احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے (قسط سوم)
پس یاد رکھو وہ کامیابیاں اور ترقیاں جوآنے والی ہیں ان کے لئے مصائب کی بھٹی میںسے گزرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ اس کے بعد کامیابیاں بھی آئیں گی خواہ وہ تمہاری زندگی میںآئیں یا تمہاری موت کے بعد۔ شریف آدمی یہ نہیں دیکھا کرتا کہ قربانی کا پھل اُسے کھانے کو ملتا ہے یا نہیں بلکہ وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کا پھل چکھنے کا اسے موقع بھی نہیںملتا کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور پہنچ جاتا ہے۔ تم اگر غور کرو تو تم میںسے اچھے کھاتے پیتے تو وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے خود نہیں کھایا اور کنگال وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے جو کچھ کمایا تھا وہ کھالیا۔ آخر یہ بڑے بڑے زمیندار جو آج تمہیں نظر آرہے ہیں کیسے بن گئے؟ یہ بڑے زمیندار اسی طرح بنے کہ ان کے باپ دادوں نے تنگی سے گزارہ کیا اور ایک ایک پیسہ بچا کر ایک کنال یہاں سے اور ایک کنال وہاں سے خریدی۔ پھر رفتہ رفتہ ایک گھمائوں زمین ہو گئی۔ اور پھر ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے بیس گھمائوں زمین کے وہ مالک بن گئے اور جب وہ مرے تو ان کی اولاد نے ان کی زمینوں سے فائدہ اُٹھایا۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اولاد ناخلف ہوتی ہے وہ باپ دادا کی جائداد کو اُڑا دیتی او رآہستہ آہستہ مقروض ہوجاتی ہے اور وہی زمین جو ان کے باپ داد انے بڑی مشکلات سے اکٹھی کی ہوتی ہے بنیوں کے قبضے میں چلی جاتی ہے اور جب آگے ان کی اولا د آتی ہے تو وہ بھوکوں مرنے لگتی ہے اور وہ ان بنیوں کو گالیاں دیتی ہے جو ان کی زمینوں پر قبضہ کئے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں گالیاں اپنے ماں باپ کو دینی چاہئیں جو اپنی اولاد کا حصہ کھا گئے۔
تو باپ دادوں کی محنت ہمیشہ اولاد کے کام آتی ہے اور اگر کوئی شخص محنت نہیں کرتا تو اس کی اولاد بھی اس محنت کے فوائد سے محروم رہتی ہے۔ تم غریب سہی، تم کنگال سہی لیکن اگر تم میں سے کسی کی ایک کنال زمین بھی ہے تو جب تم اس زمین پر کھڑے ہوتے ہو تویوں سمجھتے ہو کہ یہاں سے امریکہ تک سب جگہ تمہاری ہی حکومت ہے اور تمہارا دل اتنا بہادر ہوتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں کسی کی کیا پرواہ ہے۔ اور اگرتمہاری ایک گھمائو ں زمین ہوتی ہے یا دس گھمائوں زمین ہوتی ہے یا بیس گھمائوں زمین ہوتی ہے تو پھر تو تمہاری یہ حالت ہوتی ہے کہ تم ایک طرف کھڑے ہو کرکہتے ہو کہ ہماری ایک پَیلی اِس سِرے پر ہے اور ایک پَیلی اُس سِرے پر۔ خواہ درمیان میں دس زمینداروں کی اور بھی زمینیں ہوں مگر ایسی حالت میں جب تم اپنی زمین پر تکبر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہو ایک شخص پھٹے پُرانے کپڑوں میں تمہارے پا س آ جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں مسافر ہوں میری مدد کی جائے۔ تم اُس سے پوچھتے ہو تم کون ہو؟ اور وہ کہتا ہے سیّد۔ یہ سنتے ہی تم فوراً اپنی چادر اس کے لئے بچھا دیتے ہو اور اس کے ساتھ ادب سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو۔ آخر اس کے ساتھ کون سی طاقت ہے جو تمہیں اِس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ تم اس کے ساتھ عزت سے پیش آئو اور اس سے ادب کا سلوک کرو۔ وہ یہی طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے پس اس کی طاقت اپنی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طاقت ہے جو آپؐ نے سادات میں منتقل کی اور جو آپؐ نے ہر مسلمان کے اندر منتقل کی اور ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس طاقت کو اپنے اند رجذب کر کے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ ابوبکرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، عمرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا ، عثمانؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا ، علیؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، طلحہؓ اور زبیرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور تمہارے باپ دادوں نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا۔ اب تم جیسا کام کرو گے دنیا میںویسا ہی تغیر پیدا ہو گا اور جتنا زور سے گیند پھینکو گے اُتنا ہی دُور وہ چلا جائے گا ۔
