ایک نووارد اور حضرت اقدس علیہ السلام (حصہ سوم)
نو وارد:اگر ان ضروریات موجودہ کی بنا پرکوئی اَور دعویٰ کرے کہ میں عیسیٰ ہوں تو کیا فرق ہوگا؟
حضرت اقدس:یہ فرضی بات ہے ایسے شخص کا نام لیں۔ اگر یہی بات ہے کہ ایک کاذب بھی کہہ سکتا ہے تو پھر آپ اس اعتراض کا جواب دیں کہ اگر مسیلمہ کذاب کہتا کہ توریت اور انجیل کی بشارت کا مصداق مَیں ہوں تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے کیا جواب دیں گے؟
نو وارد:میں نہیں سمجھا۔
حضرت اقدس:میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح ہوسکتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی تو بعض جھوٹے نبی موجود تھے جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی۔ اگر انجیل اور توریت میں جو بشارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود ہیں اس کے موافق یہ کہتے کہ یہ بشارات میرے حق میں ہیں تو کیا جواب ہوسکتا تھا؟
نو وارد: میں اس کو تسلیم کرتا ہوں۔
حضرت اقدس: یہ سوال اس وقت ہوسکتا تھا جب ایک ہی خبر پیش کرتا مگر میں تو کہتا ہوں کہ میری تصدیق میں دلائل کا ایک مجموعہ میرے ساتھ ہے۔ نصوصِ قرآنیہ حدیثیہ میری تصدیق کرتے ہیں ضرورتِ موجودہ میرے وجود کی داعی اور وہ نشان جو میرے ہاتھ پر پورے ہوئے ہیں وہ الگ میرے مصدق ہیں۔ ہر ایک نبی ان امور ثلاثہ کو پیش کرتا رہا ہے اور میں بھی یہی پیش کرتا ہوں۔ پھر کس کو انکار کی گنجائش ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میرے لیے ہے تو اسے میرے مقابلہ میں پیش کرو۔
(ان فقرات کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے جوش سے بیان کیا کہ وہ الفاظ میں ادا ہی نہیں ہو سکتا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں نووارد صاحب بالکل خاموش ہو گئے اور پھر چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنا سلسلہ کلام یوں شروع کیا۔ )
نو وارد:عیسیٰ علیہ السلام کے لئے جو آیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے کیا یہ صحیح ہے؟
[ البدر نے اس پر یہ نوٹ دیا ہے:’’چونکہ سائل کا مطلب اس سوال سے یہ تھا کہ آپ جو مسیح موعود ہونے کے مدعی ہیں تو کس قدر مُردے زندہ کیے۔ آپ نے فرمایاکہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مثیلِ موسیٰ کہا گیا تو آپ بتلایئے کہ آنحضرتؐ نے کس قدر عصا کے سانپ بنائے؟ اور کونسے دریائے نیل پر آپ کا گذر ہوا؟ اور کب اور کس قدر جُوئیں، مینڈکیں اور خون آپ کے زمانہ میں برسا ؟کیونکہ جب آپ مثیلِ موسیٰ تھے تو پھر آپ کے نزدیک تو تمام نشان موسیٰ والے آنحضرتؐ سے ظاہر ہوتے تو وہ مثیلِ موسیٰ ہوتے۔ کفار نے بھی اس قسم کا سوال آپ سے کیا تھا
فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(الانبیاء:6)
جیسے موسیٰ اور عیسیٰ کو معجزات دیئے گئے ویسے ہی تم بھی دکھائو لیکن آنحضرتؐ نے ایسا نشان نہ دکھایا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ معجزات ہمیشہ حالتِ موجودہ کے موافق ہوتے ہیں جیسے زمانہ کی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے ویسے ہی خوارق عادات ہر ایک مرسل من اللہ لے کر آتا ہے‘‘(البدر جلد ۲نمبر۶ مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۴۵)]
حضرت اقدس: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو آیا ہے کہ آپ مثیلِ موسیٰ تھے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپؐ نے عصا کا سانپ بنایا ہو۔ کافر یہی اعتراض کرتے رہے
فَلْيَاْتِنَا بِاٰيَةٍ كَمَاۤ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ (الانبیاء:6)
معجزہ ہمیشہ حالتِ موجودہ کے موافق ہوتا ہے۔ پہلے نشانات کافی نہیں ہوسکتے اور نہ ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے نشان کافی ہوسکتے ہیں۔ (ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 87-88۔ ایڈیشن 1984ء)