عہد حاضر کے عظیم سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب (قسط دوم۔ آخری)
ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نے اپنی زندگی کو صحیح دینی اصولوں کے مطابق ڈھال کر امامِ وقت،والدین،بزرگوں، اساتذہ،غریبوں اور دکھی انسانوں کی دعائوں کا مستحق بنایا اور خدا تعالیٰ نے ان کے با برکت وجود کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی پوری فرمائی۔انہوں نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا اور سائنسدانوں اور دیگر اثرو رسوخ والے افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ نوبیل انعام ملنے کے بعد 1979ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ذہین بچوں کو سوا لاکھ روپے ہر سال دینے کےلیے ایک کمیٹی تشکیل فرمائی جس کے صدر کے طور پر ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کو مقرر فرمایا۔
ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کی کامیابیوں کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا قول اور سائنس کو خدا تعالیٰ کا فعل سمجھتے تھے۔اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھتے تھے۔ہمیشہ اپنی تقریروں میں آپ قرآن کریم کے ان حکموں کو پیش کرتے جن میں سائنسی علوم حاصل کرنےکی جانب تاکید کی گئی ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ آپ جلد صحیح نتائج تک پہنچ جاتے۔
ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نہ صرف ایک قابل سائنسدان بلکہ ایک نہایت جذباتی اور محب وطن پاکستانی بھی تھے۔آپ نے اپنی زندگی کا بہت عرصہ دیار غیر میں گزارا۔مگر کبھی بھی اپنی شہریت تبدیل نہیں کی۔ بلکہ زندگی کے آخری ایام تک ایک محب وطن پاکستانی رہے اور ہمیشہ پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب نوبیل انعام لینے کے لیےشاہ سویڈن سےملنے گئے تو اپنے قومی لباس میں گئے۔
( ماخوذاز پہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 9)
وطن عزیز کے لیے خدمات
ڈاکٹرعبدالسلام صاحب جانتے تھے کہ سائنس کی تعلیم کا فروغ ترقی پذیر ممالک کو معاشی بد حالی سے نجات دلانے اور ان کی ترقی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔اس سلسلہ میں آپ کی کاوشوں کی بدولت پاکستان میں پہلی بار ایٹمی توانائی کے کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔
1961ءمیں صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی پیشکش پر آپ نے بغیر تنخواہ کےحکومت کا سائنسی مشیر بننا منظور کیا تاکہ ملک کے تعلیمی نظام کو معیاری بنانے کےلیے مفید مشورے اور تجاویز دےسکیں۔اس کمیشن نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں سائنسی اور تکنیکی تعلیم کےلیے کم از کم اتنے ادارے ضرور ہوں جن سے ہر سال کم و بیش 7000تکنیکی ماہرین جدید تعلیم سے بہرہ ور ہو سکیں۔اسی طرح ملک میں کئی تکنیکی تعلیمی اور انجنیئرنگ کے ادارے قائم کیے گئے۔خصوصی کالج کھولے گئے جہاں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری تک سائنسی تعلیم دی جانے لگی۔گویا ملک میں سائنسی تعلیم کے حصول کی داغ بیل پڑ گئی۔اس کمیشن کے مزید فرائض میں تعمیر شدہ اداروں کی نگرانی اور ان کی ترقی کےلیے اقدامات کرنا تھا۔1961ءمیں جب آپ کو صدر مملکت کا چیف سائنسی مشیر بنایا گیا تو قدرت نے آپ کو ایک نادر موقع دیا کہ آپ سا ئنس کے شعبہ کو مزید فروغ دے سکیں۔چنانچہ آپ نے پوری لگن اور تن دہی سے دن رات کام کیا اور اس کی بدولت قلیل عرصہ میں پاکستان میں60سائنسی تنظیمیں اور سائنس سے متعلقہ شعبے قائم ہو گئے جو یقیناً ایک بہت بڑ ی کامیابی تھی۔
ڈاکٹر عبد السلام صاحب پاکستان میں ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم کرنے کے خواہاں تھے جہاں دنیا کے تمام گوشوں سے سائنسدان اکٹھے ہوں اور تحقیق کے اس سفر میں مل کر کام کریں،اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع مل سکے تاکہ وہ بھی جستجو اور تحقیق کے اس سفر میں ان کے شانہ بہ شانہ ترقی کر سکیں۔ اس لیے آپ کی خواہش تھی کہ یہ ادارہ وطن عزیز میں قائم ہو اور انہوں نے اس کے لیے اپنی جانب سے حکومت کو ایک خطیر رقم بھی پیش کی مگر حکومت ِوقت کی اجازت نہ ملنے پر یہ ادارہ پاکستان میں قائم نہ ہوسکا۔ بعد ازاں یہی ادارہ اٹلی کے خوبصورت شہر ٹریسٹے (Trieste)میں قائم کیا گیا۔اس ا دارے کا نام انٹرنیشنل سینٹر فارتھیو ریٹیکل فزکس(I.C.T.P) رکھا گیا۔جہاں ترقی پذیر ممالک کے بے شمار سائنسدان ماہرین کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ ’’ تیسری دنیا کی سائنس اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا بنیادی کام سائنسی تعلیم کا فروغ ہے۔
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ17؍اکتوبر2009ءمیں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں مکرم شیخ ناصر احمد خالدصاحب کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا ہےکہ
