وبا کے موسم میں سالِ نو: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا نہایت بصیرت افروز پیغام

(آصف محمود باسط)

یکم جنوری 2021ء

ابھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ ختم ہی ہوا تھا اور میں اس پیغام کی گہرائیوں میں ڈوبا بیٹھا تھا جو حضور نے نئے سال کے حوالہ سے خطبہ کے آخر پر ارشاد فرمایا تھا۔ خیالات بے طرح آتےجاتے تھے۔ کیا نئے سال کی خوشی منائی جائے؟ یا انتظار کیا جائے؟ کورونا وائرس کا امتحان تو ہنوز جاری ہے اور زوروں پر ہے۔ دنیا دارتو اب بھی اپنے خالق کو پہچاننے کے لیے تیار نہیں۔  سارا زمانہ تباہی کی بلند چٹان پر کھڑا، اپنے پیروں کی انگلیوں سے کنارے کو تھامنے کی کوشش میں،نیچے گہرائی میں اس بے یقینی کے سمندر کو دیکھ رہا ہے جو تاحدِ نظر پھیلاہوا ہے۔ ایسے میں نئے سال کی خوشی کیسی؟

تصویر بشکریہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل

لیکن حضور کے پیغام پر کچھ اور غور کیا تو احساس ہوا کہ اس میں مایوسی کا تو کہیں اشارہ تک نہیں تھا۔ یہ پیغام تو تشخیص، علاج  اور احتیاطی تدابیر کا مرقع تھا۔ زندگی کو سنوارتے ہوئے درست سمت میں  قدم بڑھانے کا نسخہ۔  اس پیغام میں توجہ دلائی گئی تھی کہ یہ خطرناک وبا جس سے دنیا دوچار ہے یہ اس قادر خدا کی طرف سے یاددہانی ہے کہ اس کے علم، اس کی قدرت و طاقت اور اس کے وجود  کو اپنے زیرنگین سمجھ لینا انسان کی بھول ہے۔  یہ ان یاددہانیوں  میں سے ایک ہے جو خدائے قادر و قدیر وقتاً فوقتاً ہمیں بھیجتا  ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ انسانی سوچ اور علم  اور ترقی کبھی خدا کی قدرت کو تسخیر کر لے۔کاروبارِ دنیا و مافیہا پر گرفت صرف خداتعالیٰ کی ہے، اور اس کی کوئی بھی مخلوق اس قدرت کے برابر کیا پاس بھی نہیں پھٹک سکتی۔

حضور کے اس پیغام کی آفاقیت ایسی ہے کہ یہ فی زمانہ کُل بنی نوع انسان کےہر طبقے کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ جونہی مجھ سے عام لوگ اسے صرف اپنے لیے سمجھنے لگتے، اس پیغام کی ایک لہر ایسی بلند ہوتی ہے کہ دنیاوی طاقتوں کے سربراہوں کے قد سے بھی  بہت اونچا اٹھ جاتی۔ کبھی ایک پرسکون نہر کی طرح عالمِ روحانی کی کھیتیوں میں گزرتا گزرتا یہ پیغام ایک توانا آبشار کی طرح یکدم معاشرے میں ظلم اور ناانصافی کے قصورواروں کے سر پرپڑتا۔  پس جو اپنے گھروں میں آرام کرسیوں پر اسے سن رہے تھے، یا جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس پیغام کو سن رہےتھے۔ یا جو معصوم بے گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے والےتھے، جو سائنسی علوم کی بالادستی کے داعی تھےیا جو سمجھ رہےتھے کہ اب سیاسی اور معاشی اور علمی طاقتوں کے ہوتے ہوئے خدا کے وجود کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ پیغام ہر کسی کے لیے ایک بھرپور اور زوردار پیغام تھا۔ یعنی دنیا کی کل آبادی کا کوئی طبقہ ایسا نہیں تھا جو اس پیغام کا مخاطب نہ ہو۔

اس ہمہ جہت پیغام کے ساتھ خطبہ جمعہ اپنے اختتام کو پہنچا تو میں اپنے دفتر کی نچلی منزل پر نمازِ جمعہ میں شامل ہونے کے لیے چلا گیا۔ میرا ذہن مستقل اس بے چینی میں تھا کہ دیکھوں تو سہی کہ نئے سال  اور نئی دہائی کے موقع پر دوسرے مسلمان قیادتوں کی طرف سے دنیا کو کیا پیغام دیا گیا ہے؟

سو نماز کے بعد میں دفتر میں کمپیوٹر کے سامنے جا بیٹھا اور انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی۔ خبروں کی ویب سائٹس، حالاتِ حاضرہ پر تجزیہ کار سرچ انجن ہر جگہ تلاش کرلیا مگر کسی مسلمان لیڈر کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملا۔

غیر مسلم لیڈروں نے اپنے ملک و قوم کو پیغامات دیے ہوئے تھے، مگر ان کی اٹھان ظاہر ہےاپنے شہریوں کے لیے تھی۔ کل عالم تو کسی کا مخاطب نہیں تھا۔ ان میں سے بھی اکثر نے اسی محاورے کا ذکر کیا ہوا تھا جو اب اپنا اثر کھوبیٹھا ہے، یعنی "Light at the end of the tunnel”۔ اور اس فرضی روشنی کو بھی وہ اپنی کوششوں سے منسوب کرتے نہ تھکتے تھے۔ حفاظتی ٹیکوں سے لے کر، کوروناوائرس کا ٹیسٹ کرنے کی بڑھتی ہوئی استطاعت، قرنطینہ، اور self-isolation کو یقینی بنانے کے نئے طریقوں تک۔صرف اپنی صلاحیتوں کے گُن اور کچھ بھی نہیں۔  مگر یہ سب تو وہی تدابیر تھیں جو ایک صدی قبل 1918ء میں پھوٹنے والی انفلوئنزا کی عالمی وبا کے وقت بروئے کارلائی گئی تھیں۔ کوئی نئی بات تو نہ تھی۔ دنیا تو آج بھی اسی طرح بے بس اور لاچار نظر آئی۔

خیال آیا کہ انفلوئنزا کی وبا کے وقت بھی تو خلافتِ احمدیہ کی طرف سے کوئی رہنمائی کی گئی ہوگی۔ یوں پرانے اخبارات میں تلاش کا آغاز کیا اور 6؍ ستمبر 1919ء کے الفضل کی پیشانی پر خبر نظر آئی:

’’30 اگست کو بعد از نماز عصر مسجد مبارک میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے انفلوائنزا کے متعلق تقریر فرمائی جس میں اس سے محفوظ رہنے کے لیے روحانی اور جسمانی ہدایات بیان کیں۔۔۔ یہ تقریر انشا اللہ آئندہ درجِ اخبار کی جائیگی‘‘۔

اگلا اخبار 13؍ ستمبر 1919ء کو شائع ہوا اور اس میں حضرت مصلح موعودؓ کی یہ مکمل تقریر مل گئی۔میں اس تقریر کا متن پڑھتا جاتا اور خلافت احمدیہ پر اپنے ایمان کو مضبوط ہوتا محسوس کرتا۔ دل اس بات کا قائل ہوتا چلا گیا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد اب آپؑ کے خلفا ہی اس تجدیدِ دین کے ذمہ دار ہیں جس کی پیشگوئی آنحضرتﷺ نے چودہ سو سال قبل فرمائی، یعنی ہر صدی کے سر پرمجدد کی آمد۔

بیسویں صدی کے آغاز پر خدا تعالیٰ نے اپنے ہونے کی پرزور یاددہانی بھیجی، اور انسان اس کے آگے بے بس ہوکر ڈھیر ہوگیا۔ ساتھ ہی خلیفۃالمسیح کی شکل میں ایک منادی بھی موجود رکھا جو دنیا کو رب کی طرف بلائے۔

اب اکیسویں صدی میں خداتعالیٰ کی طرف سے نوعِ انسانی کو ایک ابتلا درپیش ہوا اور انسان میں اپنی بے بسی کا احساس جاگا، تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی بھی دنیا کو عطا ہواجو اٰمِنوابِرَبکم کی آواز لگاتا ہے اور اس منادی کی صدا زمین کے کناروں تک پہنچتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس تقریر میں فرمایا:

’’۔۔۔انفلوائنزا کے آنے کے دن ہیں، اس لیے ہمیں اسکے متعلق پہلے سے فکر کرنا چاہیے۔ اس کے متعلق پہلی بات تو یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ ہر ایک بلا اور مصیبت سے حفاظت کرسکتا ہے، اس لیے ایسے موقعہ پر ہمیں خدا تعالیٰ کے لیے اپنے آپ  میں ایسا تغیر کرنا چاہیے اور ایسی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری دکھانی چاہیے کہ خدا تعالیٰ پہلے سے بھی زیادہ ہم پر خوش ہوجائے۔۔۔

