خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ دسمبر 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
جبرئیلؑ نے رسول اللہﷺسے علیؓ کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ علی مجھ سےہے اور مَیں علی سے ہوں۔ اس پر جبرئیلؑ نے کہا مَیں آپ دونوں میں سے ہوں
غزوۂ تبوک رجب 9 ہجری کے موقعے پر نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کے لیے نا مساعد حالات کے پیش نظر خصوصی دعا کی تحریک
مکرم رشید احمد صاحب ابن مکرم محمد عبداللہ صاحب آف ربوہکا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ دسمبر 2020ء بمطابق 11؍ فتح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 11؍ دسمبر2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت علیؓ کا ذکر چل رہا تھا،آج اور آئندہ چند خطبات میں وہی جاری رہےگا۔ غزوۂ احد میں جب حضرت مصعب بن عمیرؓ شہید ہوئے تو رسول اللہﷺ نے جھنڈا حضرت علیؓ کے سپرد فرمایا۔ آپؓ نے مشرکین کے عَلَم بردارطلحہ بن ابوطلحہ سمیت کفار کے متعدد دستوں کو تہ تیغ کیا چنانچہ جبرئیلؑ نے رسول اللہﷺسے علیؓ کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ علی مجھ سےہے اور مَیں علی سے ہوں۔ اس پر جبرئیلؑ نے کہا مَیں آپ دونوں میں سے ہوں۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد میں آپؐ کو شہداء میں نہ پاکرمَیں نے فیصلہ کرلیا کہ اب لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں گا۔ پس مَیں نے کفار پر اس زور سے حملہ کیا کہ وہ منتشر ہوگئے اور مَیں نے دیکھا کہ آپؐ ان کے درمیان ہیں۔ غزوۂ احد میں رسول اللہﷺ زخمی ہوئے تو آپؐ کا زخم دھونے کی سعادت بھی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کے حصّے میں آئی۔ ایک روایت کے مطابق غزوہ ٔاحد میں حضرت علیؓ کو سولہ زخم لگےتھے۔
غزوۂ خندق ،شوال 5؍ ہجری میں جب عکرمہ بن ابوجہل اور بعض دیگر مشرکین نےخندق کو پار کرکے مقابلے کے لیےاشعار پڑھ کر دعوت دی تو حضرت علیؓ نے اس کا جواب دیا۔ آنحضرتﷺ نے علیؓ کو اپنی تلواردی ،عمامہ باندھا اور دعا دے کر رخصت کیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے مدِ مقابل عمروبن عبدِوُدّ،جو اپنی بہادری کی وجہ سے ایک ہزار سپاہیوں کےبرابر سمجھاجاتا تھا کوقتل کیاتو اس کے ساتھی پشت پھیر کربھاگ گئے۔کفار عمرو بن عبدِوُدّ کی لاش کے بدلے دس ہزار درہم دینے کو تیار تھے لیکن رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسے لےجاؤ! ہم مُردوں کی قیمت نہیں کھاتے۔
صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب کفار نے آنحضرتﷺ کے نام کے ساتھ ’رسول اللہ‘ کے الفاظ لکھےجانے پر اعتراض کیا تو آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اسے مٹادو۔ حضرت علیؓ نے شش وپنج کا اظہار کیا تو آنحضورﷺ نے ازخود ان الفاظ کو مٹادیا۔
غزوۂ خیبر،محرّم اورصفر7؍ہجری کےموقعے پر خیبرکا سردار مرحب اپنی تلوار لہراتا ہوا بڑے مغرورانہ انداز میں نکلا۔ حضرت سلمہ بن اکوع کے چچا عامر اس کے مقابلے پر سامنے آئے مگر اپنی ہی تلوار کا زخم لگنے سے شہید ہوگئے۔ بعض صحابہ نے عامرکے اپنی ہی تلوار کےوار سے مارے جانے پر گمان کیا کہ شاید اُن کے عمل باطل ہوگئے ہوں۔مگر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عامر کےلیے تو دہرا اجر ہے۔غزوۂ خیبر کے موقعے پر حضرت علیؓ کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں جن پر آنحضورﷺ نے لعابِ دہن لگایا تو وہ ٹھیک ہوگئیں۔ آپؓ نے نہایت بہادری اور بےجگری سے لڑتے ہوئے مرحب کو قتل کیا۔
غزوۂ خیبر کا ذکرکرتے ہوئےحضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو خداتعالیٰ نے بتادیا تھا کہ اس شہر کی فتح حضرت علیؓ کے ہاتھ پر مقدر ہے۔ آپؐ نے صبح اعلان کیا کہ مَیں اسلام کا جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں۔آنحضورﷺ نے اسلامی پرچم حضرت علیؓ کے سپرد فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح دی۔ اسی جنگ کے دوران حضرت علیؓ ایک یہودی جرنیل سے لڑ تے لڑتے اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ آپؓ اس کی گردن اُڑانے والے تھے کہ اس یہودی نے آپؓ کے منہ پرتھوک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ اس یہودی سے الگ ہوگئے اور پوچھے جانے پر فرمایا کہ مَیں تم سے خدا کی رضا کےلیے لڑ رہاتھا مگرجب تم نے میرے منہ پرتھوک دیا تو مجھے غصّہ آگیا اور مَیں نے سمجھا کہ اب اگر مَیں تمہیں قتل کروں گا تو میراقتل کرنا اپنےنفس کےلیے ہوگا، خدا کےلیے نہیں ہوگا۔
جب سورۂ توبہ نازل ہوئی تو آنحضورﷺ حضرت ابوبکرؓ کو بطورامیر حج بھجواچکے تھے۔ آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کرسکتا۔ پس نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو اس متبرک امانت اور حجاج کے لیے پیغام دےکر روانہ فرمایا۔اس حج کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کی حج کےامورپر نگرانی کی اور جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علیؓ نے آنحضورﷺ کا پیغام لوگوں تک پہنچادیا۔
