بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 4)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانےوالے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروزجوابات)

٭…بعض احادیث میں لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت کا ذکر اور
اس ضمن میں نوجوان لڑکوں کے فیشن کے طور پر ہاتھوں میں کڑے پہننے کے متعلق رہ نمائی

٭… کیا عیدین کے مواقع پر مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں ؟

٭…کیا حکومتی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور اس رقم پر ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟

٭…لونڈیوں سے نکاح کے متعلق کیا حکم ہے؟

٭…ایک جماعتی تقریب میں دستاویزی فلم میں میوزک بجنے کی شکایت

٭…اس زمانہ میں بہت سے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں استہزا کرتے ہیں،
ہماری طرف سے ان کا جواب کس طرح ہونا چاہیے؟

٭…میدان عمل میں ایک مربی سلسلہ کا سب سے پہلا کام کیا ہونا چاہیے؟

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بعض احادیث جن میں مردوں کےلیے لوہے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت آئی تھی پیش کر کے اس مسئلہ کے بارے میں حضور انور سے رہ نمائی چاہی، اور اس ضمن میں نوجوان لڑکوں کے فیشن کے طور پر ہاتھوں میں کڑے وغیرہ پہننے کا بھی ذکر کیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14؍دسمبر 2016ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: میں نے اس بارے میں تحقیق کروائی ہے۔ آپ کی ارسال کردہ احادیث سنن ابی داؤد میں بیان ہوئی ہیں۔ جبکہ صحیح بخاری میں بعض ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں ذکر ہے کہ حضورﷺ نے ایک صحا بی سے فرمایا کہ وہ لوہے کی انگوٹھی حق مہر کے طور پر دے کر عورت سے نکاح کر لے۔ اسی طرح سنن ابی داؤد میں یہ احادیث بھی موجود ہیں کہ حضورﷺ کی اپنی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی لپٹی ہوئی تھی۔

مذکورہ بالا احادیث کی تشریح میں علمائے احادیث نے یہ بھی لکھا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی کی کراہت والی حدیث ضعیف ہے، نیز یہ کہ اگر لوہے کی انگوٹھی پہننا حرام ہوتا تو جس طرح حضورﷺ نے مرد کےلیے سونا پہننا منع فرمایا ہے، اسی طرح لوہے کے پہننے کی بھی واضح طور پر ممانعت بیان فرماتے۔

البتہ نوجوان لڑکوں کا ہاتھوں میں کڑے وغیرہ پہننا تو ویسے ہی ناپسندیدہ فعل ہے اس لیے آپ نے جو اس بارے میں لڑکوں کو توجہ دلائی ہے بہت اچھا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ آمین

سوال: ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ عیدین کے مواقع پر بعض لوگ مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس بارے میں رہ نمائی کی درخواست ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14؍اکتوبر 2017ء میں ان مربی صاحب کو جو جواب اور اس مسئلہ کے بارے میں انتظامیہ کو جو ہدایت عطا فرمائی وہ حسب ذیل ہے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: نماز عید سے پہلے نوافل کی ادائیگی منع ہے جیساکہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، لیکن بعد میں اگر وقت ممنوعہ شروع نہ ہوا ہو تو گھر جا کر نوافل پڑھے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔

میں نے جنرل سیکرٹری صاحب کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ جو لوگ عید والے دن نماز عید سے قبل مساجد میں آکر نوافل ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں انہیں اس کی ممانعت کی بابت توجہ دلانے کےلیے نماز عید سے قبل مساجد میں باقاعدہ اعلان کروایا کریں۔

سوال:ایک دوست نے عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور ا س کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارے میں حضور انور کی خدمت اقدس میں رہ نمائی فرمانے کی درخواست کی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 21؍نومبر2017ء میں اس سوال کا جو جواب عطا فرمایا، وہ حسب ذیل ہے۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔ حضورﷺ نے ایسی خواتین جن پر ان کے خاص ایام ہونے کی وجہ سے نماز فرض نہیں، انہیں بھی عید گاہ میں آ کر مسلمانوں کی دعا میں شامل ہونے کا پابند فرمایا ہے۔

