ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر60)
انجیلی تعلیم کا قرآنی تعلیم سے مقابلہ
انجیل کی تعلیم صرف بچوں کا کھلونا ہے کہ جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو اس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں۔ ان سب کا موضوع اور مقصود یہی ہے کہ وہ طمانچے کھایا کرے ؟ انسا ن انسان تب ہی بنتاہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے۔ مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قویٰ کو بیکار چھوڑ دو اور ایک ہی قوت پر زور دیئے جاؤ۔ بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کا مربی ہے اوربر محل ہر قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ مسیح کی اس تعلیم کی بجائے قرآن شریف فرماتاہے
جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ۔(الشوریٰ:41)
یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے مگر عفو بھی کرو تو ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو۔ وہ عفو بے محل نہ ہو۔ مثلاً ایک فرمانبردار خادم ہے۔ اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض کے ادا کرنے میں نہیں کرتا۔ مگر ایک دن اتفاقاً اس کے ہاتھ سے گرم چائے کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ہی ٹوٹ جاوے بلکہ کسی قدر گرم چائے سر پر بھی پڑ جاوے۔ تو اس وقت یہ ضروری نہیں کہ آقا اس کوسزا دے بلکہ اس کے حسب حال سزا یہی ہےکہ اس کو معاف کر دیا جاوے۔ ایسے وقت پر موقع شناس آقا تو خود شرمندہ ہو جاتا ہے کہ اس بیچارے نوکر کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔ لیکن کوئی شریر نوکر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر روز نقصان کرتا ہے اگر اس کو عفو کردیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا۔ اس کو تنبیہ ضروری ہے۔ غرض اسلام انسانی قویٰ کو اپنے اپنے موقع اور محل پر استعمال کرنےکی تعلیم دیتاہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جاتی ہے۔ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی۔
غرض حفظ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتاہے۔ تمام احکام میں اس کی یہی صورت ہے۔ مال کی طرف دیکھو۔ نہ ممسک بناتاہے نہ مسرف ۔یہی وجہ ہے کہ اس امت کا نام ہی اُمۃً وسطاً رکھ دیا گیا ہے۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 241-242)
٭… اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے۔
گَرْحِفْظِ مَرَاتِبْ نَہْ کُنِی زَنْدِیقِیْ
ترجمہ: اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو، توبے دین ہے۔
عبدالرحمان جامی جن کا پورا نام مولانا نورالدین عبدالرحما ن جامی ہے اور ایک معروف صوفی شاعر ہیں ان کی رباعی کا یہ ایک مصرع ہے۔ پو ر ی رباعی کچھ یوں ہے۔
اے برُدہ گمان کہ صاحب تحقیقی
وندر صفت صدق ویقین صدیقی
اے وہ جو اپنے آپ کو دانشمند و عالم سمجھتے ہواور درستی اور یقین کی صفت میں سچا
ھر مرتبہ از وجود حکمی دارد
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
ہر مرتبہ کا احترام بجا لانے کا حکم ہے۔ اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو، توبے دین ہے
٭…٭…٭