صبر کی توضیح و تشریح نیز ثبات و پامردی کی چند مثالیں
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں حضرت لقمانؑ کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصائح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ (سورۂ لقمان : 18)
یعنی اُس مصیبت پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ یقیناً یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے۔
اس آیت کریمہ میں صبر کو اختیار کرنے کی بطور خاص نصیحت کی گئی ہےجس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اِسی طرح اور بھی کئی آیات میں خداتعالیٰ نے اس خلق کا ذکر مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔ کبھی فرمایا:
وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ۔ ( سورۃ البقرۃ: 46)
یعنی اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔
کبھی اس کو اختیار کرنے اور اس کی تلقین کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا… ( آل عمران :201)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور صبر کی تلقین کرو
نبی پاکﷺ کو یہاں تک اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی مدد آنے تک صبر کیا جیسا کہ سورۃ الانعام آیت 35میں آتا ہے:
وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا
اللہ تعالیٰ نے اُن پر جنہوں نے صبر کیا سلامتی بھیجی ہے اور اچھے انجام کی خوشخبری دی ہے جیسا کہ فرمایا:
سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ فَنِعۡمَ عُقۡبَی الدَّارِ (ا لرعد : 25)
جنت میں اچھے گھروں کا وعدہ بھی اللہ تعالیٰ نے اُن کےساتھ کیا ہے۔ جن کے اندر یہ صفت پائی جائے گی جیساکہ آتا ہے
وَ جَزٰٮہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّ حَرِیۡرًا (الدھر:13)
نیز فرمایا:
اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا۔ (الفرقان:76)
یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اس باعث کہ انہوں نے صبر کیا بالا خانے بطورجزا دیئے جائیں گے اور وہاں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا اور سلام پہنچائے جائیں گے۔
پھر صبر کرنے والوں کو دہرا اجر دینے کا بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا (القصص : 55)
صبر کے معنی اور توضیح و تشریح
حضرت مصلح موعودؓ صبرکے معنی اور توضیح و تشریح میں فرماتے ہیں :
’’ …صبر کے اصل معنی رکنے کے ہوتے ہیں اس لئے محققین لغت نے لکھا ہے کہ
اَلصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عَلٰی مَا تَھْوِیْ وَ صَبْرٌ عَلٰی مَا تَکْرَہُ۔
یعنی صبر کی دو قسمیں ہیں۔ جس چیز کی انسان کو خواہش ہو اس سے باز رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ اور جس چیز کو ناپسند کرتا ہو لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے وہ آ جائے اس پر شکوہ نہ کرنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ صبر اصل میں تین قسم کا ہوتا ہے۔ (1) پہلا صبر تو یہ ہے کہ انسان جزع فزع سے بچے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے
وَاصْبِرْ عَلٰی مَآاَصَابَکَ (لقمان آیت18)
تجھے جو کچھ تکلیف پہنچے تو اس پر توصبر سے کام لے۔ یعنی جزع فزع نہ کر۔ (2)دوسرے نیک باتوں پر اپنے آپ کو روک رکھنا۔ یعنی نیکی کو مضبوط پکڑ لینا۔ ان معنوں میں یہ الفاظ اس آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔
فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْکَفُوْرًا (سورۃ الدھرآیت25)
یعنی اپنے رب کے حکم پر قائم رہ اور انسانوں میں سے گنہگار اور ناشکرگزار کی اطاعت نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر احکام قرب الٰہی کے حصول کے لئے دئیے گئے ہیں ان پر استقلال سے قائم رہنا اور اپنے قدم کو پیچھے نہ ہٹانا بھی صبر کہلاتا ہے۔ (3) تیسرے معنے اِس کے بدی سے رکے رہنے کے ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ اس آیت میں استعمال ہوا ہے۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃالحجرات آیت6)
یعنی اگر وہ تجھے بلانے کے گناہ سے باز رہتے اور اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ تو باہر نکلتا تو یہ ان کے لئے بہت اچھا ہوتا مگر اب بھی وہ اصلاح کر لیں تو بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 283تا284)
صبراختیارکرنےکےبارے میںنبی کریمﷺ کے ارشادات اور نصائح
حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہنے والا قطرہ خون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجے میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کرکے پیتا ہے اور اسی طرح اللہ کو غصے کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں وہ پیتا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 7صفحہ 88)
