کیا نبی کا بتدریج دعویٰ اُس کے جھوٹا ہونے کی علامت ہے؟
مخالفین احمدیت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو اعتراضات لگائے ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ سچے نبی کو بتدریج مقام نبوت نہیں ملتا بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے فوراً بعد دنیا کے سامنے دعویٰ نبوت کر دیتا ہے جبکہ حضرت مرزا صاحب نے پہلے کچھ اور دعوے کیے اور آخر پر دعویٰ نبوت کیا۔ ایک غیر از جماعت دوست نے ایک احمدی کے نام بعض اعتراضات بھجوائے جن میں یہ اعتراض یوں درج ہے:
’’ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یکدم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے، بتدریج آہستہ آہستہ اس کو درجہ نبوت نہیں ملتا کہ پہلے وہ محدث پھر مجدد اور بعد میں نبوت کا دعویٰ کرے۔‘‘
قرآن و حدیث اور بزرگان سلف کی کتب میں کہیں بھی صداقت نبوت کا یہ معیار بیان نہیں ہوا۔ پس یہ اعتراض بھی ملاؤں کی ایجاد ہےاور اُن اعتراضات میں سے ایک ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کو ہدف بنا کر تیار کیے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی بنیاد وحی اور الہام الٰہی ہے۔ آپ نے اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور براہین احمدیہ میں درج آپ کے الہامات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آغاز میں ہی آپ کو محدث، امام مہدی و مسیح موعود اور نبی و رسول ہونے کی بشارت دے دی تھی۔چنانچہ براہین احمدیہ میں درج آپ کے الہامات میں سے بعض یہ ہیں:
لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ۔
أَنْتَ مُحدث اللّٰہِ
يَا عِيْسَىٰ إِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ….
هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدىٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ ….
پس آپؑ کے متعلق تدریج کا الزام درست نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ آغاز میں آپ اپنی نبوت کو محدثیت کی نبوت سے اشد مشابہت قرار دیتے تھے بعد میں کثرت الہام سے جب آپؑ پر اپنی نبوت کے متعلق تصریح ہوگئی تو آپ نے محدث والی تاویل ترک فرمادی اور سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی غلامی میں غیر تشریعی نبوت کا اعلان کیا۔
اگر اس کو تدریج مان بھی لیا جائے تب بھی آپ کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ نبی پر اپنے حقیقی مقام کے متعلق تدریجاًانکشاف ہونے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھی گئی تفاسیر و شروح میں نہ صرف دیگر انبیاء پر بلکہ خود حضرت نبی اکرمﷺ پر اپنے مقام و مرتبہ کے متعلق تدریجی انکشاف کا ذکر ہے۔
سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے:
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِيْنَ۔ وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُوْنَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيْتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوْا لَنَا عَابِدِيْنَ۔ (سورۃ الانبیاء:73تا74)
حضرت علامہ فخر الدین الرازیؒ (المتوفّی606ھ) اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
’’واعلم أنه سبحانه وصفهم أولاً بالصلاح لأنه أول مراتب السائرين إلى اللّٰه تعالى ثم ترقى فوصفهم بالإمامة. ثم ترقى فوصفهم بالنبوة والوحي. وإذا كان الصلاح الذي هو العصمة أول مراتب النبوة دل ذلك على أن الأنبياء معصومون فإن المحروم عن أول المراتب أولى بأن يكون محروماً عن النهاية،‘‘
( تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازي سورۃ الانبیاء آیت 73،72)
