منازل قرآن اور تلاوت قرآن کریم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم مدت جس میں قرآن مجید کا ایک دَور ختم کرنے کی اجازت ہے وہ سات دن ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایک مہینے میں قرآن پڑھ۔‘‘مَیں نے کہا:’’میں(اس سے کم وقت میں پڑھنے کی) قوت پاتا ہوں ۔‘‘یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سات دنوں میں پڑھ اور اس سے زیادہ نہ کر۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مزید رخصت دیتے ہوئے فرمایا:
’’جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے اسے نہیں سمجھا۔‘‘
بزرگان دین نے اس حدیث کی روشنی میں قرآن مجید کے ایک دور کو سات منازل میں تقسیم کیا ہے اور اس کو یاد رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھا ہے۔
فَمِیْ بِشَوْقٍ: ف م ی ب ش و ق
٭…پہلی منزل (ف)۔ سورۃ الفاتحۃ سے لےکر سورۃ النساء
منازل کے لحاظ سے پہلی منزل سب سے طویل ہے اور اس میں 4سورتیں شامل ہیں۔
٭…دوسری منزل (م)۔ سورة المائدۃ سے لےکر سورة التوبۃ ہے جس میں 5سورتیں شامل ہیں۔
٭…تیسری منزل (ی)۔ سورۃ یونس سے سورۃ النحل، 7سورتیں شامل ہیں۔
٭…چوتھی منزل (ب)۔ سورۂ بنی اسرائیل سے سورۃ الفرقان تک ہے جس میں9سورتیں شامل ہیں۔
٭…پانچویں منزل (ش)۔ سورۃ الشعراء سے سورۂ یٓستک 11سورتیں شامل ہیں۔
٭…چھٹی منزل (و)۔الصافات سے لےکر سورۃ الحجرات 13سورتیں شامل ہیں۔
٭…ساتویں منزل (ق)۔ سورۂ ق سے لےکر سورۃ الناس 65 سورتیں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اصل چیز یہ ہے کہ قرآن کی مقدار مقرر کر کے روزانہ تلاوت کی عادت ہو۔یہ نہیں کہ کبھی ایک رکوع کی تلاوت کر لی اور کبھی چار پانچ رکوع کی۔ احسن طریق یہ ہے کہ ایک مقررہ مقدار طے کی جائے اور بلاناغہ ہر روز اتنی مقدار کی تلاوت کی جائے۔
تلاوت قرآن مجید کی اہمیت اور فضیلت کےمتعلق کچھ ارشادات پیش خدمت ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد 3)
قرآن مجید کی حفاظت کا ایک طریقہ اس کی مسلسل اور کثرت سے تلاوت بھی ہے۔ بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأی بقراۃ القرآن او تأکل بہ، او فجر بہ میں بیان ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزا تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزاکڑوا ہے۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھنے، شوق سے سننے اور یاد کرانے کے لیے اپنے صحابہ کرام سے بھی قرآن سنا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ‘‘ راوی نے عرض کی کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیاہے۔ آنحضورؐ نے میرا جواب سن کر فرمایا: ’’مَیں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اور سے بھی قرآن کریم سُنوں۔‘‘چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓکہتے ہیں کہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ میں آیت
فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا(النساء:42)
پر پہنچا تو آنحضور ﷺنے فرمایا :’’ٹھہر جاؤ۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن)
اور ایک جگہ اپنی امت کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’اے اہلِ قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو۔ اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تاکہ تُم فلاح پاؤ۔‘‘
(مشکوۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن الباب الاول الفصل الثالث حدیث نمبر 2210)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور آپ کے حقیقی غلام سید ناحضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے آقا دو جہاں کی بدولت قرآن کریم سے ایسا شدید پیار تھا کہ اپنے شعری اور نثری کلام میں روزمرہ کی باتوں میں ہمیشہ قرآن مجید کے معارف اور قیمتی موتی لٹاتے رہتے تھے۔ فرمایا
دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے
نیز فرمایا:
’’تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیارکہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو، کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا
اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ
کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔‘‘
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ27)
تلاوت قرآن کریم کرتے وقت بنیادی بات جویاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہےکہ قرآن کریم میں جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم ہے ان پر عمل کیا جائے اور جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکا جائے۔ جو دعا کے مقام ہیں وہاں دعا کی جائے اور جہاں عذاب کا اور سزاؤں کا ذکر ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کی جائے۔ ہماری زیادہ سے زیادہ کوشش ہونی چاہیے کہ قرآن کریم کو درست طریق اور تلفظ سے پڑھا جائے کیونکہ زیر، زبر اور پیش کی ذرا سی بھی غلطی سے بسا اوقات پورا مطلب بدل سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد اخبار الحکم 24؍مارچ 1903ء میں بیان ہوا ہےکہ
’’خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے۔‘‘
سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16؍ستمبر 2005ء میں فرماتے ہیں:
’’پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔ اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پہ عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پہ اثر نہیں ہو گا۔ اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں۔ جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ستمبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍اکتوبر2005ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کو پڑھنے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے اور ہم خود بھی اور اپنی آنے والے نسلوں کو بھی قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والا بنائیں اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں قرآن مجید کی محبت موجزن ہو۔آمین۔
٭…٭…٭