پس یہ نادانی کا خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان قربانیوں سے کیا فائدہ اُٹھانا ہے۔ اگر ہماری قوم، ہمارے خاندان اور ہماری نسل کے لئے عزت کا مقام حاصل ہوجائے تو درحقیقت وہ عزت ہمیں ہی حاصل ہو گی ۔ پس اِس قسم کے وسوسوں کوچھوڑ کر اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو جو تمہیں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ کر دے اور تمہیںسچا بہادر بنا دے۔
میں نے جب مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی تو درحقیقت میں نے تم سے یہ امید کی تھی کہ تم سچے بہادر بن جائو اور سچابہادر وہ ہوتا ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا، جو شخص دلیری سے کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے مگر بعد میں اپنے اس فعل پر بشرطیکہ وہ بُرا ہو نادم ہوتا ہے اور اسے چھپانے کی کوشش نہیں کرتاوہ سچا بہادر ہے لیکن اگر وہ کوئی غلطی تو کرتا ہے مگر جب پکڑا جاتاہے تو کہتا ہے میں نے یہ فعل نہیں کیا تو وہ جھوٹا بہادر ہے۔ اگر وہ اس کام کو اچھا نہیں سمجھتا تھاتو اس نے وہ کام کیا کیوں؟ اور اگر غلطی سے کر لیتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا اقرار کیوں نہیں کرتا۔ اسلام جس بہادری کا تم سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تم بے شک معاف کرو مگر اُس وقت جب تم اپنے عفو سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک چشم پوشی کرو مگر اُس وقت جب تم چشم پوشی سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک غریب پروری کرومگر اُسی وقت جب تک غریب پروری سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک مظلوم بنو مگر اُسی وقت جب تم مظلوم بن کر بہادر کہلا سکو اور اگر تمہارا دین اور تمہارا ایمان کہتا ہے کہ اب چشم پوشی کاوقت نہیں اب پیچھے ہٹنے کاوقت نہیں تو اس صورت میں تم اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آگے بڑھو اور پھر جو کچھ درست سمجھتے ہو اس کو دلیری سے کرو۔ مجھے حیرت آتی ہے جب میںدیکھتا ہوں کہ ایک احمدی دوسرے کو گالی دیتے سُن کر جوش میں آ جاتا ہے اور خود بھی اس کے مقابلہ میںگالی دے دیتا ہے حالانکہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ تم گالی سن کر صبر کرو۔ یا اگر کوئی شخص تمہیں تھپٹر مارتا ہے اور تم بھی جواب میں اسے تھپٹرمار دیتے ہو تو یہ اسلامی بہادری نہیں۔ اسلامی بہادری یہ ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تھپٹر مارے تو تم اسے کہو کہ تم نے جو کچھ کیا ناواقفیت سے کیا مگر میرا مذہب مجھے یہی کہتا ہے کہ میں دوسرے کو معاف کردوں اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہتا بلکہ معاف کرتا ہوں بشرطیکہ تم یہ سمجھو کہ اس کو معاف کرنے کا فائدہ ہے اور یاد رکھو کہ نوے فیصدی فائدہ ہی ہوتا ہے ۔ پس بہادری یہ ہے کہ تم نوے فیصدی لوگوں سے کہہ دو کہ بے شک ہمیں مار لو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے بشرطیکہ تمہار ے بازو میںطاقت ہو، بشرطیکہ تمہاری آنکھوں میں حدت ہو اور بشرطیکہ تمہارا سینہ اُبھرا ہؤا ہو۔ تب بے شک تمہارے اس عفو کا دوسرے پر اثر پڑے گا لیکن اگر تم کبڑے ہو، تمہارا ہاتھ خالی ہو، تمہارے بازو دُبلے پتلے ہوں، تمہاری آنکھوں میںچمک نہ ہو اور تم دوسرے کو یہ کہو کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں تو ہر شخص کہے گا ’’عصمت بی بی از بے چارگی‘‘ مقابلہ کی طاقت نہیں اور زبان سے معاف کیا جاتا ہے۔