ترجمہ: پس جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں (انبیاء کو) پہلی صفت صالح کی دی ہے، کیونکہ یہ سالکین الی اللہ کے مراتب میں سے پہلا درجہ ہے جس کے بعد ان (انبیاء) کی صفت ترقی کر کے امامت کے درجہ پر پہنچتی ہے اور پھر ان (انبیاء) کی صفت اور ترقی کر کے نبوت اور وحی تک پہنچتی ہے۔ پس جب صالحیت جو کہ عصمت ہی ہے نبوت کا پہلا مرحلہ ہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ اور جو پہلے مرحلےسے محروم ہوتا ہے تو وہ ضرور آخری مرحلے سے بھی محروم رہے گا۔
اسی طرح سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو ایک بیٹے کی بشارت کا ذکر فرمایا ہے جبکہ وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَنَّ اللّٰهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِيْنَ۔ (سورۂ آل عمران:40)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابو حیان الاندلسی (متوفّی 745ھ) بیان کرتے ہیں:
{ ونبيًّا} هذا الوصف الأشرف، وهو أعلى الأوصاف، فذكر أولاً الوصف الذي تبنى عليه الأوصاف بعده، وهو: التصديق الذي هو الإيمان، ثم ذكر السيادة وهي الوصف يفوق به قومه، ثم ذكر الزهادة وخصوصاً فيما لا يكاد يزهد فيه وذلك النساء، ثم ذكر الرتبة العليا وهي: رتبة النبوّة…… وحقيقة النبوّة هو أن يوحي الله إليه،
(تفسير البحر المحيط/ ابو حيان۔ زیر تفسیر سورۂ آل عمران آیت نمبر 39)
{ ونبيًّا}یہی سب سے عزت والی صفت ہے اور صفات میں سب سے اعلیٰ صفت یہی ہے۔ چنانچہ (اللہ تعالیٰ) نے اُس صفت کا ذکر سب سے پہلے کیا ہے جس پر بعد میں ذکر کردہ تمام صفات کی بنیاد رکھی ہے اور وہ تصدیق ہے جو بعینہٖ ایمان ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد سرداری کا ذکر کیا ہے اور یہ وہی صفت ہے جس سے انسان اپنی قوم پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد زہد(دنیاوی خواہشات کو ترک کرنا) کا ذکر کیا ہے …. پھر سب سے اعلیٰ رتبہ کا ذکر کیا ہے اور وہ ہے نبوت کا رتبہ۔ اور نبوّت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس پر وحی نازل کرتا ہے۔
اسی آیت کی تفسیر میں علامہ فخر الدین الرازیؒ بیان کرتے ہیں:
قوله { وَنَبِيًّا } واعلم أن السيادة إشارة إلى أمرين أحدهما: قدرته على ضبط مصالح الخلق فيما يرجع إلى تعليم الدين والثاني: ضبط مصالحهم فيما يرجع إلى التأديب والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وأما الحصور فهو إشارة إلى الزهد التام فلما اجتمعا حصلت النبوة بعد ذلك، لأنه ليس بعدهما إلا النبوة.
(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازي سورۃآل عمران آیت 39)
یعنی جان لو کہ سرداری دوچیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اول یہ کہ وہ (نبی یا سردار) علومِ دین کے حوالے سے لوگوں کے مصالح / بھلائیوں کو قابو میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو۔دوم یہ کہ وہ تربیت اور نیکیاں کمانے کےحکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے حوالے سے لوگوں کی بھلائی کو قابو میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اور جہاں تک اس شخص کی بات ہو جواپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے روکنے والا ہے تو یہ کامل زُہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔پس جب یہ دو باتیں جمع ہوجاتی ہیں تو نبوّت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کے بعد سوائے نبوّت کے اور کوئی درجہ نہیں۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے
قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
یعنی میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ اس آیت کی تفسیر میں مشہور شیعہ مفسر علامہ الفیض الکاشانی (متوفّی 1091ھ) بیان کرتے ہیں:
وفي الكافي عن الصادق عليه السلام قال إن اللّٰه تبارك وتعالى اتخذ إبراهيم عبداً قبل أن يتّخذه نبياً وان اللّٰه اتخذه نبياً قبل أن يتخذه رسولاً وان اللّٰه اتخذه رسولاً قبل أن يتخذه خليلاً وان اللّٰه اتخذه خليلاً قبل أن يجعله إماماً فلما جمع له الأشياء قال إني جاعلك للناس إماماً.
