حاصل مطالعہ

سال 2020ء میں انسانی حقوق کی پامالی میں مزید اضافہ ہوا… سالانہ رپورٹ ایچ آر ڈبلیو

(ادارہ الفضل کا اس کالم کے تمام مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں )

2020ءانسانی حقوق کی پامالیوںکےبارےمیں اٹھائے گئے اقدامات کے لحاظ سے غیر موثر سال رہا۔ عالمی ادارہ انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ کے حوالے سے DWکی خبر پیش ہے جس کا عنوان ہے کہ

’’کورونا کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہوئی، ایچ آر ڈبلیو‘‘

بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ چین، امریکہ، پاکستان، بھارت، ایران سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں کورونا وبا کے دوران انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہوا۔ بدھ کے روزجاری کی جانے والی اس سالانہ رپورٹ میں دنیا کے ایک سو سے زائد ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

امریکہ

ایچ آر ڈبلیو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے’’انسانی حقوق کے مقصد کو پوری طرح ترک کردیا۔‘‘

انہوں نے نو منتخب صدر بائیڈن سے اپیل کی کہ ٹرمپ نے امریکہ کے اندر اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسیوں کے ذریعہ بیرونی ملکوں کے حوالے سے حقوق انسانی کے متعلق جو رویہ اختیار کیا، اسے تبدیل کرکے اس کی اصل شکل میں بحال کریں۔

ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں داخلی امور کے حوالے سے ٹرمپ کے موقف پر بھی نکتہ چینی کی ہے۔ ان میں امیگریشن سے متعلق پالیسیاں، ماحولیاتی تبدیلی کو نظر انداز کرنا، ہم جنس کمیونٹی کے تحفظ سے متعلق قوانین کو کالعدم قرار دینا وغیرہ شامل ہیں۔

تنظیم نے امریکہ میں نسلی برابری کے لیے متحرک’بلیک لائیوز میٹر‘ کے مظاہرین کے ساتھ انصاف کرنے، پولیس کی زیادتیوں کا احتساب اور نسلی اصلاحات متعارف کرانے کی اپیل کی ہے۔

پاکستان

رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال کے دوران ’’حکومتی عہدیداروں اور پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والے حقوق انسانی کے علمبرداروں، وکلاء اور صحافیوں کو ہراساں کیا گیا جبکہ اپوزیشن کے اراکین اور حامیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ ‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام پسند جنگجوؤں نے قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں اور مذہبی اقلیتوں پر حملے کیے جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔

بھارت

ایچ آر ڈبلیو نے کہا ہے کہ سن 2020ء میں بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور دیگر افراد کو ہراساں کرنے اورجیلوں میں ڈالنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’بی جے پی حکومت نے سیاسی بنیادوں پر مقدمات دائر کیے۔ حقوق انسانی کے کارکنوں، طلبہ رہنماؤں، ماہرین تعلیم، اپوزیشن رہنماؤں اور دیگر ناقدین کے خلاف ملک میں غداری اور انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات دائر کیے گئے۔‘‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ’’گزشتہ برس فروری میں دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات اور جنوری 2018ء میں مہاراشٹر ریاست کے بھیما کورے گاؤں میں ذات پات پر تشدد میں بی جے پی کے حامی ملوث تھے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پولیس نے جانبدارانہ تفتیش کی جس کا مقصد مخالفین کو خاموش کرنا اور مستقبل میں حکومت کے خلاف مظاہروں پر قدغن لگانا تھا۔ ‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران بھارتی حکام نے غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق ضابطوں کی آڑ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو نشانہ بنایا۔

ایچ آر ڈبلیو کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ’’سن 2020ء میں مسلمانوں، اقلیتوں اور خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں کو روکنے کے بجائے بھارتی حکام نے حکومت مخالفت آوازوں کو دبانے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔‘‘

