الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم چودھری محمد یعقوب کُلّا صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جنوری 2013ء میں مکرم کیپٹن(ر)محمد ایوب صاحب نے اپنے والد محترم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 21؍ اکتوبر 2011ء بروز جمعۃ المبارک بعمر 80 سال وفات پاکر اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہوئے۔
آپ 1931ءمیں اپنے آبائی گاؤں مونگ (سابقہ ضلع گجرات)میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چودھری خوشی محمد کُلّاصاحب اپنے علاقے کے جانے پہچانے اور ذی اثر زمیندار تھے۔ وہ جنگِ عظیم اول میں بصرہ (عراق)میں زخمی ہوجانے پر جلد گھر آ گئے تھے۔ اس سے پہلے اُن کی والدہ محترمہ شرفاں بی بی صاحبہ نے ایک نہایت مبشر خواب دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مونگ میں اُن کے محلّے میں آئے ہیں اور اَنّ تقسیم کر رہے ہیں جو اُن کی ہتھیلی پر بھی رکھ دیا ہےاور انہوں نے اس نعمت کو اپنے چاروں بیٹوں میں اس طرح تقسیم کر دیا کہ زیادہ خوشی محمد صاحب کو دیا اور آخر پر خود بھی ہتھیلی چاٹ لی۔ چنانچہ اس رؤیا کے مطابق خداتعالیٰ کے فضل سے سب احمدیت کی نعمت سے نوازے گئے۔ جبکہ سعیدالفطرت چودھری خوشی محمد کُلّاصاحب کو اپنی برادری میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی۔ آپ کے بیٹے محترم چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب اوائل عمر میں ہی فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ ستمبر 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت ہر دو جنگوں میں شرکت کی۔ ستمبر 1953ءمیں مکرمہ زینب اختر صاحبہ بنت مولوی نور احمد صاحب مولوی فاضل موضع کالووالی سے نکاح ہوا۔ اُس وقت احمدیوں کے خلاف فسادات جاری تھے۔ ان مشکل ایامِ مخالفت میں محترمہ زینب صاحبہ نے اپنی غیر احمدی برادری کے انتہائی دباؤ، تحریص و ترغیب کوردّکردیا۔ اور استقامت سے اپنے فرشتہ سیرت تایا صوبیدار عبدالغنی صاحب (موصی ویکے ازپانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید، منڈی بہاؤالدین)کا ساتھ دے کر اپنا عہدِ بیعت نبھایا۔
چودھری محمد یعقوب کُلّاصاحب نے شاہ تاج شوگر ملز منڈی بہاؤالدین میں کئی سال تک نہایت دیانتداری اور وفاداری سے ملازمت کی۔ آپ نے اپنے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ اکثر کہا کرتے کہ ہماری تعلیم ہی جائیداد ہے اور اسے جتنا خرچ کروگے اُتنی ہی بڑھے گی۔ تعلیم ایک روشنی ہے، جس سے اپنے آپ کو اور اردگرد ماحول کو منور کرتے رہو۔
آپ نہایت محنتی اور ایماندار انسان تھے، نرم خُو اتنے کہ اولاد کو بھی احترام سے بلاتے۔ گھر میں یا باہر کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ کوئی بڑی بات ہوجاتی تو بس خاموش ہو جاتے۔ بڑے ہی حوصلہ والے انسان تھے۔ ہمیشہ پورے نام سے پکارتے تھے۔ مجھے آرمی میں کمیشن ملنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے ربوہ شفٹ ہو گئےجس کا مقصد بچوں کو اچھی تعلیم دلانا تھا۔ اسی دوران حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ مونگ تشریف لائے اور کھانے کا انتظام ہماری حویلی میں کیا گیا۔ آپ نے اس سارے انتظام و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ہمیشہ اس پر شکر ادا کرتے کہ ایک بابرکت وجود نے یہاں کھانا تناول فرمایا تھا۔
7؍اکتوبر 2005ء کو سانحہ مونگ پیش آیا جس میں فجر کی نماز کے دوران آٹھ نمازیوں کو شہید کر دیا گیا۔ شہداء میں آپ کے چھوٹے بھائی چوہدری محمد اسلم کُلّاشہید اور ان کا جواں سال بیٹایاسر احمد(پہلا وقفِ نو شہید)بھی شامل تھے جب کہ خاکسار شدید زخمی ہوکر مستقل طور پرمعذور ٹھہرا۔ والد صاحب نے اس موقع پر غایت درجہ صبر و حوصلہ دکھایا۔
آپ اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے اور اُن کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے۔ ہم اگر کہیں دُور بھی ہوتے تو بھی آپ کو بارہا سچے خوابوں کے ذریعے پتہ چل جاتا۔ چنانچہ خط لکھ کر، بذریعہ فون یا خودوہاں پہنچ کر حوصلہ دیتے۔