(تفسير الصافي في تفسير كلام الله الوافي/ الفيض الكاشاني۔ سورۃ البقرۃ : آیت 124)
یعنی کتاب الکافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عبد بنایا قبل اس کے کہ نبی بنائے اور نبی بنایا قبل اس کے کہ رسول بنائے اور رسول بنایا قبل اس کے کہ خلیل بنائے اور خلیل بنایا قبل اس کے کہ امام بنائے۔جب یہ تمام صفات جمع ہوگئیں تو فرمایا میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بناتا ہوں۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مقام نبوت ملنے سے قبل انبیاء کا دیگر مراتب پانا اُن کی شان اور صداقت کے خلاف نہیں اگر خلاف ہوتا تو یہ بزرگان اس قسم کی تفسیر کرنے کی ہمت نہ کرتے اور اگر اَن جانے میں ایسی تفسیر ہوبھی گئی تو دوسرے مفسرین، محدثین، متکلمین وغیرہ ان کی اس غلطی کی نشاندہی کرتے۔زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مولوی حضرات نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان کے اعتراض ’’ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یک دم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے‘‘سے خود آنحضرتﷺ کی ذات اقدس اس کی زد میں آتی ہے اور یہ بات تفسیر، حدیث اور سیرت کی کتب سے واضح ہے۔
حضرت نبی اکرمﷺ پر وحی کی ابتدا کے متعلق ام المومنین حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں:
أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ
(بخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 3)
سیرت ابن ھشام میں مِنَ الْوَحْىِکی بجائےمِنَ النُبُوّۃکے الفاظ درج ہیں۔ یعنی پہلے پہل جو وحی (بروایت ابن ہشام جو نبوت) آنحضرتﷺ کو شروع ہوئی وہ نیند میں سچی خوابوں کا دیکھنا تھا۔
یہ قرآنی وحی کے نزول سے پہلے کا زمانہ ہے جس کے بعد آنحضورﷺ کو تنہائی میں عبادت کرنا اچھا لگنے لگا یہاں تک کہ آپؐ غار حرا میں جانے لگے اور پھر وہاں ایک دن حضرت جبرئیل نے قرآنی وحی کا پہلا پیغام
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ
پہنچایا۔ اس رؤیائے صالحہ والے عرصہ کے متعلق امام ابن حجر العسقلانیؒ لکھتے ہیں:
بُدِءَ بِذَالِک لِیَکُوْنَ تَمْهِيْدًا(بخاری کتاب بدء الوحی)
یعنی (رؤیائے صالحہ والی) وحی سے اس لیے ابتدا کی تاکہ وہ تمہید ہوجائے۔
علامہ شبلی نعمانی صاحب نے اس عرصہ کو ’’نبوت کا دیباچہ‘‘لکھا ہے۔
(سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول باب آفتاب رسالت کا طلوع)
معاند احمدیت مولوی حضرات تو سچے نبی کے چالیس سال کا ہوتے ہی نبوت ملنے اور یک دم اس کے اعلان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن مذکورہ بالا علماء آنحضورﷺ کو مقام نبوت ملنے سے پہلے اس کی تیاری کے لیے ’’نبوت کا دیباچہ‘‘ اور تمہید یا پیش خیمہ کا ذکر کر رہے ہیں۔
صحیح مسلم شرح نووی میں لکھا ہے:
قال القاضی رحمہ اللّٰہ و غیرہ من العلماء انما ابتدئ بالرؤیا لئلا یفجأہ الملک و یأتیہ صریح النبوۃ بغتۃ فلا تحتملھا قوی البشریۃ فبدئ بأول خصال النبوۃ و تباشیر الکرامۃ من صدق الرؤیا۔
(صحیح مسلم بشرح النووی کتاب الایمان باب بدء الوحی الی رسول اللہﷺ )
