متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان اور درویشان قادیان

(انس احمد۔ لندن)

جلسہ سالانہ کا آغاز دسمبر 1891ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے سایہ میں ترقی کرتے کرتے ایک عالمگیر شجرہ طیبہ بن گیا ہے۔ اور دنیا کے اکثر ممالک میں جلسہ سالانہ ہوتے ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد انیس سو اکانوے میں 100 سالہ جلسہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرکت فرمائی۔ اور جلسہ قادیان 2005ءمیں خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شرکت فرمائی۔

خاکسار انس احمد کی پیدائش 1966ءمیں قادیان میں ہوئی میرے والد محترم چوہدری سکندر خان صاحب درویش مرحوم قادیان میرے سسر محترم چوہدری بشیر احمد مہار صاحب درویش مرحوم قادیان۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں کا شمار درویشان قادیان 313میں ہوتا ہے۔

خاکسار کو یاد ہے جب میں طفل ہوتا تھا تب سے ہم ہر سال جلسہ سالانہ قادیان میں مہمانان کرام کی آمدپر بہت خوش ہوتے تھے اور مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔ تب جلسہ قادیان 18؍ تا20؍دسمبر ہوتا تھا اورربوہ کا جلسہ 26؍تا 28؍ دسمبر کو۔ ہر سال جلسہ کی تیاریاں اکتوبر یا نومبر سے شروع ہو جایا کرتیں۔ گھروں کی صفائی،گلیوں اور محلوں کی صفائی کرتے، وقار عمل سے محلہ جات کی صفائی کی جاتی ، بہشتی مقبرہ میں بھی تمام قبروں کی صفائی وقار عمل کے ذریعہ ہوتی ۔ دسمبر میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں چھٹیاں ہو جاتیں اور سکول کے کمروں میں پرالی ڈال کر مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا ۔

اس کے علاوہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ذاتی طور پر مہمانوں کو ٹھہراتے تھے۔گھروں میں بھی پرالی ڈالی جاتی تھی۔1980ء کی دہائی میں زیادہ تر مہمان انڈیا سے آتے تھے۔گنتی کے کچھ مہمان پاکستان یا بیرون ملک سے آتے تھے۔ جلسہ کے دنوں میں امرتسر سے قادیان کے لیے اسپیشل ٹرین چلتی تھی۔ تب صبح اور شام ہم اسٹیشن پر مہمانوں کے استقبال کے لیے جاتے اور مہمانوں کا سامان اٹھا کر ٹرالی میں رکھتے اور محلہ میں آ کر مہمانوں کا سامان اٹھا کر ان کی رہائش گاہ پر چھوڑ کر آتے تھے۔مہمانوں کی خدمت کرکے بہت خوشی ہوتی تھی۔ تب قادیان والوں کے حالات غربت کے تھے۔ سردی بھی بہت ہوتی تھی۔ صبح شام مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی تھی جو بہت شوق سے کرتے تھے۔حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان کے زیرنگرانی تمام کام ہوتے تھے۔ آپ خود ہر شعبہ کا جائزہ لیتے تھے۔جلسہ کی تیاری وغیرہ وقار عمل میں آپ بھی حصہ لیتے تھے۔ اسی طرح درویشان قادیان بھی جلسہ پر ڈیوٹی دیتے تھے۔ جلسہ پر کئی بزرگا ن کی تقاریر ہوتی تھیں۔حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، ملک صلاح الدین صاحب، مکرم شریف احمد امینی صاحب، مکرم بشیر احمد دہلوی صاحب، مکرم حکیم محمد دین صاحب صاح، مکرم کریم الدین صاحب،مکرم محمد انعام غوری صاحب وغیرہ۔

حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ آپ خلافت سے پیار، محبت اور اطاعت کا ایک نمونہ تھے۔1977ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر فرمایا تھا۔آپ نے آخری وقت تک اس ذمہ داری اور خدمت کو خوب نبھایا۔ آپ درویشان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ غریبوں اور بیواؤں کی ہر ماہ مدد کرتے تھے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ جلسہ پر آپ کے گھر اور دالان حضرت اماں جانؓ میں بہت سے مہمان ٹھہرتے تھے۔ جب کوئی آپ کو ملتا تھا اور دعا کی درخواست کرتا تھا تو آپ کہتے تھے کہ پہلے حضور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھو،خود بھی دعا کرو میں بھی دعا کروں گا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ 1990ء سے پہلے میرے والد صاحب کی ہر سال جلسہ پر بطورناظم بستر ڈیوٹی لگتی تھی۔ تب مہمانوں کے لیے جماعت کے پاس زیادہ بستر نہیں ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب نومبر کے آخر میں گاؤں گاؤں جاکر سکھوں سے بستریعنی رضائی، گدا، تکیہ وغیرہ کافی مقدار میں اکٹھے کر لیتے تھے۔ ہمارے گھر کا ایک کمرہ بستروں سے بھر جاتا تھا۔ پھر ان بستر وںکی لسٹ بناتے تھے۔ نام گاؤں اور تعداد وغیرہ لکھتے تھے۔ تمام سکھ نئے بستر دیا کرتے تھے۔ جلسہ کے دنوں میں افسر جلسہ سالانہ کی اجازت سے حسب ضرورت جو مہمان دور دور سے آتے تھے ان میں تقسیم کرتے تھے۔پھر جلسہ کے بعد واپس وصول کرنے اورپھر گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کے بستر واپس دے کر آتے تھے۔اللہ کے فضل سے آپ بہت احسن رنگ میں ذمہ داری سے اپنی خدمت کا حق ادا کرتے تھے۔

