دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
تکبر سے پرہیز
پھر اس میں تھا کہ’ تکبر سے پرہیز کریں گے‘۔ اس بارہ میں سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کی مثال دیتاہوں۔
’’باوجود علم وفضل میں بہت بلند مقام رکھنے کے اس زمانہ کے دیگر نام نہاد علماء کے برعکس آپ کی طبیعت میں سادگی اور تواضع اس قدر تھا کہ اگر کسی وقت چھوٹے بچے نے بھی آپ سے بات کرنا چاہی تو بلاجھجک آپ سے ہمکلام ہو سکتا۔ آپ بڑی محبت سے اس کی بات سنتے اور تسلی بخش طریق پر اس کے سوال کا جواب دیتے۔ ( تو مولوی محمدحفیظ بقاپوری اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہیں کہ) اس عاجز کے کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں بچہ پیداہوا۔ خط کے ذریعہ ایسی اطلاع ملنے پر مَیں نے حضرت مولوی صاحبؓ سے نومولود کا نام تجویز کرانے کا ارادہ کیا۔ آپ شاید مسجد اقصیٰ میں درس دینے کے لئے جارہے تھے یاواپس تشریف لارہے تھے۔ مَیں آگے بڑھا۔ اس عاجز کو اپنی طرف آتا دیکھتے ہی رُک گئے۔ بڑی محبت سے التفات فرمایا اورمیری درخواست پر نومولود کا نام تجویز فرما کر اس کے حق میں دعا فرمائی‘‘۔
(اصحاب احمد، جلد پنجم، حصہ سوم۔ صفحہ 35)
پھر اس بارہ میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں۔ پہلے بھی مثالوں سے ظاہر ہوگیا ہے آپ میں نام ونمود اور ریا ظاہرداری وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر علمی گھمنڈ اور تکبر بھی ہرگز نہیں تھا باوجودیکہ بڑے عالم آدمی تھے۔ دوران قیام قادیان جب بھی کوئی کہتا ’مولوی صاحب‘ تو فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو، مَیں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے۔ یعنی الف ب پڑھنی شروع کی ہے۔
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ ستمبر1977ء۔ صفحہ 12)
پھرفروتنی اور عاجزی کا ایک اور نمونہ جو سب نمونوں سے بڑھ کر ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت صاحبزادہ سیّدعبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ
’’بے نفسی اور انکسارمیں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پا سکتا۔ ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہوجاتاہے۔ اور اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگتاہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہوجاتی ہے۔ (یعنی حق کو پہچاننے میں روک بنتی ہے)۔ مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھاکہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی۔ اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کاہے‘‘۔
( تذکرۃالشہادتین صفحہ ۴۵۔ روحانی خزائن جلد ۲۰۔ صفحہ ۴۷)
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار
پھردین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے آٹھویں شرط میں یہ ہے کہ اپنی جان، مال، عزت ہر چیزکو قربان کرے گا۔ اور جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کو دنیا پرمقدم کرنے کے نظارے ہمیں نظر آتے رہتے ہیں۔ مائیں اپنے بچے پیش کرتی ہیں، باپ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر لا رہے ہوتے ہیں کہ یہ اب جماعت کا ہے اورجہاں چاہے جماعت اس کی قربانی لے لے۔ بچے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کررہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی حضرت اسماعیلؑ کی طرح اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور یہ نظارے پہلے بھی تھے اور اب بھی قائم ہیں اس کی ایک مثال دیتاہوں۔
1923ء میں ہندوؤں نے شدھی تحریک شروع کی تو اس کے خلاف احمدیہ جماعت کی کوششوں میں بچے بھی بڑوں سے پیچھے نہیں رہے۔ پانچ سالہ بچے بھی ملکانہ کے علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ ایک بارہ سالہ بچے نے اپنے والد کو لکھا کہ دین حق کی خدمت کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے۔ اس لئے جب آپ دعوت الی اللہ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں۔
(تلخیص از تاریخ احمدیت جلد نمبر5 صفحہ336 مطبوعہ 1964ء)
یہ باتیں جیساکہ مَیں نے پہلے کہا کوئی پرانے قصے ہی نہیں اب بھی یہ نظارے نظر آتے ہیں اور آج بھی واقفین نوبچے جب مجھے ملنے آتے ہیں اس ماحول میں بھی جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ بڑے ہو کرکیاکرناہے، کیا بنناہے۔ یہی جواب ان کا ہوتاہے کہ جو آپ کہیں گے ہم وہی بننے کی کوشش کریں گے۔ اور جماعت بتائے کہ ہم نے کیاکرناہے۔ یہ جذبہ ہے احمدی بچے کا۔ اور جب تک یہ جذبہ قائم رہے گا اور انشاءاللہ قیامت تک یہ جذبہ قائم رہے گا۔ تو جماعت کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنا دیاہے اور اپنے ہم وطنوں سے ہجر ت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ‘‘
(اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 130۔ مطبوعہ1964ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’حبی فی اللہ مولوی حکیم نوردین صاحب بھیروی۔ …ان کے ما ل سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے مَیں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پربیان کر سکوں۔ مَیں نے ان کو طبعی طورپر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا ہے۔ اگرچہ ان کی روزمرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہریک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے‘‘۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3صفحہ 520)
پھر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں :’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کے عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑدی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں میں ان کو ایک نوکری دو سو روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاردی۔ صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے اندفاع میں عمر بسر کر دی۔ باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔‘‘
(سیرت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ از محمود مجیب اصغر۔ صفحہ 108)
(باقی آئندہ)