حضرت کبشہ انماریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں، میں قسم کھا کے بتا تا ہوں کہ انہیں اچھی طرح یاد رکھو۔ پہلی بات یہ کہ صدقہ دو کیونکہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی پہ ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے اور تیسری بات یہ کہ جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
(ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا مثلُ اربعۃ نَفَرٍ)
حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے دنیا میں اپنی بھوک مٹا لی قیامت کے دن یہ اس کی امیدوں کے درمیان روک ہو گی۔ اور جس نے حالت فقر میں اہل ثروت کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا وہ رسوا ہو گا اور جس نے حالت فقرمیں صبر سے کام لیا اللہ تعالیٰ اسے جنت فردوس میں جہاں وہ شخص چاہے گا اسے ٹھہرائے گا۔
(مجمع الزوائد جلد 10صفحہ 248)
یحيٰ بن وثاب روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا رہتا ہے اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے، اُس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرتا ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب القیامۃ والرقائق)
حضرت صہیب بن سنانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لیے مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت و فراخی نصیب ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے۔ اور اس کی شکر گزاری اس کے لیے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی دُکھ اور رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اور اس کا یہ طرزِ عمل بھی اس کے لیے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے۔
(مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب المومن اَمرہ کلّہ خیر)
مطرف بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک حضرت ابوذرؓ کی ایک روایت پہنچی اور میں خواہش رکھتا تھا کہ ان سے ملاقات ہو جائے۔ پھر جب مَیں ان سے ملا تو عرض کی کہ اے ابو ذرؓ ! مجھ تک آپ کی ایک روایت پہنچی ہے۔ میں خواہش رکھتا تھا کہ آپ سے ملاقات ہو اور اس کے بارے میں آپ سے پوچھوں۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا۔ اب مل لیا ہے تو پوچھو۔ مَیں نے کہا مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل پسند کرتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل نا پسند کرتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ ہاں اور مجھے خیال بھی نہیں آ سکتا کہ مَیں اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولوں۔ یہ بات انہوں نے تین مرتبہ کہی۔ تو مَیں نے پوچھا کہ وہ تین شخص کون سے ہیں جنہیں اللہ عزّوجل پسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا۔ وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جنگ کے لیے نکلا اور اس کا مجاہد ہوتے ہوئے، اُس کا اجر خدا کے ہاں قرار دیتے ہوئے دشمن سے لڑائی کی یہاں تک کہ قتل ہو گیا۔ اور تم اللہ عزّوجل کی کتاب میں پاتے ہو کہ اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف باندھ کر لڑتے ہیں۔ اور وہ شخص جس کا ہمسایہ اسے تکلیف دیتا ہو اور وہ اس کی تکلیف پر صبر کرے اور اپنے آپ کو روکے رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ موت یا زندگی کے ذریعے اس کے لیے کافی ہو جائے۔ اور ایسا شخص جو قوم کے ساتھ سفر پر ہو یہاں تک کہ نیند اور اونگھ انہیں بوجھل کر دے اور وہ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کریں اور وہ شخص اپنا وضو کرے اور نماز کے لیے کھڑا ہو جائے۔ مَیں نے عرض کی کہ وہ کون سے تین شخص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فخر و مباہات کرنے والا، تکبر کرنے والااور تم اللہ عزّوجل کی کتاب میں پاتے ہو ’’اللہ یقینا ًہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا۔ ‘‘ اور وہ بخیل جو احسان کو جتانے والا ہو اور ایسا تاجر جو قسمیں کھا کھا کر بیچنے والا ہو۔
(مسند احمد بن حنبلؒ۔ مسند ابی ہریرہؓ۔ جلد 7صفحہ 217۔ حدیث نمبر 21863۔ ایڈیشن 1998ء۔ بیروت)
حضرت علیؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ایمان میں صبر کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ جسم میں سر کی۔ جب صبر نہ رہا تو ایمان بھی نہ رہا۔
(کنزالعمال۔ الکتاب الثالث فی الاخلاق۔ قسم الافعال۔ باب الصبر وفضلہ)
حضرت ابوبکرصدیقؓ کا بے مثال صبر واستقلال
