افریقہ (رپورٹس)

تنزانیہ کے ریجن سِمیُو(Simiyu) میں مساجد، مشن ہاؤس اور واٹر پمپ کا افتتاح

محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ تنزانیہ کو مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی توفیق حاصل ہورہی ہے۔ ملک کے شمال میں واقع سِمیُو(Simiyu) ریجن میں تقریباً چھ سال قبل تبلیغ کے نتیجہ میں ابتدائی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ بعد ازاں ہر سال ریجن کے مختلف مقامات پر اسلام احمدیت کا پودا لگتا جارہا ہے اور سعید روحیں سچائی کو قبول کررہی ہیں۔ اب خدا کے فضل سے اس ریجن میں 34جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جن میں تقریباً 4500سے زائد احمدی آباد ہیں۔ بلاشبہ سب سے بڑی ذمہ داری ان نئے شاملین کو حقیقی اسلام کی تعلیم دینا اور اسلامی اخلاق و اطوار سے روشناس کروانا ہے۔ نومبائعین نہایت تیزی کے ساتھ خلیفۂ وقت اور نظامِ جماعت سے تعلق اور محبت میں بڑھ رہے ہیں۔ ان نئے شاملین کی مستقل بنیادوں پر دینی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف علاقوں میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کیے جارہے ہیں۔ امسال بھی اس ریجن کی دو جماعتوں میں مساجد، مشن ہاؤس اور واٹر پمپ کا افتتاح عمل میں آیا۔ الحمدللہ

Nyangokolwaجماعت میں مسجدبیت الہادی، مشن ہاؤس اور واٹر پمپ کا افتتاح

مکرم عمران محمود صاحب (ریجنل مبلغ) تحریر کرتے ہیں کہ سِمیُو ریجن کی Nyangokolwaجماعت میں کثرت سے نومبائعین آباد ہیں جن کی تربیت کے لیے معلم سلسلہ کا تقرر بھی کیا گیا ہے۔ ایک جگہ کرایہ پر لے کر بطور نماز سینٹر اور معلم ہاؤس استعمال کی جارہی تھی۔ یہاں مسجد کی اشد ضرورت کے پیش نظر امسال مکرم طاہر محمود چوہدری صاحب (امیر و مشنری انچارج) کے ارشاد کے مطابق تعمیر کا آغاز ہوا۔ گاؤں بھر میں اسلام احمدیت کی نیک نامی ہے۔ ایک جذبہ کے ساتھ نومبائعین مرد،خواتین اور بچوں نے تعمیراتی کام میں حصہ لیا۔ مقامی سطح پر احبابِ جماعت مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر سے اتنے خوش تھے کہ باوجود مالی کشائش نہ ہونے کے 1500اینٹیں خود تیار کیں اور وقار عمل کے ذریعے تقریباً اڑھائی لاکھ شلنگ کی بچت کی گئی۔ اس طرح تقریباً دو ماہ میں ایک خوبصورت مسجد اور تین کمروں پر مشتمل ایک مشن ہاؤس تیار ہوگیا۔ اس مسجد میں تقریباً 300افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت اس مسجد کا نام ’’مسجد بیت الہادی‘‘ عطا فرمایا ہے۔

حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ علاقہ میں ہر خاص و عام کی صاف پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس احاطہ میں واٹر پمپ بھی نصب کیا گیا جہاں سے خدمت خلق کے تحت روزانہ سینکڑوں افراد مستفیض ہورہے ہیں۔

مورخہ 14؍نومبر2020ء بروز ہفتہ اس گاؤں کی نئی مسجد کے افتتاح کا پروگرام تھا۔ مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب کی قیادت میں قافلہ یہاں پہنچا تو تقریباً 370افراد نے پُرجوش استقبال کیا۔ مکرم امیر صاحب نے مسجد کا افتتاح کرکے اجتماعی دعا کروائی۔ اس کے بعد افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ تلاوت قرآن کریم، نظم اور مہمانان کے تعارف کے بعد علاقہ کے سرکاری عہدیداران نے اپنے تاثرات میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ صاف پانی یہاں کے لوگوں کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی جو جماعت کی برکت سے پوری ہوگئی ہے۔

اس کے بعد محترم امیر صاحب نے اپنی تقریر میں اسلام میں مساجد کی تعمیر کی غرض و غایت بیان کی اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد پورے علاقہ کے لیے امن، محبت اور بھائی چارہ کا پیغام لے کر آئی ہے۔ آخر میں دعا کے ساتھ اس مبارک تقریب کا اختتام ہوا اور تمام شاملین کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔

اس تقریب میں شامل تمام لوگ اس گاؤں میں جماعت احمدیہ کے ترقیاتی کاموں کو حیر ت کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اس مسجد کے قریب ہی ایک عیسائی چرچ ہے جس کے ساتھ ہی پادری صاحب کی رہائش کے لیے گھر ہے۔ جب معلم ہاؤس مکمل ہوگیا تو لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ واقعۃً آپ لوگ اپنے معلم صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں اسی لیے ان کے لیے اتنا خوبصورت گھر بنا کر دیا ہے۔ اسی طرح مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا کہ اس پروگرام سے ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیمات اور جماعت احمدیہ کے بارہ میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ہے۔

Mwaukoliجماعت میں مسجد بیت القیوم کا افتتاح

اس تقریب کے فوراً بعد محترم امیر صاحب اپنے قافلہ کے ہمراہ Mwaukoli جماعت کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ جماعت اپنے ارد گرد کی6جماعتوں کے لیے سینٹرل حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے یہاں مسجد کی ضرورت کے پیش نظر مکرم امیر صاحب نے تعمیر کی اجازت دی۔ یہاں کے نومبائعین بھی اخلاص و وفا میں ترقی کررہے ہیں اور ان کے حسن اخلاق کی وجہ سے اہلِ علاقہ میں جماعت کی نیک نامی ہے۔ اس جماعت میں مسجد کی تعمیر سے قبل سُنی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے گاؤں کے چیئرمین اور کونسلر کے دفاتر میں جاکر جماعت کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور ان کے مسجد کی تعمیر سے پوشیدہ عزائم ہیں۔

مقامی سرکاری لیڈروں نے ہماری طرف سے خود ہی ان الزامات کی تردید کی اور انہیں بتایا کہ ہم خو داس جماعت کو جانتے ہیں۔ یہ بہت پرامن اور انسان دوست جماعت ہے۔ الحمدللہ جماعتی روایات کے پیشِ نظر اس مسجد کی تعمیر میں بھی ہر عمر کے احمدیوں نے حصہ لیا۔ اس مسجد کی تکمیل گاؤں کی زینت میں کئی گنا اضافہ کا باعث بنی ہے۔ اس مسجد میں تقریباً 300افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت اس مسجد کا نام ’’مسجد بیت القیوم‘‘ عطا فرمایا ہے۔

اس مسجد کا افتتاح مکرم امیر صاحب نے کیا۔ دعا کے بعد نمازِ عصر باجماعت ادا کی گئی۔ جس کے بعد باقاعدہ افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ تلاوتِ قرآن کریم اور نظم کے بعد مہمانان کو خوش آمدید کہا گیا۔ مہمانوں نے اپنے تاثرات میں جماعت احمدیہ کو مسجد کی تعمیر پر مبارکباد دی۔ انہوں نے بتایا کہ احمدی مسلمان واقعۃً گاؤں میں اچھا نمونہ رکھنے والے ہیں۔ اسی طرح ان کےامیر جماعت اور دیگر مبلغین بڑی دور دور سے سفر کرکے یہاں ان کے پاس آتے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا آپس میں کتنا پیار کا تعلق ہے۔

مکرم امیر صاحب نے اپنی تقریرمیں اسلام احمدیت کی امن پسند تعلیمات کا تعارف کروایا ۔ انہوں نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد خداتعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے بنائی گئی ہے اس لیے تمام مکاتبِ فکر کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں۔ تمام احمدی احباب مسجد کی تعمیرسے بہت خوش تھے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ خود بھی اور اپنے بچوں کو اس مسجد کے ساتھ وابستہ کریں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اسلام احمدیت پر ہمیشہ قائم رہیں۔ اس مبارک تقریب میں تقریباً 415افراد شریک ہوئے جن میں غیر از جماعت مہمانان بھی شامل تھے۔ اجتماعی دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی اور تمام شاملین کو کھانا پیش کیا گیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں مساجد کی تعمیر سے اسلام احمدیت کی تبلیغ کی نئی راہیں کھلیں اور نومبائعین کی یہ جماعتیں ایمان و ایقان میں ترقی کرتی چلی جائیں۔ آمین

(رپورٹ: عبد الناصر مومن، شہاب احمد۔ نمائندگان الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button