’’اگرپوری کوشش سے اس کی فرمانبرداری کی جائے گی تو کیوں خاص فضل نہیں کریگا، اِس وقت جب کہ ایک خطرناک وبا آرہی ہے۔۔۔

’’دوسری بات ذکرِ الہی ہے۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ مختلف اوقات میں خدا تعالیٰ کی تحمید اور تسبیح میں لگے رہیں۔۔۔

’’تیسری بات صدقہ و خیرات ہے۔ اس کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صدقہ مقررہ ہی کافی نہیں ہوتا کہ سمجھ لیا جائے  کہ ماہوار جو اس قدر چندہ دے دیا جاتا ہے تو اور کچھ دینے کی ضرورت نہیں۔ ماہوار دینا بھی مفید اور فائدہ رساں ہوتا ہے مگر اور بھی دینا چاہیے۔ جو خاص طور پر بلاؤں سے بچاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سائل اور مانگنے والوں کو دیا جائے۔ اور ان کو دیا جائے جو مانگنے کی طاقت نہیں رکھتے۔۔۔

’’چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر کر دعائیں کرنی چاہئیں۔۔۔دوسروں کے لیے دعائیں کرنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔پھر اپنے بھائیوں تک ہی دعاؤں کو محدود نہ رکھنا چاہیے بلکہ ساری دنیا کے لیے کرنی چاہئیں۔۔۔

’’یہ تو وہ باتیں ہیں جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ظاہری سامانوں سے بھی کام لینا چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ظاہری سامانوں سے کام نہیں لیتا، وہ گویا خدا کا امتحان لیتا ہے۔ کہ دیکھوں خدا مجھے بچاتا ہے یا نہیں۔ تو ظاہری سامانوں سے بھی ضرور کام لینا چاہیےاور خدا کی آزمائش نہیں کرنی چاہیے۔۔۔

’’میں ایک ایسی بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں جو جسمانی اور روحانی دونوں پہلووں سے تعلق رکھتی ہے۔ اور وہ یہ کہ مایوسی اور ناامیدی کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔ مایوسی روحانی  اور جسمانی دونوں طرح کی بیماری ہے۔ روحانی تو اس لیے کہ یہ کفر ہے اور جسمانی اس لیے کہ اس سے جسم میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور کمزوری کی وجہ سے بیماری حملہ کرتی ہے۔ وبائی امراض سے بچنے کے لیے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ انسان مایوس نہ ہو۔ رات کو جب سونے لگے تو سمجھ لے کہ میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مسیح موعودپر ایمان لایا ہوں۔ مجھ پر کوئی وبا حملہ نہیں کرسکتی۔ اسی طرح دن کو یقین رکھے کہ میں نے خدا کے نبی کو قبول کیا ہے، مجھے وباکوئی تکلیف نہیں دے سکتی۔ اس سے انشا اللہ بہت فائدہ ہوگا۔‘‘

یہ 1919ء کے آخری مہینوں میں ارشاد فرمودہ تقریر ہے۔ جونہی نیا سال چڑھا تو جنوری کے بالکل ابتدائی دنوں میں وبا کے پھیلتے ہوئے اثرات اور دنیا کی معیشت کے لڑکھڑاجانے کے باوجود، حضرت مصلح موعودؓ نے لندن میں مسجد کی سکیم کا اعلان فرمایا۔ اب اس تقریر اور اس سکیم کو ساتھ ساتھ رکھ لیں تو خلافت احمدیہ کے پیغام کا خلاصہ آپ کے سامنے ہے۔

اب 2020ء اور 2021ء کی طرف آتے ہیں۔خلافتِ احمدیہ کا اشاعتِ اسلام کا جذبہ ایک صدی کے بعد آنے والی اس وبا کے موسم میں بھی اسی طرح قائم و دائم نظر آتا ہے۔ وہ جذبہ جو بزبانِ حال کہتا ہے کہ ہمارا ایمان خدائے واحد و لاشریک پر ہے۔ ہم  ہر مشکل وقت میں اسی کی عبادت کرتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ دنیا کو تہہ و بالا کردینے والی آزمائش ایمان میں بھی انقلابی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے، پس ہمارے سامنے کوئی آزمائش آجائے، ہم خدائے واحداور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی تعلیم کا پرچار نہیں چھوڑ سکتے۔