علامہ غلام رسول سعیدی (شیخ الحدیث دار العلوم نعیمیہ کراچی) حضرت عائشہؓ کی اسی روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’…اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی مخلوق تک کسی عظیم کام کو پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ پہلے اس کی بنیاد قائم کرتا ہے، پھر اس کی تربیت کرتا ہے، پھر اس کو تدریجاً اپنے کمال طبعی تک پہنچاتا ہے۔اسی وجہ سے پہلے نبیﷺ کو سچے خواب دکھائے گئے، پھر آپؐ کے دل میں خلوت گزینی پیدا کی گئی اور آپؐ سے غار حرا میں عبادت کرائی گئی، پھر جب آپ کے پاس اچانک فرشتہ آگیا تو یہ واقعہ عام عادت اور معمول کے خلاف تھا اسی لیے بشری تقاضے سے آپؐ گھبرائے…کیونکہ نبی سے نبوت کے باوجود طبیعت بشری بالکلیہ زائل نہیں ہوتی …حتیٰ کہ جب اس قسم کے واقعات بار بار ہوئے تو آپؐ مانوس ہوگئے اور آپؐ کی دل جمعی ہوگئی۔‘‘
(شرح صحیح مسلم جلد اول 665۔ کتاب الایمان باب بَدْءِ الْوَحْىِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ از علامہ غلام رسول سعیدی۔ ناشر: فرید بک سٹال 38۔اردو بازار لاہور۔ الطبع العاشر :اپریل 2003ء)
(یہ تشریح اصل میں علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے بخاری کتاب التعبیر باب
اَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهِ رَسُولُ اللّٰهِ مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ
میں بیان کی ہے۔)
بہرحال وحی کی اس ابتدائی حالت کے بعد قرآنی وحی کا دَور آتا ہے جس کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی آیات سے ہوتا ہے۔ کیا بزعم مخالفین احمدیت آنحضرتﷺ نے قرآنی وحی کا یہ پیغام ملتے ہی یک دم اپنا دعویٰ نبوت دنیا کے سامنے پیش کر دیا؟ جی نہیں! بلکہ بقول ابو الاعلیٰ مودودی صاحب
’’…. سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نازل ہونے کے بعد بھی حضورؐ کو جبرائیل کا علم ہوا نہ وحی اور قرآن کا، نہ اپنے نبی اور صاحب کتاب ہونے کا!‘‘
(سیرت سرور عالمؐ جلد دوم صفحہ 108۔از ابوالاعلیٰ مودودی۔ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور 1989ء)
اس پہلی وحی کے بعد کچھ دن قرآنی وحی میں وقفہ آجاتا ہے جس کے بعد سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر نازل ہوتی ہیں جن میں آنحضرتﷺ کو
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ
اور
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ
کہہ کر پکارا گیا ہے۔ مشہور مفسر علامہ علاء الدین علی بن محمد المشہور بالخازن (متوفیٰ 725ھ) بیان کرتے ہیں:
وإنما لم يخاطب بالنبي والرسول لأنه كان في أول الأمر ومبدئه، ثم خوطب بالنبي والرسول بعد ذلك،
( تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن۔ سورۃ المزمل آیت نمبر 1۔ یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ)
یعنی (نبی کریمﷺ) کو ابھی تک نبی اور رسول کے لقب سے مخاطب نہیں کیا گیا کیونکہ آپؐ ابھی معاملہ (نبوت) کے پہلے اور ابتدائی مرحلے میں تھے، بعد میں جاکے آپؐ کو نبی اور رسول کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے۔
علامہ البغوی، البقاعی، الثعلبی اور ابن عادل وغیرہ نے بھی اپنی تفسیروں میں یہی بات درج کی ہے۔علامہ الحافظ ابن الجوزی (متوفّیٰ 597ھ) بھی لکھتے ہیں :
وقيل: إِنما لم يخاطب بالنبي والرسول هاهنا، لأنه لم يكن قد بلَّغ، وإنما كان في بدء الوحي.