آپ با ریش خوبصورت چہرے والے، پابندیٔ وقت کا بہت خیال رکھنے والے، دعا گو شخصیت، نہایت درجہ شفیق اور دھیمی آواز والے دل کے سخی انسان تھے۔ پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ فجر کی نماز کے بعد روزانہ لمبی تلاوت کرتے اور پھر ٹیلی ویژن پر پورا ایک گھنٹہ تلاوت سننا معمول تھا۔ بڑے اہتمام سے خلیفۃ المسیح کا خطبہ ایم ٹی اے پر سنتے اور اس مائدہ کے جاری ہونے پر خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لیے دعا گو ہو جاتے۔
آپ کا ایک نمایاں خلق شکرگزاری تھی، خالق کی بھی اور مخلوق کی بھی۔ کسی نے کوئی معمولی سی بھی بھلائی کی ہوتی تو اسے ہرگز نہ بھُلاتے بلکہ ہمیں بتاتے کہ اس خاندان کا ہم پر یہ احسان ہے اور تم تمام عمرلحاظ رکھنا۔ بحرین اور سعودی عرب میں ملازمت کی۔ اس دوران حج کی سعادت بھی ملی۔
………٭………٭………٭………
مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید
اور مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جنوری 2013ء میں مکرمہ ش۔ جہاں صاحبہ 28 مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں جام شہادت نوش کرنے والے اپنے والد مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب اور پھوپھی زاد بھائی مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ سجاد بھائی خوبیوں کا پیکر تھا۔ نیک شریف، ہمدرد، نمازوں اور تہجد کا پابند۔ ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا۔ میں نے اسے کبھی بھی لغویات میں مشغول نہ دیکھا۔ اس کی زندگی میں صرف دو ہی کام تھے، ایک اپنی نوکری پر جانا اور دوسرا جماعت کا کام کرنا اور وہ اکثر اوقات جماعت کے کاموں کو نوکری پر ترجیح دیتا۔ دارالذکر جیسے اس کا دوسرا گھر تھا۔ اسے ربوہ شفٹ ہونے کی بہت خواہش تھی تاکہ وہاں اپنے بچوں کی پرورش کرے۔ اس کی یہ خواہش شہادت کے بعد پوری ہوئی جب اس کی فیملی ربوہ شفٹ ہوئی۔
میرے والد محترم محمد اسلم بھروانہ شہید کی یاد کبھی بھی میرے دل سے نہیں نکل سکتی۔ وہ میرے لیے ایک سائبان کی طرح تھے۔ نہایت نیک دل، ایماندار، تہجد گزار شخص تھے۔ جماعت سے انہیں عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ ساری زندگی کبھی بھی شام کا وقت یا چھٹی والا دن گھر میں نہیں گزارا۔ بلکہ جتنا بھی وقت ملتا خدمت دین میں صَرف کرتے۔ لیکن اتنی مصروفیت کے باوجود وہ اکثر ہمیں سیر پر بھی لے جاتے تھے۔ ریلوے میں افسر ہونے کے باوجود ہمیشہ رزق حلال کمایا۔ اپنے سب بچوں کو ریلوے کے سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوائی۔ کبھی امی نے دوسرے افسروں کے بچوں کی مثال دے کر شکوہ کیا تو جواب دیتے کہ میں بھی تو ٹاٹ کے سکولوں میں پڑھ کر یہاں تک پہنچا ہوں یہ بھی اگر محنت سے پڑھیں گے تو ضرور کچھ بن ہی جائیں گے اور شہر کے مہنگے سکولوں کو میری تنخواہ افورڈ نہیں کرسکتی۔
ہم بچوں نے ہوش سنبھالتے ہی ابو کو ہمیں ایک ہی بات کی تلقین کرتے سنا اور وہ تھی نماز میں باقاعدگی۔ آپ گھر میں فجر، مغرب اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھاتے اور اکثر نماز مغرب کے بعد ملفوظات کا درس دیتے۔ کبھی بھی پڑھائی کے معاملہ میں ہم پر زیادہ سختی نہ کی لیکن نماز کے معاملے میں بہت ہی سخت تھے۔ غصہ بہت جلدی آجاتا تھا لیکن اتنی جلدی اتر بھی جاتا اور دل بہت ہی جلدی صاف ہو جاتا۔ کبھی بھی بغض دل میں نہ رکھتے اور اگر ان کو کوئی بات پسند نہ ہوتی تو اس کا برملا اظہار کر دیتے چاہے سننے والا ان کا کوئی افسر ہی کیوں نہ ہو۔
ریلوے کالونی کے گھر خاصے کشادہ ہوتے ہیں۔ آپ کو کبھی بھی گھر بنانے کا شوق نہیں تھا۔ کبھی امی نے پریشان ہونا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہم کہاں رہیں گے اور کرائے کے گھر تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ آپ ہمیشہ یہ جواب دیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہمیشہ بڑے گھروں میں رکھا ہے آگے بھی وہ ہی تمہیں بڑا گھر دے گا اور اس کا شکر ادا کرو۔ کہتے تھے کہ اس دنیا میں کیا گھر بنانا، اصلی گھر تو اگلی دنیا میں بنانا چاہیے۔