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب مسلمان آزمائش میں ڈالے گئے تو حضرت ابوبکرؓ بھی مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکل پڑے۔ جب آپ بَرْکُ الْغِمَاد کے مقام پر پہنچے تو آپ کو قارہ قبیلے کا سردار ابن الدغنہ ملا۔ اس نے پوچھا کہ اے ابوبکر! آپ کا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس پر ابوبکر نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اس لئے اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اللہ کی زمین میں کہیں نکل جاؤں اور آزاد ہو کر اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تمہارے جیسے شخص کو نہ تو خود مکہ سے نکلنا چاہئے اور نہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ نکالیں۔ تم بھولی ہوئی نیکیوں پر عمل کرنے والے ہو اور رحمی رشتے داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہو اور بے بسوں کے بوجھ اٹھاتے ہو اور مہمان نوازی کرتے ہو اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہو۔ پس میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ حضرت ابوبکرؓ واپس آ گئے۔ ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ ہی ہو لیا۔ رات کے وقت قریش کے رؤسا کے پاس جا کر ابن الدغنہ نے کہا۔ ابوبکر جیسے لوگ نہ تو خودنکلتے ہیں اور نہ ہی انہیں نکالا جاتا ہے۔ کیا تم ایسی اعلیٰ اور نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کا انکار نہ کیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ ابوبکرؓ کو کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کر لیا کرے اور وہاں نماز ادا کر لیا کرے اور جو چاہے پڑھ لیا کرے لیکن اس کے ذریعہ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائے اور نہ اس کا اظہار اونچی آواز سے کرے۔ کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو فتنے میں نہ ڈال دے۔ ابن الدغنہ نے یہ سب باتیں حضرت ابوبکرؓ کو بتائیں تو آپ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے لگے۔ اور نماز کے وقت آواز اونچی نہ رکھتے اور اپنے گھر کے سوا کہیں اور قرآن نہ پڑھتے۔ پھر آپ کے ذہن میں ایک خیال آیا اور آپ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد تعمیر کی جہاں آپ نماز ادا کرتے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے تھے۔ اس وقت مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے جھانکتے اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھتے تو بہت زیادہ متأثر ہوتے۔ حضرت ابوبکرؓ بہت زیادہ رونے والے تھے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھتے تھے۔ ان کے آنسو بہنے شروع ہو جاتے تھے۔ قریش کے رؤسا اس بات سے بہت زیادہ گھبرا گئے۔ تو انہوں نے اپنا ایک پیغامبر ابن الدغنہ کی طرف بھیجا۔ جب وہ آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس شرط پر ابوبکرؓ کو تمہاری پناہ میں رہنے دیا تھا کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ربّ کی عبادت کرے گا۔ لیکن اس نے اس سے تجاوز کیا ہے اور اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد تعمیر کر لی ہے اور بلند آواز سے وہاں نماز ادا کرتے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو آزمائش میں نہ ڈال دے۔ پس تو ان سے پوچھ کہ وہ کیا تمہاری پناہ سے انکار کرتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تو اس بات کو ناپسند کیا کہ ہم تجھ سے بدعہدی کریں اور نہ ہی ہم ابوبکرؓ کو علی الاعلان عبادت کی اجازت دے سکتے ہیں۔ (حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ) ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا (اور کہا) جس بات کا مَیں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا یا اس پر قائم رہو یا میری ذمہ داری مجھے سونپ دو۔ کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے لوگ یہ بات سنیں کہ میرے ساتھ اس شخص کی وجہ سے بدعہدی کی گئی ہے جس کے ساتھ مَیں نے معاہدہ کیا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مَیں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں اور اللہ بزرگ و برتر کی امان کو پسند کرتا ہوں۔
(تلخیص از بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب ھجرۃالنبیؐ واصحابہ الی المدینۃ…الخ)
اس کے بعد قریش نے حضرت ابوبکرؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہے۔ روایت میں آتا ہے کہ کفار نے حضرت ابوبکرؓ کوبہت مارا پیٹا۔ آپ کے سر اور داڑھی سے پکڑ کر اس قدر آپ کو کھینچا جاتا تھا کہ آپ کے اکثر بال گِر گئے۔ تو یہ ظلم روا رکھا گیا لیکن آپ نے صبر کیا۔
(السیرۃ الحلبیۃ۔ جلد 1باب استخفاء ہؐ واصحابہ فی دارالارقم بن ابی ارقم صفحہ 41۔ دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت۔ 2002ء) ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ نومبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل10؍دسمبر2010 صفحہ6تا7)
