عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری (حصہ چہارم)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
قرآن کریم سے محبت(حصہ دوم)
پھرہمارے ایک مربی تھے یونس خالد صاحب۔ وہ لکھتے ہیں کہ وی وی کاہلو صاحب بذریعہ کشف احمدی ہوئے تھے مولانامحمد صدیق امرتسری صاحب کے زمانے میں۔ پھر بعد میں وہ جماعت احمدیہ سیرالیون کے امیر بھی رہے۔ احمدی ہونے سے پہلے بالکل آزاد ماحول تھا۔اور ان کا ماحول تو اس حد تک آزاد تھا کہ ان کا پیشہ بھی، ویسے بھی وہ ڈانسر تھے۔لیکن بیعت کے فوراً بعد اپنے اندر تبدیلی پیداکی۔ تقویٰ و طہارت، عبادت، خدا خوفی اور دیانت میں ایک مقام بنالیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی ترقیات سے نوازا۔ اور آپ علاقہ کے پیرامائونٹ چیف بھی تھے۔ جس علاقہ کے پیرامائونٹ چیف تھے وہاں ہیروں کی بہت بڑی کانیں تھیں۔ آپ صاحب اختیار تھے۔ کیونکہ ان علاقوں میں چیف کافی اختیار والے ہوتے ہیں۔ آپ اگرچاہتے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ کا فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن احمدیت کی حسین اور پاکیزہ تعلیم کی وجہ سے یہ دولت اپنے اوپر حرام سمجھی اور سادہ اور درویشانہ زندگی گزارتے رہے۔ اور اونچی سطح میں بھی مشہور تھا کہ مسٹر وی وی کاہلو ایک انتہائی دیانت دار پیرامائونٹ چیف ہیں۔ نہ خود رشوت لیتاہے اور نہ ہی عملہ کو لینے دیتاہے۔ تو کہتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوئے۔ ایک دن مَیں ان کی عیادت کے لئے گیا تو مجھے بلا کر کہتے ہیں کہ یونس! میری آنکھوں کے سامنے ہروقت سبزرنگ کا کلمہ طیبہ لکھاہوتاہے۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ مَیں نے انہیں کہا کہ چیف آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہے اور عشق ہے۔ یہ اس کانتیجہ ہے۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں دو ماہ تک جاتارہا اور وہ یہی کہتے رہے کہ کلمہ طیبہ سبز رنگ کی روشنی سے ہمیشہ لکھا ہوا نظرآتاہے۔
پھر جب آپ ہسپتال میں داخل ہوئے تو نزع کی حالت طاری ہوئی تو ایک احمدی دوست مسٹر کوجی نے ان کا بازو پکڑ کرکہا کہ چیف پڑھو
’لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ‘۔
آپ نے
’لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ‘
پڑھا۔پھر مسٹرکوجی نے کہا
’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘
آپ نے
’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘
پڑھا اورپڑھتے ہی سر جھک گیا۔
فروتنی اور عاجزی
ساتویں شرط یہ بھی تھی کہ عاجزی اور خوش خلقی اور مسکینی وغیرہ کی طرف توجہ رہے گی۔تو انبیاء کو تو زیادہ تر وہی لوگ مانتے ہیں جو غریب مزاج اور مالی لحاظ سے کم وسعت والے بھی ہوں لیکن قربانیوں میں امراء سے زیادہ حوصلہ کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنے والے ہوتے ہیں بلکہ جان کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرتے اور کبھی بھی بڑائی بیان کرنے والے یا تکبر ونخوت کا اظہارکرنے والے نہیں ہوتے بلکہ ہر چھوٹے بڑے کے سامنے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہتے ہیں اور انکساری اور عاجزی کے بڑے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔اور الٰہی جماعتوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ عاجزمسکین لوگ جو فروتنی اور عاجزی کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں وہ نظر آئیںاتنی زیادہ ترقی کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے اور نبی کوماننے والے بھی ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا۔ تو انبیاء کی نظر جب ایسے دلوں پر پڑتی ہے تو انہیں مزید جلا بخشتی ہے، انہیں مزید چمکا دیتی ہے۔اور وہ جو عاجزی دکھانے والے لوگ ہوتے ہیں ان کو اگر دوسروں کی خاطر اپنی جگہ چھوڑ کر جوتیوں میں بھی بیٹھنا پڑے تو وہ بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن مامور زمانہ کی نظر اتنی قیافہ شناس ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو پہچان لیتی ہے اور پھر اس عاجزی کا بدلہ دینے کے لئے اور اپنی جماعت کو سمجھانے کے لئے کہ میری جماعت میں عاجز اور مسکین کا مقام ہی سب سے اعلیٰ ہے۔عاجز انسانوں کو وہاں سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں اورکھانے کے وقت بلا کر اپنے ساتھ اپنی پلیٹ میں کھانا کھلاتے ہیں۔تو یہ قدر بھی انبیاء ان کی اس لئے کرتے ہیں کہ اس عاجزی کی وجہ سے ایسے لوگ دین کو جلد قبول کرتے ہیں اور دینی تعلیمات پر مکمل طورپر عمل پیرا ہونے والے ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتاہوںکہ دولتمندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لو گ کامل طورپر حاصل کر لیتے ہیں‘‘۔
(ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن۔ جلد 3۔ صفحہ 537)
اس لئے آپ نے فرمایا تھاکہ جماعت میں شامل ہونے کے لئے عاجزی شرط ہے۔تاکہ دین کو صحیح طورپر سمجھ سکواور اس پر عمل کرسکو۔ اب یہ تبدیلیاں کس طرح ہوئیںاس کے چند نمونے مَیں پیش کرتاہوں۔
حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آسودہ حال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس کے باوجود آپ کی پاکیزگی، انکسار اور سادگی قابل مثال تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دامن سے وابستہ ہو کر اور حضور کی غلامی کا جؤا گردن میں ڈال کر آپ نے دنیا طلبی کی خواہش ہی دل سے نکال دی۔مدرسہ احمدیہ کی ملازمت کا سارا عرصہ ایک مختصر سے مکان میں گزار دیا جو دراصل ایک چپڑاسی کے بھی لائق نہ تھا۔ جب حضور کے در کی غلامی کی خاطر دنیا بھرکو چھوڑ دیا تو دنیوی چیزوں کی راحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(اصحاب احمد جلد پنجم۔ حصہ سوم۔ صفحہ9مطبوعہ 1964ء)
پھر ایک اَور مثال مولوی برہان الدین صاحب کی، عاجزی کے بارہ میں ہے۔ ’’ایک دفعہ حضوؑر کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خداجانے کہاں خیال پہنچا، رونا ہی شروع کر دیا۔ حضور نے بہت پیار سے پوچھا کہ مولوی صاحب خیر تو ہے؟ عرض کیا حضور! پہلے میں کوٹھی بنا، پھر باؤلی بنا، پھر غزنی بنا، اب مرزائی بنا ہو ں۔ رونا تو اس بات کاہے کہ عمر اخیر ہوگئی اور مَیں ’’جھڈّو دا جھڈّو ہی رہ گیا‘‘۔ یعنی پہلے مَیں نے کوٹھے والے پیر صاحب کی قدم بوسی حاصل کی۔اس کے بعد بائولی صاحب والے بزرگ کی خدمت میں رہا۔اس کے بعد مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی خدمت میں پہنچا۔اب مَیں حضور کی خدمت میں آگیاہوں۔رونا تو اس بات کاہے کہ مَیں وہی نالائق کا نالائق ہی رہا۔ (یہ عاجزی تھی ان کی )۔اس پر حضورؑ نے مولوی صاحب کو بہت محبت پیار کیا۔ اور تسلی دی۔ فرمایا : مولوی صاحب!گھبرائیں نہیں۔جہاں آپ نے پہنچنا تھا وہاں آپ پہنچ گئے۔ اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تب جاکر سکون اور قرار ہوا۔‘‘
(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ۔ ستمبر1977ء۔ صفحہ 14)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ
’’حبی فی اللہ سید فضل شاہ صاحب لاہور ی اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں اور مال وجان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایا جاتا ہے۔ وہ تہ دل سے سچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور للّہی تعلق اورحُب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اور یکرنگی اور وفاداری کی صفت ان میں صاف طورپر نمایاں ہے اور اُن کے برادر حقیقی ناصرشاہ بھی اس عاجز سے تعلق بیعت رکھتے ہیں اور ان کے ماموں منشی کرم الٰہی صاحب بھی اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3۔ صفحہ 532)
پھر حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’حبی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے۔ (ہمارے ملکوں میں پولیس کا محکمہ بہت بدنا م ہے۔اس لحاظ سے اگر اس پس منظر میں دیکھیں تو پھر سمجھ آتی ہے)۔ یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھرا ہؤا میرے اول درجہ کے دوستوں میں سے ہے۔ ان کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی و اخلاص ظاہر ہیں۔کسی ابتلاء کے وقت مَیں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا۔ اورجس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے‘‘۔ یعنی ترقی کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں۔
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 536)
(باقی آئندہ)