(تفسير زاد المسير في علم التفسير/ ابن الجوزي)
یعنی آنحضورﷺ کو یہاں نبی اور رسول کہہ کر نہیں پکارا گیا کیونکہ ابھی تک آپؐ تبلیغ کے حکم سے مامور نہیں کیے گئے تھے اور وحی کی ابتدائی حالت میں تھے۔ مولانا مودودی صاحب اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ میں سورۃ المزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضورؐ کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جار ہی تھی۔‘‘
قرآنی وحی کے تواتر میں پھر سورۃ الضحیٰ کا نزول ہوتا ہے جس میں آنحضورﷺ کو
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
کا بھی حکم ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر (متوفّیٰ 774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’وقال محمد بن إسحاق ما جاءك من اللّٰه من نعمة وكرامة من النبوة، فحدث بها، واذكرها، وادع إليها، قال فجعل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يذكر ما أنعم اللّٰه به عليه من النبوة سراً إلى من يطمئن إليه من أهله‘‘(تفسير القرآن العظيم/ ابن كثير۔ سورۃ الضحی: 11)
یعنی محمد بن اسحاق (مشہور مؤرخ) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کی نعمت اور کرامت جو آپ کو ملی ہے، اس کا بتا دیں اور اس کا ذکر کریں اور اس کی طرف بلائیں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنے گھر والوں میں سے جن کے متعلق آپؐ کو اطمینان تھا، خفیہ طور پر اس نبوت کے بارے میں بتانا شروع کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر انعام کی تھی۔
یعنی حضرت نبی اکرمﷺ پر سورۃ العلق، المزمل اور المدثر کی آیات کا نزول ہوچکا تھا لیکن ابھی تک رسالت مآبﷺ نے دنیا کے سامنے اپنے نبی اور رسول ہونے کا اعلان نہیں فرمایا تھا حالانکہ بقول معاندین احمدیت ’’ہر سچا نبی اپنی عمر کے چالیس سال گذرنے کے بعد یک دم بحکم رب العالمین مخلوق کے روبرو دعویٰ نبوت کر دیتا ہے۔‘‘
ابن کثیر کے مطابق سورۃ الضحیٰ کے نزول کے بعد آنحضرتﷺ اپنی نبوت کا بتاتے ہیں وہ بھی ساری دنیا کو نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو، اور گھر والوں میں سے بھی اُن کو جن کے متعلق آپ کا دل مطمئن تھا اور وہ بھی خفیہ طور پر۔ ہاں علامہ القرطبی (متوفّیٰ 671ھ) نے قرآنی آیت
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَأَنذِرْ
کے تحت لکھا ہے:
’’وقيل:الإنذار هنا إعلامهم بنبوّته؛ لأنه مقدمة الرسالة.‘‘
یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ انذار سے یہاں مراد اہل مکہ کو اپنی نبوت سے آگاہ کرنا ہے کیونکہ یہ (نبوت) رسالت کا پیش خیمہ ہے۔ (تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي)
ابن عربی کا قول بھی ساتھ درج کیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ أي المدَّثر بالنبوّة وأثقالها. ابن العربي: وهذا مجاز بعيد لأنه لم يكن تنبأ بعد.
یعنی المدثر کے معنی نبوت کے چادر اوڑھنے والے کے متعلق ابن عربی کہتے ہیں کہ یہ استعارہ بعید از امکان ہے کیونکہ ابھی تک آپ نے کوئی نبوت (پیشگوئی) نہیں کی تھی۔
بہر کیف قرآن پاک سے ہمیں آنحضرتﷺ کی تبلیغ رسالت کے تین دَور نمایاں طور پر ملتے ہیں جن سے آپؐ کے دائرہ رسالت میں تدریج نظر آتی ہے:
(1) وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ (الشعراء: 215)
(2) وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا۔ (الشوریٰ:8)
(3) قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا
(الاعراف:158)
ان تینوں آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تدریجاً آپ کا دائرہ نبوت بڑھایا، اوائل میں آنحضورﷺ کو قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کرنے کا حکم تھا، بعد ازاں مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں تک پیغام پہنچانے کا حکم ملا جس کے بعد پھر ساری دنیا کو دعویٰ رسالت پہنچانے کا حکم ملا۔
سورۃ الانشقاق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ(الانشقاق:20)
علامہ رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں مختلف مطالب بیان کرتے ہوئے ایک یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں:
وثالثها: لتركبن يا محمد درجة ورتبة بعد رتبة في القرب من اللّٰه تعالىٰ.