ایک عورت کی صبر اور استقامت کی داستان اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےایک صحابیہؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت امّ شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب اسلام قبول کیا تو قریش کی عورتوں کو مخفی طور پر اسلام کی تبلیغ کرنے لگیں۔ قریش کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم تجھے تیرے قبیلے کے پاس لے جائیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت امّ شریک کو اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کیا اور کہتی ہیں تین دن تک نہ مجھے پانی پینے کو دیا اور نہ ہی کھانے کو دیا تو آپ کی یہ حالت ہو گئی کہ حواس برقرار نہ رہے۔ پھر وہ لوگ ایک جگہ اترے۔ خود تو وہ لوگ سائے دار جگہ میں بیٹھے اور اُن کو دھوپ میں باندھ دیا۔ حضرت امّ شریکؓ فرماتی ہیں کہ اسی حالت میں مَیں نے ایک پانی کا برتن دیکھا۔ مَیں اس میں سے تھوڑا سا پانی پیتی تو وہ مجھ سے دورہو جاتا۔ پھر مَیں اس کو پکڑ کر کچھ پیتی پھر وہ مجھ سے دور ہو جاتا اور یہ کافی دفعہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مَیں سیر ہو گئی۔ اچھی طرح پانی پی کے تسلی ہو گئی۔ حضرت امّ شریکؓ نے باقی ماندہ پانی اپنے جسم پر اور کپڑوں پر پھینک لیا۔ جب وہ لوگ اٹھے اور انہوں نے پانی کے آثار اور آپ کی اچھی حالت دیکھی تو انہوں نے یہ کہا کہ تُو نے رسّیاں وغیرہ کھول کر ہمارے پانی میں سے پیا ہے۔ حضرت امّ شریکؓ نے جواباً انہیں کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! مَیں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ آپ نے سارا واقعہ ان لوگوں کو سنایا تو اس پر انہوں نے کہا کہ اگر تو ایسا ہے جیسا تو بیان کرتی ہے تو تمہارا دین سچا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزوں میں دیکھا تو وہاں اتنا پانی تھا جتنا انہوں نے چھوڑا تھا۔ اسی بات پر وہ لوگ اسلام بھی لے آئے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 8۔ کتاب النساء فیمن عرف الکنیۃمن النساء حرف الشین ’’ام شریک‘‘صفحہ417-418۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ 2005ء)تو یہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا اجر اسی وقت دیا۔ تین دن کی بھوک پیاس کو اپنے اس پیار کے انداز میں مٹایا اور خود انتظام فرما دیا۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ نومبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل10؍دسمبر2010ء صفحہ7)
’’اللہ کی قسم! میری درست آنکھ بھی اسی سلوک کی محتاج ہے جو اس کی ساتھی کے ساتھ ہوا ہے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےحضرت عثمان بن مظعونؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو آزمائش میں دیکھا جبکہ وہ ولید بن مغیرہ کی پناہ میں صبح و شام امن میں رہتے تھے۔ توانہوں نے سوچا کہ اللہ کی قسم ایک مشرک شخص کی پناہ میں میرا صبح و شام بسر کرنا یقیناً میرے نفس کی کسی بڑی خرابی کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ میرے ساتھی اور دینی بھائی تو اللہ تعالیٰ کی خاطر مصائب اور تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں۔ اس پر آپ ولید بن مغیرہ کی طرف نکلے اور اسے کہا کہ اے ابو عبدالشمس! تمہاری پناہ پوری ہو گئی۔ میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں۔ اس نے پوچھا اے میرے بھائی کے بیٹے! کیوں؟ کیا میری قوم میں سے کسی نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے؟ آپ نے کہا نہیں۔ لیکن مَیں اللہ کی پناہ کو پسند کرتا ہوں۔ اور مَیں اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔ ولیدنے کہا کہ تم مسجد میں میرے ساتھ چلو یعنی کعبہ میں اور جس طرح مَیں نے تمہیں اعلانیہ طور پر پناہ دی تھی اسی طرح تم بھی اعلانیہ طور پر میری پناہ مجھے واپس لوٹا دو۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد پہنچے اور ولیدنے کہا کہ یہ عثمان ہے اور میری امان مجھے لوٹانے آیا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ اس نے سچ کہا ہے۔ مَیں نے اسے امان کو پورا کرنے والا اور معزز پایا ہے۔ لیکن میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی پناہ میں آنا نہیں چاہتا۔ اس لئے میں نے اس کی امان اسے لوٹا دی ہے۔ پھر حضرت عثمانؓ چلے گئے۔ لبید بن ربیعہ ایک مجلس میں قریش کے لوگوں کو اپنے اشعار سنا رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے، جب لبیدنے یہ کہا کہ
اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
یعنی اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ جس پر حضرت عثمان بن مظعون نے کہا تم نے سچ کہا۔ پھر لبیدنے کہا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗ
اور ہر نعمت لا محالہ ختم ہونے والی ہے۔ اس پر حضرت عثمانؓ بن مظعون نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ جنت کی نعمت کبھی زائل نہیں ہو گی۔ لبید بن ربیعہ نے کہا کہ اے قریش کے گروہ! تم میں سے کوئی بھی کبھی مجھے تکلیف نہیں دیتا تھا۔ یہ طریق تم میں کب سے شروع ہو گیا ہے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ یہ شخص اپنے ساتھیوں سمیت ایک بیوقوف ہے جس نے ہمارے دین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس لئے تُو اس کی بات سے اپنے دل میں کوئی برا نہ محسوس کر۔ حضرت عثمانؓ نے اس کا جواب دیا یہاں تک کہ معاملہ بڑھ گیا اور ایک شخص کھڑا ہوا اور آپ کی آنکھ پر مُکّا مارا اُس کی وجہ سے آپ کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ولید بن مغیرہ پاس بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! اے میرے بھائی کے بیٹے! اگر تُو ایک روک والی امان میں ہوتا تو تیری آنکھ کو جو صدمہ پہنچا ہے اس سے وہ صحیح سلامت رہتی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری درست آنکھ بھی اسی سلوک کی محتاج ہے جو اس کی ساتھی کے ساتھ ہوا ہے۔ اور اے ابو عبد الشمس! یقینا ًمیں اس ذات کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ معزز ہے اور زیادہ قادر ہے۔ ولید بن مغیرہ نے اسے کہا کہ آؤ میرے بھائی کے بیٹے اگر تم چاہو تو میری پناہ میں واپس آ سکتے ہو۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے انکار کر دیا۔
(السیرۃ لابن ھشام۔ قصّۃ عثمان بن مظعون فی ردّ جوارالولید۔ صفحہ 269۔ مطبوعہ بیروت۔ ایڈیشن 2001ء)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ نومبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل10؍دسمبر2010ء صفحہ8)
نبی کریمﷺ اور صحابہؓ کا فقید المثال صبر
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی کریمﷺ اور آپؑ کے صحابہؓ کےفقید المثال صبرکو اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اٹھائی۔ بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اٹھایا۔ اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اور صبر کرو۔ ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دَم نہ مارا۔ ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ وہ آگ اور پانی کے ذریعے سے عذاب دئیے گئے مگر وہ شر کے مقابلے سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی امتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرتِ انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوتِ بازو اور طاقتِ مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خون خوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سید و مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانے میں بھی آپ کے جانثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے۔ اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبرد آزما کو شکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اُس کا باعث کوئی بزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو تیار ہو گئے تھے۔ بے شک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی امت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاقِ فاضلہ نہیں پاتے اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سنتے ہیں تو فی الفور دل میں گزرتا ہے کہ قرائن اس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب دراصل بزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو۔ مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو۔ اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے۔ یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہؓ سے ظہور میں آئی ہے۔ اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے۔ اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گزشتہ راستبازوں میں سے اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پر کیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی ان کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے۔ غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکمِ مقابلہ آ گیا۔ اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کر کے ہمیں بتلاؤ۔ ‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ 10تا11)
’’صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے …ایک انقلاب آ جاتا ہے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’صبر ایک ایسا خلق ہے، اگر کسی میں پیدا ہو جائے یعنی اس طرح پیدا ہو جائے جو اس کا حق ہے تو انسان کی ذاتی زندگی بھی اور جماعتی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ جاتا ہے۔ اور انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ صبرکرنے کا حق کس طرح ادا ہو؟ اس کو آزمانے کے لئے ہر روز انسان کو کوئی نہ کوئی موقع ملتا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی موقع پیدا ہوتا رہتا ہے کوئی نہ کوئی دکھ، مصیبت، تکلیف، رنج یا غم کسی نہ کسی طرح انسان کو پہنچتا رہتا ہے، چاہے وہ معمولی یا چھوٹا سا ہی ہو۔ تو اس آیت میں فرمایا کہ جب کوئی ایسا موقع پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو تمہیں اس دکھ، تکلیف، پریشانی یا اس مشکل سے نکال سکتی ہے اس لئے اس کے سامنے جھکو، اس سے دعا مانگو کہ وہ تمہاری تکلیف اور پریشانی دور فرمائے لیکن دعا بھی تب ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے جب کسی قسم کا بھی شکوہ یا شکایت زبان پر نہ ہو اور لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کبھی نہ ہو بلکہ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ ہو اور ہمیشہ صبر دکھاتے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور اس سے عرض کرو کہ اے اللہ! میں تیرے سامنے سر رکھتا ہوں، تیرے سامنے جھکتا ہوں، تجھ سے ہی اپنی اس پریشانی اور تکلیف اور مشکل کو دور کرنے کی التجا کرتا ہوں۔ میں نے کسی اور کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا۔ یہ تکلیف یا پریشانی جو مجھے آئی ہے میری کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے یا میرے امتحان کے لئے آئی ہے میں اس کی وجہ سے تیرا نافرمان نہیں ہوتا، نہ ہونا چاہتا ہوں، اس کو دور کرنے کے لئے میں کبھی بھی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکتا۔ بلکہ صبر سے اس کو برداشت تو کر رہا ہوں لیکن تجھ سے اے میرے پیارے خدا! میں التجا کرتا ہوں کہ مجھے اس سے نجات دے اور ساتھ ہی یہ بھی التجا کرتا ہوں کہ اس امتحان میں، اس ابتلاء میں مجھے اپنے حضور میں ہی جھکائے رکھنا کبھی کسی غیراللہ کے درپر جانے کی غلطی مجھ سے نہ ہو۔ اور یہ صبر اور یہ تیر ے در پہ جھکنا اے اللہ! تیرے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور اے اللہ! کبھی اپنے نافرمانوں میں سے مجھے نہ بنانا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب یہ رویّہ تمہارا ہو گا اور اس فکر اور کوشش سے تم میرے در پر آؤ گے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پھر ایسے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایسے ایسے راستوں سے اس کی مدد کرتا ہے جہاں تک انسان کی سوچ بھی نہیں جا سکتی۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍فروری 2004، صفحہ3)
’’مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صبرکو اختیار کرنے کی نصیحت کرتےہوئےفرماتے ہیں :
’’تو ان لوگوں کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم بےصبری کا مظاہرہ کرو گے، جزع فزع کرو گے تو اپنی خطائیں معاف کروانے کے موقع کو ضائع کر رہے ہو گے۔ دوسری طرف صبر کرنے والوں کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہلکی سی بھی تکلیف پر صبر کرنے والے کے صبر کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا، بغیر اجر دئیے نہیں جانے دیتا۔ اور خطائیں اور غلطیاں معاف فرماتا ہے۔ بعض لوگ بعض دفعہ کسی سے کوئی معمولی سی بات سن کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس طرح بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ اجلاسوں میں بیٹھے ہوئے تُوتُو مَیں مَیں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور اس اجلاس کے ماحول کے تقدس کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ اور صبر ذرا بھی نہیں ہوتا جبکہ مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ، پھر ہمسائے ہیں، ہمسائے نے اگر کوئی بات کہہ دی تو اس سے ذرا سی بات پر لڑائی شروع ہوگئی۔ یہاں سے اینٹ اٹھا کے وہاں کیوں رکھ دی، وہاں کوئی پتھر کیوں رکھ دیا گیٹ کیوں کھلا رہ گیا۔ کار کیوں میرے گھر کے گیٹ کے سامنے آ گئی۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو لڑائی جھگڑے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور دونوں ہمسائے پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے، لڑنے کے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور انتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مکان کی دیوار بنائی ہے۔ تمہاری دیوار میری زمین میں چند انچ سے بھی زائد آ گئی ہے۔ خالی کر و، یا تمہارے درخت کے پتے میرے گھر میں گرتے ہیں اس درخت کو وہاں سے کاٹو تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قضاء میں مقدمے بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ جو میں باتیں کررہا ہوں یہ عملاً ایسا ہوتا ہے۔ شرم آتی ہے ایسی باتیں سن کر اور یہ باتیں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح ہر جگہ ہو رہا ہے، یہاں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بعض دفعہ لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمسائے کو کچھ تعمیر نہیں کرنے دے رہے ہوتے حالانکہ دوسرے ہمسائے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ذرا ذرا سی بات پہ شکایتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا بھی ہے تو اس کو معاف کرنا چاہئے۔ اور غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ فروری2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍فروری 2004ءصفحہ4)
