متفرق مضامین

زَلْزَلَةُ السَّاعَةِ

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

اس وقت دنیا شدید بے چینی اوراضطراب کا شکارہے۔ کیا مذہبی اعتبارسے اورکیا سیاسی اعتبارسے اورکیا سائنس اورعلوم وفنون کے لحاظ سے۔ جس پہلو سے بھی دنیا پر نظر ڈالیں ایک ہیجان، ایک اضطراب، ایک ہلچل سی دکھائی دیتی ہے۔ مختلف النوع تغیرات او ر حیرت انگیز انقلابات ظہور میں آرہے ہیں۔ بالخصوص آج کے دَورمیں انسا ن کے خود اپنے ہاتھوں تیارکردہ ایٹمی جنگی سازوسامان کی ہلاکت آفرینیوں کے تصور سے ہی دنیا کا ہر شخص مضطرب اور بے چین ہے۔ اور اگر یہ مہلک ہتھیار استعمال ہوئے اس وقت دنیا کا کیا حال ہوگا؟ کیا اس خوفناک تباہی سے بچنے کی کوئی صورت ممکن بھی ہے یا نہیں ؟یہ سوالات ہیں جو آج کے انسان کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جب ہم قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ اس کتاب مبین نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان سوالوں کا جواب دیا ہے اور انسان بے اختیاریہ کہہ اٹھتا ہے:

یاالٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اِک عالَم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ اس عظیم تباہی کی خبردی بلکہ اس کے اسباب بھی بیان کیے۔ اوراس سےبچنے کا ذریعہ بھی بتلا دیا۔ سورۃ الحج کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ۔ یَوۡمَ تَرَوۡنَہَا تَذۡہَلُ کُلُّ مُرۡضِعَۃٍ عَمَّاۤ اَرۡضَعَتۡ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمۡلٍ حَمۡلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمۡ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیۡدٌ۔ (الحج:2-3)

اے لوگو!تم اپنے ربّ کا تقویٰ اختیارکرو۔ یقیناً

’’زَلْزَلَةَ السَّاعَۃِ‘‘

بہت بڑی چیز ہوگی۔ جس دن تم اسے دیکھو گے، (اس وقت دنیا کا یہ حال ہوگا کہ )ہر دودھ پلانے والی عورت جس کو دودھ پلا رہی ہوگی اسے بھول جائے گی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تُو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔

ان آیات میں

’’زَلْزَلَةَ السَّاعَۃِ‘‘

کے الفاظ قابل غورہیں۔ یہ زلزلہ موعودہ کب ہوگا؟اس سے متعلق حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ یہ قیامت کے روز ظہورمیں آئے گا اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’زَلْزَلَةَ السَّاعَۃِِ‘‘سے مراد خود قیامت کا ظہورہے۔ لیکن علقمہ اورشعبی کا کہنا ہے کہ اس جگہ جس زلزلہ کا ذکر ہے وہ قیامت (کبریٰ)کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ اس کا تعلق اِس دنیا سے ہے اورطلوع الشمس من المغرب سے پہلے ظہورمیں آئے گا۔

قرآن مجید کی متعدد دیگر آیات میں بھی اس

’’ زَلْزَلَةَ السَّاعَۃِِ‘‘

اس عذاب شدید کا اوراس خوفناک دن کی کیفیت کا بیان ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں۔

سورۃ الدخان کی آیات 11تا15 میں ہے:

فَارۡتَقِبۡ یَوۡمَ تَاۡتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیۡنٍ۔ یَّغۡشَی النَّاسَ ؕ ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ۔ رَبَّنَا اکۡشِفۡ عَنَّا الۡعَذَابَ اِنَّا مُؤۡمِنُوۡنَ۔ اَنّٰی لَہُمُ الذِّکۡرٰی وَ قَدۡ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مُّبِیۡنٌ۔ ثُمَّ تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ

ترجمہ: پس تو اس دن کا انتظار کر جس دن آسمان پرایک کھلا کھلا دھواں ظاہر ہوگا جو سب لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ دردناک عذاب ہوگا۔ (لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگیں گے)اے ہمارے رب! ہم سے یہ عذاب ٹلا دےہم ایمان لےآتے ہیں۔ اس دن ایمان لانے کی توفیق ان کو کہاں سے ملے گی حالانکہ ان کے پاس ایک حقیقت کو کھول کر بیان کرنے والا رسول آچکا ہے(جس کو انہوں نے نہیں مانا)اوراس سے پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔ اورکہنے لگے یہ کسی کا سکھایا ہؤاپاگل ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’اس آیت میں ایٹم بم اورہائیڈروجن بم کا ذکر ہے جن کے پھینکنے پر تما م جوّ میں دھواں پھیل جاتاہے۔ ‘‘

(تفسیر صغیر)

اوریہ بھی بیان ہے کہ یہ تباہی’’رسول مبین‘‘ کے انکار اوراس کی تکذیب کا نتیجہ ہوگی۔

سورۃ المعارج میں فرمایا :

اِنَّہُمۡ یَرَوۡنَہٗ بَعِیۡدًا۔ وَّ نَرٰٮہُ قَرِیۡبًا ؕ۔ یَوۡمَ تَکُوۡنُ السَّمَآءُ کَالۡمُہۡلِ ۙ۔ وَ تَکُوۡنُ الۡجِبَالُ کَالۡعِہۡنِ۔ وَ لَا یَسۡـَٔلُ حَمِیۡمٌ حَمِیۡمًا۔ یُّبَصَّرُوۡنَہُمۡ ؕ یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ۔ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ۔ وَ فَصِیۡلَتِہِ الَّتِیۡ تُــٔۡوِیۡہِ۔ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ ثُمَّ یُنۡجِیۡہِ۔ کَلَّا ؕ اِنَّہَا لَظٰی۔ نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی۔ تَدۡعُوۡا مَنۡ اَدۡبَرَ وَ تَوَلّٰی۔ وَ جَمَعَ فَاَوۡعٰی۔

(المعارج:7تا19)

یہ لوگ اس دن کو بہت دورسمجھتے ہیں مگرہم اس کو بہت قریب دیکھتے ہیں۔ اس دن(شدت حرارت کی وجہ سے) آسمان پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اورپہاڑدھونی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گےاوراس دن کوئی دوست کسی دوست کے متعلق کوئی سوال نہیں کرے گا کیونکہ اس دن ہر شخص کی حالت اس کے دوست کو دکھا دی جائے گی۔ اس دن مجرم خواہش کرے گا کہ کاش وہ آج کے دن اپنے بیٹوں اوراپنی بیوی اوراپنے بھائی اوراپنے اس قبیلہ کے ذریعہ سے جو اسے پناہ دیا کرتاتھا اوردنیا میں جو کچھ بھی ہے اس کی قربانی سے اپنے آپ کو عذاب سے بچالے۔ سنو!یہ عذاب جس کی خبر دی گئی ہے شعلہ والا عذاب ہے۔ سرتک کے چمڑے کو اکھیڑ دینے والا عذاب ہے۔ جو شخص اس سے بھاگنا چاہے گا اورپیٹھ پھیرے گا اس کو بھی وہ اپنی طرف بلائے گا اوراس کو بھی جو ساری عمر دنیا میں مال جمع کرتارہا اورایک بڑی رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

کیا ان آیات میں ایک ہولناک عالمگیر تباہی کی صدائے بازگشت صاف سنائی نہیں دیتی؟جب بڑی بڑی پہاڑوں جیسی طاقتیں بھی ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔ کوئی فرد کسی دوسرے فرد کے کچھ کام نہ آ سکے گا۔ کسی قسم کے تعلقات اس عذاب الٰہی سے بچا نہ سکیں گے۔ نہ کوئی گروپ نہ کوئی جتھہ کچھ فائدہ دے گا۔ تمام سرمایہ دار اور تمام وہ لوگ جن کا مقصود صرف دنیا تھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ کسی کا بچنا مشکل ہوگا۔ جس طرف دیکھو آگ ہی آگ ہوگی۔

