حاصل مطالعہ
لکنت کا علاج
ایک شخص نے اپنے حالات بذریعہ خط حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں اس طرح لکھےکہ
وہ ایک لکنت والے استاد سے عربی پڑھا کرتا تھا اور اسے لکنت کرتے ہوئے دیکھ کراس کی زبان بھی لکنت کرنے لگی حتی کہ اسے یہ مرض ہو گیا اور یہاں تک ترقی کی کہ اس نے بولنا ترک کر دیا بہت علاج کئے مگر فائدہ نہ ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اسے جو علاج لکھا وہ یہ ہے۔
علاج :خدا تعالیٰ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیے وہ لکنت کو بھی دور کر سکتا ہے۔
مغزبادام مقشر اور مصری کو صبح کھایا کریں اور ایک رتی نوشادر زبان پر ملا کریں رات کو کلونجی ایک ماشہ پانی سے کھا لیا کریں بولنے سےکبھی نہ رکیں ہر وقت بولنے کی کوشش کریں۔
(ماخوذ از البدر جلد 3نمبر 30 مورخہ 8؍اگست 1904ء صفحہ 8 بحوالہ ارشادات نور جلد اوّل صفحہ 204)
(مرسلہ: انجینیئرمحمود مجیب اصغر)
عقلمند ڈاکٹر بھی انتہائی حالت میں تدبیر نہیں چھوڑتا…انبیاء کی جماعت کا بھی یہی حال ہے
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’ایک شخص کی لات میں کچھ خرابی واقع ہوگئی۔ اس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کو لکھا کہ میں نے ہر چند علاج کیا کہ آرام آجائے مگر نہ آیا۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں لات کٹوا ڈالو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچ سکے اگر ڈاکٹروں سے فائدہ نہیں ہوا تو اب کچھ دیر کسی نائی سے جو جراحی کا کام کرتا ہو علاج کرا کر دیکھیں شائد اس سے فائدہ ہوجائے۔ چھ سات ماہ کےبعد اس شخص نے لکھا کہ آپ کے مشورہ سے یہ فائدہ ہوا کہ لات کٹنے سے بچ گئی اور اب درست ہوگئی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ کبھی ایسی بھی ضرورت آپڑتی ہے کہ کوئی عضو کاٹ دیا جائے اور چونکہ زندگی کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس لئے اگر کاٹنا پڑجائے تو حرج بھی نہیں، کیونکہ ایک عضو کے بالمقابل ایک جان کی بہت قیمت ہے۔ اس لئے اس جان کے بچانے کے لئے بعض دفعہ عضو کاٹ دیا جاسکتا ہے۔
میری غرض اس سے یہ ہے کہ عقلمند ڈاکٹر بھی انتہائی حالت میں تدبیر نہیں چھوڑتا۔ اگر وہ موت کے منہ سے نہیں بچا سکتا تو تکلیف سے تو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ انبیاء کی جماعت کا بھی یہی حال ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد نمبر10صفحہ 54)
(مرسلہ:محمد انور شہزاد۔ معلم سلسلہ)
محبتِ نبویﷺ میں نفسانیت
احمد سرفراز صاحب کی ایک فکر انگیز تحریر آن لائن میگزین ’’ہم سب‘‘ کی اشاعت 2؍اگست 2020ء میں شائع ہوئی ہے۔ آپ لکھتے ہیں :
’’قانون ہاتھ میں لینا، ایک ایسا جرم ہے جسے انسانی تہذیب کے کسی بھی دور میں ناقابل معافی جانا گیاہے۔ ممتاز قادری کیس کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے کہا تھا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حتیٰ کہ ایک ایسا مجرم جسے عدالت سے موت کی سزا سنائی جاچکی ہو، اس سزا پر بھی عملدرآمد ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ موت کی سزا سنائے جانے کے بعد بھی، اگر کوئی شخص اس مجرم کو اپنے طور پر مارنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس پر قتل کا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔
عدالت میں ملزم کو اپنے دفاع کا پورا پورا موقع دینا، ایک ایسا آئینی، قانونی اور مذہبی حق ہے جس کے بغیر کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ سنانا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ فرما گئے ہیں کہ معاشرے کفر پر تو قائم رہ سکتے ہیں، لیکن ظلم پر ہرگز نہیں۔ جدید تاریخ اور تحقیق سے صرف نظر کر بھی لیا جائے، تو خود قرآن میں حضرت آدم اور ابلیس کا واقعہ، ملزم (ابلیس) کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق دیتا ہے۔ عدالتی نظام اور طریقۂ کار بھی دیگرقرآنی واقعات سے ثابت شدہ ہیں۔
تاریخ کی شہادت ہے کہ انسانی معاشروں نے بڑی صعوبتوں کے بعد عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے باقاعدہ ادارے بنائے، جو انسانی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملکی آئین اور قوانین کے تقدس بارے، پاکستانی شہریوں کی صحیح تربیت نہیں کی جا سکی ہے۔ بدقسمتی سے خود ریاستی ادارے بھی قومی مفاد کے نام پر، اس’ کار خیر ‘میں برابر کے شریک رہے ہیں۔
ہمارے مذہبی علما ءبھی اس معاملے میں لوگوں کی تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے عوام الناس کو ’قرآن وسنت‘ کی جب بھی نصیحت کی، عمومی طور پر ’زمان و مکان کی بندشوں سے ماورا‘ ہو کر بیان کیا۔ زمانے کے سیاسی اور معاشرتی نظام سے کٹے ہوئے ’وعظ‘ کے نتیجے میں معاشرتی انتشار بھی ہوا اور سوچنے سمجھنے والوں کی ملا کے ’دین سے دوری‘بھی۔
اب جیسا کہ صرف یہ حدیث مبارکہ بیان کر دینا کہ ’برائی کو جہاں دیکھو، اپنی طاقت کے مطابق اس کو روکو‘، کافی نہیں ہے۔ آپ غور فرمائیے کہ صرف اتنی بات سن کر ہر شخص اپنے لحاظ سے ’برائی‘ کی تعریف کرتے ہوئے اپنی خود کی عدالت لگا لے اور موقع پر فیصلہ کر کے عمل درآمد بھی کرنا شروع کر دے تو معاشرے کا کیا حال ہو گا۔ سوائے پراگندگی اور انارکی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہمارے مذہبی علما ءکو لوگوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے تھی کہ یہاں طاقت سے کیا مراد ہے؟ نظام اور ادارے کس لیے بنائے جاتے ہیں ؟ اور ہر انسان کا دائرہ کار کیا ہے؟