’’صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے ‘‘
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبر کے ہتھیار کو سب سے افضل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرتﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔ چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست، رشتہ دار، اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بہن بھائی مخالف ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء اور رسل سے زیادہ نہیں ہو، ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئے اور یہ اسی لئے آتی ہیں کہ خداتعالیٰ پر ایمان قوی ہو اور پاک تبدیلی کا موقع ملے۔ دعاؤں میں لگے رہو، پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء اور رُسل کی پیروی کرو اور صبر کے طریق کو اختیارکرو، تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے۔ ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو، بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسد انہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ توخود اسے شرم آ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جودلوں کو فتح کر لیتا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 156تا157، ایڈیشن 1988ء)
’’صبر بھی ایک عبادت ہے…صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اُس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ (13) برس تک دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں۔ مگر آپؐ نے صحابہؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ اُن کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے۔ کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں۔ صبر بھی ایک عبادت ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یعنی اُن پر بے حساب انعام ہوں گے۔ یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ543-544، ایڈیشن 1988ء)
’’مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’حدیثوں میں مختلف صورتوں میں اور مختلف موقعوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہ اگر صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا قرب پاؤ گے، میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔ لیکن جب دعا کرنے کے طریقے اور سلیکے سکھائے تو یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے صبر مانگو بلکہ فرمایا کہ مجھ سے میرا فضل مانگو اور ہمیشہ ابتلاؤں سے بچنے کی دعا مانگو۔ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔
ترمذی میں روایت ہے حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کی انتہا کا طلب گار ہوں۔ آپؐ نے اس سے فرمایا نعمت کی انتہا سے کیا مراد ہے اس شخص نے جواب دیا میری اس سے مراد ایک دعا ہے جو میں نے کی ہوئی ہے اور جس کے ذریعے میں خیر کا امیدوار ہوں۔ آپؐ نے فرمایا نعمت کی ایک انتہاء یہ ہے کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو جائے اور آگ سے نجات عطا ہو۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کی دعا سنی جو کہہ رہا تھا
یٰٓا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام
تو آپؐ نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو گئی اب مانگ جو مانگنا ہے۔ تو اس طرح اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک اور شخص کو سنا جو دعا کر رہا تھا۔ اے میرے اللہ ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں آپؐ نے فرمایا تم نے اللہ تعالیٰ سے ابتلاء مانگا ہے۔ (صبر مانگنے کا مطلب یہی ہے کہ ابتلا مانگا ہے) یعنی کوئی ابتلاء آئے گا تو صبر کرو گے۔ خدا سے عافیت کی دعا کرو۔ (ترمذی کتاب الدعوات)۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اگر مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ کبھی اس طرح دعا نہ مانگو کہ مَیں صبر مانگتاہوں۔ یہ تو بعض ذاتی معاملات کے بارے میں بتایا۔ اب جماعتی ابتلاء ہے، مخالفین کی طرف سے جماعت پر مختلف وقتوں میں آتے رہتے ہیں۔ ان میں بھی ہر احمدی کو ثابت قدم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی چاہئے، پاکستان میں تو یہ حالات تقریباً جب سے پاکستان بنا ہے احمدیوں کے ساتھ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ احمدیوں نے صبر اور حوصلے سے ان کو برداشت کیا ہے۔ اور کبھی اپنے ملک سے وفا میں کمی نہیں آنے دی، یا اس وجہ سے ایک قدم بھی وفا میں پیچھے نہیں ہٹے۔ اور جب بھی ملک کو ضرورت پڑی۔ سب سے پہلے احمدیوں کی گردنیں کٹیں۔ اور گردن کٹوانے کے لئے سب سے پہلے یہی آگے ہوئے۔ اور آئندہ بھی ملک کو ضرورت پڑے گی تو احمدی ہی صف اول میں شمار ہوں گے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍فروری 2004ءصفحہ5تا6)