اور جہاں تک امام کے تکبیرات بھول جانے کا سوال ہے تو ایسی صورت میں مقتدی اسے یاد کروا دیں، لیکن مقتدیوں کے یادکروانے کے باوجود اگر امام کچھ تکبیرات نہ کہہ سکے تو مقتدی امام کی ہی اتباع کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کریں۔ تکبیرات بھولنے کے نتیجہ میں امام کو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: حکومتی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور اس رقم پر ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لانےکے بارے میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ کے ایک استفسار پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12؍ نومبر2017ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اس مسئلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں جو فیصلہ ہوا تھا، میرا موقف بھی اسی کے مطابق ہے۔

(نوٹ از ناقل:۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں اس مسئلہ پر ہونے والا فیصلہ درج ذیل ہے:

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے اس مسئلہ پر درج ذیل سفارشات حضورؒ کی خدمت اقدس میں پیش کی گئیں :

صدر انجمن احمدیہ بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر کسی قسم کا سود نہیں لے رہی۔ اور نہ ہی P.Fکی رقم ایسے بینکوں میں جمع کرائی جا رہی ہے، جن کا کاروبار یا ذریعہ آمدنی سود پر مبنی ہو۔ بلکہ حکومت کی قومی بچت کی سکیموں کے تحت قومی ادارہ میں لگائی گئی ہیں۔ یہ ادارہ اپنے سرمایہ کو قومی رفاہی کاموں میں لگاتا ہے(نہ کہ سودی کاروبار پر) اس کے نتیجہ میں معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جو حکومت کے Revenue میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح حکومت اپنے Depositorکو بھی اپنے منافع میں شریک کر لیتی ہے، جسے حکومت منافع کا نام دیتی ہے۔ جب Depositorکو اپنی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ رقم واپس بھی لے لیتا ہے۔

بینک اور قومی بچت سکیموں کے اس فرق کی بنا پر ہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس قومی ادارہ میں P.Fکی رقم لگائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے بلال فنڈ اور تزکیہ اموال فنڈ کی رقوم بچت سکیموں میں لگائی گئی ہیں۔

مفتی سلسلہ احمدیہ(حضرت ملک سیف الرحمٰنؒ )کے نزدیک بھی حکومت نے جو بچت کی سکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے تحریر کیا ہے:

’’اگر کوئی چاہے تو حکومت نے بچت کی جو اسکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لے سکتا ہے اور ان میں جو منافع ملتا ہے اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔‘‘

علاوہ ازیں پاکستان میں اس وقت کوئی متبادل نظام یا محفوظ ادارے موجود نہیں۔ جن میں اطمینان کے ساتھ سرمایہ لگایا جا سکے۔ جہاں سرمایہ محفوظ ہو، نفع بخش ہو یا نفع بخش نہیں تو کم از کم وقت گزرنے کے ساتھ روپیہ کی قیمت میں آنے والی کمی سے سرمایہ متاثر نہ ہو۔ (اس لئے بینکوں میں روپیہ جمع کرانے کی بجائے جہاں روپیہ ہی کے لین دین کا واضح سودی کاروبار ہوتا ہے، ان سکیموں میں روپیہ لگایا گیا ہے، جن میں سرمایہ کو رفاہی تعمیری کاموں پہ خرچ کرنے کی وجہ سے حکومت سود سے پاک قرار دیتی ہے۔ یا کم از کم وہ بینکوں کی نسبت یقینی سودی کاروبار نہیں کرتیں )

ایک ممکنہ شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جماعت اپنے سرمایہ سے خود ایسے کاروباری منصوبے جاری کرے جو یقینی طور پر سود کی آلائش سے پاک ہوں۔ مگر ملک کی موجودہ فضا جس میں سے جماعت گزر رہی ہے، ایسی سرمایہ کاری کےلئے سردست موافق نہیں۔