تصویر بشکریہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل

آئیے 2021ء کے پہلے روزحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

  1. گزشتہ تقریباً ایک سال سے دنیا کو ایک خطرناک وبا درپیش ہے۔ دنیا کا کوئی حصہ اس سے محفوظ نہیں رہا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی اکثریت اس طرف توجہ کرنے کو تیار نہیں کہ یہ وبا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے حقوق و فرائض کی یاددہانی ہوسکتی ہے۔
  2. آج سال کا پہلا دن ہے  اور پہلا جمعہ بھی ہے۔ دعا کریں کہ یہ نیا سال جماعت اور باقی انسانیت کے لیے خیر و برکت کا سال ہو۔
  3. اپنے فرض کو پورا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اپنی عبادتوں کے معیار کو بہتر کریں۔
  4. حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ کی طرف توجہ دلائی۔ حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی
  5. باہمی اخوت اور محبت کو قائم کرنے اور بڑھانے کی تلقین فرمائی کیونکہ یہ ہوگا تو دنیا کو بھی آنحضورﷺ کے جھنڈے تلے بلاسکیں گے۔
  6. حضورنے ان خطوط کا ذکر بھی فرمایا جو حضور نے عالمی سربراہان کو تحریر فرمائے اور خدائے قادر کی طرف رجوع کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز ان کی مذہب سے بے اعتنائی کا بھی ذکر فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ ان کا پورا زور صرف انسانی کوششوں پر ہے جب کہ اس مشکل کا اصل حل خدا تعالیٰ سےرجوع کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
  7. حضور نے پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر فرمایا جو ان پر ان کے ایمان کے باعث روارکھے جارہے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ ناموسِ رسالتﷺ کے نام پر احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنانے والے بھولتے ہیں کہ ناموسِ رسالت کی اصل علم بردار تو جماعت احمدیہ مسلمہ ہے۔
  8. حضور کے پیغام کا مرکزی خیال بے یقینی سےپُر اس دور میں دعا اور عبادات  کی طرف توجہ کو مبذول کرنا ہے تا کہ خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کی مدد کو آئے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ایک صدی پہلے مغربیت کے مرکز میں ایک مسجد کی تحریک کی گئی تھی۔ آج خلافتِ خامسہ کے بابرکت دور میں دنیا کے ہر کونے میں اعلائے کلمۂ حق کے لیے مسجد قائم ہے۔ سینکڑوں مساجد تو خلافتِ خامسہ ہی کے دور میں قائم ہوئیں اور تبلیغِ اسلام کا مرکز ہیں۔ زمین کے ایک سرے سے لے کر دوسرے تک۔ نقشے کے اوپر سے لے کر نیچے تک۔ ہر جگہ مساجد قائم ہیں اور ان وبا کے دنوں میں خدمتِ انسانیت کا مرکز بنی رہی ہیں۔ تمام دنیا کے احمدی  اپنے امام کے ساتھ جدید  مواصلاتی ذرائع سے منسلک رہے ہیں۔

تصویر بشکریہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل

میں تعصب سے بکلی کنارہ کش رہنا چاہتا تھا۔ سو میں اپنے دفتر میں بیٹھا انٹرنیٹ پر بہت باریکی سے تلاش کرتا رہا کہ کسی بھی مسلمان قیادت کا کوئی پیغام تو ملے۔ میرے دفتر کی کھڑکی سے مجھے نئے سال کا پہلا دن دوپہر سے شام میں ڈھلتا نظر آتا رہا۔ پھر شام بھی رات میں ڈھل گئی۔ مجھے ایسا کوئی پیغام نہ مل سکا۔

کہیں Pope کا پیغام  ملا جو اس کی غیر موجودگی میں نئے سال کی عبادت کے دوران اس کے پیروؤں کو سنایا گیا۔ Archbishop of Canterbury  کا پیغام ملا۔ میں ہر تعصب کو ایک طرف رکھ کر پوری دیانتداری سے عرض کرتا ہوں کہ ان کے پیغامات اگرچہ  اچھے تھے (ان کے عقیدہ کے لحاظ سے) مگر ان میں وہ وسعت ، وہ ہمہ گیری، ہمہ جہتی اور آفاقیت نہ تھی کہ کُل دنیا کی آبادی کا احاطہ کرتی اور خدائے واحد کی طرف بلاتی۔