جب ڈاکٹر سلام صاحب کا لاہور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں فیض میموریل لیکچر دینے کا اعلان اخبارات میں ہوا تو فیض صاحب کی بیٹی پروفیسر سلیمہ ہاشمی اور داماد پروفیسر شعیب ہاشمی کے بقول یہ لاہور میں سائنس کا کھڑکی توڑ ہفتہ تھا۔ کیونکہ ہوٹل کے ہال میں 800 لوگوں کی گنجائش ہے اور دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو انکار کیا گیا ہے۔
اس لیکچر کے لیے سیکیورٹی کے خاص انتظامات کیے گئے تھے اور منتظمین بھی خاصے فکرمند تھے۔ کیونکہ ڈاکٹر سلام صاحب کا نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعدپنجاب یونیورسٹی میں ایک لیکچر پُرتشدد احتجاج کے باعث منسوخ کرنا پڑا تھا۔ بعد میں سلام صاحب لیکچر دینے جب اسلام آباد گئے تو پھر ہنگامہ آرائی کی گئی اور رینجرز اور پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی۔
اس پس منظر میں منتظمین کی تشویش بالکل بجا تھی لیکن خداتعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کا پہلا اور شاید آخری پبلک لیکچر بہت عمدگی اور امن سے ہوگیا۔ جس پر فیض فاؤنڈیشن والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے لیکچر دینے سے قبل فرمایا کہ (ڈاکٹر) محبوب الحق (جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ) نے کہا ہے کہ سلام پاکستان آنے سے ڈرتا ہے۔ مَیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں پاکستان آنے سے نہیں ڈرتا بلکہ میرے دوست مجھے یہاں بلانے سے ڈرتے ہیں۔ اِس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
ڈاکٹر سلام نے فیض میموریل لیکچر کے شروع میں کہا کہ جب یورپ میں میرے دوستوں کو علم ہوا کہ مَیں اس لیکچر کے لیے پاکستان جارہا ہوں تو انہوں نے بہت حیرانگی کا اظہار کیا کہ سلام سائنس کا آدمی ہے اور فیض شعر و شاعری کی دنیا کا باسی اور حسن و عشق کی باتیں کرنے والا! دونوں عالمی شخصیات دو مختلف دنیاؤں کی رہنے والی ہیں تو ان میں قدر مشترک کیا ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا جواب یہ دیا کہ مَیں اور فیض دونوں دوسرے ملکوں میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دونوں ہی حکومت پاکستان کے نزدیک ناپسندیدہ اشخاص ہیں۔
سلام کی فیض سے بہت دوستی تھی۔ ایک دفعہ دونوں کو خراب موسم کی وجہ سے یورپ کے کسی ایئرپورٹ پر مجبوراً کئی گھنٹے رکنا پڑا۔ اس موقع پر سلام کی فرمائش پر فیض نے اپنے ہاتھ سے اپنی مشہور نظم
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
سلام کی ذاتی ڈائری پر لکھ کر دی۔
اسی مضمون میںآگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ٹریسٹے (اٹلی) کے آئی ٹی سی سینٹر کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام نے 1964ء سے 1994ء تک انتھک خدمات سرانجام دیں۔ ریٹائرمنٹ پر آپ کے اعزاز میں جو پُروقار الوداعی تقریب منعقد ہوئی اُس میں دنیا کے ہر خطّہ سے سینکڑوں سائنسدان جمع ہوئے۔ ان میں دس نوبیل انعام یافتہ سائنسدان بھی شامل تھے۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ڈاکٹر سلام صاحب کو اُن کے علمی کارناموں پر خراج تحسین پیش کیا۔ یہ افراد ڈاکٹر صاحب کے سامنے آکر رکتے۔ عقیدت سے سرجھکاتے اور الوداعی الفاظ ادا کرتے ہوئے انہیں سلام کرتے اور آگے گزر جاتے۔
اس خصوصی تقریب میں موجود ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بیان کرتے ہیں کہ اس شاندار الوداعی تقریب میں کسی طرح ایک پاکستانی طالب علم نے اپنی باری پر جھک کر سلام صاحب کو سلام کیا اور عقیدت کے پھول پیش کرنے کے بعد کہا ’’سر! میں پاکستان سے آیا ہوں اور پاکستان کو آپ پر فخر ہے۔‘‘ اپنے پیارے وطن پاکستان کا نام سن کر ڈاکٹر صاحب نے کندھوں کو اچکا۔ ان کا جسم کانپنا شروع ہوگیا۔ پاکستان کے لفظ نے ان کے وجود ان کی روح اور دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کچھ لمحے بول نہ سکے اور بے اختیار آنسو ان کی آنکھوں سے نکل کر رخساروں سے نیچے بہنے لگے۔ اس تقریب کی فضا غمناک اور افسردہ ہوگئی۔ اس وقت یقینا ًان کے دل میں یہ خیال گزرا ہوگا کہ وہ اس عظیم درسگاہ کو اٹلی کی بجائے اپنے وطن پاکستان میں کیوں قائم نہ کرسکے۔
(ماخوذازروزنامہ الفضل ربوہ17؍اکتوبر2009ءصفحہ5تا6)
اسلامی دنیا کے لیے خدمات
