میری ذمہ داری بحیثیت شوہر
عا م با ت ہے کہ عو رتو ں اور مردوں کے حقوق بحیثیت انسا ن کے برابر ہیں ۔جس طرح بیو یوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خا وندوں کے حقوق کا خیا ل ر کھیں با لکل اسی طرح خا وندوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بیویوں کے حقوق کا خیال ر کھیں ۔میاں بیو ی کے تعلق میں اگر محبت ،اخلا ص ،وفا شامل نہیں تو پھر وہ تعلق مضبو طی سے قا ئم نہیں ہو سکتا ۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فر ما تے ہیں :
مو من کو اپنی بیوی سے نفر ت اور بغض نہیں ر کھنا چاہیے۔اگر اُس کی ایک با ت تجھے نا پسند ہے تو کچھ اچھی با تیں بھی ہو ں گی ۔ہمیشہ اچھی با توں پر نظر رکھو ۔ (مسلم)
حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام فر ما تے ہیں :
چا ہئے کہ بیو یوں سے خا وند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہو تا ہے ۔انسان کے اخلا ق ِفا ضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عور تیں ہو تی ہیں ۔اگر ان ہی سے اس کے تعلقا ت اچھے نہیں تو پھر کس طر ح ممکن ہے کہ خدا تعا لیٰ سے صلح ہو ۔ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے
خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖتم
میں سے ا چھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے ا چھا ہے ۔(ملفو ظا ت جلد5صفحہ418)
حضرت خلیفۃ المسیح الا وّل ؓ فر ما تے ہیں :
’’عورت مرد کے تعلق کی آپس میں ایسی خطر نا ک ذمہ دا ری ہو تی ہے کہ بعض اوقات معمو لی معمولی با توں پر حُسن وجمال کا خیا ل بھی نہیں ر ہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نہج میں ناپسند ہو جا تی ہیں اور ان کے فعل سے کر ا ہت پیدا ہو تے ہو ئے کچھ اور کا اور ہی بن جا تا ہے ۔اس لئے خدا تعالیٰ نے فر ما یا :
وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا(النساء :20)
پس عزیز و !تم د یکھو ۔اگر تم کو اپنی بیو ی کی کو ئی بات نا پسند ہو توتم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلو ک ہی کرو ۔اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے ہم اس میں عمد گی اور خوبی ڈا ل د یں گے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک با ت حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بُری معلوم ہو تی ہے ۔‘‘(حقا ئق الفر قان جلد 2صفحہ 21 )
آنکھوں کی ٹھنڈ ک
سید نا حضر ت خلیفۃ المسیح الرا بع ؒفر ما تے ہیں :
’’چنا نچہ قرآن کریم فر ما تا ہے کہ جب تک دونوں فر یق ایک دوسرے کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنیں ،اُس وقت تک یہ تو قع ر کھنا کہ اولا د سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو گی یہ ا یک فر ضی با ت ہے اور اس میں ایک بہت گہری حکمت بیان کی گئی ہے جس کا انسانی نفسیا ت سے گہرا تعلق ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ والدین جو ایک دوسرے سے آنکھوں کی ٹھنڈک پا تے ہیں اُن کی اولا دیں ہمیشہ اُن کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنتی ہیں ۔تر بیت میں یکجہتی پا ئی جا تی ہے اور ایک ہی مزا ج کے سا تھ بچے پرورش پا رہے ہو تے ہیں اور ماں با پ جو ایک دوسرے سے سچا پیا ر کر نے والے اور ایک دوسرے کا ادب کر نے والے اور ایک دوسرے کا لحا ظ کر نے والے ایک دوسرے کی ضروریا ت کی طرف د ھیان ر کھنے والے اور اخلاق سے پیش آنے والے ماں باپ ہو تے ہیں ،اُن کی اولاد بھی اپنے ماں با پ سے پیا ر کر نے والی بنتی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نسبتاً بہتر تعلقا ت قا ئم کرتی ہے اور ایسی اولا د پھر ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جا تی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مو رخہ 29جون 1990ء )
نر می کا برتا ؤ
اللہ تعالیٰ نے عورت کو نا زک بنا یا ہے ۔مرد اُس کے مقابلہ میں طا قتور ہو تا ہے ۔اس لیے عورت کے ساتھ بر تا ؤ بھی نر می کا رکھنا چا ہیے ۔
ہما رے سامنے ہما رے پیا رے انبیا ئےکرام ،خلفا ئے را شدین اور حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کی زندگی کے نمو نے مو جود ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنی بیو یوں پر ہا تھ نہیں ا ُ ٹھا یا۔ سختی سے بات نہیں کی۔
حضرت مسیح مو عود علیہ السلام اپنے ایک صحا بی کو خط لکھتے ہو ئے فر ما تے ہیں :
’’خو نخوا ر انسا ن نہیں بننا چا ہئے ۔بیو یوں پر رحم کر نا چاہئے اور ان کو دین سکھانا چا ہئے ۔در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسا ن کے اخلا ق کے امتحان کا پہلا مو قع اس کی بیوی ہے۔مَیں جب کبھی ا تفا قاًایک ذرہ در شتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کا نپ جا تا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کو س سے میرے حوالہ کیا ۔شا ید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نما زمیں میرے لئے د عا کرو کہ اگر یہ امر خلا ف مر ضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معا ف فرما دیں اور میں بہت ڈرتاہوں کہ ہم کسی ظالما نہ حر کت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔سومیں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کر یں گے۔‘‘ (الحکم جلد9نمبر13مورخہ17؍اپریل1905ءصفحہ6)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی رنگ میں اپنی گھر کی جنت کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(قمر سراء ۔ جرمنی)
٭…٭…٭