عالمی منشور برائے انسانی حقوق اور اس کا تاریخی پس منظر
انسانی حقوق کا عالمی منشور (Universal Declaration of Human Rights) اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز ہے جو پیرس میں 10؍ دسمبر1948ءکو بذریعہ قرار داد نمبرA217 منظور کی گئی۔ دسمبر1950ء میں جنرل اسمبلی کے 317ویں اجلاس میں قرارداد نمبر V423پیش کی گئی جس کے تحت تمام رکن ممالک کو ہر سال دس دسمبر کو انسانی حقوق کا دن منانے کی دعوت دی گئی،اسی لیے اب ہر سال 10؍ دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن اسی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے اور انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کی اہمیت پر سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ آج اس چارٹر کو دنیا کی سب سے زیادہ یعنی 508 زبانوں اور لہجوں میں تراجم کے ساتھ پڑھی جانے والی دستاویز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد انسانی حقوق کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پر پہلی بار اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ بعض بنیادی امور ہر انسان کا بنیادی حق ہیں جو بلا امتیاز ہر انسان کو ملنے چاہئیں۔ یہ تاریخی دستاویز کل 30آرٹیکلز پر مشتمل ہے جن میںبنیادی انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ امور بین الاقوامی معاہدوں، علاقائی انسانی حقوق کے حالات، قومی و عالمی دستوروں اور قوانین سے اخذ کیےگئے ہیں۔ مسودے میں یہ بات واضح الفاظ میں لکھی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کو اس عالمی منشور برائے انسانی حقوق کا احترام کرنا ہوگا اور اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق بلا امتیاز دینا ہوںگے۔
اس کی منظوری کے وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 58 تھی۔ کسی ملک نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی، 48ممالک نے اس منشور کی حمایت کی تھی اور اس پر دستخط کیے تھے جن میں پاکستان بھارت اور افغانستان بھی شامل تھے،دو ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھاجبکہ آٹھ ممالک نے اس منشور سے لاتعلقی اختیار کی تھی جن میں سعودی عرب سمیت جنوبی افریقہ، یوکرائن، یو ایس ایس آر، یوگو سلاویہ اور چیکو سلاواکیہ شامل تھے۔ 1999ء میں اس چارٹر نے سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا جب کہ2009ء میںدنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ پڑھی جانے والی دستاویز کے طور پر اس کا اندراج گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ انگلش، سپینش اور پرتگالی زبانوں میں اشاروں کی زبان میں بھی یوٹیوب پر دستیاب ہے۔
او ایچ سی ایچ آرOHCHRکا دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موجود ہے جہاں دنیا بھر کے ممالک میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے الفاظ اور تقاریر کے ذریعے جنگ لڑی جاتی ہے۔ اس بارے میںمزید تفصیلات ادارے کی ویب سائٹ www.ohchr.org سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
عالمی منشور برائے انسانی حقوق کا ابتدائی ڈرافٹ 1947ء اور 1948ء کے دوران اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے تیار کیا تھا۔ اس کے بعد اس میں مزید بحث و مباحثہ اور ترامیم جنرل اسمبلی اور اکنامک اینڈ سوشل کونسل کی طرف سے کی گئیں جو کہ اقوام متحدہ ہی کے اہم ذیلی ادارے ہیں۔ منشور کو تیار کرنے والی کمیٹی 9 ممالک (امریکہ، چین، لبنان، آسٹریلیا، چلی، فرانس، یو ایس ایس آر، برطانیہ اور کینیڈا)کے قابل افراد پر مشتمل تھی۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والی سابق امریکی خاتون اولEleanor Roosevelt اس کمیٹی کی صدر تھیں۔ گو کہ انسانی حقوق کے قانون کی تشکیل میں مختلف ممالک کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی کا کردار نظر آتا ہے لیکن اس کی روح وروواں سابق امریکی خاتون اول الیانور روزویلیٹ کو قرار دیا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ موصوفہ 45-1933ء تک رہنے والے امریکی صدر فرینکلن روز ویلیٹ کی اہلیہ تھیں۔ آپ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کی چشم دید گواہ بھی تھیں۔ ان کی دانشوری، انسان دوستی اور قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ امریکی دانشوروں نے ان کو پانچ سال تک مسلسل بہترین خاتون اول کے اعزاز کا حق دار ٹھہرایا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد مذکورہ انسانی حقوق کے چارٹر کی تیاری میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا اور تاریخ میں خود کو زندہ محفوظ کر لیا۔ اس منشورکی منظوری کے بعد اس کی پہلی کاپی کے ساتھ ان کی تصویر آج تاریخ میں محفوظ ہے۔
ریکارڈ کے مطابق انسانی حقوق کے عالمی منشور کو ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی کے دو بڑے سیشن منعقد ہوئے جن میں اس منشور کو بعض تبدیلیوں کے ساتھ حتمی شکل دی گئی۔ اس کا پہلا ڈرافٹ سیکریٹریٹ نے تیار کیا تھاجسے انٹر نیشنل بل آف رائٹس کا نام دیا گیا۔ اس وقت اس میں48آرٹیکلز شامل تھے۔ کمیٹی کا پہلا سیشن 9؍جون سے 25؍جون تک نیو یارک میں منعقد ہوا تھا جب کہ دوسرا اور آخری سیشن 3؍مئی سے21؍مئی تک نیویارک میں منعقد ہوا جس میں فائنل ڈرافٹ بھی تیار کیا گیا۔ ان دو بڑے سیشنز کے درمیان انیس اجلاسات منعقد ہوئے جن میں گاہے بگاہے میٹنگز میں ضروری تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔
جنرل اسمبلی نے جب اس تاریخی بل کی منظوری دی تو تمام ممبر ممالک کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ اپنے ملک میں اس کا اعلان عام اور نشر و اشاعت کریں۔ اسے نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جائے اور خاص طور پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اسے پڑھ کر سنایا جائے اور اس کی تفصیلات واضح کی جائیں اور اس ضمن میں کسی ملک یا علاقے کی سیاسی حیثیت کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ آج اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس عالمی منشورکا احترام کرے اور اس کی روشنی میں اپنے ملک کے شہریوں کو بلا امتیاز تمام حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
پس منظر
دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں کروڑوں انسانوں سے آباد شہر اور ملک قبرستانوں اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ اور ان ہولناکیوں نے انسانی ذہن اور سوچ پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے،اپنے ہی ہاتھوں ہنستے کھیلتے شہروں کی آبادیوں کو جس طرح تباہ و برباد کیا گیا اور جس طرح انسان ہی انسان کے لیے درندہ بن چکا تھا اس کی مثال تاریخ انسانی میں ملنی مشکل ہے۔ تاریخ کی سب سے ہولناک جنگ کے بعد بالآخر انسان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ نہ صرف یہ کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوا کرتی بلکہ جنگ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے۔ جنگ عظیم اول اور دوم دونوں ہی اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ انسان کو بالآخر امن کے جھنڈے تلے ہی پناہ لینی پڑی اور ایک پرامن اور مستحکم اور خوشحال دنیا کے لیے مشترکہ جدوجہد کے لیے ایک عالمی ادارے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اسی کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا۔ جس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور اس کا فروغ بھی ہے۔2018ء میں اس کے ستر سال پورے ہونے پر اقوام متحدہ نے اس سال کو بھرپور طریقے سے منایا تھا تاکہ امن اور انسان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور انسانی حقوق کو فروغ دیا جا سکے۔
انسانی حقوق کیا ہیں؟ انسانی حقوق آزادی اور حقوق کا وہ نظریہ ہے جس کے تمام انسان مساوی طور پر حقدار ہیں اور اس میں کسی رنگ، نسل،قوم، زبان، عقیدے وغیرہ کا امتیاز نہیں۔ اس عالمگیر اصول کے تحت کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولیات کے حقدار ہیں۔ یہ ہر صحت مند معاشرے کی ضرورت رہے ہیں اور ہر دور میں ان کی پاسداری کے لیے آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ان کا درست قیام صرف اس خطہ یا معاشرہ میں ممکن نظر آتا ہے جس میں اخلاقیات اور انصاف مثبت روایات اور دیگر سماجی عوامل کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی پہلی دفعہ ہی انسانی حقوق کی تعریف کرتی ہے۔ اس کے آرٹیکل نمبر ایک کے مطابق تمام انسان آزادی اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان انسانی حقوق میں شہری حقوق بھی شامل ہیں جن کی درج ذیل شکلیں ہیں:
زندگی کے حقوق،آزادی کے حقوق، جائیداد کے حقوق، آزادیٔ اظہارِ رائے و بحث و مباحثہ کے حقوق، کام کرنے کے حقوق وغیرہ۔
اسی طرح سیاسی حقوق کا بھی تعین کیا گیا ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
ووٹ کا حق، الیکشن کا حق، پبلک افیئر کے حقوق، سیاسی معاملات سے متعلقہ حقوق، مذہبی آزادیوں کے حقوق وغیرہ۔ 1966ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے عالمی بل کے مؤخرالذکردو معاہدوں کو منظور کیا جس کے بعد سے یہ بل انسانی حقوق کی ایک مکمل دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ پاکستان بھی آزادی کے سال یعنی 30؍ستمبر1947ء سے اقوام متحدہ کا رکن ہے۔
جن ممالک میں اس منشور پر عمل کیا گیا وہاں نہ صرف انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہے بلکہ وہاں سماجی،سیاسی اور معاشرتی طور پربھی بہت استحکام ہے۔یہ بات حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ جن معاشروں میں طبقاتی تقسیم، مذہبی منافرت،عدم رواداری،عدم مساوات اور نا انصافی اپنے عروج پر ہوں وہاں ہر قسم کی ترقی اور امن ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔2015ء سے لے کر 2030ء تک اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے سترہ(17) اہداف مقرر کیے ہوئے ہیں جن میں بھوک کا خاتمہ، انسداد غربت، معیاری تعلیم،معیاری صحت کی سہولیات، صنفی مساوات، صنعتی ترقی،صاف پانی اور صفائی،سستی اور آلودگی سے پاک بجلی، معقول روزگار، امن اور تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سبھی پاکستان کی اہم اور بنیادی ضروریات ہیں اور پاکستان ان سب ہی اہداف میں بہت پیچھے ہے۔ اگر ملک کے اندر سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہو تو ملک ترقی کی منازل بسہولت طے کر سکتا ہے۔