تدوین حدیث اور پہلی تین صدیوں میں ضبط تحریر میں آنے والی کتب حدیث (قسط اوّل)
سرچشمہ ہدایت، مزکّیٔ انسانیت، رہبر و ہادی حضرت سرور کونین محمد مصطفیٰﷺ کا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے ساتھ لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا۔ آپؐ کے افعال رہتی دنیا تک کے لیے ’’سنت‘‘ بن گئے اور اقوال ’’حدیث‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے۔ ایسا بابرکت خزانہ جس نے تعلّم و تعلیم کے دروَا کر دیے۔ ایسا اعلیٰ مصفّیٰ چشمہ جس سے گذشتہ چودہ صدیوں کے مسلمان روحانی طور پر سیراب ہوئے۔ یہ اسلام، قرآن کریم اور سیرت نبویﷺ کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والاایک اصل ثابت ہوا جس کے ذریعہ اسلام، عقائد و اعمال، سنن و افعال نبویہﷺ، سیرت و مغازی، تاریخ اسلامی اور تفسیر قرآنی وغیرہ کےسمجھنے میں سہولت ہو گئی۔
کتابت و تدوینِ حدیث اور دَور نبویﷺ
حدیث نبویﷺ کی کتابت و تدوین سے متعلق اسلامی تواریخ کی کتابیں اس طرف ایما کرتی ہیں کہ یہ بابرکت کام حضور اکرمﷺ کے دور اقدس سے ہی شروع ہو چکا تھا۔
٭…10؍ھ میں آنحضرتﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو نجران بھیجا تھا، وہاں کے لوگ مسلمان ہوئے توحضرت عمرو بن حزم کو حاکم بنا کر روانہ فرمایا اورایک یادداشت لکھوا کر حوالہ کی جس میں فرائض سنن، صدقات، دیات اوربہت سے احکام درج تھے، چنانچہ کاروبار حکومت کے ساتھ ساتھ محکمۂ مذہبی بھی انہی کی زیر نگرانی تھا، یعنی تعلیم اورتبلیغ کا مذہبی فرض بھی انجام دیتے تھے، صاحب استیعاب لکھتے ہیں :
استعملہ رسول اللّٰہ علی نجران لیفقھھم فی الدین ویعلم القرآن ویاخذ صدقاتھم۔
یعنی رسول اللہﷺ نے ان کو تفقہ فی الدین اورقرآن کی تعلیم نیز صدقات کی تحصیل پر مامور فرمایا تھا۔
( الاستيعاب في معرفۃ الاصحاب، فی ذکر عمرو بن حزم، :الناشر: دار الجيل، بيروت)
٭…اس کے علاوہ آنحضرتﷺ نے اپنے فرمودات پر مشتمل ایک کتاب(کتاب الصدقۃ) املا کروائی جس میں زکوٰۃ کے مسائل لکھوا کر بعض علاقوں میں بھیجنا چاہی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت جامع ترمذی میں ملتی ہے کہ آپﷺ نے ایک کتاب عمال کوبھجوانے کی غرض سے لکھوائی جس میں زکوٰۃ و صدقہ سے متعلق مسائل تھے مگر آپﷺ یہ بھجوا نہ پائے تھے کہ آپﷺ کی وفات ہو گئی اور آپﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو بھجوایا۔
( ترمذی، کتاب الزکوٰۃ، باب ما جآء فی النھی عن المسئلۃ، حدیث نمبر 624)
٭…ترمذی ہی کی ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک انصاری صحابی تھے جو آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے اور آپ کی باتیں سنتے مگر آپ کو یہ (احادیث) یاد نہ رہتیں۔ یہ بات ان صحابی نے حضورﷺ کی خدمت میں بیان کی تو آپ نے فرمایا:اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ۔ یعنی اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لو، (یعنی لکھ لیا کرو)۔
( ترمذی، ابوب العلم، باب ما جآء فی الرخصۃ فیہ، حدیث نمبر 2714 و جامع الصغیر، جلد اوّل، حدیث نمبر 980، مطبوعہ دار الفکر، بیروت2008ء)
٭…ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ کچھ ایسا ہی سوال حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریمﷺ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا، اُکْتُبُوْا وَلَا حَرَجَیعنی ان باتوں کو لکھ لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(تقیید العلم، صفحہ 85، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء ومظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ اردو، جلد اول، صفحہ 34، 35، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
٭… فتح مکہ کے دنوں میں ایک بار آنحضرتﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو ایک یمنی بادشاہ جس کا نام ابو شاہ تھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا:اکتبوا لی یا رسول اللّٰہ…یعنی یا رسول اللہﷺ اس خطبہ کو میرے لیے لکھوانے کا انتظام فرما دیجیے۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا:اکتبوا لابی شاہ۔
( بخاری، کتاب فی اللقطۃ، باب کیف تعرف لقطۃ اھل مکۃ، حدیث نمبر 2434)
٭…حضرت امام ابن حجر العسقلانی اپنی تصنیف ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’حضرات جہم بن سعد اور زبیر رضی اللہ عنہما حضورﷺ کے ارشاد کے موافق صدقات کے اموال اور اس سے متعلقہ چیزیں تحریر کیا کرتے تھے۔ ‘‘
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر جھم بن سعد (نمبر 1256)، جلد 1، صفحہ 460، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
٭…امام ابن حجر عسقلانی کی کتاب نزھۃ النظر فی شرح توضیح نخبۃ الفکرکے اردو ترجمہ سلعۃ القربۃ فی شرح فی توضیح نخبۃ الفکرمیں ہے:
’’7ھ میں جو نامہ نامی آنحضرتﷺ نے مقوقس شاہِ مصر کی جانب حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ ارسال فرمایا تھا۔ وہ بعینہٖ ایک قطبی راہب کے پاس محفوظ تھا۔ اس نامہ کو ایک فرانسیسی نے 1275ھ میں اس سے خرید کر کے سلطان عبدالحمید کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ جو ابھی تک موجود ہے اور فوٹو کے ذریعہ سے اس کی نقلیں ہو کر دنیا میں شائع ہوئی ہیں۔ اس نامہ کا جب اس نامہ سے جو کتب احادیث میں منقول ہے مقابلہ کیا جاتا ہے تو بجز ایک لفظ کے تفاوت کے بالکل دونوں میں اتحاد ہے۔‘‘
(سلعۃ القربۃ فی شرح فی توضیح نخبۃ الفکر اردو ترجمہ نزھۃ النظر فی شرح توضیح نخبۃ الفکرصفحہ 10، ادارہ اسلامیات، انارکلی، لاہور)
اس سے بھی احادیث کی حفاظت و تدوین کے معاملہ میں صحابہ و تابعین کرام کی غیر معمولی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں۔
کتابت و تدوینِ حدیث اور صحابہ کرامؓ اور پہلی صدی ہجری میں ضبط تحریر میں لائی گئی کتب احادیث
1۔ صحیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
(ولادت:50 ق ھ۔ وفات: 13ھ)
آپ نے احادیث کا ایک مجموعہ یعنی صحیفہ مرتب کیا تھا، جس میں پانچ سوکے قریب احادیث تھیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے اس کو جلا دیا تھا، اس کی وجہ بھی خود بیان کی تھی فرمایا:
’’مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں میری موت آجائے اور اس مجموعہ میں بعض ایسی احادیث بھی ہوں، جو میں نے ایسے شخص سے سنی ہوں، جس پر میں نے اعتماد کرلیا ہو، مگر فی الحقیقت ایسا نہ ہواور میں اللہ کے ہاں اس کی روایت کا ذمہ دار ہوجاؤں۔‘‘
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر ابو بکر الصدیق، جلد اوّل، صفحہ 5، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
بہرحال اس سے اتنا معلوم ہوگیا کہ آپ نے بھی پانچ سو احادیث کی تدوین کی تھی۔ جن میں سے کچھ آپ نے حضورﷺ سے خود سنی تھیں اور کچھ دوسرے صحابہ سے لی تھیں۔ کتب احادیث میں آپ کی کل مرویات کی تعداد ایک سو چالیس کے قریب بتائی جاتی ہے۔
2۔ صحیفہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ
(ولادت:40ق ھ۔ وفات: 23ھ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ایک صحیفہ تھا، جو آپ کی تلوار کے پرتلے میں محفوظ کیا ہوا تھا۔ ایک بار ورثہ کے متعلق ایک مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:جو مال بیٹا یا باپ جمع کرے وہ اس کے عصبہ کے لیے ہے خواہ وہ کوئی ہو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ کو لکھ کر دے دیا اور اس پر بطورِ شہادت عبدالرحمٰن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک اور آدمی کے دستخط کرائے۔ ایسا ہی خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں مقدمہ پیش ہوا، تو عبدالملک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس(حدیثوں کی ) کتاب کے مطابق فیصلہ کیا ۔
(سنن ابوداود، کتاب الفرائض، باب فی الولآء۔ حدیث نمبر 2917)
سنن ابوداؤد میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے احادیث کی جمع و تدوین کا حکم دیا تو حضرت عمرؓ کا یہ صحیفہ ان کے خاندان سے ملا۔ اس میں صدقات و زکوٰۃ کے احکامات درج تھے۔
(سنن ابوداود، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمۃ۔ حدیث نمبر 1570)
3۔ صحیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
(ولادت:47ق ھ۔ وفات: 35ھ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھی احادیث کے ایک ذخیرہ کا تذکرہ موجود ہے۔ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
’’اس کتاب کو حضرت عثمان کے پاس لے جاؤ اور ان سے اس پر عمل کے لئے کہو۔ کیونکہ اس میں آپﷺ کے احکام مندرج ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس سے مستغنی ہوں یعنی میرے پاس یہ احکام موجود ہیں۔‘‘
( صحیح بخاری کتاب الجہاد)
4۔ صحیفہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
(ولادت23ق ھ۔ وفات:40ھ)
حضرت علیؓ نے بھی نبی کریمﷺ کے دَور میں کچھ احادیث کو تحریری شکل میں مرتب کیا تھا۔ آپ اس صحیفہ کو اپنی تلوار کی نیام کے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے۔ اس صحیفہ کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے کہ
’’میں نے قرآن کریم اور اس مسودے میں جو کچھ ہے ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے اور کچھ نہیں لکھا۔‘‘
(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، حدیث نمبر 1870 و تقیید العلم، صفحہ110، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء، تذکرۃ الحفّاظ فی ذکر علی بن ابی طالب، جلد اوّل، صفحہ 12، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
اس میں قصاص، دیت، فدیہ، اسلامی مملکت، غیرمسلموں کے حقوق، وراثت کے خصوصی نوعیت کے کچھ مسائل، متفرق عمروں کے اونٹوں پر زکوٰۃ کے اصول اور شہر مدینہ کی تقدیس و حرمت کے کچھ احکامات درج تھے۔ یہ مسودہ رسالت مآب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں حضرت علیؓ نے تحریر فرمایا تھا۔
(بخاری، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب ذمۃ المسلمین و جوارھم، حدیث نمبر 3172)
ایک بار حضرت علیؓ مسجد میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا پھر لوگوں سے پوچھا’’کون ہے جو ہم سے ایک درہم کے بدلے علم حدیث خرید لے؟ ‘‘ابوخیثمہ کہتے ہیں کہ اس جملے سے مراد یہ تھی کہ ایک درہم کا کاغذ خرید کر ہماری بیان کردہ حدیثیں لکھ لے۔ چنانچہ حارث اعور کئی درہم کےکاغذ خرید لائے اور آپ کی روایت کردہ بہت سی احادیث تحریر کیں۔
(تقیید العلم، صفحہ 112، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
