احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے (قسط پنجم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
میںتمہیں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی موقع پر اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کی ضرورت ہے اور تمہیںاِس بات کا موقع ملتا ہے اور تمہارے ہاتھ سے کسی کو نادانستہ طو ر پر کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہ کہو کہ مَیں وہاں نہیں تھا بلکہ دلیری سے کہو کہ میں نے ہی یہ فعل کیا ہے۔اور سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی ترک نہ کرو۔ تم اگر ظلم کے سہتے وقت یہ نمونہ دکھائو کہ تم سے کمزور تمہارے منہ پر تھپڑ مارے اور تم اپنی دوسری گال بھی اُس کی طرف یہ کہتے ہوئے پھیر دو کہ اے میرے بھائی! اگرتُومجھے مارنے پر ہی خوش ہے تو بےشک مجھے مار لے مگر خدا کی باتیںتھوڑی دیر کے لئے سن لے تو تمہارے اِس نمونہ سے سارا گائوں متأثر ہو گا۔اور اگر کبھی تمہیں ظلم کامقابلہ کرنا پڑے اور تمہارے ہاتھوں سے دوسرے کونادانستہ طور پر کوئی نقصان پہنچ جائے اور معاملہ عدالت میں جائے تو تم عدالت میں جا کر بھی صاف طور پر کہو کہ اے حاکم! میں نے ان حالات میں یہ فعل کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچانے کی کبھی کوشش نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو تو تمہاری کامیابی اور ترقی یقینی ہے۔ لیکن اگر گالی کے مقابلہ میں تم بھی گالی دو گے، مار کے مقابلہ میں تم بھی مارو گے تو تمہارے اِس فعل کی وجہ سے احمدیت کو کوئی ترقی نہیں ہو گی۔ پس تم اِن دونوں طریقوں کو اختیار کرو ماریںکھائو اور کھاتے چلے جائو، پِٹو اورپٹتے چلے جائو، سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کا حکم کہے کہ اب تمہاری جان کا سوال نہیں، اب تمہارے آرام کا سوال نہیں، اب دین کی حفاظت کا سوال ہے، ایسی صورت میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ تم مقابلہ کرو اور اِس نیکی کے حصول سے ڈرو نہیں۔ اگر مظلوم ہوتے ہوئے اور دفاع کرتے ہوئے تمہارے ہاتھوں سے نادانستہ طور پر کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے اور درحقیقت تم ظالم نہیں ہو تو تمہارے لئے جنت کے دروازے اَور زیادہ کھل جاتے ہیں۔
پس بہادر بنو اسی طرح کہ جب لوگ تم پر ظلم کریںتو تم عفو اور چشم پوشی اور درگزر سے کام لو مگر جب دیکھو کہ چشم پوشی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اورتمہیں دفاع اور خود حفاظتی کے لئے مقابلہ کرنا پڑتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا مقابلہ کرو اور اگر اس دَوران میںتمہارے ہاتھوں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر صاف کہہ دو کہ میں نے ایسا کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض بہادر بننا ہے اور بہادری کا ایک حصہ سچ بھی ہے۔ بغیر سچ کے کوئی شخص بہادر نہیں ہو سکتا مگر سچ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر بات بیان کردو۔ اگر ایک ڈاکو تم سے پوچھتا ہے کہ تمہارے ماں باپ اپنا روپیہ گھر میںکہاں رکھتے ہیں یا چور پوچھتا ہے کہ تمہاری بہن یاتمہاری بیوی کا کتنا زیور ہے اور وہ کہاں رکھا ہوا ہے تو تمہارا یہ کام نہیں کہ اسے اپنے زیورات کی فہرست بتائو اور کہوکہ ہم فلاں جگہ رکھا کرتے ہیں۔ سچ کے معنے صرف یہ ہیں کہ جو بات بیان کی جائے وہ بالکل صحیح ہو مگر جو بات تم بیان نہیں کرنا چاہتے اس کے متعلق صاف طور پر کہہ دو کہ میں بیان کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ تم ہر بات بیان کرو۔ مرد وعورت کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں مگر کوئی شخص ان تعلقات کا ذکر دوسرے کے پاس نہیں کرتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو عورت اپنے مرد کے تعلقات کا ذکراپنی کسی سہیلی سے بھی کرتی ہے اُس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔اب کیا وہ عورت سچ نہیںبولتی؟ سچ ہی بول رہی ہوتی ہے مگر ا س سچ بولنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت برستی ہے کیونکہ وہ بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں۔ پس ہر بات کو بیان کرنا سچ نہیں بعض دفعہ وہ بات بیان کرنا ظلم کا موجب ہوتا ہے، بعض دفعہ اخلاق کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ بے حیائی کا موجب ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال انسان کا یہ فرض ہے کہ جب وہ کسی بات کو بیان کرے تو سچ سچ بیان کر دے۔ پس تم سچ بولو اور اگر کسی بات کا چُھپانا ضروری ہو تو بےشک اُس کو چُھپا لو تمہیںکوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ تم ضرور ہر بات بیان کرو۔ بعض باتوں کے بیان کرنے سے شریعت انسان کو روکتی ہے ۔ ایسی باتوں کے متعلق ہی حکم ہے کہ انہیں مت بیان کرو کیونکہ شریعت ان کو بیان کرنے کی اجازت نہیںدیتی۔
یہ اغراض ہیں جو خدام الاحمدیہ کے قیام کی ہیں۔ پھر خدام الاحمدیہ کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ وہ احمدی اخلاق سیکھیں، نیکی کے کام بجا لائیں اور پابندیٔ نماز کی عادت ڈالیں۔ تمہارا فرض ہے کہ تم سُست لوگوں کے پاس جائو اور ان میں نماز باجماعت کی پابندی کی عادت پیدا کرو مگر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بھی کہا تھا ناجائز دبائو سے کام مت لو۔ اسی طرح جتنا بڑا کوئی عُہدہ دار ہو اُسے اتنا ہی چُست اور عملی کام کرنے والا ہونا چاہئے مگر آجکل مصیبت یہ ہے کہ بڑے آدمی خیال کرتے ہیں کہ ہاتھ سے کام کرنا اُن کی ہتک کا موجب ہے حالانکہ میرے نزدیک جو شخص ہاتھ سے کام نہیں کرتا وہ حرام خور ہے۔ خدا نے انسان کو ہاتھ اس لئے نہیںدئیے کہ وہ ان سے کوئی کام نہ لے بلکہ ہاتھ کام کرنے کے لئے ہی خدا نے دئیے ہیں۔ پس جس طرح خداتعالیٰ نے زبان دی ہے اور زبان کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، خداتعالیٰ نے پائوں دئیے ہیں اور پائوں کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، اسی طرح خداتعالیٰ نے ہاتھ دئیے ہیں اور ہاتھوں کا استعمال نہ کرنا بھی گناہ ہے۔
جو شخص قیدی بن کر چارپائی پر لیٹا رہتا ہے اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیتا رہتا ہے کہ اس طرح کرو اور اُس طرح کرو وہ حرامخوری کرتا ہے۔ پس ہر شخص کو اپنے ہاتھوں سے کام کرنا چاہئے اسی لئے خدام الاحمدیہ روزانہ ہاتھوں سے مشقّت کا کام کرتے ہیں اور ایک دن خاص طور پر سب لوگوں کو اِس میںشریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اِس قسم کے اجتماعی عمل کی غرض یہی ہے کہ ہر انسان ان نعمتوں کا شکر ادا کرے جو خدا تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہیں۔ وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ مَیں بڑا ہوں اور لوگ بے شک کام کریں مگر میںنہیںکر سکتا وہ شرم وحیا سے عاری انسان ہے۔
پس جو تمہارے عہدہ دار ہیں انہیں زیادہ کام کرنا چاہئے اور مرکزی عہدہ داروں کو کاموں میںخود حصہ لینا چاہئے۔ اب تو اس طرح ہوتا ہے کہ عہدہ دار معتمد کو ہدایت بھیج دیتا ہے اور معتمد آگے ہدایت بھیج دیتا ہے لیکن آئندہ کے لئے عہدہ داروں کو خو د محلوں میںجا جا کر خدام کا کام دیکھنا چاہئے۔ اسی طرح سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ بھی خود بار بار محلوں میںپھر کر کام کی نگرانی کریں صرف ہدایت لکھ کر بھیج دینی کافی نہیں ہے۔ میرے نزدیک تمام مرکزی عہدہ داران کو ہفتہ میںدو تین بار ضرور عملی کام میںشریک ہونا چاہئے اور خدام میں بیٹھ کر ان سے باتیں کرنی چاہئیں۔ اِسی سلسلہ میں مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض مشورہ کے قابل امور ایسے ہوتے ہیں جن میںصرف عہدہ دار شامل ہو سکتے ہیں۔مگر جب کسی اجتماع کے موقع پر سب لوگ اکٹھے ہوں تو پھر سب سے مشورہ لینا چاہئے اور اِس غرض کے لئے ایسے اجتماع میں مشورہ کے قابل امور کو پیش کرنا چاہئے اور ہر ایک کو رائے دینے کی آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ میرے نزدیک ایسے جلسوں سے پہلے جماعتوں کولکھ کر اُن سے دریافت کرلینا چاہئے کہ انہیں کام میںکیا کیا دقتیں پیش آ رہی ہیں؟ اور پھر ان مشکلات پر بحث کر کے آئندہ کے لئے سکیم بنانی چاہئے۔ مثلاً ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو جب کوئی ہدایت دی جاتی ہے تو وہ اسے مانتے نہیں ان کاکیا علاج ہونا چاہئے؟ او ر اگر غور کیا جائے تو کئی تدابیر سامنے آ جائیںگی جو دلچسپ اور مفید ہونے کے علاوہ عقلی ترقی کا موجب ہوں گی۔ اسی طرح اگر کوئی دقّت ہو تو اسے سالانہ اجتماع کے موقع پرتمام خدام کے سامنے رکھاجائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہو گا جب خدام کی اکثریت کے فیصلہ کونافذ کیا جائے گا اس پر زیادہ کامیابی کے ساتھ عمل کیا جاسکے گا۔ ہر شخص کہے گا کہ یہ فیصلہ ہم نے خود کیا ہے اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے۔
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے اجلاسوں میںاہم امور کے متعلق لوگوں سے مشورے لینے چاہئیں اور ان کے مطابق اپنی سکیمیں بنانی چاہئیں۔ باقی نظام کی روح ضرور قائم رکھنی چاہئے یعنی لوگ شور نہ مچائیں اور صدر کی اجازت کے بغیر نہ بولیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو آداب کے خلاف ہو۔ اسی طرح عہدہ داروں کا فرض ہے کہ وہ خدام سے ذاتی واقفیت پیدا کریں یہاں تک کہ وہ کسی کو دیکھتے ہی پہچان لیں کہ یہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔
پس ذاتی واقفیت کو جتنا بڑھا سکتے ہو بڑھائو اب تو ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے پھر بھی جلسہ سالانہ کے ایام میںباوجود کوفت اور تکلیف کے مَیںسب سے مصافحہ کرتا ہوں اور اس طرح ہر سال کچھ نہ کچھ نئے لوگوں سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ خدام الاحمدیہ کے لئے تو ابھی کافی موقع ہے کہ وہ اپنی واقفیت کو وسیع کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس نقص کی وجہ سے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے کم ہیں بعض دفعہ شہری جماعتیں بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتیں۔ میرے نزدیک اس طرح بھی خدام الاحمدیہ کا امتحان لینا چاہئے کہ عہدہ دار خود اپنے خدام کو انٹروڈیوس کرائے اور ان کے حالات بیان کرے اس طرح پتہ لگ جائے گا کہ عہدہ داران سے واقف ہے یا نہیں؟ اس طرح دلوں میں بشاشت اور اُمنگ پیدا ہو جاتی ہے اور کام میں ترقی ہوتی ہے۔ پھر میرے نزدیک اِس دفعہ کے پروگرام میں یہ بھی غلطی ہے کہ کام کی ٹریننگ کے متعلق بہت کم تقریریں رکھی گئی ہیں صرف وعظ کے طور پر بعض تقریریں رکھ دی گئی ہیں۔حالانکہ انہیں بتانا یہ چاہئے تھا کہ اب تک کام میںکیا کیا دقتیں پیش آئی ہیں اور اِن دقتوں کا حل انہوں نے کیا تجویز کیا ہے۔ جو زیادہ سمجھ دار عہدہ دار ہیں یا مرکز میںرہتے ہیں انہیں تفصیلاً یہ تمام باتیں بیان کرنی چاہئیں تھیں کہ خدام کی تنظیم کے کام میں ان سے کام لینے کے دَوران میں کیا کیا دقتیں پیش آئیں، انہوں نے ان کا کیا علاج تجویز کیا او رکس طرح ان دقتوں کو دُور کیا۔ ایسے مضامین پر زیادہ زور دینا چاہئے تھا تادوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھاسکتے اور وہ یہاں سے خدام الاحمدیہ کے کام کو سیکھ کر جاتے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