اسی طرح یہ فقہی بحثیں کہ توہین رسالت کا قانون ’غیر مسلموں ‘ پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر کوئی کسی پر اس قسم کا الزام لگائے اور وہ عدالت سے جھوٹا ثابت ہو جائے، تو اس کی شریعت اور ملکی قوانین میں کیا سزا ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ملکی قوانین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان سب موضوعات پر کھل کر گفتگو کرنے کی ضرورت تھی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’توہین رسالت‘ کی بابت ایک موثر قانون (تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C کے تحت توہین آمیز الفاظ کی سزا، اگر ثابت ہو جائے تو، موت ہے ) ہونے کے باوجود، چند لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے عدالتوں کے اندر نہ صرف ’فیصلے‘ سناتے ہیں بلکہ موقع پر ’فوری انصاف‘ بھی مہیا کرتے ہیں۔ گو کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سزا بھی ملتی ہے جس کا واضح ثبوت ممتاز قادری کیس ہے۔
لیکنسوال یہ ہے آخر لوگ ایسا رویہ کیوں اپناتے ہیں؟ کیا یہ پاکستانی عدالتی نظام پر واضح عدم اعتماد ہے؟ کیا یہ کوئی قومی نفسیاتی مسئلہ ہے؟ کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثریت اپنے ذاتی، نجی یا کاروباری معاملات عدالتوں میں لانے سے گھبراتے ہیں۔ اس قسم کے بہت سارے مقدمات اور بھی کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن سردست تاریخ کے جھروکوں سے ایک واقعہ بیان کر کے اپنی بات مکمل کرتے ہیں۔
یہ واقعہ ’شیخ الہند مولانا محمو دالحسن‘ کے حوالے سے ہے۔ جسے ’مولانا سید مناظر احسن گیلانی‘ نے اپنی تصنیف ’’احاطۂ دارالعلوم (دیوبند) میں بیتے ہوئے دن‘‘ میں تحریر کیا ہے، اس کتاب کو مولانا اعجاز احمد اعظمی نے ترتیب دیا ہے۔ ناشر ’مکتبہ طیبہ دیوبند، یو پی‘ ہے، جبکہ پاکستان میں ’ادارہ تالیفات اشرفیہ، بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان‘ نے اسے شائع کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں۔
بخاری شریف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گزری کہ
’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے مال اور بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کے لئے محبوب نہ ہو جاؤں۔ ‘‘(بخاری، کتاب الایمان کی اس حدیث کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے، ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے نزدیک محبوب نہ ہو جاؤں ‘‘)
فقیر ہی نے عرض کیا کہ ’’بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکار کائناتﷺ کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو تو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے، زیادہ سے زیادہ گالیوں کے جواب میں وہ بھی گالیوں پر اتر آتا ہے۔ لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کر دیتی ہے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے۔‘‘
سن کر حضرت نے فرمایا کہ ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمہاری نظر نہیں پہنچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے، لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی مبارک کے ساتھ ہے، وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے۔ پیغمبر نے ہم سے کیا چاہا تھا، اور ہم کیا کر رہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ کی، جو مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی ہے، اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔
خاکسار نے عرض کیا، تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟
نفسیات انسانی کے اس مبصر حاذق نے فرمایا کہ سوچو گے تو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہو تا ہے۔ مسلمانوں کی خودی اور انانیت مجروح ہوتی ہے۔ ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں، تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔ چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’ہم‘ (انا) پر پڑتی ہے، لیکن مغالطہ ہوتا ہے، کہ پیغمبرﷺ کی محبت نے انتقام پر ان کو آمادہ کیا ہے، نفس کا یہ دھوکہ ہے۔
اپنی جگہ ٹھنڈے دل سے جو غور کرے گا، اپنے طرز عمل کے تناقض کے اس نتیجے تک پہونچ سکتا ہے، بہرحال محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہو رہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔‘‘
حضرت والا کی تقریر کا یہی خلاصہ تھا ظاہر ہے، ندامت اور شرمندگی کے ساتھ سر جھکا لینے کے سوا، ان کی اس نفسیاتی تنبیہ کے بعد میرے لیے کچھ اور پوچھنے کی گنجائش ہی کیا باقی رہتی تھی۔
(’احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن‘، باب 10 ’شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن‘، ذیلی عنوان ’محبت نبویﷺ میں نفسانیت‘ صفحات 153تا 155)
(https://www.humsub.com.pk/335842/ahmad۔sarfraz۔10/)
(مرسلہ:احمد طارق مرزا۔ آسٹریلیا)
٭…٭…٭