’’اس کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدقات کے احکام بھی تحریر کئے تھے اور یہی وہ کتاب تھی جس کو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ اس میں آنحضرتﷺ کے احکام ہیں۔ یہ آپ کے بیٹے محمدؒ بن حنیفہ کے پاس تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا۔ اسی کی نقل آپ نے حارث کو لکھ کر دی تھی۔ ‘‘
(تدوین حدیث، ’برہان‘ دہلی، جون سن 1951، صفحہ 317)
5۔ صحیفہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ
(ولادت:تاریخ نامعلوم۔ وفات:51ھ)
آپ نے بھی احادیث کی ایک کتاب لکھی۔ اس میں آپ نے علم الفرائض، زکوٰۃ اور دیات وغیرہ سے متعلق احادیث جمع کیں۔ یہ ابو داؤد، نسائی اور دارمی وغیرہ نے اپنی کتب میں تحریر کیا۔
( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر عمرو بن حزم (نمبر 5826)، جلد 4، صفحہ 507، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
6۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ
(ولادت:تاریخ نامعلوم۔ وفات:54ھ)
حضرت امام عبدالرحمٰن النسائی بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب کی احادیث پرمشتمل کتاب پڑھی تھی اور اس سے چند احادیث بھی اخذ کی تھیں۔
(سنن نسائی، کتاب الجمعۃ، باب الرخصۃ فی ترک الغسل یوم الجمعۃ، حدیث نمبر 1380)
اسی بات کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب اور شرح فتح الباری میں لکھا ہے۔
ابو داؤد کی ایک روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سمرہ بن جندب کی حدیث کی کتاب سے روایتیں اپنی سنن میں لکھیں۔ ان روایات پر مشتمل کتاب کو آپ کے بیٹے سلیمان بن سمرہ آگے بیان کیا کرتے تھے۔
(سنن ابو داؤد، كتاب الصلاة، باب اتخاذ المساجد في الدور، حدیث نمبر 456)
7۔ صحیفہ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
(ولادت:18ق ھ۔ وفات:56ھ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے دیگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نسبت سب سے زیادہ احادیث روایت کی ہیں۔ آپ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 5374بیان کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ قبول اسلام کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی احادیث کی حفاظت اور نقل کے لیے وقف کر دی تھی۔ پہلے پہل آپ روایات نہیں لکھا کرتے تھےمگر آپؓ نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں احادیث لکھ لی تھیں۔ چنانچہ ایک بار حضرت حسن بن امیہ الضمری نے آپ کے سامنے ایک روایت بیان کی۔ اس پر حضرت ابو ہریرہؓ آپ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہی روایت ایک لکھے ہوئے صحیفہ میں دکھائی اور کہا:’’یہ روایت ہمارے پاس لکھی ہوئی موجود ہے۔ ‘‘
( فتح الباری، کتاب العلم، جلد اوّل، صفحہ 208، مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیۃ (1981ء)، شیش محل، لاہور، پاکستان )
کچھ عرصہ قبل آپ کے ایک تلمیذ ھمام بن منبِّہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک صحیفہ دریافت ہوا ہے جس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کثیر ذخیرہ احادیث کتابی صورت میں موجود تھا۔ اس صحیفہ کا تفصیلاً ذکر آگے آئے گا۔
8۔ ’’الصادقۃ‘‘صحیفہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
(ولادت: 12ق ھ۔ وفات:63ھ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمرو کے بارے میں فرماتے ہیں۔
اِنَّہٗ کانَ یَکْتُبُ وَلَا اَکْتُبُ۔
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر عبداللہ بن عمرو بن العاص، جلد اوّل، صفحہ 42، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
کہ وہ ان احادیث کومعرض تحریر میں لے آتے تھے مگر میں نہیں لکھتا تھا۔ اسی بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا اپنا روایت کردہ واقعہ ملتا ہے، آپ فرماتے ہیں :
كنت أكتب كل شيء أسمعه من رسول اللّٰه ارید حفظَہ، فَنَھَتْنِی قُریش۔ فقالوا انک تکتبُ کلّ شیءٍ تسْمَعُہ من رسول اللّٰہﷺ و رسول اللّٰہﷺ بشر۔ یتکلّم فی الغضب والرضا۔ فأمسكت عن الكتاب، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه فقال : اكتب فوالذي نفسي بيده ماخرجَ منّی الّا حق۔
( المسند الجامع، جلد 11، عبداللہ بن عمرو السھمی۔ عبداللہ بن مسعود، مطبوعہ دار الجیل، بیروت، صفحہ247)
ترجمہ: میں جو کچھ بھی رسول اللہﷺ سے سنتا اس کو لکھ لیا کرتا، تا کہ وہ سب مجھے یاد رہے۔ اس پر قریش کے بعض لوگوں نے مجھے روکا کہ تم جو کچھ سنتے ہو لکھ ڈالتے ہو اور(تمہیں علم ہے کہ) رسول اللہﷺ ایک بشر ہیں۔ آپﷺ غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں کلام فرماتے ہیں۔ انہوں نے مجھے لکھنے سے روک دیا۔ اس بات کا ذکر میں نے آنحضورﷺ سے کیا، تو آپﷺ نے فرمایا، ’’بیشک لکھ لیا کرو، مجھے اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ مجھ سے صرف حق اور سچ ہی صادر ہوتا ہے۔‘‘
جیسا کہ بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نبیﷺ کی اجازت سے آپﷺ کی احادیث کو لکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان احادیث کو ایک کتابی صحیفہ کی شکل میں مرتب کیا اور اس کا نام ’’الصادقہ‘‘ رکھا۔ یہ صحیفہ ان کو اس درجہ محبوب و عزیز تھا کہ وہ کہا کرتےتھے۔