ڈاکٹر عبد السلام صاحب بلا شبہ ایک عظیم انسان تھے۔ایک بین الاقوامی انسان تھے جو قوم اور مذہب سے بالا تر ہو کر تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے سوچتے تھے۔ان کی سوچ کائنات کی طرح وسیع تھی۔ان کے دل میں وطن عزیز کی محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کربھراتھا۔ان کی ہمیشہ سوچ یہ رہی کہ اگر اسلامی ممالک اپنی سالانہ قومی آمدنی کا صرف ایک فیصد سائنس کی ترقی کے لیے مختص کردیں تو وہ بھی نہ صرف دوسرے ممالک کی طرح ترقی کر سکتے ہیں بلکہ اپنا کھویا ہوا تشخص بھی پا سکتے ہیں۔آپ سائنسی خدمات کی بدولت 700سال بعد مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کرنے کا موجب بنے۔آپ نے اسلامی ممالک میں سائنسی علوم کی ترقی کے لیے حکومتوں کو مشورے دیے۔اسلامک سائنس فاؤنڈیشن قائم کی۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کو عالمی سطح پر سائنس کا ایک مرکزبنانے کی تجویز دی اور اس کام کے لیے اپنے نوبیل انعام کی ساری رقم دینے کا اعلان کیا۔
عبد السلام بحیثیت گھر کے سربراہ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ دسمبر 2000ء میں محترمہ ڈاکٹر عزیزہ رحمٰن صاحبہ کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنے والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ میرے والد ایک منفرد انسان اورایک مشفق باپ تھے۔جب مَیں اپنے والدین کے ساتھ لندن منتقل ہوئی تو میری عمر تین سال تھی۔ اباجان نے سینٹ جانز کالج میں ملازمت کو ترجیح دی کیونکہ یہاں کے باغات دل پذیر تھے۔ آپ کا ہردلعزیز مشغلہ ہمیں دریا پر لے جاکر کشتی کی سیرکروانا تھی۔ جب کچھ سالوں بعد ہم لندن منتقل ہوگئے اور میرے والد امپیریل کالج میں تعینات ہوگئے تو پھر آپ بہت مصروف ہوگئے۔ بعض دفعہ ایک ہی ہفتہ میں چار پانچ ممالک میں لیکچر دیتے تھے مگر اس کے باوجود ہماری تعلیم و تربیت کے لیے وقت نکال لیتے تھے۔ تعلیم کے معاملہ میں کافی سختی کرتے تھے۔ سفر سے واپس آتے تو ہر ایک کو اپنے کمرے میں بلاتے، ہمارے گریڈز اور تعلیمی پراگرس کے بارے استفسار کرتے، زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی تلقین کرتے۔ خود بھی ہر وقت کام میں مگن رہتے۔ گھنٹوں مطالعہ میں منہمک رہتے اور بعض دفعہ تو کمرہ سے باہر صرف کھانا کھانے کے لیے آتے۔ آپ کے کمرہ کا ماحول پُراسرار ہوا کرتا تھا۔ ٹمپریچر کافی اونچا ہوتا۔ بعض مقامات پر اگربتیاں جل رہی ہوتیں، بیک گراؤنڈ میں قرآن کریم کی تلاوت کی ٹیپ لگی ہوتی۔ باہر سے آنے والے شور کو کم کرنے کے لیے کھڑکیوں پر ویلویٹ کے پردے کھینچے ہوئے ہوتے۔ ہمیں بچپن سے ہی پتہ تھا کہ جب آپ کمرے میں ہوں تو ہم نہ اونچی آواز میں بولیں نہ گھر میں بھاگیں دوڑیں۔
آپ نے اپنا جو روزانہ کا معمول طے کیا ہوا تھا، اُس پر مذہبی فریضہ کی طرح کاربند تھے۔ اس مقولہ پر سختی سے عمل کرتے:
Early to bed, early to rise, makes a man healthy, wealthy and wise.
رات آٹھ نو بجے بستر پر چلے جاتے اور چند گھنٹوں کے بعد بیدار ہوکر تحقیقی کام شروع کرتے۔ پو پھٹنے کے وقت آپ کی قوت ارتکاز اور قوت تخلیق چوٹی پر ہوتی جسے برقرار رکھنے کے لیے گرم میٹھی چائے سے بھرا تھرموس اور کچھ کھانے کی چیزیں ہم سونے سے قبل آپ کے بستر کے قریب رکھ دیتے تھے۔
آپ کی سب سے بڑی میراث اُن کتب کا خزانہ ہے جو آپ چھوڑ گئے ہیں۔ آپ نے ہر موضوع پر کتب کا مطالعہ کیا اور آپ کا علم مختلف موضوعات پر بحر بیکراں کی طرح تھا۔ نئی اور پرانی کتب خریدنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہمارے گھر کا کوئی کمرہ بشمول باتھ روم کے ایسا نہ تھا جس میں دیواروں پر شیلف نہ لگے ہوں اورجو کتابوں سے بھرے ہوتے۔ آپ کے نزدیک وقت کی اہمیت سب سے بیش قیمت تحفہ تھا جس کا زیاں گناہ سے کم نہ تھا۔ آپ اکثر ہمیں میوزیم، انسٹیٹیوٹس اور تاریخی مقامات کی سیر کے لیے لے جاتے۔ پارک میں بھی لے جاتے لیکن ہر جگہ کوئی نیا سبق دیتے اور بعد میں اُس کو دہراتے بھی تھے۔آپ کو تین باتوں سے والہانہ لگاؤ تھا: قرآن کریم، والدین اور وطن عزیز۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍جولائی 2001ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بیٹے مکرم احمد سلام صاحب کے قلم سے اپنے والد کے بارہ میں ایک انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ’’میرے ابی۔ ڈاکٹر عبد السلام‘‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ابی سے جب بھی پوچھا جاتا کہ اُن کے کتنے بچے ہیں تو وہ جواب دیتے: کئی ہزار۔ یہ وہ بچے ہیں جن کو ابی نے دوسری امداد کے علاوہ بہت حوصلہ، توجہ اور جذبہ دیا۔
اُن کے لندن میں چند گھنٹے کے قیام کے دوران ہمارے باہمی رشتہ کی پیاس کا خاطرخواہ علاج ہونا مشکل تھا۔ جب وہ تشریف لاتے تو اُن کا اصرار ہوتا کہ ہم ایک ڈنر اکٹھا کھائیں۔ کھانے کی میز پر وہ سب سے باری باری تعلیم اور دیگر مسائل کے بارے میں پوچھتے۔ مسائل کی جڑ تک فوراً پہنچ جاتے اور ایک لمحہ میں انہیں حل فرمادیتے۔ وہ ہمارا بہت خیال رکھتے اور ہر ممکن طریق پر ہماری مدد کرتے۔ اُن کو یقین تھا کہ وہ ہمیں تھوڑا سا وقت دے کر بھی پورا فائدہ اٹھاسکیں گے۔ دراصل انہیں تسلّی تھی کہ ہماری والدہ ہماری نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی اور روحانی پرورش کا بھی پوری طرح خیال رکھ رہی ہیں۔میری عمر چودہ سال تھی جب انہوں نے نصیحت کی: ’’دوسروں کی پرواہ مت کرو کہ وہ کیا کہیں گے، اصل بات یہ ہے کہ تم کیا سمجھتے ہو۔ اگر تم اسے درست سمجھتے ہو تو کر گزرو۔‘‘