سورۃ عبس میں فرمایا :

فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ۔ یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ۔ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِ۔ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِ۔ لِکُلِّ امۡرِیًٴ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ۔ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ مُّسۡفِرَۃٌ۔ ضَاحِکَۃٌ مُّسۡتَبۡشِرَۃٌ۔ وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ عَلَیۡہَا غَبَرَۃٌ۔ تَرۡہَقُہَا قَتَرَۃٌ۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکَفَرَۃُ الۡفَجَرَۃُ

(عبس:34تا43)

پھر جب کان پھاڑ دینے والی (مصیبت)آئے گی جس دن کہ انسان اپنے بھائی سے (دور)بھاگے گا اور(اسی طرح)اپنی ماں اوراپنے باپ سے اوراپنی بیوی اوراپنے بیٹوں سے (بھی)۔ اس دن ہر ایک آدمی کی حالت ایسی ہو گی کہ وہ اسے اپنی ہی طرف الجھائے رکھے گی۔ کچھ (لوگوں کے )چہرے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے، خوش بہ خوش اور(کچھ لوگوں کے)چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ یوں معلوم ہوگا کہ ان پر غبارچھائی ہوئی ہے۔ ان کے چہروں پر ایک سیاہی بھی چھائی ہوئی ہوگی۔ یہی لوگ ہیں جو کافر اوربدکارہیں۔

سورۃ المزمل میں خدائے ذوالجلال نے فرمایا :

وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا۔ اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا۔ وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا۔ یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا۔ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔ فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰہُ اَخۡذًا وَّبِیۡلًا۔ فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَاۨ۔ السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا۔ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا

(المزمل:12تا20)

اورتو نعمت والے(مالدار)منکروں کو اورمجھے اکیلا چھوڑدے اورتوانہیں کچھ ڈھیل دے(اوران کی جلدتباہی کی دعانہ کر۔ میں خود ہی ان کو تباہ کردوں گا)ہمارے پاس قسم قسم کی بیڑیاں اورجہنم ہے۔ اورایساکھانا بھی ہے جو گلے میں پھنستا ہے۔ اوردردناک عذاب بھی ہے۔ جس دن زمین اورپہاڑ کانپیں گے اورپہاڑ ایسے ٹیلوں کی طرح ہو جائیں گے جو خود بخود پھسلتے جاتے ہیں۔ اے لوگو!ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے۔ اسی طرح جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ پھرفرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تھی اورہم نے اس کو ایک وبال والے عذاب سے پکڑلیا تھا۔ اوربتاؤ تو اگر تم نے اس دن کا انکار کیا جو جوانوں کو بڈھا بنادیتاہے تو تم کس طرح (عذاب سے)محفوظ رہوگے۔ آسمان خود ہی اس عذاب سے پھٹ جانے والاہے۔ یہ اس (خدا)کا وعدہ ہے جو پورا ہو کررہے گا۔ یہ (قرآن)ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے والا راستہ اختیارکرلے۔

غورفرمایئے کس قدروضاحت کے ساتھ اس ہولناک تباہی سے متعلق خبردی گئی ہے اوراس کے اسباب ونتائج کو بیان کیا گیا ہے اوربتلایا گیا ہے کہ یہ تباہی انسانی بداعمالیوں اورخداتعالیٰ کے رسول مبین، مثیل موسیٰ حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکاراورتکذیب کا نتیجہ ہوگی۔

پھر ان آیات میں بڑی وضاحت کے ساتھ آج کے مہلک ہتھیاروں کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی ہولناک تباہی کا نقشہ کھینچاگیاہے۔ اوریہ بھی بتایاکہ