’’صرف دو چیزیں ہیں جو کہ مجھے زندگی کی رغبت دلاتی ہیں، ایک ’’الصادقۃ‘‘ اور’’وھط‘‘ الصادقۃ وہ صحیفہ ہے جس میں وہ احادیث درج ہیں جو کہ میں نے نبیﷺ سے سن کے تحریر کی ہیں جبکہ’’وھط‘‘۔ میرے والد عمرو بن العاص کا اللہ کی راہ میں وقف کردہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جس کی میں دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ‘‘
(سنن الدارمی(مترجم)، جلد اوّل صفحہ 196، مطبوعہ اشتیاق اے مشتاق پرنٹرز، اردو بازار، لاہور۔ مارچ 2008ء)
اس سلسلہ میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس صحیفہ (الصادقۃ)سے بخاری نے قریباً 100سے زائد احادیث روایت کیں اور مسلم نے 130سے زائد احادیث روایت کیں۔ جبکہ اس کی بیشتر احادیث المؤطا امام مالک میں موجود ہیں۔
9۔ صحیفہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
(ولادت:3ق ھ۔ وفات:66ھ)
آپ آنحضرتﷺ کے چچا زاد تھے، آپ کے ساتھ حضورﷺ کی ایک مقبول دعا تھی کہ اے اللہ اس کودین کا تفقّہ اور علم قرآن عطا فرما۔ آپ کی ساری زندگی اس دعا کی قبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ آپ کی روایت کردہ احادیث میں سے 75متفق علیہ احادیث ہیں۔ اور بخاری میں 120 احادیث آپ سے روایت کردہ ہیں۔ آپ کی کتابت و تدوین حدیث سے متعلق تاریخ میں بہت کچھ آتا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو حدیث کے حصول اور اس کی تدوین کا اتنا شوق تھا کہ ایک حدیث کو اکابر صحابہ سے کئی کئی مرتبہ پوچھ کر اچھی طرح تسلی کر کے لکھ لیتے۔‘‘
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر عبداللہ بن عباس (نمبر4799)، جلد 4، صفحہ 118، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
حدثنا موسى بن عقبة قال وضع عندنا كريب (مولیٰ ابن عباس) حمل بعير أو عدل بعير من كتب بن عباس قال فكان علي بن عبد اللّٰه بن عباس إذا أراد الكتاب كتب إليه ابعث إلي بصحيفة كذا وكذا قال فينسخها فيبعث إليه بإحداهما
(الطبقات الکبریٰ جلد 5صفحہ 293)
موسیٰ ابن عقبہ کہتے ہیں کریب نے ہمارے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کتب کا اونٹ بھربوجھ چھوڑا۔ جب علی بن عبد اللہ بن عباس کو کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو وہ کریب کو لکھ بھیجتے کہ مجھے فلاں فلاں کتب بھیج دیں۔ پھر (کریب رحمہ اللہ) اس کتاب کا نسخہ تیار کرتے اور دو میں سے ایک نسخہ انہیں بھیج دیتے۔
سنن الترمذی، کتاب العلل میں ایک روایت ہے کہ عکرمہ کہتے ہیں، حضرت ابن عباس کے پاس طائف سے کچھ لوگ آئے جن کے ہاتھ میں حضرت ابن عباس کی کتابوں میں سے ایک کتاب تھی، توحضرت ابن عباس نے ان پر پڑھنا شروع کر دیا کبھی آگے سے پڑھتے اور کبھی پیچھے سے پڑھنے لگتے اور کہا، میں اس مشکل سے عاجز ہوں، تم مجھ پر پڑھو، میرا اقرار ویسے ہی ہے جیسے میں تم پر پڑھوں۔
(العلل الصغير للترمذی، باب القرائۃ علی العالم)
10۔ صحیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
(ولادت:15ق ھ۔ وفات:77ھ)
حضرت جابرؓ بھی نبی کریمﷺ سے احادیث سن کر ان کو سپرد قرطاس فرمایا کرتے تھے۔ صاحب کتاب تقیید العلم (ابوبکر احمد بن علی الخطیب البغدادی) تاریخ دمشق لابن عساکر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل، محمد بن علی اور محمد بن حنفیّہ آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور آپ کے صحیفہ سے احادیث نقل کیا کرتے تھے۔
(تقیید العلم، صفحہ 133، 134، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
اسی صحیفہ سے احادیث المصنف لعبد الرزاق میں بھی لی گئیں اور اس صحیفہ کا ذکر بھی ملتا ہے۔
(مصنف عبد الرزاق، كتاب الجامع، باب الذنوب، حدیث نمبر 20277 مطبوعہ المجلس العلمی، بیروت)
ترمذی میں ہےکہ قتادہ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں۔ سلیمان تمیمی کہتے ہیں : لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔ اور لوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کر دیا۔
( سنن الترمذی، کتاب البیوع، باب مَا جَاءَ فِي أَرْضِ الْمُشْتَرَكِ يُرِيدُ بَعْضُهُمْ بَيْعَ نَصِيبِهِ۔ حدیث نمبر 1312)
11۔ صحیفہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
(ولادت:10ق ھ۔ وفات:93ھ)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے ان صحابہ میں سے تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ آپ نے بھی مرویات کا ایک ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا۔ آپ چھوٹی عمر میں ہی حضورﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور آپ سے کئی باتیں سنیں اور بعد میں لکھیں۔ آپ کے ایک شاگرد ابن ہلال کہتے ہیں کہ
’’ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بہت اصرار کرتے تو آپ ہمارے پاس کچھ تحریری یاد داشتیں لاتے اور فرماتے، یہ وہ احادیث ہیں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنیں اور تحریر کر لیں پھر اس کے بعد میں یہ آنحضرتﷺ کے سامنے تصدیق کے لیے پیش بھی کر چکا ہوں۔‘‘
(المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر انس بن مالک (کتابۃ الحدیث فی عھد النبیﷺ ) حدیث نمبر 6511)
آپ نے اپنے دو بیٹوں نضر اور موسیٰ رحمہما اللہ کو ایک بار نصیحت کی کہ’’ ہمیشہ احادیث کو لکھا کرو اور یاد رکھا کرو۔ کیونکہ ہم تو اس شخص کے علمِ حدیث کو علم تصور نہیں کرتے تھے، جو لکھا نہیں کرتا تھا۔‘‘
(تقیید العلم، صفحہ 122، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
12۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ
(تاریخ ولادت و وفات نا معلوم ہے)
آپ کا اصل نام نُفَیع بن الحارث تھا۔ آپ اپنے نام کی نسبت کنیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ آپ بہت عالم فاضل صحابی تھے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر نفیع بن الحارث (نمبر8815)، جلد 6، صفحہ389، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
آپ کی کل مرویات کی تعداد 132 بتائی جاتی ہے۔ صحیح مسلم نے آپ سے روایات لیں۔ مسلم کتاب الاقضیۃ میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے روایت ہے، میرےوالد (حضرت ابو بکرہ نفیع بن الحارث) نے میرے بھائی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو( جوکےسجستان کےقاضی تھے )چند احادیث لکھ کر بھیجوائیں۔
(صحیح مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب کراھۃ قضاء القاضی و ھو غضبان۔ حدیث نمبر 1717و صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب ھل یقضی القاضی او یُفتی و ھو غضبان۔ حدیث نمبر 7158)
13۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ
(تاریخ ولادت و وفات نا معلوم ہے)
بعض کے نزدیک آپ بدری صحابی تھے۔ طبری کے نزدیک آپ حضورﷺ کی وفات کے وقت 8 سال کے تھے۔ ضحاک رضی اللہ عنہ نے ایک رسالہ قیس بن الہثیم کی طرف لکھا اور اس میں بعض احادیث تحریر کیں۔ حسن کہتے ہیں ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کی وفات کے وقت قیس بن الہثیم کو خط لکھا:
سلام عليك اما بعد فاني سمعت رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم یقولُ، انّ بین یدی الساعۃ فتناً کقطع الدخان…الحدیث
( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر الضحاک بن قیس (نمبر4188)، جلد 3، صفحہ 396، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں ضحاک رضی اللہ عنہ کی یہی ایک حدیث نقل کی ہے۔
14۔ حضرت ابو ریحانۃ شمعون الازدیّ رضی اللہ عنہ
(تاریخ ولادت و وفات نا معلوم ہے)
آپ اپنے نام کی نسبت کنیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ آپ اصحاب صفہ میں بھی شامل تھے۔ آپ ملک شام کے بڑے علماء میں سے ایک تھے۔ بقول امام ابن حجر عسقلانی آپ پہلے صحابی تھے جنہوں نے طومار میں مدرج اور مقلوب روایات درج کیں۔ آپ کے پاس ان روایات کے بڑے بڑے صحف تھے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکرشمعون (نمبر3940)، جلد3، صفحہ298تا300، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
15۔ صحیفہ ابو ھند الداری رضی اللہ عنہ
(تاریخ ولادت و وفات نا معلوم ہے)
آپ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی حضرت تمیم الداری کے بھائی تھے۔ بعض کے نزدیک آپ کی والدہ اور حضرت تمیم الداری کی والدہ ایک ہی تھیں پر آپ حضرت تمیم الداری کے چچا کے بیٹے تھے۔ ( آپ کی والدہ کی شادی، تمیم الداری کے والد کی وفات کے بعد آپ کے والد کے ساتھ ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا بھی ایک صحیفہ تھا جس میں آپ نے احادیث مرتب کی تھیں۔ بعد میں یہ صحیفہ حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ کی اولاد کے پاس رہا۔
( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر ھند بن الداری (نمبر10684)، جلد 7، صفحہ 394، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
کتابت و تدوین حدیث سے متعلق ایک نوٹ
صحابہ کرامؓ کی بابرکت زندگیوں میں سے اوپر دی گئی مثالیں خوب واضح کرتی ہیں کہ یہ بابرکت کام حضورﷺ کی زندگی ہی میں شروع ہو چکا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث قابل توجہ ہے۔ اس حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :لا تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلا حَرَجَ…۔
( صحیح مسلم، کتاب الزھد والرقائق، باب التثبّت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم۔ حدیث نمبر 3004)
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، میرا کلام مت لکھو اور جو بھی مجھ سے قرآن کے علاوہ لکھتا ہے وہ اس کو مٹا دے، میری باتیں (حدیثیں ) بے شک بیان کیا کرو۔
اس حدیث میں اور کتابت حدیث میں کچھ بھی ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ یہ حکم نبویﷺ اس وقت کا ہے جب قرآن کریم کی وحی کا نزول ہو رہا تھا اور حضور نبی کریمﷺ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وحی قرآنی کے ساتھ کسی اور چیز کا التباس نہ ہو۔ اس لئے شروع میں احادیث کو لکھنے کی مناہی ہوئی اور بعد میں قرآن کریم کی وحی اور اس کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ایک نظام بن گیا تو پھر حضورﷺ نے احادیث کو لکھنے کی اجازت عطا فرما دی۔
اس مضمون میں تفصیلاً کچھ لکھنے سے قبل یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ معلوم کیا جائے کہ تاریخ اسلام میں حضور اکرمﷺ کے آخری صحابی اور آخری تابعی کے متعلق کیا ذکر ہے۔
چنانچہ صحابہ کرام میں سب سے آخر پر وفات پانے والے صحابی رسولﷺ حضرت عامر بن واثلہ تھےجن کی کنیت ابو الطفیل تھی۔ آپ جنگ احد والے سال پیدا ہوئےاور حضورﷺ کی وفات کے وقت قریباً 8یا 9سال کے تھے۔ آپ کی وفات 110ھ میں ہوئی۔
(تدریب الراوی، الجزء الاوّل، باب معرفۃ الصحابۃ، صفحہ 691۔ مکتبۃ الکوثر، الریاض۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، فی ذکر ابو الطفیل (عامر بن واثلۃ) (نمبر 10166)، جلد 7، صفحہ 208، مطبوعہ المکتبۃ التوفیقیۃ۔القاھرۃ)