ابی ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی حتمی رائے تھی کہ ہم والدین کی دعاؤں کے ہمہ وقت محتاج ہوتے ہیں اور وہ ہمارے بہترین خیرخواہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نمونہ سے ہمیں بتایا کہ والدین کی خدمت اوّل فرائض میں سے ہے۔ ابی نے مجھے آداب اور شائستگی سکھائے۔ ہر مہمان کو پوری محبت اور عزت دیتے خواہ اُس کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو۔جب بھی وہ لندن آتے، مسجد ضرور جاتے لیکن نماز ادا کرتے ہی روانہ ہوجاتے۔ اگر کوئی ملنا چاہتا تو رُک کر بات کرتے لیکن پھر جلد چل پڑتے۔ انہیں گپیں لگانا اور غیبت کرنا سخت ناپسند تھا۔ کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ٹیلی ویژن دیکھنا بھی وقت کا ضیاع تھا سوائے دو مزاحیہ پروگراموں کے۔
ابی کو جلد سونا اور جلد جاگنے کا اصول بہت پسند تھا۔ اسی طرح کھانے کے دوران فون نہ لیتے۔ گہری نیند سوتے اور آنکھیں بند کرتے ہی آسانی سے سو جاتے۔ جہاں بھی وقت ملتا سو لیتے یا پھر کام کرتے۔ شاپنگ کو وقت کا ضیاع سمجھتے اور ناپسند کرتے…میرے لیے کتابوں کے حصول میں کوئی حد بندی نہ تھی لیکن لازم تھا کہ کتاب کی دیکھ بھال کی جائے۔ علم سے محبت اُن کی شخصیت کا مستقل جزو تھا۔اسلامی آرٹ، شعر و شاعری، عمارات میں گہری دلچسپی تھی۔ کام میں مصروف ہوتے تو بیک گراؤنڈ میں تلاوت سے انہیں روحانی تسکین ملتی۔اتنی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب عمر کے آخری حصہ میں بیماری شدید ہوگئی تو انہوں نے بیماری کو اللہ کی مشیت سمجھ کر صبر سے برداشت کیا اور کبھی ناراضگی یا شکایت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا اُن کی زندگی کا اصول تھا۔
(ماخوذ ازروزنامہ الفضل ربوہ9؍جولائی2001ءصفحہ3تا4)
بیماری اور وفات
ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز 1949ءسے1950ءمیں کیا تھا،اور مسلسل 1993ءتک تحقیقی کاوشوں میں مصروف رہے۔بہت کم لوگ ہیں جن کی تحقیق کا عرصہ اس قدر طویل ہو۔اس بات کا قوی امکان تھا کہ انہیں دوبارہ نوبیل انعام ملے،مگر ان کی صحت خراب ہوگئی اور وہ پٹھوں کی ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گئے۔پھر بھی جب تک ہمت رہی وھیل چیئر پر کام کرتے رہے۔سفر بھی کرتے رہے اور مختلف ممالک کے دورے بھی کیے۔ حتیٰ کہ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگئے پر پھر بھی نہایت صبر اور حوصلے سے بیماری کو برداشت کیا۔آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان اور دنیا کے پسماندہ ممالک سے جہالت اور غربت دور ہو اور دنیا میں امن قائم ہو۔غریب ممالک بھی سائنس کی ترقی کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے قابل ہوجائیں۔اپنے وطن کی محبت سےاکثر آبدیدہ اور بےقابو ہوجاتے۔حکومت پاکستان نے ایک مرتبہ آپ کو علاج کے اخراجات دینے کی پیشکش بھی کی مگر آپ نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ملک کی غریب عوام کا پیسہ اپنے آپ پر خرچ کروں بلکہ میری یہ خواہش ہے کہ حکومت یہ پیسہ ملک و قوم کی فلاح اور سائنس کی ترقی اور فروغ کے لیے خرچ کرے۔
اپنی ساری استعدادیں بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود میں لگا کر 21؍نومبر 1996ءکو لندن میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ وفات کے وقت آپ 71برس کے تھے۔
نماز جنازہ اور بہشتی مقبرہ میں تدفین
22؍نومبر1996ءکونمازجمعہ کےبعدحضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے ڈاکٹر عبد السلام کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثرت سے احباب جماعت شریک ہوئے۔ جنازہ پڑھانے سے قبل حضورؒ انہیںمحبت بھری نگاہوں سے دیر تک دیکھتے رہے اور ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور تابوت کو کندھا دیا۔
آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق وطن عزیز میں اپنےوالدین کے قدموں میں دفن کیا گیا۔دنیا بھر میںآپ کی وفات پر اظہار افسوس کیا گیا۔
آپ کی وفات کے بعد اٹلی میں ان کےقائم کردہ سینٹر میں ماہرین طبعیات نے متفقہ طور پر I.C.T.P کا نام تبدیل کرکے ’’عبدالسلام ‘‘سینٹر رکھ دیا۔
(ماخوذازپہلا احمدی مسلمان سائنسدان،صفحہ13)
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب وہ قابل ہستی ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیاوی علوم میں ترقیات کی رفعتوں کو چھؤا بلکہ نہایت مخلص اور فدائی احمدی ہوتے ہوئے،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ سے والہانہ عشق رکھتے ہوئے اور خدمات سلسلہ کےلیے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہوئے آپ نے روحانی علوم کے ایک آسمان کی بلندیوں اور پاک فضا میں بھی پرواز کی۔چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کی وفات پر فرمایا:
’’اب یہ ہمارا بہت ہی پیارا،علموں کا خزانہ،دنیاوی علوم میں بھی اور روحانی علوم میں بھی ترقی کرنے والا،ہمارا پیارا ساتھی اور بھائی ہم سے جدا ہوا،اللہ کے حوالے،اللہ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍نومبر1996ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جنوری1997ءصفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کہ
’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 409)
قیامت تک محیط ہے اس لیے علمی میدان میں غلبہ کے حصول کے لیے ایک نہیں سینکڑوں’’ عبدالسلام‘‘ کی ضرورت ہے۔خدا کرے کہ ہمیں یہ نصیب ہوں۔آمین
محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بطور استاد، ہم منصب اور دوست
یونیورسٹی آف تسمانیہ(آسٹریلیا)میںتھیوریٹیکل فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ ڈیل بورگو(Robert Dellbourgo)نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارےمیں 1997ء میں جو تقریر کی اس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان مارچ 2011ء میں شامل اشاعت ہے۔
ڈاکٹر رابرٹ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زیرنگرانی امپیریل کالج سےPhDکی ڈگری حاصل کی۔1964ء میں ICTP میں ملازمت شروع کی۔1966ء میں امپیریل کالج میں لیکچرار بنے اور1976ء میں واپس آسٹریلیا چلے گئے۔ڈاکٹر سلام صاحب کے ساتھ مل کر انہوں نے قریباً تیس سائنسی مقالے لکھے۔انہوں نے بیان کیا کہ ڈاکٹر سلام صاحب نے میری زندگی میں مختلف رول ادا کیے۔ بطور استاد، پھرPhDکے سپروائزر، پھر ICTP میں بطور Bossاور پھر ایک ہم منصب اور نہایت قریبی دوست۔
بطور استاد وہ لیکچر دینے سے لطف محسوس نہیں کرتے تھے لیکن اُن کی کمرتوڑ رفتار کے باوجود مَیں نے اُن کو سب سے زیادہ انسپائر کرنے والا استاد پایا۔ وہ شاگردوں کے ساتھ گھل مِل جاتے تھے۔ آپ فطری طور پر طالب علموں کے لیے انسپائریشن کا منبع تھے۔ پوسٹ گریجویٹ طلباء کی ایک تہائی تعداد آپ کی وجہ سے امپیریل کالج میں تعلیم حاصل کرنے آیا کرتی تھی۔ لیکن آپ کام لینے کے معاملہ میں سخت گیر تھے اور بہت کم طالب علم آپ کی کڑی نگاہوں سے بچ کر چھپے رہ سکتے تھے۔ آپ کا ذرخیز دماغ کسی سائنسی مسئلےکے نئے پہلو کی تلاش میں رہتا۔ حسب معمول وہ روزانہ میرے کمرے میں تشریف لاتے، ہاتھو ں کو آپس میں رگڑتے اور استفسار کرتے کہ کیا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے؟ کسی مسئلے پر آپ اُن کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے ہمت باندھتے تو خود آپ کو سو فیصد مطمئن ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب کو مسئلے کا جواب وہبی طور پر معلوم ہوتا تھا اور اکثر اُن کا جواب درست ہوتا تھا۔ اگر آپ اُن سے پوچھتے کہ وہ اپنے جواب سے کیوں اس قدر پُریقین تھے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی، ہاتھ کے انگوٹھوں کو دائرے میں گھماتے، کرسی میں پیچھے ہوکر نیم دراز ہوجاتے اور انگلی آسمان کی طرف اٹھاکر اشارہ کردیتے۔ اور اگر ایسا ہوتا کہ دوسرا میدان نہ ہارتا اور کسی موقع پر صحیح بھی ہوتا تو وہ آپ کا احترام کرتے۔ لیکن وہ کسی بھی شخص کو اپنی علمیت پر شیخی بگھارتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
میرا سائنسی شریک کار، عبد السلام
نظری طبعیات کےماہرپروفیسرجوگیش پتی (Jogesh Pati) اڑیسہ میں 1937ء میں پیدا ہوئے۔ عرصہ دراز تک یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ڈیپارٹمنٹ آف فزکس کے سربراہ رہے۔ریٹائر منٹ کے بعد سٹین فورڈ نیشنل ایکسیلیٹر لیبارٹری (SLAC) کیلیفورنیا میں کام کررہے ہیں۔ آپ نے مئی 1997ء میں ایک مضمون تحریر کیا تھا جو کہ ’’فزکس ٹوڈے‘‘، ’’انڈین فزکس ایسوسی ایشن‘‘ کے میگزین ’’فزکس نیوز‘‘ اور انڈین فزکس ایسوسی ایشن کی امریکن برانچ کے رسالہ ’’نیوز لیٹر‘‘ میں بھی شائع ہوا تھا۔
روزنامہ الفضل ربوہ 3؍مئی 2010ء میں اس مضمون کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس میں لکھتے ہیں کہ عبد السلام کی وفات ستر سال کی عمر میں 21؍نومبر 1996ء کو ان کے اپنے گھر آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔ وہ ایک عظیم سائنسدان اور انسانیت نواز شخص تھے اور انہوں نے تیسری دنیا میں سائنس کی ترویج کے لیے زرّیں خدمات انجام دی تھیں اور اپنے فعال کیر ئیر کا کثیر حصہ اس نصب العین کے لیے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگی بھر کی کوششوں کی وجہ سے چند ایک بہترین ریسرچ سینٹرز وجود میں آئے۔ ٹریسٹ (اٹلی) میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس کی بنیاد بھی انہوں نے 1964ء میں رکھی تھی اور30سال تک اس کے ڈائر یکٹر رہے تھے۔ نیز متعدد انٹرنیشنل فاؤنڈیشنز کی بھی داغ بیل ڈالی بشمول تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کے۔ فزکس میں اہم خدمات سر انجام دینے کی وجہ سے اُنہیں متعدد انعامات دیے گئے بشمول رائل میڈل، رائل سوسائٹی آف لندن کا کوپلی میڈل، میکس ویل پرائز اور نوبیل پرائز۔ وہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے زبردست حامی تھے۔ امن اور بین الاقوامی تعاون میں خدمات کی وجہ سے ان کو کئی بڑے انعامات دیے گئے۔مثلاً 1968ء میں ایٹمز فار پیس ایوارڈ، اور1989ء میں سائنس فارپیس پرائز۔ 1989ء میں اُن کو آنریری نائٹ کمانڈر آف دی برٹش ایمپائر KBEکا لقب تفویض کیا گیا۔ یہ مان لینا خاصا مشکل ہوجاتا ہے کہ ایک واحد شخص سائنس کی تخلیق اور ترویج کے لیے اتنا کچھ کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے سلام بلاشبہ ایک منفرد انسان تھے بلکہ ایک Phenomenon تھے۔
آپ مزید تحریر کرتے ہیں …پروفیسرسلام اور میرا سائنسی تعاون1972ء میں ٹریسٹ کے میرے مختصر وزٹ کے دوران شروع ہوا تھا، اور اگلے دس سالوں تک اس میں بہت گہما گہمی رہی تھی۔
مئی 1972ء میں جب میں ٹریسٹ پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ ’’گلاشو۔سلام۔وائن برگ ماڈل‘‘ کے اصل سے قدرے مختلف نمونوں پرمقالہ جات کی بھر مار ہو چکی ہے۔ سہ پہر کے وقت چائے پینے کے دوران مَیں نے سلام سے ایک نئی تھیوری پر بات کی تو میرا خیال تھا کہ وہ فوراً اس کی نفی کریں گے اور تذبذب کا اظہار کریں گے جیسا کہ بعض دوسرے سائنسدانوں نے کیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر سلام نے کہا: ’’یہ بہت ہی اعلیٰ قسم کا خیال ہے، آؤ ہم دونوں مل کر اس پر مزید کام کرتے ہیں۔‘‘ اس قسم کی فوری ستائش میرے لیے حوصلہ افزائی کا منبع تھی۔
اس کے کچھ روز بعدپروفیسر سلام نے بہت ہی اہم آئیڈیا پیش کیا جو الیکٹران اور پروٹان کے چارجز کے بارے میں تھا۔ چنانچہ ہماری تحقیق زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ دو ہفتوں کے بعد دو پہر کے وقت مجھے ایک اَور آئیڈیا سوجھا۔ اگرچہ یہ اتوار کا روز تھا، سلام اس وقت سینٹر میں اپنے دفتر میں دفتری کام میں مصروف تھے لیکن مجھے کہا کہ میں اُن کو ملنے چلا آؤں۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے اس روز کی آخری بس مل گئی اور دوپہر کے آخری حصہ میں مرکز ICTP پہنچ گیا۔ یہ آئیڈیا جو چند گھنٹوں قبل مجھے سوجھا تھا، سلام برجستہ میرے ولولہ اور خوشی میں برابر کے شریک ہوگئے اور سوچنے لگے کہ شاید یہ نظریہ ہی بنیادی نظریہ ثابت ہوجائے۔ 1973ء میں ہماری تجویز کہ ’پروٹان زوال پذیر ہے‘، پر فزکس کمیونٹی نے شک و شبہ کا اظہار کیا تھا۔ ہمارا مقالہ ’فزیکل ریویو لیٹرز‘ میں شائع نہ ہو سکا کیونکہ ریفری نے اس کو ردّ کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں جب میں نے اس کا تردیدی جواب لکھا تو چیف ایڈیٹر نے اس کو قبول کرلیا تھا۔ ہم نے اس ضمن میں تجرباتی سائنسدانوں سے بھی رابطہ کیا کہ وہ پروٹان کے زوال پذیر ہونے کے بارے میں تجربات دوبارہ شروع کردیں۔
سلام کے ساتھ میرا سائنسی تعاون دس سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ اس دوران لاتعداد خطوط، فیکسز، فون پر دلائل اور دلائل کا ردّ، آمنے سامنے مختلف نظریات کا اظہار اور گرما گرم بحث، فزکس میں نظریاتی بحثیں، مگر یہ سب کچھ اچھے ماحول اور صاف دلی سے کیا گیا تھا…عبد السلام کو بیسویں صدی کے عظیم سائنسدان اور انسانیت نواز شخص کے طور پر یا د رکھا جائے گا جس نے تیسری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مقام کو بلند کرنے کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔
(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ3؍مئی2010ءصفحہ3تا4)
ایک پاکستانی قادیانی۔ عبدالسلام
روزنامہ الفضل ربوہ 5؍مارچ 2011ء میں انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘(21؍نومبر2010ء) میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا اردو ترجمہ شامل اشاعت ہے۔ یہ مضمون محترم ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب نے تحریر کیا ہے جو ایک ماہر طبعیات ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔
ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب لکھتے ہیں کہ پاکستان کے واحد نوبیل لارئیٹ عبدالسلام نے الیکٹرو میگنیٹک اور کمزور قوتوں کی یونیفیکشن کے سلسلہ میں کام کرنے پر 1979ء کا نوبیل انعام جیتا۔ سلام نے PhDکرنے سے پہلے فزکس اور ریاضی دونوں میں فرسٹ کلاس کے ساتھ ڈبل Tripos(یعنی دو مضمونوں میں آنرز کی ڈگری) کا نادر امتیاز حاصل کیا۔ سلام نے ریاضی میں Tripos کے طالب علم کے طور پر سینٹ جان کالج میں داخلہ لیا تھا۔ 1989ء میں گورنمنٹ کالج کے میگزین ’راوی‘ کے لیے لکھے جانے والے ایک مضمون میں سلام نے کیمبرج یونیورسٹی میں اپنی زندگی کے کچھ گوشے یوں بیان کیے کہ مَیں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے کرنے کے بعد 1946ء میں کیمبرج پہنچا۔ کیمبرج کے کلاس رومز میں طلباء بالکل اسی انداز میں بیٹھتے ہیں جیسے کہ نماز سے پہلے نمازی مسجد میں بیٹھتے ہیں۔ لیکچرار کی آمد سے پہلے مکمل خاموشی ہوتی ہے۔