اس طرح گویا قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری ایک اضطرار کا رنگ رکھتی ہے۔ جس کے برعکس کوئی متبادل نظام سرمایہ کاری کا ملک میں موجود نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ان سفارشات کو13؍ اگست 1987ء کو منظور کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘)

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لونڈیوں کے بارے میں تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا موقف تحریر کر کے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالنے کی درخواست کی نیز لجنہ اماءاللہ پاکستان کی علمی ریلی کے موقع پر دکھائی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ایک ڈیڑھ منٹ تک میوزک بجنے کی شکایت بھی کی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان امور کا اپنے مکتوب مؤرخہ 21؍فروری 2018ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:لونڈیوں سے نکاح کی بابت آپ کا موقف تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر کے مطابق بالکل درست ہے۔ اور یہی موقف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ لونڈیوں سے نکاح ضروری ہے۔

قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا بھی یہی موقف ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کےلیے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا۔ لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

دوسرانکتۂ نظرجس کے مطابق مسلمانوں پر حملہ کرنے والے دشمن کے لشکر میں شامل ایسی عورتیں جب اُس زمانہ کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے قبضہ میں بطور لونڈی کے آتی تھیں تو ان سے ازدواجی تعلقات کےلیے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بھی غلط نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بعض اورمواقع پر ایسی لونڈیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے اس موقف کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض مجالس عرفان میں اور درس القرآن میں لونڈیوں کے مسئلہ کی تفسیر کرتے ہوئے اسی موقف کو بیان فرمایا ہے کہ ان لونڈیوں سے ازدواجی تعلق استوار کرنے کےلیے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

یہاں پر میں اس امر کو بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایسے امور کی تفسیر جن کا ازمنۂ ماضی سے تعلق ہو، ان میں خلفاء کی آراء کا مختلف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ ہر خلیفہ کا اپنا اپنا فہم قرآن ہے اور خلفاء کا آپس میں ایسا اختلاف جائز ہے۔

جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ میرا موقف اس معاملہ پر یہی ہے کہ دشمن کی ایسی عورتوں سے ازدواجی تعلق کےلیے نکاح کی ضرورت ہوتی تھی اور میرے اس دور میں یہی جماعتی موقف متصور ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والا خلیفہ میرے اس موقف سے اختلاف کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اُس وقت وہی جماعتی موقف متصور ہو گا جو اُس وقت کے خلیفہ کا ہو گا۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس زمانہ میں کہیں کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی جو اسلام کو مٹانے کےلیے لڑی جا رہی ہو اور اس میں مسلمان عورتوں سے ایسا سلوک کیا جا رہا ہو کہ انہیں لونڈیاں بنایا جا رہا ہو اس لیے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کےلیے بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

آپ نے اپنے خط میں دوسری شکایت یہ لکھی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی علمی ریلی کے موقع پر ایک دستاویزی فلم کے شروع میں ایک ڈیڑھ منٹ کا میوزک چلایا گیا۔

جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے کہ یہ ایک دستاویزی فلم تھی۔ چونکہ یہ دستاویزی فلم تھی جو ہم نے تیار نہیں کی بلکہ اس فلم کو بنانے والے نے اس میں میوزک شامل کیا تھا، ہم اسے کیسے اس فلم میں سے کاٹ سکتے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ دراصل یہ حدیث میں بیان حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق دجال کا وہ دھواں ہےجس سے بچنا ناممکن ہے۔

جہاں تک ہمارے اپنے تیار کردہ پروگراموں یا ہمارے ایم ٹی اے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سےایم ٹی اے بھی اور ہمارے تیار کردہ تمام پروگرام بھی میوزک سے بکلی پاک ہوتے ہیں اور ان میں ایسی کوئی غیر شرعی بات نہیں ہوتی۔ اور یہ وہ نمونہ ہے جسے دین حق کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اسلامی نمونہ ایم ٹی اے کے تمام پروگراموں میں ہر جگہ پیش کیا جاتا ہے۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی 31؍اکتوبر 2020ء کو ہونے والی Virtualملاقات میں ایک طالب علم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اس زمانہ میں بہت سے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں استہزاکرتے ہیں، ہماری طرف سے ان کا جواب کس طرح ہونا چاہیے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خود فرما دیا کہ

اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔

جو لوگ تیری اہانت کرتے ہیں، میں ان کی اہانت کروں گا۔ چاہے وہ ان کو اس دنیا میں ذلیل کرے یا مرنے کے بعد وہ ذلیل ہوں۔ یا ان کی اولادیں ذلیل ہوں۔ جو تو جان بوجھ کے مذاق کرتے ہیں، ان کو تو اللہ تعالیٰ آپ ہی نپٹےگا۔ لیکن ہماری Responseاس میں یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے کہ تم نے صبر سے کام لینا ہے۔ اور کسی سخت آدمی کا جواب سختی سے نہیں دینا۔ تم نے لڑائی نہیں کرنی۔ بے شک میری محبت تم پہ بڑی غالب ہے لیکن تم نے لڑائی نہیں کرنی۔ دیکھو! آجکل ہمیں سب سے زیادہ پیارے تو آنحضرتﷺ ہیں ناں ؟مسیح موعود علیہ السلام سے بھی زیادہ ہمیں پیارے حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ اور آجکل دیکھو فرانس میں اور بعض یورپین ملکوں میں ان کے خاکے بنا کے مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس پہ ہماری Responseکیا ہے؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریمﷺ پہ زیادہ سے زیادہ درود بھیجیں۔ اور جب ہم رسول کریمﷺ پہ درود بھیجتے ہیں تو آل محمد پہ درود بھیجتے ہیں۔ آل محمد بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور رسول کریمﷺ کی سب سے بڑی آل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ آپ وہ ہیں جوان کے سب سے زیادہ آل میں شمار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارا کام یہ ہے کہ جب لوگ مذاق اڑاتے ہیں تو ہم درود پڑھیں۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ چاہے وہ رسول کریمﷺ کا مذاق ہو یا آپ کے غلام مسیح موعود کا ہو۔ ہمیں چاہیے کہ درود پڑھا کریں۔

نمبردو یہ کہ اپنے نمونے ایسے بنائیں کہ مذاق اڑانے والے خود بخود خاموش ہو جائیں۔ وہ دیکھیں کہ ہم مذاق اڑاتے ہیں لیکن یہ لوگ تو حقیقی اسلام کی تعلیم ہمیں بتاتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو پیار اور محبت کو پھیلاتے ہیں۔ ہم ان سے نفرت کی بات کرتے، یہ ہمارے سے پیار کی بات کرتے ہیں۔ قرآن شریف میں بھی یہی لکھا ہے کہ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔ تم اگر صحیح طرح اخلاق سے پیش آؤ گے تو وہ جو تمہارے دشمن ہیں وہ تمہارے جاںنثار دوست بن جائیں گے۔ اس لیے ہماری Response یہی ہے کہ ہم خاموشی سے اپنے عمل ٹھیک کریں، اپنی حالتوں کو بہتر کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی حالتوں کو بہتر کراور اگر اللہ کے نزدیک ان لوگوں کی حالت بہتر نہیں ہونی تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں سے نجات دے اور ان کے منہ بند کر دے تا کہ یہ ہمارے پیاروں کا مذاق نہ اڑائیں۔ نہ مسیح موعود کااور اس سے بڑھ کر نہ رسول پاکﷺ کا مذاق اڑائیں۔ اور ہم خوشیاں دیکھنے والے ہوں۔ اس دنیا میں جب رسول پاکﷺ کی عزت قائم ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ جب مسیح موعود علیہ السلام جو رسول پاکﷺ کے غلام ہیں، ان کی عزت قائم ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ تو ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہم ان لوگوں کی عزت کو قائم ہوتا دیکھیں تا کہ ہمیں خوشی پہنچے۔ اللہ سے مانگنا ہے۔ ہم نے خود نہ ڈنڈا پکڑنا ہے، نہ رائفل پکڑنی ہے، نہ توپ پکڑنی ہے اور نہ چھرا پکڑنا ہے۔ کچھ نہیں کرنا۔ ہم نے اللہ کے آگے جھکنا ہے۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہے اور درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنا ہے۔