آخری تابعی حضرت خلف بن خلیفہ تھے جو 181ھ میں فوت ہوئے۔
(تدریب الراوی، الجزء الاوّل، باب معرفۃ الصحابۃ، صفحہ 712۔ مکتبۃ الکوثر، الریاض۔ )
پہلی صدی ہجری میں ضبط تحریر میں لائی گئی کتب احادیث
جس طرح صحابہ کرام نے فن حدیث اور کتابت حدیث کے حوالہ سے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ ٹھیک اسی طرح تابعین کرام نے بھی ایک بہت بڑی خدمت اسلام کی اس حوالے سے کی۔ مسلم امہ تا دم آخر اس خدمت کا احسان گرانبار نہیں چکا سکتی۔ ذیل میں پہلی صدی ہجری میں تابعین کرام کی جد و جہد سے معرض تحریر میں لائی جانے والی کتب و صحائف کا ذکر کیا جائے گا۔
1۔ حضرت عروہ بن زبیر
(ولادت:23ھ۔ وفات:95ھ)
آپ کا نام عروہ تھا۔ اور کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ مشہور صحابی رسولﷺ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے کے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ ذات النطاقین حضرت اسماء بنت ابی بکر تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ کے نانا اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاآپ کی خالہ تھیں۔ آپ کی ولادت 23ھ میں ہوئی۔ امام ذہبی کے نزدیک آپ کا تعلق رواۃ حدیث اور تابعین کے دوسرے طبقہ سے تھا۔ آپ مدینہ کے فقہائے سبعہ میں سے ایک تھے۔ تابعین میں حدیث اور مغازی کے بہت بڑے عالم تھے۔
( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر عروۃ بن زبیر، جلد اوّل، صفحہ 62، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے فقہی مسائل کو مستقل کتب میں لکھا لیکن بعدمیں ان کو ختم کردیا کہ کہیں یہ مسائل کتاب اللہ کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں جس پر آپ اکثر افسوس بھی کرتے تھے کہ کاش وہ کتب فقہ ضائع نہ ہوتیں۔
(تہذیب التہذیب (زیرعروہ بن زبیر)جلد 7صفحہ 183۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)
صاحب کتاب کشف الظنون کے نزدیک سیرت رسول کریمﷺ پر سب سے پہلے قلم حضرت عروہ بن زبیر نے اٹھایا۔ (کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب الغین۔ علم المغازی والسیر۔ صفحہ 1747 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)تاہم یہ سیرت بعد میں (بعض علماء کے مطابق) محمد بن اسحاق، واقدی اور طبری وغیرہ کی سیَر کا ماخذ بنی۔ تاریخ طبری میں آتا ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر سے خلیفہ عبدالملک مختلف اوقات میں سوال نامے بھیجا کرتے جن کے جواب کو اکٹھا کرکے انہوں نے اپنی مغازی لکھی تھی۔
2۔ صحائف حضرت سعید بن جبیر
(ولادت:45ھ۔ وفات:95ھ)
آپ کا نام سعیدتھا اور کنیت ابوعبداللہ تھی آپ بنی والبہ بن حارث اسدی کے غلام تھے، اس نسبت سے وہ والبی کہلاتے تھے۔ آپ کا شمار عالم و فاضل تابعین میں ہوتا ہے ہے۔ علامہ ذہبی آپ کو انہیں علمائے اعلام میں لکھتے ہیں۔
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرسعید بن جبیر، جلد اوّل، صفحہ 77، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
آپ علم کا ایسا سرچشمہ تھے جس کی اس عہد کے تمام علماءکو احتیاج تھی۔ میمون بن مہران کابیان ہے کہ سعید نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہ تھا جو ان کے علم کا محتاج نہ رہا ہو۔
(تہذیب التہذیب (زیر سعید بن جبیر)جلد 4صفحہ 12۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)
آپ نے حضرات عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید خدری، ابوہریرہ، عائشہ صدیقہ اورانس بن مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ سے فیض اٹھایا اور روایات بیان کیں۔ آپ نے ایک بار فرمایا کہ میں ابن عمر اور ابن عبا س رضی اللہ عنہما کے پاس چکر لگاتا رہتا اور جتنی بھی احادیث سنتا ان کو لکھ لیتا۔
( المسند الجامع (سنن الدارمی) کتاب العلم، باب ما جآء فی رخصۃ الکتابۃ۔ حدیث 538 صفحہ 190 مطبوعہ دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت۔ لبنان)
3۔ کتب عامر بن شراحیل الشعبی
(ولادت:20ھ۔ وفات:103ھ)
آپ کا نام عامر بن شراحیل تھا۔ آپ کی پیدائش 21ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ آپ قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھتے تھے۔ امام شعبی صحاح ستہ کے ثقہ ترین رواۃ میں سے ایک ہیں۔ آپ تابعی تھے اور آپ کا اپنا قول ہے کہ ادرکت خمس مائۃ من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر الشعبی علامۃ التابعین ابو عمرو، جلد اوّل، صفحہ 81، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)یعنی میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی۔ آپ عظیم الشان مقام کے حامل، زعیم القراء اور علامۃ التابعین جیسے اعلیٰ القاب سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا ایک صحیفہ حدیث امام شعبی کو دیا۔
(التاریخ الکبیر، جلد 6صفحہ 451۔ (ترجمہ: 2961) مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ۔ حیدرآباد دکن)
امام شعبی اپنے تلامذہ کو فرمایا کرتے تھےجو کچھ (احادیث نبویہ میں سے)تم مجھ سے سنتے ہو اس کو لکھ لیا کرو۔
(قیید العلم، صفحہ127، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
4۔ خالد بن معدان
(تاریخ ولادت نامعلوم۔ وفات:103ھ)
