لونڈیوں سے نکاح کے متعلق حکم کی وضاحت
سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لونڈیوں کے بارے میں تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا موقف تحریر کر کے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالنے کی درخواست کی نیز لجنہ اماءاللہ پاکستان کی علمی ریلی کے موقع پر دکھائی جانے والی ایک دستاویزی فلم میں ایک ڈیڑھ منٹ تک میوزک بجنے کی شکایت بھی کی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان امور کا اپنے مکتوب مؤرخہ 21؍فروری 2018ء میںدرج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:لونڈیوں سے نکاح کی بابت آپ کا موقف تفسیر کبیر میں بیان حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر کے مطابق بالکل درست ہے۔ اور یہی موقف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ لونڈیوں سے نکاح ضروری ہے۔
قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا بھی یہی موقف ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا کی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کےلیے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا۔ لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولد کے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔
دوسرانکتۂ نظرجس کے مطابق مسلمانوں پر حملہ کرنے والے دشمن کے لشکر میں شامل ایسی عورتیں جب اُس زمانہ کے رواج کے مطابق مسلمانوں کے قبضہ میں بطور لونڈی کے آتی تھیں تو ان سے ازدواجی تعلقات کےلیے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بھی غلط نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بعض اورمواقع پر ایسی لونڈیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے اس موقف کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی بعض مجالس عرفان میں اور درس القرآن میں لونڈیوں کے مسئلہ کی تفسیر کرتے ہوئے اسی موقف کو بیان فرمایا ہے کہ ان لونڈیوں سے ازدواجی تعلق استوار کرنے کےلیے رسماً کسی نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
یہاں پر میں اس امر کو بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایسے امور کی تفسیر جن کا ازمنۂ ماضی سے تعلق ہو، ان میں خلفاء کی آراء کا مختلف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ ہر خلیفہ کا اپنا اپنا فہم قرآن ہے اور خلفاء کا آپس میں ایسا اختلاف جائز ہے۔
جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ میرا موقف اس معاملہ پر یہی ہے کہ دشمن کی ایسی عورتوں سے ازدواجی تعلق کےلیے نکاح کی ضرورت ہوتی تھی اور میرے اس دور میں یہی جماعتی موقف متصور ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والا خلیفہ میرے اس موقف سے اختلاف کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اُس وقت وہی جماعتی موقف متصور ہو گا جو اُس وقت کے خلیفہ کا ہو گا۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس زمانہ میں کہیں کوئی ایسی جنگ نہیں ہو رہی جو اسلام کو مٹانے کےلیے لڑی جا رہی ہو اور اس میں مسلمان عورتوں سے ایسا سلوک کیا جا رہا ہو کہ انہیں لونڈیاں بنایا جا رہا ہو اس لیے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کےلیے بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔
آپ نے اپنے خط میں دوسری شکایت یہ لکھی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی علمی ریلی کے موقع پر ایک دستاویزی فلم کے شروع میں ایک ڈیڑھ منٹ کا میوزک چلایا گیا۔
جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے کہ یہ ایک دستاویزی فلم تھی۔ چونکہ یہ دستاویزی فلم تھی جو ہم نے تیار نہیں کی بلکہ اس فلم کو بنانے والے نے اس میں میوزک شامل کیا تھا، ہم اسے کیسے اس فلم میں سے کاٹ سکتے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ دراصل یہ حدیث میں بیان حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق دجال کا وہ دھواں ہےجس سے بچنا ناممکن ہے۔
جہاں تک ہمارے اپنے تیار کردہ پروگراموں یا ہمارے ایم ٹی اے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سےایم ٹی اے بھی اور ہمارے تیار کردہ تمام پروگرام بھی میوزک سے بکلی پاک ہوتے ہیں اور ان میں ایسی کوئی غیر شرعی بات نہیں ہوتی۔ اور یہ وہ نمونہ ہے جسے دین حق کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اسلامی نمونہ ایم ٹی اے کے تمام پروگراموں میں ہر جگہ پیش کیا جاتا ہے۔