دیکھو! اسلام تم سے صبر کا مطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے رحم کامطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے عفو کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اسلام تم سے بہادری کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ اگر تم دس آدمیوں کو پچھاڑ سکتے ہو لیکن جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے تو تم گردن جُھکا کر یہ کہتے ہو ئے وہاں سے چلے آتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو سارا گائوں تمہارے اس فعل سے متأثر ہو گا۔ لیکن اگر تم کمزور ہونے کی وجہ سے ایک شخص کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اور پھر اسے کہتے ہو کہ میں نے تمہیںمعاف کیا تو ہر شخص تم پر ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ معاف کرنے والا جھوٹا ہے جانتا ہے کہ اگر میں نے ہاتھ اُٹھایا تو دوسرا تھپڑ مار کر میرے سارے دانت توڑ دے گا اس لئے یونہی اس نے کہہ دیا ہے کہ میں نے معاف کیا ورنہ جانتا ہے کہ مقابلہ کرنے کی اِس میںہمت نہیں۔ میں نے اگر تمہیں ورزش کی نصیحت کی تو اسی لئے کہ اگر اسلام کے احکام کے ماتحت تم کسی وقت عفو سے کام لو تو لوگ تمہارے اِس عفو کوبُزدلی کا نتیجہ نہ سمجھیں، دھوکا اور فریب نہ سمجھیں۔ جب تمہارے بازو میںیہ طاقت ہوکہ تم ایک دفعہ کسی پر ہاتھ اُٹھائو تو اُس کے دو چار دانت نکال دو اور پھراس کے قصور پر اسے معاف کردو تو دیکھو اس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔ لو گ زبردست کی معافی سے متأثر ہوتے ہیں کمزور کی معافی سے متأثر نہیں ہوتے اور بہادری اُسی کی سمجھی جاتی ہے جس میں طاقت ہو اور پھر عفو سے کام لے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لڑائی میںشامل تھے۔ ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر سکتے تھے آپؓ کے مقابلہ پر آیا اور کئی گھنٹے تک آپؓ کی اور اس یہودی پہلوان کی لڑائی ہوتی رہی۔آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپؓ نے اس یہودی کوگِرالیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ خنجر سے اُس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے وہ یہودی سخت حیران ہؤا اور کہنے لگا یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی کشتی کے بعد آپ نے مجھے گِرایا اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں یہ آپ نے کیسی بے وقوفی کی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے بےوقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گِرایا اور تم نے میرے منہ پرتھوک دیا تو یکدم میر ے دل میں غصّہ پیدا ہؤاکہ اِس نے میرے منہ پر کیوںتھوکا ہے مگر ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا اگر اس کے بعد میں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصّہ کی وجہ سے ہو گا خدا کی رضا کے لئے نہیں ہوگا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اِس وقت میں تجھے چھوڑ دوں جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے میں تجھے گرا لونگا۔تو انہیں اپنے عمل کے پاکیزہ ہونے کا اس قدر احساس تھا کہ انہوں نے اس خطرہ کو تو برداشت کر لیا کہ دشمن سے دوبارہ مقابلہ ہو جائے مگر یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان کے اعمال میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں ان میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ ان میں بزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو، اور ان میںتقویٰ کے خلاف کسی چیز کی آمیزش نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میںسے ہر شخص اتنا مضبوط، اتنا بہادر اور اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود یہ کہیں کہ تمہارا عفو خدا کیلئے ہے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں۔ ایسی قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے اور ایسے انسان پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ حملہ کرنے والے کا دل فتح ہو جاتا ہے ۔(جاری ہے)