آپ کا نام خالد بن معدان بن ابی کرب الکلاعی تھا۔ آپ مشہور تابعی تھے اور ائمۃ الفقہ میں سے تھے۔ آپ نے ستّر صحابہ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ آپ نے حضرات ثوبان، ابو امامہ باہلی، معاویہ بن سفیان، ابو ہریرہ، مقدام بن معدي كرب، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو وغیرہ صحابہ کرام سے احادیث روایت کیں۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں فرمایا ہے کہ آپ کا حدیث کا ایک صحیفہ تھا جس کی احادیث بعد میں صحاح ستہ میں آئیں۔
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرخالد بن معدان، جلد اوّل، صفحہ 93، 94، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
5۔ ابو قلابۃ الجرمی
(تاریخ ولادت نامعلوم۔ وفات:104ھ)
آپ کا نام عبد الله بن زيد الجرمی البصری تھا اور کنیت ابو قلابۃ تھی۔ آپ تابعی تھے اور حدیث کے ثقہ راوی تھے۔ آپ کی پیدائش بصرہ میں ہوئی اور شام کو مسکن بنایا۔ حضرت مالک بن انس فرماتے ہیں کہ سعید بن مسیّب اور قاسم فوت ہو گئے اور اپنے پیچھے کوئی کتاب نہ چھوڑی اور جب ابو قلابۃ کی وفات ہوئی تو انہوں نے اپنے پیچھےاتنی کتابیں (حدیث کی) چھوڑیں جو کہ ایک خچر لاد کے برابر ہیں۔
(تهذيب الكمال، جلد14، صفحہ 542، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت۔ الطبعۃ الاولى، 1980م)
حماد کہتے ہیں کہ آپ نے ایوب سختیانی کو اپنی کتب کے بارے میں تاکیدی حکم دیا کہ ان کو شام لے آؤ۔ جب وہ کتب لائی گئیں۔ تو وہ ایک اونٹ پر لاد کر لائی گئیں۔
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابو قلابۃ، جلد اوّل، صفحہ 94، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
6۔ بشیر بن نہیک السدودی رحمہ اللہ(آپ کا سن وفات نا معلوم ہے تاہم یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ نے اپنا نسخہ حضرت ابو ہریرہ کو دکھایا جن کی وفات 58ھ میں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی پہلی صدی ہجری کے جامعین حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔)
آپ کا نام بشیر بن نہیک تھا اور آپ کی کنیت ابو الشعثاء تھی۔ آپ کا لقب ’’صاحب ابی ہریرہ ‘‘تھا۔ آپ کا شمار ثقہ رواۃ حدیث میں ہوتا ہے۔ امام ترمذی العلل الکبیر میں حضرت بشیر بن نہیک کے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع، اکتساب اور روایت حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، عن عمران بن حدير، عن ابي مجلز، عن بشير بن نهيك قال: كتبت كتابا عن ابي هريرة؛ فقلت: ارويه عنك؟ قال: نعم۔
بشیر بن نہیک کہتے ہیں : میں نے ابوہریرہ کی روایت سے ایک کتاب لکھی تو ان سے کہا کہ میں اسے آپ سے روایت کروں ؟ کہا: ہاں، روایت کرو۔
(تقیید العلم، صفحہ 129 مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت بشیر بن نہیک فرماتے ہیں کہ میں نے احادیث پر مبنی ایک کتاب لکھی اور اس کو حضرت ابو ہریرہ کے پاس لایا اور اس کو سنایا۔ اس پر حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘
( تہذیب التہذیب (زیر بشیر بن نہیک)جلد 1صفحہ 470۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)
7۔ رسالہ حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرؒ
(تاریخ ولادت نا معلوم ہے۔ وفات: 106 ھ)
حضرت سالم بن عبداللہ حضرت عمر بن الخطاب کے پوتے تھے۔ علم حدیث و فقہ میں امام اور ’’ثقۃ ثبت‘‘ کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ کا شمار سات فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ شہنشاہ ایران یزدگرد کی بیٹی تھیں اس طرح آپ میں عربی و فارسی دونوں کا ملاپ تھا۔
( تہذیب التہذیب (زیرسالم بن عبداللہ)جلد 3 صفحہ 438۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)
آپ کے پاس اپنے دادا کا صحیفہ حدیث اور اسی طرح اپنے والد نامدار کے صحف بھی تھے۔ اس کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں :
وہ صحیفہ جو حضرت عمر بن الخطاب کے پاس تھا، سالم بن عبداللہ بن عمر نے مجھے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا۔
(سنن ابوداؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمۃ۔ حدیث نمبر 1570)
8۔ ابو عبداللہ مکحول بن ابی مسلم الھذلی
(ولادت:81ھ۔ وفات:113ھ)
آپ ھذیل کی ایک عورت کے آزاد کردہ غلام تھے اس لیے آپ کو یہ نسبت دی جاتی ہے۔ آپ کا تعلق کابل (افغانستان) سے تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کسریٰ کی اولاد میں سے تھے اور دمشق میں آپ کا محل تھا۔ آپ کا تعلق تابعین و رواۃ حدیث کے چوتھے طبقہ سے تھا۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں طلب علم کے لیے بہت گھوما ہوں۔ اسی طرح وھب کہتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں سارے مصر میں گھوما اور کوئی ایسا عالم نہیں چھوڑا جس سے میں نے طلب علم نہ کیا ہو۔ ایسے ہی میں سارے عراق میں گھوما اور کوئی ایسا عالم نہیں چھوڑا جس سے میں نے طلب علم نہ کیا ہو۔ ایسے ہی میں سارےمدینہ میں گھوما اور کوئی ایسا عالم نہیں چھوڑا جس سے میں نے طلب علم نہ کیا ہو۔ ایسے ہی میں سارےشام میں گھوما اور کوئی ایسا عالم نہیں چھوڑا جس سے میں نے طلب علم نہ کیا ہو۔ ( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر مکحول، جلد اوّل، صفحہ 107، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ) احادیث پر مشتمل آپ کی ایک کتاب ’’کتاب السنن‘‘ کے نام سے ملتی ہے۔ جس کا ذکر ابن ندیم نے الفہرست میں کیا۔
