ مجھے تمہارے قد کا اندازہ ہے۔ اس لئے میں تمہیں ہر قسم کے کپڑوں میں پہچان لیتا ہوں۔ جب ایک مجازی عاشق اپنے معشوق کی محبت میں اتنی ترقی کر جاتا ہے۔ اور معشوق کے قد کا اندازہ ایسا صحیح طور پر لگا لیتا ہے کہ ایک بال بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا تو کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی عاشق اپنے معشوق کو جہاں دیکھے نہ پہچان لے۔ غرض عرفان کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ عارف جہاں بھی خدا تعالیٰ کاجلوہ دیکھے پہچان لے۔ یہ کیا پہچان ہوئی کہ اگر خدا کو اللہ کہا جائے تو پہچان لے۔ لیکن کوئی گاڈ یا پرمیشور کہے تو نہ پہچانے۔ حقیقی عرفان یہی ہے کہ کسی نام کسی شکل اور کسی لباس میں وہ چیز ہو تو اسے پہچان لیا جائے۔ خدا تعالیٰ کا حسن اس کا جلال اور اس کے کرشمے ہر گوشہ اور ہر حصہ دنیا میں نظر آنے چاہئیں۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں تو پرانے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک انسان جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سیاہ فام تھا۔ سیاہ فام ہو۔ اس سے ہمیں کیا۔ ہمیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دل گورا تھا۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے اور ملک کی حالت خراب دیکھ کر کڑھتا ہے۔ اہل ملک کو جوئے شراب اور دوسرے گندوں میں مبتلا پا کر ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کو اس بات کے لئے تیار کرتا ہے کہ خون سے ہر قسم کے گندے اور ناپاک داغوں کو دھو دیں۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور اس پر ہنستے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار کہتا ہے مگر انسانوں کی گردنوں پر تلواریں چلا کر ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کو ماننے والے بھی اسے کہتے ہیں۔ کیا خدا خون سے خوش ہوتا ہے کہ انسانوں کے خون بہائے جائیں۔ مگر وہ انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور سارے ہند میں وہ آگ لگا دیتا ہے کہ اس وقت 33کروڑ نہ سہی لیکن لاکھوں انسان تو بستے ہوں گے اس آگ میں کود پڑتے ہیں اور وہ ایسی جنگ کراتا ہے۔ جو آج تک نہایت ہولناک جنگ سمجھی جاتی ہے۔ اسے اپنے ملک کے لوگ نہیں پہچان سکتے لیکن دور عرب میں جہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا جہاں کے بسنے والے اس کی قوم کو برا سمجھتے تھے۔ مکہ کی چھوٹی سی بستی میں بیٹھا ہوا انسان آنکھ اٹھا کر مشرق کی طرف دیکھتا ہے تو اسے ایک ایسا چہرہ نظر آتا ہے جسے لوگ سیاہ کہتے ہیں۔ مگر اسے وہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور کہتا ہے اس دور ملک میں اپنے محبوب کو اس میں جلوہ گر دیکھا۔ وہاں بھی میرا خدا ظاہر ہوا اور اس جگہ بھی اس نے جلوہ نمائی کی۔ ایک ایسے ملک میں جس سے اس کی قوم کو نہ صرف کوئی تعلق نہ تھا بلکہ عداوت تھی اور ایسے انسان میں جسے اس کی اپنی قوم گمراہ خیال کرتی تھی۔ رسول کریمﷺ نے خدا کا نظارہ دیکھ لیا۔ اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلوہ کو دیکھنے کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ پھر اسی ہندوستان میں ایک اور مثال دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا ہے۔ اسے ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں۔ باپ پیدا ہوتے ہی اسے الگ محل میں بند کرا دیتا ہے کیونکہ اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس کا لڑکا حکومت کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل جائے گا۔ اس وجہ سے اس نے یہ انتظام کیا کہ اس بچہ کی نظر سے کوئی دکھ اور مصیبت کا نظارہ نہ گذرے۔ آخر وہ بچہ ایک دن کسی طرح اس محل سے باہر نکلا۔ اور بادشاہ نے حکم دے دیا کہ جدھر سے گذرے وہاں کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے۔ مگر خدا کی مرضی راستہ میں ایک اپاہج پڑا ہوا مل گیا۔ لوگوں نے اسے الگ ڈال دیا۔ مگر شہزادہ اسے دیکھ کر ٹھہر گیا اور پوچھا یہ کیا چیز ہے۔ میں نے تو ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ مصاحبین نے شاہزادہ کی توجہ اس سے ہٹانی چاہی مگر اس پر بڑا اثر ہوا اور اس نے اصرار سے اپاہج کی حالت دریافت کی اور کہا ایسی چیز ہمارے محل میں تو نہیں ہوتی۔ آخر وہ محل میں گیا اور اپاہج کے متعلق سوچتا رہا۔ کئی دن کے بعد پھر سیر کے لئے نکلا۔ بادشاہ نے مصاحبین کو تاکید کر دی کہ کوئی مصیبت زدہ اس کے سامنے نہ آئے۔ مگر جس طرف سے گزر رہا تھا ادھر سے ایک جنازہ نکلاجس پر اس کی نظر پڑ گئی۔ اس نے پوچھا یہ کیا ہے؟ ساتھ والوں نے بتایا ایک انسان مر گیا ہے۔ یہ اس کی لاش ہے۔ یہ سن کر وہ پھر فکر میں پڑ گیا۔ تیسری بار پھر جب سیر کے لئے نکلا تو ایک بڈھا دیکھا جو بہت کمزور اور ضعیف ہو چکا تھا۔ اس نے جب پوچھا یہ کیا ہے تو اسے بتایا گیا کہ انسان بڑی عمر کا ہو کر اس طرح ہو جاتا ہے۔ ان نظاروں کے دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سمجھا اس دنیا کا آرام و آسائش سب ہیچ ہے۔ کوئی ایسی راہ نکالنی چاہئے کہ انسان ان دکھوں سے بچ جائے۔ اس کی شادی ہو چکی تھی اور اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ مگر ایک رات وہ بیوی اور بچہ کو سوتے چھوڑ کر محل سے باہر نکل گیا اور مدتوں خدا تعالیٰ کی تلاش میں پھرتا رہا۔ آخر اس نے خدا تعالیٰ کو پا لیا اور اس کا نام بدھ یعنی عقل مجسم ہوا۔ اس وقت اس کے ملک کے لوگوں نے اس کی صداقت بھری باتوں کا انکار کیا اور اب بھی کئی لوگ انکار کرتے ہیں۔ مگر اس عارف نے جو عرب کی سرزمین میں پیدا ہوا بتا دیا۔
اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ۔(فاطر:25)
اس انسان میں بھی خدا کا جلوہ تھا۔
غرض دنیا کے ہر حصہ میں ایسے وجود ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان میں خداتعالیٰ کا حسن جلوہ گر تھا اور خدا ان کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوا۔ مگر انسانوں کے دلوں کے بغض اور کینے عداوتیں اور دشمنیاں دوسری قوموں کے خدا رسیدہ لوگوں کے دیکھنے میں روک بن رہی ہیں۔ ان سب روکوں کو دور کرتے ہوئے محمدﷺ فرماتے ہیں۔ یہ غلط ہے کہ خدا نے صرف ہندوستان میں اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ یا صرف ایران میں اپناجلوہ دکھایا بلکہ خدا ہر جگہ اور ہر ملک میں ظاہر ہوا۔ ایسا عرفان کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھایا۔ وہ محمدﷺ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ بے نظیر عرفان ہے۔ جس کی مثال نہیں ملتی۔ محمدﷺ نے مکہ میں بیٹھے ہوئے دور شمال میں خدا تعالیٰ کا جلوہ دیکھا۔ اور جنوب میں خدا تعالیٰ کے پیاروں کو پایا۔ دور مشرق اور مغرب میں خدا نما انسان دیکھے اور سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد دیکھے۔ یہ ہے وہ عرفان جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم
خواہ خدا بدھ کی شکل میں یا کنفیوشس کی شکل میں یا زرتشت کی شکل میں یا کرشن اور رام چندر کی شکل میں یا موسیٰ اور عیسیٰ کی شکل میں یا کسی اور شکل میں جلوہ گر ہوا رسول کریمﷺ نے دیکھ لیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں محمدﷺ گذشتہ انبیاء سے آخر میں پیدا ہوئے تو اس سے انہیں کیا فضیلت حاصل ہو سکتی ہے۔ میں کہتا ہوں ذرا سوچو تو سہی ساری دنیا خدا کی اولاد کی طرح ہے۔ اگرچہ باپ بیٹے کے نقشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں ضرور جھلک پائی جاتی ہے۔ اور بیٹے کی باپ سے مشابہت ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو تمام انسانوں کا خالق ہے اس کی مشابہت بھی مخلوق سے ہونی چاہئے۔ اور اعلیٰ درجہ کے بندوں سے زیادہ اس کی مشابہت ہونی چاہئے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک چھوٹا بھائی گم ہو جائے اور جب کہیں ملے تو بڑا بھائی اسے پہچان لے مگر اس سے چھوٹا جو گم ہونے والے کے بعد پیدا ہوا۔ وہ اگر گم ہونے والے بھائی کو پہچان لے تو ان سے میں کون بڑا عارف ہو گا۔ یقیناً وہی بڑا عارف ہو گا جس کے دیکھنے سے بھی پہلے اس کا بھائی گھر سے نکل گیا تھا۔ مگر جب اس نے دیکھا تو اسے فوراً پہچان لیا۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کو کس طرح پہچانتا ہے۔ اسی طرح کہ اس میں اپنے باپ کی کچھ نہ کچھ مشابہت پا لیتا ہے۔ اور اس طرح بھائی کا پہچاننا باپ کا پہچاننا ہوتا ہے۔ جب محمدﷺ نے اپنے بعض نبی بھائیوں کو بعد میں آ کر پہچان لیا تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس جس میں بھی یہ مشابہت پائی جائے گی اسے رسول کریمﷺ نے پہچان لیا۔ اس میں صرف محمدﷺ ہی مخصوص ہیں اور انبیاء نے اپنے اندر خدا تعالیٰ کو پہچانا۔ مگر رسول کریمﷺ نے اپنے ہی اندر خدا تعالیٰ کو نہ پہچانا بلکہ دوسروں میں بھی پہچانا اور اپنے زمانہ سے بہت عرصہ قبل آنے والوں میں پہچانا۔ اس سے بڑھ کر عارف اور کون ہو سکتا ہے۔
چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے۔ اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں۔ ذکر حبیب جتنا بھی ہو حبیب ہی ہوتا ہے۔ اب میں دعا کرتا ہوں کہ محمدﷺ میں ہو کر ہم بھی دنیا میں صلح اور امن قائم کر سکیں۔ اور جس طرح رسول کریمﷺ نے ہر چیز میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اسی طرح ہم بھی ہر چیز میں خدا کو دیکھیں اور پہچان لیں۔
(الفضل 11 نومبر 1930ء)
٭…٭…٭