مطالباتِ تحریک جدید
’’یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے۔‘‘
تحریک جدید ایک الٰہی تحریک
حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تحریک خاص منشائے الٰہی سے جاری فرمائی۔ چنانچہ ایک موقع پرحضرت مصلح موعودؓ تحریک جدید کےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’میں نے کہا ہے کہ مَیں نے تحریک جدید جاری کی۔ مگر یہ درست نہیں۔ میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی۔ اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی۔ پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی میں بالکل خالی الذہن تھا۔ اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پرنازل کی اورمیں نے اسے جماعت کے سامنے پیش کردیا۔
پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍نومبر1942ء مطبوعہ الفضل2؍دسمبر1942ء)
تحریک جدید کے مطالبات
حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں
حضرت مصلح موعودؓ نے23؍نومبر،30؍نومبر اور7؍ دسمبر1934ء کے تین خطبات میں اپنی سکیم تفصیلی طور پر جماعت کے سامنے رکھی اور اسے16؍دسمبر 1934ء کے ایک مطبوعہ اعلان میں ’’تحریک جدید‘‘ کے نام سے موسوم فرمایا۔ تحریک جدید کی سکیم ابتدائی طور پر انیس مطالبات پر مشتمل تھی۔ بعد میں ان میں مزید 8؍مطالبات کا اضافہ ہوا جس سے ان کی کل تعداد 27؍تک پہنچ گئی۔
اس مضمون میں ابتدئی 19؍مطالبات کی تشریح و توضیح سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے الفاظ مبارکہ میں درج کی جاتی ہے۔ یہ خلاصہ تاریخ احمدیت جلد 8سے لیا گیاہے۔
پہلا مطالبہ
’’آج سے تین سال کے لئے … ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے گا۔ روٹی اور سالن یا چاول اور سالن یہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے۔ لیکن روٹی کے ساتھ دو سالنوں یا چاولوں کے ساتھ دو سالنوں کی اجازت نہ ہوگی …لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آئی۔ ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں مثلاً یہ کہ جن لوگوں کے پاس کافی کپڑے ہوں۔ وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں۔ وہ نصف پر یا تین چوتھائی پر یا 5/4 پر آجائیں …علاج کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اطباء اور ڈاکٹر سستے نسخے تجویز کیا کریں … خرچ سنیما اور تماشے ہیں۔ ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال تک کوئی احمدی کسی سنیما سرکس تھیٹر وغیرہ غرض کہ کسی تماشہ میں بالکل نہ جائے … شادی بیاہ کا معاملہ ہے۔ چونکہ یہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے اس لئے میں یہ حد بندی تو نہیں کر سکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں۔ ہاں اتنا مدنظر رہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم دی جائیں۔‘‘
دوسرا مطالبہ
’’دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پر مبنی ہے یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا 5/1 سے 3/1 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے۔ اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر وہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں یا دارالانوار کمیٹی کا حصہ یا حصے انہوں نے لئے ہیں (اخبارات وغیرہ کی قیمتوں کے علاوہ)وہ سب رقم اس حصہ میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجمن حمدیہ کے پاس جمع کرادیں۔‘‘
تیسرا مطالبہ
’’تیسرا مطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت ہے کہ وہ جو گندہ لٹریچر ہمارے خلاف شائع کررہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جارہی ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اس کے لئے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے۔ روپیہ کی ضرورت ہے۔ آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے طریقوں کی ضرورت ہے …اس کام کے واسطے تین سال کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ فی الحال پانچ ہزار روپیہ کام کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہے۔ بعد میں دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور اگر اس سے زائد جمع ہو گیا تو اسے اگلی مدات میں منتقل کر دیا جائے گا۔
اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ میری دی ہوئی ہدایات کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈا کا بالمقابل پروپیگنڈا سے مقابلہ کرے۔ مگر اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ تجارتی اصول پر کام کرے۔ مفت اشاعت کی قسم کا کام اس کے دائرہ عمل سے خارج ہوگا۔‘‘
چوتھا مطالبہ
’’قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے۔ اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی ہمیں کیا معلوم ہے کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے۔ قادیان بے شک ہمارا مذہبی مرکز ہے۔ مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت و طاقت کا مرکز کہاں ہے۔ یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان، فلپائن، سماٹرا، جاوا، روس، امریکہ غرض کہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے۔ اس لئے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلاوجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ کچلنا چاہتے ہیں تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہمیں کیا معلوم ہے کہ کونسی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت کو قبول کرلیں گے۔
پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقف کرنے والوں میں سے ان کو چن لیا جائے گا جو کرایہ اور چھ ماہ کا خرچ لے کر ان ملکوں میں تبلیغ کے لئے جانے پر آمادہ ہوں گے جو ان کے لئے تجویز کئے جائیں گے۔ اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہوگا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں اور اپنے لئے کوئی کام بھی نکالیں جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں۔ اس تحریک کے لئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے۔ پس دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سو سو روپیہ یا زیادہ روپیہ دے سکیں اس کے لئے رقوم دے کر ثواب حاصل کریں۔ ‘‘