آپ کو کپڑوں اور جوتوں کا بھی شوق نہیں تھا۔ آپ کے زیر استعمال پتلونیں اور جوتے سات سے آٹھ سال پرانے تھے۔ الغرض بہت ہی بے نفس انسان تھے۔ اپنی ضروریات کا بالکل خیال نہیں رکھتے تھے لیکن بیوی بچوں کی ضروریات کو احسن طریق سے پورا کرتے تھے۔ بیماری کے علاوہ کبھی جمعہ نہ چھوڑتے۔ جمعہ سے قبل اعلانات کرنے کی ذمہ داری آپ لمبا عرصہ نبھاتے رہے۔ خلیفہ وقت اور خلافت سے بہت پیار تھا اور وفا کا تعلق تھا۔ باقاعدگی سے حضور کا خطبہ جمعہ سنتے اور ہمیں بھی سناتے۔ بچپن میں MTA کے آنے سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خطبہ جمعہ کی کیسٹیں ہمیں سناتے اور کہتے غور سے سنو میں بعد میں خطبہ کے بارے میں سوال پوچھوں گا۔ جب تک ہمارے گھر میں MTA نہ تھا آپ اپنے بچوں کو لمبے فاصلے سے ہر جمعہ اور رمضان المبارک میں روزانہ دارالذکر لاتے اور اس میں کبھی ناغہ نہ کیا۔ ہمارا سارا گھرانہ ہی اکثر دارالذکر میں پایا جاتا اور حسب توفیق خدمت کی سعادت حاصل کرتا۔
آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی تھی اور اس سے وہ بہت خوش تھے اور خاص طور پر اپنی صحت کا خیال رکھتے تاکہ بہتر طور پر خدمت دین کرسکیں۔ آپ بہت بہادر انسان تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ جن دنوں لاہور کے حالات خراب تھے تو سابق امیر صاحب لاہور کے گھر کے باہر رات کو پہرہ بھی دیتے رہے۔
………٭………٭………٭………
سیارہ نیپچون (Neptune)
نظام شمسی کا آٹھواں سیارہ نیپچون ہے جو یورینس سے مشابہت کی وجہ سے اس کا جڑواں بھی کہلاتا ہے۔ اگرچہ یہ نظام شمسی کا سب سے بڑا دیوقامت گیسی سیارہ ہے لیکن بہت زیادہ دُور ہونے کی وجہ سے رات کے وقت آسمان پر بمشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ نیپچون سیارہ سورج سے حاصل ہونے والی حرارت سے 2.6 گُنا زیادہ حرارت خود خارج کرتا ہے یعنی اس کے اندرون میں زبردست توانائی موجود ہے۔ اس سیارے کی خصوصیات کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ دسمبر 2012ء کی زینت ہے۔
سیارہ نیپچون کا سورج سے فاصلہ قریباً ساڑھے چار ہزار ملین کلومیٹر ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت -220 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ زمینی وقت کے مطابق یہ 164.7سال میں سورج کے گرد ایک چکر لگاتا ہے۔ جبکہ اپنے محور کے گرد 16.4گھنٹے میں گھوم جاتا ہے۔ زمین کی نسبت اس کی کشش ثقل 1.6 ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی مرتبہ 1846ء میں کیا گیا۔ اس کی فضا بہت پتلی اور مرکزی طور پر نائیٹروجن پر مشتمل ہے۔ میتھین گیس کی کثیر مقدار کی وجہ سے اس کی فضا کا رنگ بھی نیلا ہے۔ نیپچون کی جنوبی قطبی ٹوپی جو تصاویر میں گلابی نظر آتی ہے یہ بھی میتھین کی برف پر مشتمل ہے۔
تحقیقاتی جہاز وائیجر ٹو (Voyager 2) ایسا واحد خلائی مشن تھا جو یورینس اور نیپچون سیاروں تک گیا۔ نیپچون تک کا یہ خلائی سفر بارہ سال میں مکمل ہوا۔ نیپچون کے بارے میں اس کے ذریعے بھجوائی جانے والی معلومات چار گھنٹے میں زمین تک پہنچتی ہیں۔ اس کی لی ہوئی تصاویر نیپچون کی فضا میں عظیم تاریک دھبوں سمیت متعدد واضح نقوش دکھاتی ہیں۔ یہ دھبے دراصل بہت بڑے چکر کھاتے ہوئے طوفان ہیں۔ سب سے بڑے دھبے کا سائز کرۂ ارض جتنا ہے۔ اس سیارے کی فضا میں دو ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے آندھیاں مسلسل چلتی ہیں۔
نیپچون کے آٹھ چاند ہیں۔ سب سے بڑا چاند ٹرائیٹن ہے جو نظام شمسی کا سرد ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت -235 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہ نظام شمسی کا واحد چاند ہے جو اپنے سیارے سے برعکس سمت میں حرکت کرتا ہے۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیارے کے اندرونی چار چاند ایک ہی دائرے میں گردش کرتے ہیں۔ وائیجر ٹو سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیپچون کے چاندوں پر آتش فشاں پہاڑ بھی ہیں۔
………٭………٭………٭………