’’منصب نبوت مختلف اجزاء نظر وعمل سے مرکب ہے‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ آپ11؍نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی۔ 1895ء میں کلکتہ آگئے اور یہاں آپ کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔ قرآن و حدیث و فقہ کا گہرا مطالعہ کیا۔ شاعربھی تھے۔ رانچی قیام کے زمانے میں ترجمان القرآن ترتیب دیا اور ’’الصلوٰۃ و الزکوٰۃ‘‘ اور ’’النکاح‘‘ وغیرہ تصانیف مکمل کیں۔ مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں طبع آزمائی کرتے گزرا۔ بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کیے۔ سب سے پہلا رسالہ ماہنامہ ’’نیرنگِ عالم‘‘ 1899ء میں جاری کیا۔ 1909ء میں ’’لسان الصدق‘‘ (ماہنامہ )شائع کیا۔ 31؍جولائی 1906ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا۔ حکومت نے ’’الہلال‘‘پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ مولانا کے خطوط کے مجموعے’’غبار خاطر‘‘، ’’کاروان خیال‘‘، ’’برکات آزاد‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔
تقسیم ہندکے بعد ہندوستان کی عبوری حکومت میں وزارت تعلیم اور سائنسی تحقیقات کے قلم دان کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1947ء سے 1957ء تک اعلیٰ اور فنی تعلیم کے ارتقا کے لیے کام کیا۔ آپ کی وفات 22؍فروری 1958ء کوہوئی۔
آپ منصب نبوت کے متعلق لکھتے ہیں کہ
’’منصب نبوت مختلف اجزاء نظر وعمل سے مرکب ہے۔ ازاں جملہ ایک جزو وحی وتنزیل کا مورد ہونا اور شریعت میں تشریع وتاسیس قوانین کا اختیار رکھنا ہے۔ یعنی قانون وضع کرنا اور اس کے وضع وقیام کی معصومانہ وغیر مسئولانہ قوت۔ اس جز کے اعتبار سے نبوت آپ کے وجود پر ختم ہوچکی تھی اور قیامت تک کے لئے شریعت وقانون کے وضع وقیام کا معاملہ کامل ہوچکا تھا۔ جب نعمت کامل ہوگئی تو پھر کامل چیز ہی کو ہمیشہ باقی رہنا چاہیے۔ اس کی جگہ کسی دوسری چیز کا آنا نقص کا ظہور ہوگا نہ کہ تکمیل کا۔
اَلْیَوْمَ اَکمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا (5-3)
لیکن منصب نبوت اس اصلی جز کے ساتھ بہت سے تبعی اجزاء پربھی مشتمل تھا اور ضروری تھا کہ ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے۔ اس چیز کو مختلف احادیث میں مختلف تعبیرات سے موسوم کیا ہے۔ حضرت عمرؓ کے لئے ’’محدث‘‘(بالفتح)کا مقام بتلایا گیا۔ علماء کو انبیاء کا وارث کہا گیا۔ مبشرات صادقہ کو نبوت کا چالیسواں جز قرار دیا۔
لَمْ یَبْقَ اِلَّا الْمُبَشِّرَا
تِحدیث تجدید بھی اسی سلسلہ میں داخل ہے۔ پس خلفاء راشدینؓ کو جو نیابت پہنچی۔ اس میں وحی وتشریع کی قائم مقامی تو نہیں ہوسکتی تھی لیکن اور تمام اجزاء وخصائص نبوت کی نیابت داخل تھی۔ ‘‘
(مسئلہ خلافت از مولانا ابو الکلام آزاد صفحہ نمبر 33ناشر مکتبہ جمال، اصغر پریس، 2006ء )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں۔ اور جانتا ہوں کہ تمام نبوّتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔ مگر ایک قسم کی نبوّت ختم نہیں یعنی وہ نبوّت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوّت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیضیاب ہے‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ340)
اسی صفحہ کے حاشیہ میں فرمایا کہ
’’ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید ومولیٰ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلاشبہ وہ بے دین اور مردود ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ابتدا سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کے کمالات متعدیہ کے اظہار واثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الہٰیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے۔ سو اس طور سے خدا نے میرا نام نبی رکھا یعنی نبوتِ محمدیہ میرے آئینۂ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا تا میں آنحضرتﷺ کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں۔ ‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ340 حاشیہ )
(مرسلہ:ابن قدسی)