پانچواں مطالبہ
’’تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سو روپیہ ماہوار خرچ ہوگا اور اس طرح 1200روپیہ اس کے لئے درکار ہے۔ جو دوست اس میں بھی حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں۔ اس میں بھی غرباء کو شامل کرنے کے لئے میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے کے لئے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں۔ ‘‘
چھٹا مطالبہ
’’میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقرر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں۔ مثلاً یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جاسکتا ہے۔ کون کون سے بااثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مدد مل سکتی ہے۔ کس کس جگہ کے لوگوں کے کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں۔ تین سال کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے۔ پندرہ روپیہ ماہوار ان کو دیا جائے گا۔ تبلیغ کا کام ان کا اصلی فرض نہیں ہو گا۔ اصل فرض تبلیغ کے لئے میدان تلاش کرنا ہو گا۔ وہ تبلیغی نقشے بنائیں گے۔ گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کراتی ہے وہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے۔ ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہو گا۔ اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے ساڑھے ستائیس ہزار بنتی ہے۔ مگر اس میں سے ساڑھے سترہ ہزار کی فوری ضرورت ہے۔‘‘
ساتواں مطالبہ
’’تبلیغ کی وسعت کے لئے ایک نیا سلسلہ مبلغین کا ہونا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازم تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا واسطہ اور تعلق نہ ہو۔ مثلاً گورداسپور کے ضلع میں ملازمت کرنے والا امرتسر کے ضلع میں بھیج دیا جائے۔ امرتسر کے ضلع میں ملازمت کرنے والا کانگڑہ یا ہوشیارپور کے ضلع میں کام کرے۔ گویا اپنی ملازمت کے علاقہ سے باہر ایسی جگہ کام کرے جہاں ابھی تک احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی۔ اور وہاں تین ماہ رہ کر تبلیغ کرے … ایسے اصحاب کا فرض ہو گا کہ جس طرح ملکانہ تحریک کے وقت ہوا وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں۔‘‘
آٹھواں مطالبہ
’’ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں۔ جو تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔‘‘
نواں مطالبہ
’’جو لوگ تین ماہ وقت نہ دے سکیں … ایسے لوگ جو بھی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں ہوں انہیں وقف کردیں۔ ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائے گا۔‘‘
دسواں مطالبہ
’’اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جو لوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں۔ یعنی ڈاکٹر ہوں، وکلاء ہوں، یا اور ایسے معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تاکہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے ان کو بھیجا جائے۔‘‘
گیارھواں مطالبہ
’’دراصل خلیفہ کا کام نئے سے نئے حملے کرنا اور اسلام کی اشاعت کے لئے نئے سے نئے رستے کھولنا ہے مگر اس کے لئے بجٹ ہوتا ہی نہیں۔ سارا بجٹ انتظامی امور کے لئے یعنی صدر انجمن کے لئے ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی افتادی ہورہی ہے اور کوئی نیا رستہ نہیں نکلتا …آج سے دس سال قبل میں نے ریزرو فنڈ قائم کرنے کے لئے کہا تھا تاکہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کرسکیں۔ مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف 20ہزار کی رقم جمع کی۔ اس میں سے کچھ رقم صدر انجمن احمدیہ نے ایک جائداد کی خرید پر لگادی اور کچھ رقم کشمیر کے کام کے لئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی۔ یہ رقم اس قدر قلیل تھی کہ اس پر کسی ریزرو فنڈ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ ہنگامی کاموں کے لئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہئے جس کی معقول آمدنی ہو۔ پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کے لئے لگا دیا جائے۔ تاکہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جاسکے … جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہوسکتے۔‘‘
بارھواں مطالبہ
’’وہ بیسیوں جو پنشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں خدا نے ان کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں یعنی دین کی خدمت کریں … تا ان سکیموں کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپرد کیا جائے۔‘‘
تیرھواں مطالبہ
’’باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کے لئے بھیجیں … میرا تجربہ یہ ہے کہ یہاں پڑھنے والے لڑکوں میں سے بعض جن کی پوری طرح اصلاح نہ ہوئی ہووہ بھی الا ماشاء اللہ جب قربانی کا موقع آیا تو یکدم دین کی خدمت کی طرف لوٹے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ یہ ان کی قادیان کی رہائش کا ہی اثر ہوتا ہے۔‘‘
چودھواں مطالبہ
’’بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشاء اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں …وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے لئے پیش کر دیں۔‘‘
پندرھواں مطالبہ
’’وہ نوجوان جو گھروں میں بیکار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں … جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں۔ وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں۔ مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیئے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں۔‘‘
سولھواں مطالبہ
’’جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے۔‘‘