یعنی اے محمدؐ! اللہ تعالیٰ کے قرب کے درجات اور مراتب میں آپؐ ضرور درجہ بدرجہ ترقی کریں گے۔
(التفسير الكبير/ الرازي۔ سورۃ الانشقاق آیت نمبر 19)
علامہ القرطبی نے بھی الشعبی کے حوالے سے یہی بیان فرمایا ہے کہ
…ودرجة بعد درجة، ورُتبه بعد رتبة، في القربة من اللّٰه تعالىٰ.
( تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي۔ سورۃ الانشقاق آیت نمبر 19)
یعنی آپؐ ایک درجہ کے بعد دوسرا درجہ اور ایک رتبہ کے بعد دوسرا رتبہ سر کریں گے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ آنحضرتﷺ پر درجہ بدرجہ اپنے مراتب کا انکشاف ہوایہاں تک کہ آپؐ خاتم النبیین کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ روایات میں آتا ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ فَقَالَ يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ . فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ
یعنی ایک شخص آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اے خیر البریہ (مخلوق خدا میں سے سب سے بہتر انسان)! تو آپؐ نے فرمایا وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ صلى اللّٰه عليه وسلم)
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء میں دو روایتیں ملتی ہیں۔ ایک میں فرمایا :
مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى
یعنی کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہے کہ مَیں (یعنی آپؐ) حضرت یونس سے بہتر ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ….)
ایک اور موقع پر فرمایا:
لَا تُخَيِّرُوْنِي عَلَى مُوسَى
یعنی مجھے حضرت موسیٰؑ پر فضیلت مت دیا کرو۔
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ)
یا آپؐ نے فرمایا:
لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللّٰهِ۔
کہ انبیاء اللہ کو ایک دوسرے پر فضیلت مت دیا کرو۔
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى:وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ)
لیکن پھر وہ وقت بھی آگیا کہ آپؐ فرمانے لگے :
فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ
یعنی مجھے تمام انبیاء پر چھ وجوہات سے فضیلت دی گئی ہے۔
(صحیح مسلم كتاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاَةِ)
سوال یہ ہے کہ جب آنحضورﷺ کو سب نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے تو پھر شروع میں آپؐ نے حضرت ابراہیمؑ، حضرت یونسؑ اور حضرت موسیٰؑ پر فضیلت کا اظہار کیوں نہ فرمایا؟ جواب یہی ہے کہ اُس وقت تک آپؐ کو اپنے افضل الانبیاء ہونے کا علم نہیں دیا گیا تھا۔چنانچہ اس ضمن میں بزرگان سلف کے کئی اقوال موجود ہیں، مثلاً حضرت یونسؑ والی روایت کی شرح میں علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ فرماتے ہیں:
و قال العلماء انما قال ذالک تواضعًا ان کان قَالَهُ بعد ان اعلم أَنَّهُ افضل الخلق، و أن کان قَالَهُ قبل عِلْمِهِ بِذالک فَلَا اشکال۔
یعنی علماء کے نزدیک اگر آنحضورﷺ نے یہ بات اپنے افضل الخلق ہونے کا علم ہونے کے بعد کی ہے تو پھر اس میں محض عاجزی و تواضع مراد ہے لیکن اگر یہ بات اس علم کے دیے جانے سے پہلے فرمائی ہے تو پھر کوئی دقت نہیں۔
علامہ النوویؒ اس قسم کی احادیث کے متعلق بحث کرتے ہوئے علماء کی طرف سے پہلی توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ
أَنَّهُ قال هَـٰذَا قَبْل أنْ یَّعْلَمَ أَنَّهُ أفضَل مِنْ یُونس، فَلَمّا عَلِمَ ذالک قال أَنَا سَیّدُ وُلد آدم وَ لَمْ یَقُلْ هُنَا أن یونس أفْضَل مِنْهُ أَوْ مِنْ غَيْرِهِ مِنَ الْأَنْبِیاء صَلوات اللّٰہِ و سَلاَمُهُ عَلَيْهِمْ۔
