خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍جنوری 2021ء
دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے احمدیوں کی وقفِ جدید کے حوالےسے مالی قربانی کےایمان افروزواقعات
وقفِ جدید کے 64ویں سال کے آغاز کا اعلان
جماعت کوامسال ایک کروڑ پانچ لاکھ تیس ہزار پاؤنڈکی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی جو گذشتہ سال کی نسبت آٹھ لاکھ ستاسی ہزار پاؤنڈزیادہ ہے
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍جنوری 2021ء بمطابق 08صلح 1340 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 08؍جنوری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد،تعوذ،سورة الفاتحہ اورسورة البقرة کی آیت 246کی تلاوت اور ترجمہ پیش کرنےکےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کا ذکر ہے جس کانعوذباللہ یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو انسانی پیسے کی ضرورت ہے۔قرض کے لغوی معنی اچھے یابرے بدلے کے ہیں۔ پس یہاں اس کےمعنی ہوں گے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو بہترین بدلہ دے۔یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے لیے خرچ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کو دے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے لیے خرچ کو خود خداتعالیٰ کی خاطر خرچ کرنےکےبرابر ٹھہرایا گیا ہے۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کی خاطر خرچ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی بلکہ یہ ایسا قرض ہے جسے اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے۔ یہ سوال اٹھاکر کہ کون ہے جو مجھے قرضِ حسنہ دے اس طرف ترغیب دلائی گئی ہے کہ کون ہے جو میرے راستے میں خرچ کرکے میرے بےشمار انعامات کا وارث بنے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں اللہ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ معاذاللہ اللہ کو حاجت ہے، ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ واپس کروں گا۔ پھر اس آیتِ کریمہ کےمفہوم کی نسبت فرماتے ہیں کہ ایک نادان کہتا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذاللہ خدا بھوکا ہے۔ احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے۔ قرض کا اصل مفہوم تویہ ہے کہ ایسی چیزیں جن کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتاہے۔ فرمایا کہ یہاں قرض سے مراد یہ ہے کہ کون ہے جو خداتعالیٰ کو اعمالِ صالحہ دے۔اللہ تعالیٰ ان کی جزا اسے کئی گنا کرکےدیتا ہے۔صرف روپے پیسے کی بات نہیں بلکہ کوئی بھی عملِ صالح اگر خداتعالیٰ کی خاطر بجالاؤتو اللہ تعالیٰ اسے بڑھاکردیتاہے۔ یہی بات خداکی شان کے لائق ہے اور یہی سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے کافر اور مومن ہرایک کی پرورش کر رہا ہے۔ وہ خداجو بغیر کسی نیکی اور بغیر کسی عمل کے ہرایک کو پال رہا ہے کیسے ہوسکتا ہے کہ جب کوئی نیکی اور عملِ صالح کرے تو وہ اس کو اجر نہ دے۔ اس کی شان تویہ ہے کہ جو ذرّہ بھر بھی نیکی کرے اس کا اجر دیتاہےاورجو ذرّہ بھر بھی بدی کرےگا اس کی پاداش بھی اسے ملےگی۔
اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت اورمخلوق کی خدمت کےلیے مالی قربانی کرنا بہت بڑی نیکی ہے، اللہ تعالیٰ کبھی اسے بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ مالی قربانی کےسلسلے میں اس حقیقت کوافرادِجماعت سےبہتر کون جان سکتا ہے۔ہرطبقے کے احمدیوں کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر،اس کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف دل کے سکون کا باعث بنتا ہے بلکہ دنیاوی لحاظ سے ہزاروں لوگ اس تجربےسے گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر قربانی کی گئی رقم بھی لوٹا دیتا ہے۔ ایسے بہت سے احمدی ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کےلیے قربانی کرتے ہیں۔ اُن کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کابدلہ دنیاوی مال کی صورت میں انہیں ملے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جس نے یہ فرمایا ہوا ہے کہ مَیں احسن رنگ میں اس قرض کو واپس لوٹاؤں گا، وہ اسے لوٹا دیتا ہے۔ بعض ایسے ہیں جو بُرے حالات کےباوجود اس امید پر قربانی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات خود پوری کرے گا، اور اللہ تعالیٰ ان کی اس امید کو پورا کرتا بھی ہے۔بس شرط یہ ہے کہ نیک نیتی سےخداتعالیٰ کے احکامات اور نیکیوں کو بجالاتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر قربانی کی جائے۔ یہ نہیں کہ ایک کاروباری شخص کی طرح صرف اس سوچ کے ساتھ مال خرچ ہوکہ اس کا منافع لینا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف مال دے دیا اور سمجھ لیا کہ مَیں نے بہت قربانی کردی۔ باقی احکامات فرائض پورےکرنے اور نیکیاں بجالانا بھی ضروری ہے۔ اس وقت مَیں ایسے لوگوں کےواقعات پیش کروں گا جنہوںنےاللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے فیض پایا۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی دینے والوں کی ضروریات کو نہ صرف خداتعالیٰ نے پورا کیا بلکہ ان کو مزید بڑھا کردیا۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کی قربانی دی کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک کس طرح مٹائیں گے لیکن چند منٹ کے اندر اندر جو اُن کے پاس تھا اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دے دیا۔ یوں یہ بات ان کے ایمان میں مزید تقویت کا ذریعہ بن گئی۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے لوگوں کی بےشمار مثالیں آج ہمیں جماعت احمدیہ ہی میں نظر آتی ہیں۔
اس کے بعد حضورِانورنے گنی کناکری،سیرالیون، تنزانیہ، ملاوی،برکینافاسو، انڈونیشیا، البانیا،کینیڈا، فرانس، یوکے، جرمنی، قازقستان،قرغزستان، روس اور بھارت وغیرہ ممالک سے مرد وزن، پِیروجواں، امراءوغرباءغرض دنیا بھرسے تعلق رکھنے والے مخلصین کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔ دنیا بھر کے مخدوش معاشی حالات کےباوجود احبابِ جماعت کی مالی قربانیوں کی پُراثر مثالیں بیان کرنےکے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ یہ چند واقعات مَیں نے بیان کیےہیں ایسے بےشمار واقعات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ افرادِجماعت کےساتھ ایسا ہی سلوک رکھےاوروہ اخلاص ووفا سے قربانیاں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتے رہیں۔
وقفِ جدید کےتریسٹھویں سال کے اختتام پر جماعتہائے احمدیہ عالَم گیر کو دورانِ سال ایک کروڑ پانچ لاکھ تیس ہزار پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ لاکھ ستاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔یہ کسی انسانی کوشش کانتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔
اس سال بھی دنیا بھر کی جماعتوں میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ اوّل ہے۔ برطانیہ کی لجنہ اماءاللہ بڑی محنت سے کام کرتی ہیں لیکن اس دفعہ کےاضافےکودیکھ کر لگتا ہے کہ مردوں نےبھی لجنہ کی طرح محنت کی ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی ہے۔ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جو اپنی کرنسی کی وجہ سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔پاکستان میں تو مالی قربانی کےساتھ جانی قربانی بھی کی جارہی ہے۔ذہنی ٹارچر (torture)بھی مستقل مل رہا ہے۔ چوتھے نمبر پر کینیڈاپھر امریکہ پھر بھارت پھر آسٹریلیا، پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک جماعت،پھر انڈونیشیا اور پھر گھاناہے۔افریقی ممالک میں سے گھانا اب بڑے ملکوں کی فہرست میں آگیا ہے۔
فی کس ادائیگی کےلحاظ سے امریکہ نمبرایک ہے،پھر سوئٹزرلینڈ اور پھر برطانیہ ہے۔ افریقی ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا نمبرایک پر ہے۔ پھر ماریشس، نائیجیریا،برکینافاسو،تنزانیہ،سیرالیون،گیمبیا،کینیا،مالی اور بینن کا نمبر ہے۔
حضورِانور نے ازراہِ شفقت برطانیہ، جرمنی،پاکستان، کینیڈا،امریکہ،بھارت اور آسٹریلیا میں نمایاں قربانی کرنے والی مقامی جماعتوں کا ذکر کرنے کےبعدتمام قربانی پیش کرنے والوں کے لیےدعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب کے اموال ونفوس میں بےانتہا برکت عطافرمائے اور قربانیوں کو قبول فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی حضورِانور نے وقفِ جدید کے چونسٹھویں سال کےآغاز کا اعلان بھی فرمایا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایاکہ جیسا کہ مَیں ان دنوں پاکستان کے احمدیوں کےلیے دعا کی تحریک کر رہا ہوں، ان کے لیے خاص طور پر دعاکریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات اور پریشانیوں کو دُور فرمائے۔ مخالفین کے ہاتھوں کو اُن تک پہنچنےسےروکے اور جن مخالفین کی اصلاح ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔
الجزائر میں بھی کافی مخالفت ہےان کے لیے بھی دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ان کے لیے بھی سکون کے سامان پیدا فرمائے۔اسیرانِ راہِ مولیٰ کی جلد رہائی کے سامان پیدا ہوں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ خاص طور پر دعاؤں، نوافل اور صدقات پر زور دیں۔ پاکستان کے امن و امان کےلحاظ سے مجموعی،عمومی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں، ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس دہشت گردی،فتنہ وفساد کو جلد ختم کرے۔وہاں کی حکومت اور انتظامیہ کو بھی عقل دے کہ وہ حقیقی رنگ میں عوام کی خدمت کرنے والے اور انصاف سے کام لینے والے ہوں۔ اسی طرح دنیا کے عمومی حالات بھی تیزی سے بگڑ رہے ہیں، اس بارے میں بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب انسانیت پر رحم فرمائے۔آمین