میری کلاس کے دوسرے ساتھی سیدھے سکول سے وہاں داخل ہوئے تھے اور عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ مجھے ان کے برابر خوداعتمادی اور امنگوں کی سطح پر پہنچنے میں دو سال لگے۔ وہ ایسے ماحول سے آئے تھے جہاں تمام اچھے طلباء کو کیمبرج میں بھیجنے سے قبل ہر سکول ٹیچر ان کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ وہ ایسی قوم کے فرزند ہیں جس نے نیوٹن کو جنم دیا تھا اور یہ کہ طبعیات اور ریاضی کا علم ان کی میراث ہے۔ اگر وہ سچی خواہش رکھتے ہوں تو وہ بھی ’نیوٹن‘ بن سکتے ہیں۔
(ماخوذاز روزنامہ الفضل ربوہ5؍مارچ2011ءصفحہ6)
ڈاکٹر عبدالسلام کی شاندار خدمات، اعلیٰ اوصاف اور عظیم الشان کامیابیوں پر مختلف اخبارات میں خراج تحسین
روزنامہ الفضل ربوہ 6؍مارچ 2010ء میں مختلف اخبارات سے اخذ کردہ رپورٹس سے اُس اجلاس کی روداد مرتب کی گئی ہے جو 21؍ نومبر 2009ء کو عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو اُن کی شاندار خدمات، اعلیٰ اوصاف اور عظیم الشان کامیابیوں پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کیا گیا۔
’’نوبیل انعام حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم سے بچھڑے ہفتہ کو 13 برس بیت گئے۔ پاکستان اور سائنس کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرنے والے عبدالسلام 29 جنوری، 1926ء کو پنجاب کے علاقے جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا ہی سے ریاضی اور طبعیات سے گہرا لگاؤ تھا۔‘‘
(روزنامہ پاکستان لاہور،22؍نومبر 2002ء صفحہ2)
… ’’نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام بیسویں صدی کے طبعیات کے نمایاں سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔ ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ڈاکٹر عبدالسلام کی 13ویں برسی کے موقع پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک بلند پایہ سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے جو دوسروں کی مدد کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ عالمی حلقوں میں سائنس کے ذریعے پسماندہ انسانیت کی فلاح کے علمبردار تھے۔ … آج کی مشکل گھڑی میں ڈاکٹر عبدالسلام کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ …‘‘۔
( روزنامہ وقت، 22؍نومبر 2009ء)
…صحافی حسین کاشف اپنی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں (ترجمہ): ’’نوبیل لارئیٹ (ڈاکٹر عبدالسلام) کی ہفتہ کے روز تیرھویں برسی کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنے والے سائنسدانوں نے کہا کہ پاکستان نے اب تک جو سب سے اعلیٰ اور عظیم دماغ پیدا کیا ہے وہ ڈاکٹر عبدالسلام ہے۔
پاکستان فزیکل سوسائٹی کے اشتراک سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں سلام چیئر اور شعبہ طبعیات کے زیراہتمام ایک میموریل اجلاس کے موقع پر پروفیسر صاحبان اور دانشوروں نے ڈاکٹر عبدالسلام کو خراج تحسین پیش کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے اجلاس کی صدارت کی اور کہا کہ ڈاکٹر سلام پاکستان میں سائنس کے زوال پذیر ہونے کے متعلق بہت فکر مند تھے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں سائنس کے فروغ کے لئے ڈاکٹر سلام کی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب نے کہا کہ نوبیل لارئیٹ ڈاکٹر عبدالسلام نے تاریخ میں سائنسی میدان کو اس کا جائز مقام دلانے کی جستجو میں سخت جدوجہد کی۔ وائس چانسلر (ڈاکٹر آفتاب) نے گورڈن فریزر(Gordon Fraser) کے قلم سے ڈاکٹر سلام کی سوانح عمری Cosmic Anger سے کئی اقتباسات پڑھ کر سنائے جو ایک چھوٹے سے قصبے سے آغاز کرنے والے ایک لڑکے سے ایک عالی مرتبہ سائنسدان بن جانے کے سفر کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سلام چیئر کے ہیڈ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ جو ڈاکٹر سلام کے شاگرد رہ چکے ہیں نے اس عظیم سائنسدان کی سادہ اٹھان اور تعلیم و تربیت، امنگوں، کامرانیوں، شہرت اور اعلیٰ اوصاف و حسنات کا ذکر کیا۔ …
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے پروفیسر ڈاکٹر عامر اقبال نے ڈاکٹر سلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پروفیسر صاحبان اور پی ایچ ڈی حضرات کو ڈاکٹر سلام کے الیکٹرووِیک (Electro Weak) نظریے اور موجودہ دور میں اس کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ تقریب کے آخر پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر طارق زیدی نے شاعری اور اردو ادب میں ڈاکٹر عبدالسلام کی دلچسپی کو واضح کرتے ہوئے ان کے کچھ خطوط پڑھ کر سنائے جو انہوں نے اپنے اساتذہ اور قریبی دوستوں کو تحریر کئے تھے۔… اس تقریب میں شریک طلباء نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ کیوں ایک عظیم ہیرو اور قوم کے محب کو فراموش کردیا گیا ہے؟‘‘
( ڈیلی ٹائمز، 22؍نومبر 2009ء)
…گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل پرائز کا اصل سرٹیفیکیٹ محفوظ کیا گیا ہے۔یہ سرٹیفیکیٹ عبدالسلام بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی طبعیات (ICTP) اٹلی کے ڈائریکٹر Prof. Dr. Katepalli R Sreenivasan نے ڈاکٹر عبدالسلام کی مادر علمی (گورنمنٹ کالج لاہور) کو بطور تحفہ عنایت کیا تھا۔ ڈاکٹر سلام نے یہ نوبیل پرائز سرٹیفیکیٹ سویڈن کے بادشاہ King Carl XVI Gustaf سے 10 دسمبر 1979ء کو وصول کیا تھا۔
پاکستان میں سائنس اور ثقافت کے فروغ کے لئے ڈاکٹر عبدالسلام کا کردار خوب معروف ہے اور وطن عزیز کے لئے ان کی خدمت دُور رَس اور بااثر ہے۔ بیرون وطن قیام کے دوران وہ سائنسی پروگرام کے مشیر کے طور پر وقتاً فوقتاً پاکستان آتے رہتے تھے۔ وہ 1961ء سے لے کر 1974ء تک صدر پاکستان کے سائنسی مشیر بھی رہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے اقوام متحدہ کے متعدد کمیشنوں میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ سلام 1961ء میں ایوب خان کے دور میں قائم ہونے والے ریسرچ کمیشن سپارکو کے پہلے چیئرمین تھے۔ حکومت پاکستان نے سائنس کے میدان میں ان کی قدردانی کرتے ہوئے پاکستان میں سائنسی منصوبوں پر ان کی نمایاں اور غیرمعمولی کارکردگی پر 1979ء میں انہیں ’’نشان امتیاز‘‘ اور ملک میں سائنس کے فروغ کے لئے ان کی خدمات پر 1959ء میں انہیں ’’ستارہ پاکستان‘‘ کے اعزازات سے نوازا۔
وہ 1961ء میں میکسول میڈل اور فزیکل سوسائٹی کا ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے سائنسدان تھے۔ انہوں نے 1964ء میں رائل سوسائٹی کا ھیوز ایوارڈ حاصل کیا۔ انہیں 1968ء میں ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن نے ایٹم برائے امن ایوارڈ دیا۔ 1979ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کو دنیا کے تین سب سے زیادہ شان و شوکت کے حامل انعامات سے نوازا گیا یعنی فزکس کا ’’نوبیل پرائز‘‘۔ یونیسکو کا ’’آئن سٹائن میڈل‘‘ اور انڈین فزکس ایسوسی ایشن کا ’’شری آر ڈی برلا ایوارڈ‘‘۔
اگرچہ ڈاکٹر سلام کو احمدی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا لیکن نوبیل پرائز حاصل کرتے ہوئے وہ سراپا پاکستانی دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے روایتی پاکستانی شیروانی زیب تن کررکھی تھی۔ ICTP ٹریسٹے سے متعلق Miriam Lewisکی تحریر کردہ ڈاکٹر سلام کی سوانح عمری کے مطابق ڈاکٹر سلام ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔ ان کے نزدیک مذہب ان کی روزمرہ کی زندگی سے الگ نہیں تھا۔ ایک بار ڈاکٹر سلام نے لکھا ’قرآن کریم ہمیں اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ قوانین فطرت کی سچائیوں پر غوروفکر کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘ …‘‘
(ڈیلی ٹائمز،22؍نومبر 2009ء)
… پاکستان کے ایک قابل سائنسدان اور استاد ڈاکٹر محمد اختر بیان کرتے ہیں:
’’ڈاکٹرعبدالسلام غیرمعمولی سائنسدان اورکرشماتی شخصیت تھے۔ وہ ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں میں ان کی حیثیت شہزادے کی سی تھی۔‘‘
(روزنامہ ایکسپریس کراچی 25؍نومبر 2009ء صفحہ16)
… علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر صفدر محمود اپنے کالم صبح بخیر میں ڈاکٹر عبدالسلام کے ذکر میں تحریر کرتے ہیں:
’’عالم اسلام میں نوبیل پرائز حاصل کرنے والوں میں پاکستان کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں جن کا تعلق ضلع جھنگ پنجاب سے تھا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہوسٹل میں اسی کمرے میں ایک سال قیام پذیر رہا جو طالبعلمی کے زمانے میں ڈاکٹر عبدالسلام کا کمرہ ہوا کرتا تھا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے دو دفعہ ملنے اور طویل نشست کرنے کا اتفاق ہوا اور میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالسلام نہ صرف نہایت اچھے انسان تھے اور ان میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی بلکہ وہ ایک مذہبی شخصیت بھی تھے۔ قادیانی ہونا اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سائنسی ایجادات قرآنی تعلیمات اور معجزات کی تصدیق کررہی ہیں۔‘‘
(روزنامہ جنگ 7؍دسمبر2009ء)
میں اپنے مضمون کا اختتام اس شعر سے کرتی ہوں
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
٭…٭…٭