اسی طرح آپ ناظم پرالی بھی ہوتے تھے۔ جلسہ گاہ، سکولوں اور گھروں کے لیے پرالی کی ضرورت ہوتی تھی۔ آپ گاؤں گاؤں ٹرالی لے کر جاتے اور پرالی اکٹھی کرتے تھے اور پھر گراؤنڈ میں اس کو دھوپ میں سکھاتے تھے۔پھر اس کو جلسہ کے لیے اسٹور کر لیتے تھے۔ جلسے سے چنددن قبل جلسہ گاہ مردانہ و زنانہ اور سکولوں اور گھروں میں پرالی دینے کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ والد صاحب کے ساتھ بستر لانے اور واپس دینے پراور پرالی لانے اور ہر جگہ پہنچانے میں خاکسار کو بھی خدمت کا موقع ملا۔ تمام درویشان قادیان نے اپنی درویشی کا احسن رنگ میں حق ادا کیا۔خدا تعالیٰ سب کی خدمات قبول فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

جلسہ سالانہ قادیان 2005ء

خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اس جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔حضور انور کی آمد سے یہ جلسہ ایک یادگار جلسہ بن گیا۔ اور دنیا بھر کے احمدیوں کو جلسہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ خاکسار کو مع اہلیہ بیلجیم سے جلسہ سالانہ 2005ءمیں شمولیت کی توفیق ملی الحمدللہ۔ حضور انور کی قادیان آمد سے چند دن پہلےخاکسار قادیان پہنچ گیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خاکسار کو حفاظت خاص ٹیم قادیان میں ڈیوٹی کی توفیق عطا فرمائی۔

حضرت مرزا وسیم احمد صاحب سے جب میں ملاقات کرنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم حفاظت خاص لندن والوں کو ذاتی طورپر جانتے ہو اور قادیان والوں کو بھی جانتے ہو لیکن قادیان والے خدام کی ٹیم لندن والوں کونہیں جانتے اس لیے میں نے تمہاری ڈیوٹی قادیان والی ٹیم کے ساتھ لگائی ہے۔ یہ سن کر خاکسار بہت خوش ہوا۔ اور حضرت میاں صاحب کاشکریہ ادا کیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی قادیان آمد کے موقع پر دن رات خدمت کی توفیق ملی۔ حضور انور سیدھا پہلے بہشتی مقبرہ مزار مبارک پر تشریف لے کر گئے اور دعا کے بعد پیدل بہشتی مقبرہ سے دارالمسیح رہائش گاہ تک گئے۔راستہ میں دونوں طرف کھڑے ہزاروں لوگوں نے حضور انورکا استقبال اور دیدار کیا۔ اس موقع پر بھی خاکسار کوقادیان ٹیم کے ہم راہ حضور کے ساتھ ساتھ پیدل جانے کا موقع ملا۔ نمازوں کے اوقات میں نیز جب حضورروزانہ بہشتی مقبرہ دعا کے لیے تشریف لے کر جاتے تھے تو ڈیوٹی کی توفیق ملتی رہی۔

جب حضور انور نے درویشان کے گھروں کا دورہ فرمایا تب حضور ہمارے گھر میں بھی تشریف لائے اور ہماری فیملی اور بچوں نے حضورِ انور کے ساتھ تصویر اتروائیں۔جلسہ گاہ میں دوران خطاب خاکسار کو سٹیج پر بھی ڈیوٹی کی توفیق ملی۔

یہ مبارک و بابرکت دن رات ایک یادگار بن گئے ہیں۔ جلسہ قادیان روحانی تسکین کا ذریعہ ہے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے قادیان اور زیادہ تابندہ اور درخشاں معلوم ہوتا تھا۔ قادیان کی گلیاں اور کوچے بھی زیادہ کشادہ دکھائی دے رہے تھے جنہوں نے ہزاروں پروانوں کو سمیٹ لیا تھا۔

بالآخر 15؍جنوری 2006ء کا دن آیا اور حضور انور کی قادیان سے روانگی اور اس پیاری بستی سے الوداع ہونے کا وقت تھا۔ روانگی کے روز نمازِ ظہر سے قبل میری خوش نصیب خوش دامن صاحبہ محترمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ مکرم بشیر احمد مہار صاحب درویش قادیان کی نماز جنازہ حاضرحضور انور نے(گلشن احمد)میں پڑھائی۔

قادیان کے سارے احباب، مرد و خواتین، بچے، بوڑھے حضور انور کو الوداع کہنے کے لیےاحمدیہ گرائونڈ میں جمع تھے۔ یہ منظر بڑا ہی پرسوز تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ آج کا یہ ماحول بھی اداس تھا اور آج کایہ دن بھی اداس تھا۔آخر قادیان سے جدائی کا لمحہ آ پہنچا۔ حضور انور نے بڑی لمبی پر سوز دعا کروائی۔ ہر طرف سے سسکیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسی حال میں حضور انورنے بلند آواز سے سب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا اور قادیان سے براستہ بٹالہ امرتسر کے لیے روانگی ہوئی۔ ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جلد پھر حضور انورکو قادیان آنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مشکلات دور فرمائے اور صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button