فتح مکّہ سے پہلے آنحضورﷺ نے حضرت زبیرؓ،مقداد بن اسودؓ اور علیؓ کوایک شتر سوار عورت کے پیچھے روانہ فرمایا جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے اہلِ مکّہ کے مشرکوں کےنام خط لکھ کر دیاتھا۔یہ تینوں صحابہ نہایت سرعت کےساتھ اس عورت تک پہنچے اورخط لےکر واپس رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ آنحضورﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہ سے اس حرکت کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ مَیں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ کام نہیں کیا بس مَیں یہ چاہتا تھا کہ مکّے والوں پر کوئی احسان کردو ں جس کا بعد میں وہ پاس کریں۔
فتح مکّہ کے موقعے پر حضرت علیؓ نے آنحضورﷺ سے ’سقایہ‘ یعنی حج کے موقعے پر پانی پلانے کی ڈیوٹی کے ساتھ ’حجابہ‘ یعنی خانہ کعبہ کو کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری سونپے جانے کی بھی درخواست کی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے عثمان بن طلحہ کو طلب کیا اور چابیاں دیتے ہوئے فرمایا کہ اے عثمان! یہ تیری چابی ہے نیز حضرت علیؓ سے فرمایا کہ مَیں تم لوگوں کو وہی چیز دوں گا جس میں تم لوگوں کے لیے خیر اور برکت ہوگی اور مَیں تم کو وہ چیز نہیں دوں گا جس کی تم خود ذمہ داری لینا چاہو۔
غزوۂ حنین شوال 8 ہجری میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت علیؓ کے پاس تھا۔ جب دورانِ جنگ گھمسان کا رَن پڑا تو آنحضورﷺ کے گرد چند صحابہ ہی رہ گئے تو ان چند صحابہ میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔
سریہ بنوطیٔ کے موقعے پر آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ کی زیرِ کمان ڈیڑھ سو افراد کو روانہ فرمایا۔ حضرت علیؓ بنو حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فلس کو منہدم کردیا۔ اس سریے سے آپؓ بہت سا مالِ غنیمت اور قیدی لےکر واپس لوٹے۔
غزوۂ تبوک رجب 9؍ ہجری کے موقعے پر نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عرض کی کہ آپؐ مجھے بچوں اور عورتوں میں پیچھے چھوڑ کرجاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا مقام مجھ سے وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ سے تھا مگر یہ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
10؍ ہجری میں آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کو اہلِ یمن کی طرف بھجوایا تاکہ آپؓ انہیں اسلام کی طرف بلائیں۔ حضرت علیؓ سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھی بھجوایا گیاتھا لیکن اہلِ یمن نے انکار کردیا تھا۔ جب حضرت علیؓ نےاہلِ یمن کو آپؐ کا خط پڑھ کر سنایا تو پورے ہمدان نے ایک ہی دن میں اسلام قبول کرلیا۔
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے مجھے قاضی بنا کر یمن بھیجا تو مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نوجوان ہوں مجھے قضا کا کچھ عِلْم نہیں۔ آنحضرتﷺنے فرمایا اللہ ضرور تیرے دل کو ہدایت دےگا اور تیری زبان کو ثبات بخشےگا۔ پس جب تیرے سامنے دو جھگڑا کرنے والے بیٹھیں تو دونوں فریقوں کی بات سنے بنا فیصلہ نہ کرنا۔
حضرت عمرو بن شاس اسلمی کہتے ہیں کہ مَیں حضرت علیؓ کے ہم راہ یمن کے سفر میں شامل تھا۔ دورانِ سفر حضرت علیؓ سے مَیں نے سختی محسوس کی اور واپس آکر مسجد میں اس بات کی شکایت بھی کردی اور یہ بات رسول اللہﷺ تک پہنچ گئی۔ ایک دن مَیں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہﷺ نے مجھے تیز نظروں سے دیکھا اور فرمایا اے عمرو! خدا کی قسم تُو نے مجھے اذیت دی ہے۔ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مَیں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ آپؐ کو تکلیف پہنچاؤں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا جس نے علی کو اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نےحضرت علیؓ کاذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد الجزائر اور پاکستان سے متعلق دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ جمعے الجزائر کا ذکر نہیں ہوا تھا۔ وہاں بھی احمدیوں پر کافی سخت حالات ہیں۔ بعض احمدیوں کو اسیر بھی بنایا گیا ہے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے حالات میں آسانی پیدا کرے۔ اسی طرح پاکستان کے حالات بھی سختی کی طرف ہیں اس لیے دعا کریں کہ اگر افسران اور مولویوں کا یہی مقدر ہے کہ انہیں عقل نہیں آنی تو اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔آمین
خطبے کے اختتام پر حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم رشید احمد صاحب ابن مکرم محمد عبداللہ صاحب آف ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم 28؍ اکتوبر کو 76 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ مکرم طاہرندیم صاحب مربی سلسلہ عربی ڈیسک کے والد تھے۔ مرحوم بڑے نیک،صالح،شریف النفس،مہمان نواز اور ہم درد انسان تھے۔پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
٭…٭…٭