جماعت احمدیہ جرمنی اور سو مساجد کی بابرکت تحریک
اسلام میں مساجد کی بڑی اہمیت ہے۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے ساتھ ایک مومن کی روحانی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسجد ایک مومن کی زندگی میں ایک محور کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے مسجد کا موضوع بھی ایک مومن کا دل پسند موضوع ہے۔ اس موضوع کا تذکرہ ہو تو مومن کا دل وفورِ شوق سے لپکتا ہے۔
قرآن کریم کے مطابق ارضی جنت میں خدا تعالیٰ کا پہلا گھر بیت اللہ ہے جو فاران یعنی مکہ معظمہ میں تعمیر کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً بتایا گیاتھا کہ
’’جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کواسرارِ ملکوتی سے حصہ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام طبع اوّل صفحہ 635 اشاعت 1891ء)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔ (آل عمران: 97)
یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لیے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ۔ (التوبہ:18)
اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کیے جائیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد تعمیر کرنے کی طرف توجہ دی۔ نومولود مملکت کی شیرازہ بندی اور لوگوں کو مجتمع کرنے کے لیے مسجد قائم کی گئی۔ مسجد کا کردار صرف اس حد تک محدود نہیں کہ مسلمان وقت پر آئیں اور باجماعت نماز ادا کر کے یہاں سے رخصت ہو جائیں اور مسجدیں مُقفل کر دی جائیں بلکہ اس کا مقصد اس کے ساتھ ہی امت کی شیرازہ بندی کرنا، ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنا، دلوں کو جوڑنا، آپس میں میل محبت اور جذبۂ احترام پیدا کرنا، اخوت و بھائی چارے کو پروان چڑھانا، ہمدردی و غمگساری اور رحم دلی و تعاون کا ولولہ پیدا کرنا اور مسلمانوں میں اسلام کی روح پھونکنا ہے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے جنت میں اس جیسا گھر تعمیر کرتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ باب من بنی لِلّٰہ مسجداً جلد اوّل صفحہ 378)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’یہ ضروری نہیں کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہئے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہئے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔ خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانے میں اسے پختہ بنوایا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔ غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے۔ جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وہ وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر ایسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 7صفحہ 119، ایڈیشن1984ء)
جماعت احمدیہ جرمنی نہایت خوش قسمت ہے کہ خلفائے سلسلہ نے جرمن قوم میں تبلیغ کے لیے مختلف اوقات میں اپنی خصوصی توجہ اور رہ نمائی سے نوازا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یورپ میں پہلی مسجد برلن میں تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ تاہم تقدیر الٰہی کا ظہور کچھ اس طرح ہوا کہ اس وقت اس مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہو سکی اور اس کی بجائے جماعت احمدیہ کو یورپ میں پہلی مسجد لندن میں مسجد فضل لندن کی صورت میں تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔
بعد ازاں خلافت ثانیہ میں جماعت کو جرمنی میں دو مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی اور اس لحاظ سے جرمنی یورپ کا واحد ملک ہے جہاں خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں دو مساجد تعمیر ہوئیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں دل کی شکل کا پتھر دکھایا جس پر کلمہ طیبہ کندہ تھا۔ حضورؒ کے خواب ہی میں یہ بتایا گیا کہ یہ دل جرمنوں کا ہے جو بظاہر سخت دل نظر آتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اسلام کے لیے ان کے دل کو نرم کر دے گا اور جرمن اسلام قبول کرنے والوں میں اولین میں شمار ہوں گے۔
جماعت احمدیہ عالمگیر کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر خطاب کے دوران فرمایا تھا کہ
’’میری یہ خواہش ہے کہ جرمنی وہ پہلا یورپین ملک ہو جہاں جماعت احمدیہ کو سو مساجد تعمیر کرنے کی توفیق ملے اور یہ دراصل صد سالہ جشن تشکر کا ایک بہترین رنگ ہو گا کہ صد سالہ جشن تشکر کو منانے کے لیے جرمنی سو مساجد بنانے کا منصوبہ بنائے۔ ‘‘
(بمقام ناصر باغ 14؍مئی 1989ء)
یہ وہ دور تھا جب جماعت احمدیہ جرمنی ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ جرمنی کے طول و عرض میں جماعتوں کا قیام تو عمل میں آ چکا تھا لیکن پاکستان سے ہجرت کر کے جرمنی میں سکونت اختیار کرنے والے احمدی اپنے مستقل قیام کی اجازت کے حوالے سے مخدوش حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف خدا کی تقدیر حرکت میں تھی اور اس کے قائم کردہ خلیفہ کے منہ سے نکلے الفاظ کو بارگاہ ایز دی میں خاص شرف قبولیت عطا ہوتی ہے اور پھر وقت نے کروٹ لی اور احمدیوں کے مستقل قیام کے حوالے سے مخدوش حالات احمدیوں کے حق میں بہتر ہوتے چلے گئے اور جماعت احمدیہ جرمنی نے اپنے پیارے امام کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقدامات اٹھانے شروع کر دیے اور سو مساجد کی بابرکت تحریک کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کر دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں Wittlich شہر میں مسجد بیت الحمد اور Osnabrück شہر میں مسجد بشارت کی تعمیر کے بعد نمازوں کی ادائیگی شروع ہو گئی تھی۔ میونسٹر شہر میں مسجد بیت المومن کی تعمیر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں مکمل ہو گئی تھی البتہ مسجد کا باقاعدہ افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت دور خلافت کے آغاز پر 3؍مئی 2003ءکوہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دور خلافت کے آغاز سے ہی جماعت جرمنی کو اس منصوبہ کی تکمیل کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’مسجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ آپ کو دیا گیا ہے، جس کو آپ نے قبول کر لیا اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس کو پورا کرنا چاہئے۔ اس سے بہرحال آپ نے پیچھے نہیں ہٹنا۔ انشاءاللہ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 13؍جولائی 2006ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہر سال جماعت جرمنی کو پانچ مساجد تعمیر کرنے کا ٹارگٹ دیتے ہوئے فرمایا:
’’جرمنی جماعت کی سابقہ روایات کو دیکھ کر میرا خیال تھا اور ہے کہ جو بھی حالات ہوں آپ اتنی مساجد ہر سال بنائیں گے اور اللہ کے فضل سے بنا سکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہو گا جہاں کے سو شہروں یا قصبوں میں ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے اور جس کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا جو بندے کو اپنے خدا کے قریب لانے والا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ جون 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍جولائی2006ءصفحہ6تا7)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور ہدایات کی روشنی میں سو مساجد کی بابرکت تحریک کا بار بار جائزہ لیا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ جرمنی کی کوشش اور دعا ہے کہ جرمنی میں جماعت کے قیام کو ایک سو سال پورے ہونے پر 2023ء تک سو مساجد تعمیر کرنے کا ٹارگٹ مکمل کر لیا جائے۔
آج الحمدللہ محض خدا تعالیٰ کے فضل اور حضور انور کی خصوصی توجہ و رہ نمائی اور احباب جماعت کی قربانیوں کے نتیجہ میں سو مساجد کی بابرکت تحریک کے تحت 56مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور 4 مساجد زیر تعمیر ہیں اور چالیس کے قریب مساجد کو ابھی تعمیر کرنا باقی ہے۔
آخر میں احباب جماعت سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس بابرکت تحریک میں برکت دے اور جماعت احمدیہ جرمنی کو یہ توفیق دے کہ وہ بروقت اس منصوبہ کو مکمل کرنے والے ہوں اور خدائی انعامات کے وارث بنیں۔ آمین۔
بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب
بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکم محمدؐ جہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے