متفرق مضامین

قرآن مجید میں بیان فرمودہ تشبیہات و تمثیلات (قسط اوّل)

(لبنیٰ سہیل۔ یوکے)

نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَ جلیٰ نکلا

پاک وہ جس سے یہ اَنوار کا دریا نکلا

کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مضامین کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان فرمائی ہیں تا کہ ان مثالوں کی روشنی میں مقصود و مطلوب اچھی طرح ذہن نشین ہوسکے۔

مثالوں کی اہمیت

مثالوں کی اہمیت قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ کہیں ان کا یہ مقصد بیان فرمایا کہ لوگ ان پر غور وفکر کریں، کہیں نصیحت حاصل کرنے کی خاطر مثال بیان فرمائی اور کہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ قرآن کریم کی مثالیں صرف عقل مند لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ الغرض قرآن کریم میں بیان کردہ مثالیں بلا وجہ نہیں آئیں اور ان پر غور و فکر اور تدبر کرنا قرآن کریم کے قاری کا فرض بنتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن کریم میں بیان فرمودہ مختلف مثالوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ ہم ان کو پڑھ کر ان پر غور و فکرکرنے والے ہوں اور اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کی خاطر ان مثالوں کو کلام الٰہی میں بیان کیا گیا ہے۔

ان آیات کے حوالے سے یہ امر بھی ضروری ہے کہ جن آیات کا اس مضمون میں ذکر ہے ان کی جو تفسیراور وضاحت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپ کے خلفائے کرام نے فرمائی ہے ان سے بھی بھر پور استفادہ کیاجائے تا کہ ہم حقیقی معنوں میں قرآن کریم کے نور سےمنور ہو سکیں۔

قرآن کریم کی عظمت کی مثال

اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کو ایک مثال سے بیان فرما کر اس کی اہمیت کو بھی بیان کیا۔ فرمایا:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (الحشر:22)

اگر ہم نے اِس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تُو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکر کریں۔

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ (الزمر:28)

اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کی مثال بیان کردی ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ لَئِنۡ جِئۡتَہُمۡ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُبۡطِلُوۡنَ (الروم:59)

اور یقیناً ہم نے انسانوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں اور اگر تُو ان کے پاس کوئی نشان لے کر آئے تو جن لوگوں نے کفر کیا یقیناً وہ کہیں گے کہ تم (لوگ) تو محض جھوٹے ہو۔

وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ ۚ وَ مَا یَعۡقِلُہَاۤ اِلَّا الۡعٰلِمُوۡنَ (العنکبوت:44)

اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں لیکن علم والوں کے سوا ان کو کوئی نہیں سمجھتا۔

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ اَکۡثَرَ شَیۡءٍ جَدَلًا (الکہف:55)

اور ہم نے خوب پھیر پھیر کر لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں جبکہ انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے۔

اللہ کے نور کی مثال

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (النور:36)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو۔ وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہو۔ وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ (چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی۔ اس (درخت) کا تیل ایسا ہے کہ قریب ہے کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ بھی چھوا ہو۔ یہ نور علیٰ نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اللہ کے کلمات کی مثال

وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (لقمان:28)

اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر سب قلمیں بن جائیں اور سمندر (روشنائی ہوجائے اور) اس کے علاوہ سات سمندر بھی اس کی مدد کریں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا۔ (الکہف:110)

کہہ دے کہ اگر سمندر میرے ربّ کے کلمات کے لئے روشنائی بن جائیں تو سمندر ضرور ختم ہو جائیں گے پیشتر اس کے کہ میرے ربّ کے کلمات ختم ہوں خواہ ہم بطور مدد اس جیسے اور (سمندر) لے آئیں۔

جنت کی مثال

مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَا ؕ تِلۡکَ عُقۡبَی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا ٭ۖ وَّ عُقۡبَی الۡکٰفِرِیۡنَ النَّارُ (الرعد:36)

اس جنت کی مثال جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے) کہ اس کے دامن میں نہریں بہتی ہیں، اُس کا پھل دائمی ہے اور اُس کا سایہ بھی۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا جبکہ کافروں کا انجام آگ ہے۔

دوشیزاؤں کی مثال

وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ۔ کَاَمۡثَالِ اللُّؤۡلُوَٴ الۡمَکۡنُوۡنِ۔

اور فراخ چشم دوشیزائیں۔ گویا ڈھکے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ (الواقعہ:23تا24)

مُردوں کو زندہ کر نے کی مثال

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (الاعراف:58)

اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری دیتے ہوئے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادل اٹھا لیتی ہیں تو ہم اسے ایک مردہ علاقہ کی طرف ہانک لے جاتے ہیں۔ پھر اس سے ہم پانی اتارتے ہیں اور اس (پانی) سے ہر قسم کے پھل اُگاتے ہیں۔ اسی طرح ہم مُردوں کو (زندہ کر کے) نکالتے ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو۔

اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (الانعام:123)

اور کیا وہ جو مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے وہ نور بنایا جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے درمیان پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں پڑا ہوا ہو (اور) ان سے کبھی نکلنے والا نہ ہو۔ اسی طرح کافروں کے لئے خوبصورت کر کے دکھایا جاتا ہے جو وہ عمل کیا کرتے تھے۔

توحید اور شرک کی مثال

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ۚ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (الزمر:30)

اللہ ایک ایسے شخص کی مثال بیان کرتا ہے جس کے کئی مالک ہوں جو آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں، اور ایک ایسے شخص کی بھی جو کلیۃً ایک ہی شخص کا ہو۔ کیا وہ دونوں اپنی حالت کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ تمام کامل تعریف اللہ ہی کی ہے (مگر) حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

معبودان باطلہ کی مثال

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ (الحج:74)

اے انسانو! ایک اہم مثال بیان کی جا رہی ہے پس اسے غور سے سنو۔ یقیناً وہ لوگ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز ایک مکھی بھی نہ بنا سکیں گے خواہ وہ اِس کے لئے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اُس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ کیا ہی بے بس ہے (فیض کا) طالب اور وہ جس سے (فیض) طلب کیا جاتا ہے۔

غیراللہ کودوست بنانے والوں کی مثال

مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ (العنکبوت:42)

اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اَور دوست بنائے مکڑی کی طرح ہے اُس نے بھی ایک گھر بنایا اور تمام گھروں میں یقیناً مکڑی ہی کا گھر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ کاش وہ یہ جانتے۔

غیراللہ کو پکارنے والوں کی مثال

لَہٗ دَعۡوَۃُ الۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَسۡتَجِیۡبُوۡنَ لَہُمۡ بِشَیۡءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیۡہِ اِلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُغَ فَاہُ وَ مَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ ؕ وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ (الرعد:15)

سچّی دعا اُسی سے کی جاتی ہے۔ اور جنہیں وہ اُس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے ہاں مگر (وہ) اس شخص کی طرح (ہیں ) جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ کسی صورت اس تک پہنچنے والا نہیں۔ اور کافروں کی دعا گمراہی میں بھٹکنے کے سوا اَور کچھ نہیں۔

نشانات کو جھٹلانے والی قوم کی مثال

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ۔ وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰٮہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔ سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ۔ (الاعراف:176تا178)

اور تُو اُن پر اس شخص کا ماجرا پڑھ جسے ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں پس وہ ان سے باہر نکل گیا۔ پس شیطان نے اس کا تعاقب کیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اُن (آیات) کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی ہوس کی پیروی کی۔ پس اس کی مثال کُتّے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر ہاتھ اٹھائے تو ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تب بھی ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا۔ یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا۔ پس تُو (اِن کے سامنے) یہ (تاریخی) واقعات پڑھ کر سنا تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ بہت بُری مثال ہے اس قوم کی جس نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا اور وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (الجمعۃ:6)

ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کی ذمہ داری ڈالی گئی پھر اُسے (جیسا کہ حق تھا) انہوں نے اُٹھائے نہ رکھا، گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ کیا ہی بُری ہے اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

حق و باطل کی مثال

اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ۔ (الرعد:18)

اس نے آسمان سے پانی اُتارا تو وادیاں اپنے ظرف کے مطابق بہہ پڑیں اور سیلاب نے اوپر آجانے والی جھاگ کو اٹھا لیا۔ اور وہ جس چیز کو آگ میں ڈال کر دہکاتے ہیں تا کہ زیور یا دوسرے سامان بنائیں اس سے بھی اسی طرح کی جھاگ اٹھتی ہے اسی طرح اللہ سچ اور جھوٹ کی تمثیل بیان کرتا ہے۔ پس جو جھاگ ہے وہ تو بے کار چلی جاتی ہے اور جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے تو وہ زمین میں ٹھہر جاتاہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔

دنیا کی زندگی کی مثال

اِنَّمَا مَثَلُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَ الۡاَنۡعَامُ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَہَا وَ ازَّیَّنَتۡ وَ ظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمۡ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ ۙ اَتٰہَاۤ اَمۡرُنَا لَیۡلًا اَوۡ نَہَارًا فَجَعَلۡنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ۔ (یونس:25)

یقیناً دنیا کی زندگی کی مثال تو اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس میں زمین کی روئیدگی گھل مل گئی جس میں سے انسان بھی کھاتے ہیں اور مویشی بھی۔ یہاں تک کہ جب زمین اپنے سنگھار پہن لیتی ہے اور خوب سج جاتی ہے اور اس کے رہنے والے یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ اس پر پورا اختیار رکھتے ہیں تو ہمارا فیصلہ رات یا دن (کسی وقت بھی) اسے آ لیتا ہے اور ہم اُسے ایک ایسے کٹے ہوئے کھیت کی طرح کر دیتے ہیں (جو پھل لانے سے پہلے ہی کٹ گرا ہو) گویا کل تک اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اسی طرح ہم غور وفکر کرنے والوں کے لئے نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ۔ (الحدید:21)

جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ (یہ زندگی) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار (کے دلوں ) کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب (مقدر) ہے نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ ہَشِیۡمًا تَذۡرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقۡتَدِرًا۔ (الکہف:46)

اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر جو ایسے پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی شامل ہوگئی۔ پھر وہ چورا چورا ہو گئی جسے ہوائیں اُڑائے لئے پھرتی ہیں۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

کافرین کی مثال

مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِ ۣاشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الۡبَعِیۡدُ۔ (ابراھیم:19)

ان لوگوں کی مثال، جنہوں نے اپنے ربّ کا کفر کیا، یہ ہے کہ ان کے اعمال اس راکھ کی طرح ہیں جس پر ایک آندھی والے دن تیز ہوا چلے۔ جو کچھ انہوں نے کمایا اُس میں سے کسی چیز پر وہ مقدرت نہیں رکھتے۔ یہی ہے وہ جو بہت دور کی گمراہی ہے۔

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ۔ (البقرۃ:172)

اور اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا اس شخص کی طرح ہے جو چیخ چیخ کر اُسے پکارتا ہے جو سنتا نہیں۔ (یہ کچھ بھی نہیں ) مگر (محض) ایک پکار اور بلانے کے طور پر ہے۔ (ایسے لوگ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں پس وہ کوئی عقل نہیں رکھتے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡـًٔا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ۔ مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ۔ (آل عمران:117تا118)

یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اموال اور ان کی اولادیں انہیں اللہ سے بچانے میں کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ایک بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ اس دنیا کی زندگی میں وہ جو بھی خرچ کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہوا کی طرح ہے جس میں شدید سردی ہو، وہ ایسے لوگوں کی کھیتی پر (مصیبت بن کر) وارد ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو اور وہ اُسے برباد کر دے۔ اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پرظلم کرتے ہیں۔

کافروں کی مثال … حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیوی سے

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ۔ (التحریم:11)

اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے۔ وہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کے ماتحت تھیں۔ پس ان دونوں نے ان سے خیانت کی تو وہ اُن کو اللہ کی پکڑ سے ذرا بھی بچا نہ سکے اور کہا گیا کہ تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ میں داخل ہو جاؤ۔

مومنین کی مثال …فرعون کی بیوی کی مثال

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔ (التحریم:12)

اوراللہ نے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔

مومنین کی مثال …حضرت مریمؑ کی مثال

وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ۔ (التحریم:13)

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اور اس (کی ماں ) نے اپنے ربّ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی بھی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔

منافقین کی مثال

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ۔ (البقرۃ:18)

ان کی مثال اس شخص کی حالت کی مانند ہے جس نے آگ بھڑکائی۔ پس جب اس (آگ) نے اس کے ماحول کو روشن کر دیا، اللہ اُن (بھڑکانے والوں ) کا نور لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرۃ:20)

یا (ان کی مثال) اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے اُترتی ہے۔ اس میں اندھیرے بھی ہیں اور کڑک بھی اور بجلی بھی۔ وہ بجلی کے کڑکوں کی وجہ سے، موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اور اللہ کافروں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔

مجرموں کی مثال

کَاَنَّہُمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ۔ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ۔

گویا وہ بِدکے ہوئے گدھے ہوں۔ شیر ببر سے (ڈر کر) دوڑ رہے ہوں۔ (المدثر:51تا52)

والدین سے احسان کر نےاوران سے گفتگو کرنے کی مثالوں کا موازنہ

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّ وَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ نَتَقَبَّلُ عَنۡہُمۡ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ نَتَجَاوَزُ عَنۡ سَیِّاٰتِہِمۡ فِیۡۤ اَصۡحٰبِ الۡجَنَّۃِ ؕ وَعۡدَ الصِّدۡقِ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ۔ (الاحقاف:16تا17)

اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا۔ اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اورایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

یہی وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا اس میں سے ہم بہترین اعمال ان کی طرف سے قبول کریں گے اور ان کی بدیوں سے درگزرکریں گے۔ وہ اصحابِ جنت میں سے ہوں گے۔ یہ سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا۔

وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ۔ (الاحقاف:18)

اور وہ جس نے اپنے والدین سے کہا افسوس ہے تم دونوں پر۔ کیا تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں۔ اور اُن دونوں نے اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کہا:ہلاکت ہو تجھ پر۔ ایمان لے آ۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تب وہ کہنے لگا یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button