افغانستان اور ایران

ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میںکہا ہے کہ افغان فورسز، طالبان اور دیگر مسلح گروپوں کے درمیان گزشتہ برس کے ابتدائی نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔ افغان حکومت ’’جنسی زیادتی، اذیت اور شہریوں کی ہلاکت میں ملوث اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی جبکہ صحافیوں کو طالبان اور حکومتی عہدیداروں دونوں سے ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ ‘‘

چین اور روس

رپورٹ میں چین اور روس میں بھی انسانی حقوق کی ابتر صورتحال کا ذکر شامل ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام نے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ دوسری طرف امریکی پابندیوں کی وجہ سے ضروری ادویات تک ایرانی عوام کی رسائی متاثر ہوئی ہے اور ان کی صحت کے حق کو نقصان پہنچا۔

چین میں سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالنے اور ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کرنے پر بیجنگ پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ روس کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی آڑ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تیز کی گئیں، کئی نئی پابندیاں عائد کی گئیں اور پرائیویسی کے حقوق کو پامال کیا گیا۔

کورونا میں انسانی حقوق

ایچ آر ڈبلیو نے رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کیا اور بحران کے دور میں مالی امداد کو انسانی حقوق کا حصہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی اور ہالینڈ جیسے ممالک نے کورونا بحران کے دوران کم آمدنی والے لوگوں کی مناسب مالی مدد کی تاہم امریکہ جیسے دیگر ممالک میں یہ امداد معمولی یا عارضی تھی۔

اس رپورٹ کے حوالے سے معروف پاکستانی کالم نگار ممتاز عالم روزنامہ جنگ میں اپنے کالم انگیخت میں ’’انسانی حقوق پر منافقت‘‘کے عنوان سے پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کے باہمی جائزے اور اس پر سیاستدانوں اور میڈیا کے منفی طرز عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ

’’ہیومن رائٹس واچ کی سال 2020ء کی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کا پہلے سے بھی زیادہ شدید نوٹس لیا گیا ہے۔ مجال ہے کہ دونوں ملکوں کے حکام بالا کے کانوں پہ جوں بھی رینگے۔

البتہ دہلی اور اسلام آباد اپنی اپنی انسان کُشیوں پہ شرمندہ ہوئے بغیر انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں کے فریق مخالف پہ اٹھائے گئے شرمناک حقائق کو اپنی اپنی جارحانہ سفارت کاری کے لیے یکطرفہ طور پر استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یا پھر اپنے اپنے ملک پر کی گئی تنقید پر کیڑے نکالنے میں عافیت پانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ بھلا اپنی اپنی شرمساری کو چھپا کر دوسرے کی انسانی خلاف ورزیوں پر شور شرابے کو کون کیا وقعت دے گا۔ محاورہ ہے چھاج بولے تو بولے چھلنی بولے تو کیا بولے۔

انسانی حقوق کی پامالی پہ قومی منافقت سے کام چلنے والا نہیں لیکن پھر بھی دونوں ملکوں کی وزارت ہائے خارجہ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے، معاندانہ سفارتکاری کے پرانے شغف کو دہرانے میں مگن رہتی ہیں۔

قومی تشفی کے لیے خارجہ افسران بڑی عرق ریزی کے ساتھ ان نکات کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے دوسرے کے نقائص نکالنے کے کام آئیں۔ پھر یکطرفہ ڈھنڈورچی اور قومی متعصب میڈیا میدان میں اترتے ہیں اور اپنے اپنے قارئین اور ناظرین کو سرحد پار ہونے والی انسان سوزیوں پہ کف افسوس ملنے پہ اکساتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کے دکھوں پہ قومی صحافت چمکانے والے اپنے قارئین و ناظرین کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ خود ان کے حالات کسی بھی انسانی حق کے پیمانے پہ کتنے برے ہیں ؟