سوال: اسی ملاقات مؤرخہ 31؍اکتوبر 2020ء میں ایک طالب علم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہم ان شاء اللہ میدان عمل میں جار ہے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ایک مربی کا سب سے پہلا کام کیا ہونا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا:

جواب:وہاں پہنچ کے پہلے تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جگہ جہاں میری پوسٹنگ ہوئی ہے، مجھے صحیح طور پر ایمانداری سے، اخلاص سے، وفا سے کام کرنے کی توفیق دے۔ ٹھیک ہے! دعا کریں۔ اور سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھائیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے کام دعاؤں سے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر مربی اور مبلغ جب میدان عمل میں جاتا ہے تو اس کو چاہیے کہ یہ عہد کرے کہ آج کے بعد سے میں نے تہجد کی نماز کبھی نہیں چھوڑنی، باقاعدہ پڑھوں گا۔ آپ کے بہت سارے مبلغین فوت ہوتے ہیں، ان کی تاریخ میں بیان کرتا ہوں، تو میں کہتا ہوں کہ وہ تہجد باقاعدہ پڑھنے والے تھے۔ ہر مربی کو کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ تہجد پڑھنی چاہیے۔ اس میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈالے۔ پھر پانچ نمازیں جو ہیں، جو آپ کا سینٹر ہے یا مسجد ہےاس میں اگر آپ وہاں موجود ہیں تو مسجد میں جائیں اور پانچ نمازیں باقاعدگی سے باجماعت ادا کروائیں۔ پھر ہر احمدی جو ہے اس سے اپنا ذاتی تعلق پیدا کریں۔ اگر احمدیوں میں آپس میں رنجشیں ہیں، ناراضگی ہے، کسی کی ناراضگی جو دوسرے کے ساتھ ہے، اس کو آپ نےدور کرنا ہے۔ لوگوں کو سمجھائیں کہ ہم مومن ہیں اور مومن بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ وہاں صلح اور صفائی سے ہر ایک احمدی کو رہنے کی طرف توجہ دلائیں۔ اور کسی قسم کی ناراضگی اگر ہے تو اس کو دور کر دیں۔ ہر ایک سے ذاتی تعلق ہو اور لوگ جو ہیں وہ آپ سے ذاتی تعلق رکھنے والے ہوں، آپ سے پیار کرنے والے ہوں اور آپ لوگوں سے پیار کرنے والے ہوں۔ اس طرح جب آپ کوئی بات ان کو کہیں تو وہ آپ کی بات مانیں۔ اسی طرح خلیفۂ وقت سے باقاعدہ تعلق رکھیں۔ اپنی ماہانہ رپورٹ جوبھیجتے ہیں، اس کے علاوہ ایک مہینہ میں ایک ذاتی خط مجھے لکھا کریں تاکہ پتہ لگے کہ مربی صاحب کیسا کام کر رہے ہیں۔ اور لوگوں میں بھی یہ چیز پیدا کریں کہ انہوں نے خلیفۂ وقت سے تعلق رکھنا ہے۔ جب سے انڈونیشین ڈیسک یہاں قائم ہوا ہے، کافی تعداد میں لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، جو ترجمہ ہو کر آ جاتے ہیں۔ تو لوگوں کو توجہ دلایا کریں کہ وہ بھی خلافت سے تعلق رکھیں اور باقاعدگی سے ہر ہفتہ جو جمعہ کا خطبہ ہے وہ سنا کریں اور اس میں جو نصیحت کی بات ہوتی ہے، عمل کرنے والی باتیں ہوتی ہیں، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے مربی صاحب خود اور پھر لوگ۔ ٹھیک ہے!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button