کیا بینکوں سے ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟
سوال:ایک دوست نےحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پاکستان کے بینکوں میں جمع کرائی جانےوالی رقوم پر ملنے والے منافع کو اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی بابت مسئلہ دریافت کیا ہے۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍نومبر2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطافرمایا:
جواب:پاکستان کے بینک عموماً PLSیعنی نفع نقصان میں شراکت کے طریق کار کے تحت رقوم جمع کرتے ہیں۔ اس سسٹم کے تحت جمع کرائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم سود کے زمرہ میں نہیں آتی۔ اسی طرح حکومتی بینکوں میں جمع کروائی جانے والی رقوم پر ملنے والی زائد رقم بھی سود شمار نہیں ہوتی۔ کیونکہ حکومتی بینک اپنے سرمایہ کو رفاہی کاموں پر لگاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی باشندوں کی سہولتوں کےلیے مختلف منصوبے بنائے جاتے ہیں، معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور افراد ملک کےلیے روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے بینکوں سے ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک سود کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کےلیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے۔ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلائے گا۔
اسلام نے جس سود سے منع فرمایا ہے اس میں غرباء کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں قرض دیتے وقت اس پر پہلے سے سود کی ایک رقم معین کر لی جاتی تھی اور غریب اس سود در سود کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا تھا اور یہ قرض اور سود کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ جبکہ موجودہ زمانہ میں اگر کوئی قرض لی ہوئی رقم واپس کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کا دیوالیہ نکل جائے تو Bankruptcy کے تحت وہ قرض ختم بھی ہو جاتا ہے۔
اسی لیے اس زمانہ کے حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’اب اس ملک میں اکثر مسائل زیر و زبر ہو گئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔ اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔‘‘ اور حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کی روشنی میں جماعت احمدیہ اس بارے میں مختلف معاملات اور مسائل سامنے آنے پر تحقیق کرتی رہتی ہے۔ اور اب بھی اس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