یوں سرحد پار کے دونوں اطراف دکھوں کی انسانی ایکتا جنم لیتی ہے۔ جیسے آج کل ہم بھارت میں جاری کسانوں کی فقید المثال تحریک کے حوالے سے پاکستان کے عوام میں بھارتی کسانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں دیکھتے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے کسان بھی اپنے دکھوں کے ازالے کے لیے ویسے ہی میدان میں اتریں جیسے بھارت کے شمالی صوبوں کے کسان اترے ہیں۔ سرحدوں کے آر پار جب مظلوم عوام اور دانشور اظہار یکجہتی کرتے ہیں تو اس سےقومی تعصب کی دیواریں گرجاتی ہیں اور قومی سلامتی کی ریاستوں کی پھیلائی قومی عصبیتیں دم توڑنے لگتی ہیں …۔

انسانی، شہری، سیاسی و معاشی حقوق کے اب عالمی پیمانے بن چکے ہیں جن کی کسوٹی پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کے حالات کو پرکھتی ہیں۔ اگر مختلف قوموں اور ملکوں کے لیے مختلف پیمانے استعمال ہونے لگیں تو انسانی حقوق کے عالمی نگران ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھیں۔

جب میڈیا کی آزادی کا جائزہ لیا جائے گا تو کیسے اس میں صرف پاکستان کو مطعون کیا جاسکے گا اور بھارت کو کلین چٹ دی جاسکے گی۔ ا گر بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین اور سفاکانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے تو اس کی مذمت تو کی جائے گی، اور جب براسلوک پاکستان کی منحنی سی اقلیتوں کے ساتھ ہوگا تو اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی طرح بہت سی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مسلسل مذمت کررہی ہیں۔ وہاں ہونے والے حالیہ مقامی انتخابات میں دھاندلیوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ پھر گلگت بلتستان میں ہونے والی انتخابی بے ضابطگیوں پر عالمی آبزرور کیسے آنکھیں موند سکتے ہیں ؟

دوہرے معیار کی سب سے بدتر مثال تو قومیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہے۔ جب مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہوئی تو بھارت نے مسلم بنگال کے حق خود ارادیت کا مسئلہ عالمی سطح پہ اٹھایا اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں ہر طرح کی مدد ہی فراہم نہیں کی بلکہ فوج کشی تک کی لیکن جب بھارت کشمیریوں کے ساتھ ویسا ہی جابرانہ سلوک کررہا ہے اورحق خود ارادیت مانگنے والوں کو تہ تیغ کرنے میں مصروف ہے تو بھارت میں اس قومی جبر کی مخالفت کرنے والوں کو دہشتگردوں کا ہمنوا اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسی طرح جب پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے لوگ حقوق مانگتے ہیں انہیں دشمن کی ہائبرڈ جنگ کا آلہ کار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی کے معاملے میں لگتا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں مقابلہ ہے۔ آخر انسانیت کی تذلیل کا یہ خوفناک سلسلہ کب ختم ہوگا۔ سرحدی تنازعات اور قومی دشمنی کے تاریخی ورثہ کے ہاتھوں اگر کوئی پس رہا ہے تو وہ برصغیر کے محنت کش عوام ہیں۔

بدقسمتی سے بڑی سیاسی جماعتیں بھی ابن الوقتی کا شکار ہیں جب کوئی اپوزیشن میں ہوتا ہے تو وہ حکومت وقت کو قومی مفادات کا سودا کرنے کا موجب قرار دیتا ہے اور برسراقتدار جماعت اپنی اپنی حزب اختلاف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر اپنی اپنی کوتاہیوں اور مظالم پر پردہ ڈالتی ہے۔

بھارت اور پاکستان میں سات دہائیوں سے یہی مضحکہ خیز لیکن المیاتی کھیل جاری ہے۔ آخر کب تک؟ کبھی تو انسانی حقوق کی تعظیم برصغیر کاطرہ امتیاز بنے گی۔‘‘(روزنامہ جنگ 17؍جنوری 2021ء صفحہ 25)

(ابو الفارس محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button