مگر مجھے تو کسی مسلمان قیادت کی طرف سے کسی پیغام کی تلاش تھی۔ میں نے اپنی تلاش کئی طرز سے کر کے دیکھی۔ بالآخر میں نے ان تنظیموں پر تلاش کو مرکوز کیا جو خلافت کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہیں۔(نام لینا مناسب نہیں مگر اس قدر کہہ دیتے ہیں کہ مودودی صاحب کی تمنائے خلافت اور اس کی شاخسانہ تحریکات اور ان سے متاثر مکاتبِ فکر)۔اچانک مجھے ایک پیغام مل گیا۔

میری نظر ایک خبر پر ٹھہرگئی۔ سرخی تھی: ’’ISIS انتہاپسندوں کی طرف سے نئے سال کی خوشیوں پر حملہ کرنے کا عندیہ‘‘۔ میں خبر پڑھتا جاتا اور شدید تکلیف کا شکار ہوتا جاتا۔نئے سال کے اس پیغام  کا مرکزی خیال تھا : ’’کفار کو مارڈالو!‘‘۔ اور یہ پیغام تھا نام نہاد ’’اسلامی ریاست‘‘ کے بانیوں کی طرف سے جو اپنے دہشت گرد قائد کو ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ کہنے پر مصر ہیں۔ 

کیسی شرمناک بات تھی کہ دہشت اور خونریزی کا ایسا پیغام اسلام کے نام پر بھیجا گیا، وہ بھی  ایسے میں جب انسانیت کسی درست سمت کی ضرورت مند ہے۔ ان کی طرف سے پوسٹر بھی شائع کیے گئے تھے جن میں مسلم حلیے کے حامل نوجوان جسم پہ خودکش جیکٹ  پہنے آئفل ٹاور اور مغربی ممالک کی نمائندہ عمارات کے پس منظر میں ہوتی نئے سال کی تقریبات کو دیکھ رہے ہیں اور حملہ کے لیے تیار ہیں۔

دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے شکرگزاری کے جذبات پیدا ہوئے کہ اس نے ہمیں جماعتِ احمدیہ اور خلافتِ احمدیہ سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس خلیفہ کی بیعت میں شامل ہونے کی سعادت عطا فرمائی ہے جو امن اور محبت سے دنیا کو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے۔ وہ خلیفہ جو دنیا کے لوگوں کو اور دنیا کی طاقتوں کے سربراہوں کو انسانیت کی فلاح و بہبود کا اسلامی درس دیتا ہے۔ جو اپنی جماعت کو کہتا ہے کہ محض بیعت کر لینا کافی نہیں، بلکہ میدان عمل میں نکلو اور دنیا کو بھی امن کے اس گہوارہ کی طرف بلاؤ جس کا نام اسلام ہے۔

یہ یکم جنوری 2021ء کی روداد ہے۔ ابھی خلافتِ احمدیہ کی طرف دیگر امتِ مسلمہ کو یہ چیلنج گئے گیارہ ہی دن ہوئے تھے کہ اگر خلافت قائم کرسکتے ہو، تو کر کے دکھاؤ۔ اس دن کے بعد سے ہر روز مجھے اس بات کا انتظار رہتا کہ کسی فرقے، کسی مسلک کی طرف سے خلافتِ احمدیہ کے اس چیلنج کا جواب آئے۔ مگر نہ آتا۔

’’اسلامی ریاست‘‘ کے ان نام نہاد داعیوں اور اپنے قائد کو ’’خلیفہ‘‘ کہنے والوں کی طرف سے نئے سال کا یہ پیغام دیکھا۔ اور یہ بھی دیکھا کہ مسلم دنیا کی طرف سے یہ واحد پیغام تھا۔ تو چیلنج کا جواب مل گیا۔

میں یہاں بلاتبصرہ چھوڑنا چاہتا ہوں۔ ہاں آپ اپنا تبصرہ نیجے دیے گئے تبصرہ کے خانہ میں ضرور چھوڑ سکتے ہیں۔

٭…٭…٭

اسی مضمون کو انگریزی میں ملاحظہ فرمائیے:

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button