إِنَّ هٰذِهِ تَذْكِرَةٌ

یہ سب باتیں ایک نصیحت کے طورپر قبل از وقت بیان کردی گئی ہیں۔

فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ إِلٰى رَبِّهِ سَبِيْلًا

( جو چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے والا راستہ اختیارکرلے )کیونکہ صرف یہی ایک سلامتی کا راستہ ہے۔ وہی امن میں ہوگا جو اپنے پیداکرنے والے رب کریم کی راہوں کو اختیارکرے گا۔ اسی راہ کی طرف سورۃ الحج کی ابتدائی آیات میں اس رب العالمین نے دنیا بھر کے انسانوں کو بلایا اورفرمایا

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ

(اے لوگو! تم اپنے ربّ کا تقویٰ اختیارکرو۔ )اس کی پناہ میں آجاؤ، اس کی طرف جھکو اوراسی کے ہوجاؤ۔ کیونکہ صرف اورصرف اسی کی قربت میں امن اورعافیت اورسکون اورراحت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کس خوبی سے اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں سمو دیا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

سورۃ الحج کی مذکورہ بالا آیات کے ضمن میں علقمہؔ اورشعبیؔ کا بیان یعنی یہ کہ ان آیات میں مذکورہ زلزلہ کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے اوریہ قیامت کی علامات میں سے ہے اوراس کا وقوع مغرب سے طلوع آفتاب سے قبل ہوگا جہاں بہت معنی خیز ہےوہاں ان آیات کے معانی ومطالب کی بہت حد تک وضاحت مختلف تفاسیر میں بیان ذیل کی روایت سے بھی ہوجاتی ہے۔

بیان ہے کہ یہ آیات غزوہ بنی المصطلق کے سفرمیں ایک رات نازل ہوئیں۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اورانہیں یہ آیات سنائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس

زَلْزَلَةَ السَّاعَۃِِ

اوراس ہولناک دن اوراس عذاب الٰہی کی ہیبت کا اس قدر اثرہواکہ وہ مارے غم کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اوروہ اس دن کے تصور سے ہی بےحد غمگین اور متفکر ہوگئے۔ ان کے آنسو تھمنے میں نہ آتے تھے۔

اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

’’ کیا تمہیں معلوم ہے وہ دن کونسا ہوگا ؟‘‘

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’یہ وہ وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم !تو آدمؑ کہیں گے

لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ

میں حاضر ہوں میرے آقا اور میری خوش بختی ہے کہ آپ نے مجھے یاد فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی نسل سے ایک حصہ آگ کی طرف بھیجو۔ اس پرآدمؑ کہیں گے اے میرے ربّ !وہ آگ کا حصہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ہزار میں سے نو سو ننانوے(999)۔ ‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ وقت ہوگا جب حاملہ اپنا حمل گرادے گی اوربچے بوڑھے ہوجائیں گے اور تُو لوگوں کو بدمست دیکھے گا حالانکہ وہ بدمست نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا تو بات لوگوں پر بڑی گراں گزری۔ اس دن کی ہیبت کی وجہ سے غم کے مارے ان کے چہرے متغیر ہوگئے۔ اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ ہزار میں سے ایک کون ہوگا جو آگ سے نجات پائے گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نوسوننانوے (999) یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور(وہ) ایک جو جنت میں جانے والا ہےتم میں سے ہوگا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا

’’تم لوگوں میں ایسے ہو جیسے بیل کے پہلو میں کوئی سفید بال ہو۔ ‘‘

اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہےکہ یاجوج ماجوج ہی اس خوفناک آگ کے بھڑکانے کا باعث ہوں گے۔ اور یہی آگ میں پڑنے والے ہوں گے۔ اس تباہی سے نجات پانے والےاقلیت میں ہوں گے اورنسبتاً ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی۔ اور یہ نجات یافتہ وہ ہوں گے جو سورۃ الجمعہ کی آیت

وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ

کے مصداق اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے مثیل ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے رنگ میں رنگین ہونے کی توفیق بخشے، تقویٰ کی راہوں پر چلائے اورآگ کے عذاب سے بچائے۔

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button