ترجمہ: آنحضرتﷺ نے یہ بات اس علم دیے جانے سے پہلے فرمائی تھی کہ آپؐ حضرت یونسؑ سے افضل ہیں لیکن جب آپؐ کو علم ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں بنی آدم کا سردار ہوں اور آپؐ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ حضرت یونسؑ یا اور کوئی نبی آپؐ سے افضل ہیں (یعنی آپؓ نے کوئی استثناء نہیں کیا)
(صحیح مسلم شرح النووی۔ کتاب الفضائل)
علامہ الرازیؒ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
ألا ترى أن رسولنا صلى اللّٰه عليه وسلم لما كان خاتم النبيين كان أفضل الأنبياء عليهم الصلاة والسلام
یعنی کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہمارے نبیﷺ خاتم النبیین ٹھہرے تو سب نبیوں سے افضل قرار پائے۔
(تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/ الرازی۔ زیر تفسیر سورۃ طٰہٰ آیت 25تا32)
حضرت نبی اکرمﷺ کو نبوت ملنے کے اٹھارہ سال بعد پانچ ہجری میں آیت خاتم النبیین آپﷺ پر نازل ہوئی۔ یعنی اس مقام سے اس وقت آپﷺ کو آگاہ کیا گیا لیکن آپ نے بعد میں فرمایا کہ میں تو اس وقت سے خاتم النبیین ہوں جبکہ آدم اپنی مٹی پانی میں گندھا پڑا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ آپﷺ نے اس بات کا پہلے اعلان کیوں نہیں کیا۔ اٹھارہ سال انتظار کیوں کیا؟ جواب یہی ہے کہ جب اللہ نے بتایا تب اعلان کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپﷺ اس دن خاتم النبیین بنائے گئے بلکہ آپﷺ تو ابتدا سے ہی اس منصب پر فائز تھے بس آپﷺ کو علم نہیں تھا اور جب تک آپؐ پر ان باتوں کا انکشاف نہیں ہوا آپؐ منع کرتے رہے کہ مجھے ان مذکورہ انبیاء پر فضیلت نہ دو۔
علامہ ابن حجر العسقلانیؒ اپنی شرح بخاری میں قاضی عیاض کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أحْمَد قَبْلَ أَنْ یَّکُوْن مُحَمَّدًا
یعنی آنحضرتﷺ احمد کے مقام پر تھے قبل اس کے کہ محمد کے مقام پر فائز ہوئے۔
(فتح الباری شرح بخاری کتاب المناقب (17)بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
ایک عقلمند کے لیے مندرجہ بالا تحریرات یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی بھی نبی پر اپنے مقام و مرتبہ میں تدریجاً انکشاف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور نہ کسی نے اس بات کو صداقت انبیاء کا معیار ٹھہرایا ہے۔ پس اس حقیقت کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس قسم کا الزام لگانا محض تعصب احمدیت کا نتیجہ ہے اور تعصب کا یہ گُر اِن معترضین مولوی صاحبان نے ولیم میور (William Muir) جیسے معاندین اسلام سے سیکھا لگتا ہے جس نے اپنی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ کے تیسرے باب The Belief of Mahomet in his own Inspiration میں یہ سرخی لگائی ہے
‘‘Supposed process by which the conviction that he was to be the messenger of God, gained ground.”
جس کے نیچے وہ لکھتا ہے :
“Thus by degrees he was led on to believe that God had called him to preach reformation to his countrymen.”
یعنی اس طرح درجہ بہ درجہ وہ (آپؐ) اس یقین کی طرف رہ نمائی کیا گیا کہ خدا نے اُسے اپنی قوم کے لیے اصلاحانہ تبلیغ کے لیے پکارا ہے۔
(The Life of Mahomet Vol. II page 68, by William Muir, London: Smith, Elder & Co. 65, Cornhill, 1858)
٭…٭…٭
(نوٹ:اس مضمون میں آیت کا حوالہ دیتے ہوئے بسم اللہ کو پہلی آیت کے طور پر شامل کیا ہے جبکہ مفسرین کا حوالہ بمطابق اصل دیا گیا ہے۔)