9۔ دفاتر الزھری ابو بکر محمد بن مسلم بن شہاب الزھری
(ولادت:59ھ۔ وفات:124ھ)
آپ کا نام نامی محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب الزھری تھا۔ آپ کے والد کا نام مسلم تھا مگر آپ اپنے دادا شہاب بن حارث کی نسبت سے ابن شہاب مشہور ہوئے۔ آپ قریش کے مشہور قبیلہ بنو زہرہ کی طرف منسوب ہیں۔ مدینہ کے رہنے والے ہیں۔ آپ 50ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے زمانہ میں زندہ اصحاب رسولﷺ اور اکابر تابعین سے شرف تلمّذ حاصل کیا۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں، زہری سے دو ہزار دو سو حدیثیں مروی ہیں۔ ان میں سے نصف مسند ہیں۔
(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرمحمد بن مسلم بن شھاب الزہری، جلد اوّل، صفحہ 109، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
ابو الزناد کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام زہری کے ساتھ علماء کے گھروں کا چکر لگایا کرتے تھے۔ امام زہری کے پاس ساتھ تختیاں اور صحیفےہوا کرتے تھے۔ وہ جو کچھ سنتے جاتے اس کو قلمبند کرتے جاتے۔ (تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرمحمد بن مسلم بن شھاب الزہری، جلد اوّل، صفحہ 109، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)آپ کا ایک بیان تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ اگر وہ احادیث نہ ہوتیں جو مشرق کی طرف سے ہم تک پہونچتی ہیں اور ہم ان کےمتعلق نہیں جانتے تومیں نہ تو احادیث کو لکھتا اور نہ اس کی اجازت دیتا۔
(تقیید العلم، صفحہ 138، 139، مطبوعہ دار الاستقامہ، مصر، 2008ء)
امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ’’الرسالۃ المستطرفۃ‘‘ میں ابن جریج کے بارہ میں لکھتے ہیں۔
’’عمر بن عبدالعزیز کے حکم پرپہلی صدی کے سر پر، سب سے پہلے احادیث کی با قاعدہ تدوین محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب الزھری المدنی نے کی۔‘‘
( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 4۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993ء)
اوپر کی بحث سے یہ بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا کتب و صحائف پہلی صدی ہجری میں لکھے جا چکے تھے۔ اسی لیے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (المتوفیٰ :101ھ)نے ان علماء میں سے بعض کو حدیث کی تدوین کے کام کو باقاعدہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔ جس کا ذکر آگے آئے گا۔ ابھی اس صدی میں ہونے والے تدوین حدیث کے انفرادی کام کا کچھ مزید جائزہ لیا جائے گا۔
10۔ الصحیفۃ الصحیحۃ…ہمام بن منبہ
(ولادت:40ھ۔ وفات:133ھ)
حضرت ہمام بن منبہ40ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام ہمام بن منبہ بن كامل تھا اور کنیت ابو عقبہ تھی۔ آپ وھب بن منبہ (قاضی صنعاء) کے بھائی تھے۔ آپ نہ صرف صحاح ستہ کے راوی ہیں بلکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد بھی ہیں۔ آپ کا شمار نہایت پرہیزگار اور علم دوست تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ حدیث کے ثقہ رواۃ میں سے ہیں۔ آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قدر اکتساب فیض کیا کہ انہوں نے آپ کو حدیث کا ایک صحیفہ عطا فرمایا۔ امام ذہبی اس بارے میں تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں :
’’ھمام کے پاس حضرت ابو ہریرہ سے روایت کردہ ایک کتاب تھی، جس کا اکثر حصہ صحاح میں آ چکا ہے۔ ‘‘
( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکروھب بن منبہ، جلد اوّل، صفحہ 101، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)
اس صحیفہ میں 138 احادیث درج ہیں۔ بعض کے نزدیک حضرت ابو ہریرہؓ نے یہ صحیفہ آپ کو املاء کروایا اور بعض کہتے ہیں کہ آپ نے یہ لکھ کر اپنے استاد ابوہریرہؓ پر پیش کر کے اس کی تصحیح و تصویب کرائی تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا سن وفات 58 ہجری ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صحیفہ کو سن 58 ہجری سے قبل ہی ضبط تحریر میں لایا گیا تھا۔
اس صحیفہ کا ایک قلمی نسخہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب (المتوفیٰ: 2002ء)نے سن 1933ء میں برلن کی کسی لائبریری سے ڈھونڈا اور دوسرا مخطوطہ دمشق کی کسی لائبریری سے۔ پھر ان دونوں نسخوں کا تقابل کر کے 1955ء میں حیدرآباد دکن سے اس کو شائع کیا۔ یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس صحیفہ میں موجود تمام احادیث مسند احمد بن حنبل میں حضرت امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ: 240ھ) میں بھی موجود ہیں۔ اب اس صحیفہ کے املاء اور حضرت امام احمد بن حنبل کی مسند کے زمانہ میں قریباً 200سال کے لگ بھگ عرصہ ہے۔ اور ان دونوں نسخوں میں کمال یگانگت اور یکسانیت اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس زمانہ میں احادیث نبویہ کوکمال احتیاط، اہتمام اور مکمل حفاظت کے ساتھ ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ اس صحیفہ کی اکثر روایات کچھ معمولی لفظی اختلافات کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ملتی ہیں۔
(جاری ہے)