سترھواں مطالبہ
’’جو لوگ بیکار ہیں وہ بیکار نہ رہیں۔ اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کرلیں۔ اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں۔ ریزروفنڈ کے لئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کردیں۔ غرض کوئی شخص بیکار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو۔‘‘
اٹھارھواں مطالبہ
’’قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں۔ اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں لوگ مکان بنا چکے ہیں مگر ابھی بہت گنجائش ہے۔ جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ہمارا مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر کم ہوتا جائے گا … ہاں یاد رکھو کہ قادیان کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کا مرکز قرار دیا ہے۔ اس لئے اس کی آبادی ان ہی لائنوں پر چلنی چاہئے جو سلسلہ کے لئے مفید ثابت ہوں۔‘‘
انیسواں مطالبہ
’’دنیاوی سامان خواہ کس قدر کئے جائیں آخر دنیاوی سامان ہی ہیں۔ اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگرچہ سب سے اہم ہے مگر اس کو میں نے آخر میں رکھا اور وہ دعا کا خانہ ہے۔ وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہو سکیں۔ اور ان کے مطابق کام نہ کرسکیں۔ وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت دے … پس وہ لولے لنگڑے اور اپاہج جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں۔ جو دوسروں کی امداد سے پیشاب پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چارپائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقعہ پیدا کر دیا ہے۔ وہ اپنی دعائوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چارپائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالیٰ کا عرش ہلائیں تاکہ کامیابی اور فتح مندی آئے۔ پھر وہ جو اَن پڑھ ہیں اور نہ صرف اَن پڑھ ہیں بلکہ کند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ کڑھ رہے ہیں کہ کاش ہم بھی عالم ہوتے۔ کاش ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لئے نکلتے۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی خدا ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا۔ اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا بلکہ دل کو دیکھتا ہے وہ اپنے سیدھے سادھے طریق سے دعا کریں خدا تعالیٰ ان کی دعا سنے گا اور ان کی مدد کرے گا۔‘‘
تحریک جدید کے ان 19 مطالبات کی بہت اہمیت ہے۔ اس کی افادیت کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :
’’تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ اس پہلو کی طرف بھی توجہ کرے۔ جہاں مالی قربانی میں اضافہ ہورہا ہے وہاں وقتاًفوقتاً تحریک جدید کے 19نکاتی پروگرام کو مختلف رنگ میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے تاکہ ہمارے قدم متوازن طور پر آگے بڑھیں ہمارے کردار میں بھی برکت مل رہی ہو اور ہمارے قربانیوں کے معیار میں بھی برکت مل رہی ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اکتوبر 1983ء)
تحریک جدید کے دفاتر
حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے مطابق تحریک جدید کے جو دفاتر کی تقسیم ہوئی ہے وہ 19سال کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ گو بعض حالات کی وجہ سے ابتدا میں سنوں میں کچھ کمی و زیادتی ہے۔ لیکن اصل اصول 19 سالہ ہی ہے۔
چنانچہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تحریک جدید کے دفاتر کی تقسیم کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ
’’تحریک جدید جیسا کہ مَیں نے بتایا، پہلا دور دس سال کا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے شروع کیا تو اس وقت آپؓ نے اس دور کو دفتر کہا۔ 1934ء میں جب شروع کیا تو وہ دس سال کے لئے تھا وہ دفتر اول کہلاتا تھا۔ اس میں جیسا کہ میں نے بتایا پانچ ہزار مجاہدین شامل تھے۔ پھر کام کی نوعیت کے لحاظ سے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر جیسا کہ مَیں نے کہا آپؓ نے اس کو مزید آگے بڑھا دیا، دس سال سے زائد کر دیا۔ اور اس دوسرے دور کو دفتر دوم کا نام دیا گیا۔ شروع میں تو دفتر دوم کا کوئی معین عرصہ نہیں تھا، جہاں تک مَیں نے دیکھا ہے، لیکن بعد میں آپ کا ایک ارشاد ملتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آئندہ یہ دفتر قائم ہوتے چلے جائیں گے اور ہر دور، ہردفتر 19سال کا ہو گا۔ لیکن دفتر دوم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی لمبی بیماری کی وجہ سے بند نہ ہوا اور اس وقت، 1964ء میں دفتر سوئم جاری ہونا چاہئے تھا۔ لیکن دفتر سوم اس وقت جاری نہ ہو سکا۔ اور 1966ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نئے آنے والوں کے لئے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور فرمایا کہ کیونکہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہونا چاہئے تھا اس لئے میں اس کو یکم نومبر 1965ء سے شروع کرتا ہوں۔ تو اس طرح سے یہ دفتر حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت سے منسوب ہو جائے گا۔ کیونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات 9؍نومبر 1965ء کو ہوئی تھی۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ کیونکہ اعلان مَیں کر رہا ہوں اس لئے اس کا ثواب مجھے بھی مل جائے گا۔ تو بہرحال اس دفتر سوم کا اعلان خلافت ثالثہ میں ہوا تھا۔ اور پھر دفتر چہارم کا آغاز 19سال بعد 1985ء میں خلافت رابعہ میں ہوا۔ اور اس اصول کے تحت کہ(وہ جو حضرت مصلح موعودؓ نے اصول رکھا تھا کہ 19سالہ دور ہو گا) آج 19سال پورے ہونے پر دفتر چہارم کو بھی 19سال پورے ہو گئے ہیں اس لئے آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہوں گے وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ نومبر 2004ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہت اچھی سائڈ ہے۔۔پڑھ کر علم میں اضافہ ہوا ۔۔جزاک اللّٰہ