خدا کے خوف میں ترقی کرنے سے وہ پاکیزگی ملتی ہے جو مقصدِ پیدائش ہے
نفس تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک نفسِ امّارہ ایک لوامہ اور تیسرا مطمئنہ۔ پہلی حالت میں تو
صُمٌّ بُكْمٌ
ہوتا ہے۔ کچھ معلوم اور محسوس نہیں ہوتا کہ کدھر جا رہا ہے۔ امّارہ جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو تا ہےتو معرفت کی ابتدائی حالت میں لوامہ کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور نیکی میں فرق کرنے لگتا ہےگناہ سے نفرت کرتا ہے مگر پوری قدرت اور طاقت عمل کی نہیں پاتا۔ نیکی اور شیطان سے ایک قسم کا جنگ ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی یہ غالب ہوتا ہےاور کبھی مغلوب ہوتا ہےلیکن رفتہ رفتہ وہ حالت آجاتی ہے کہ یہ مطمئنّہ کے رنگ میں آ جاتا ہے اور پھر گناہوں سے نری نفرت ہی نہیں ہوتی بلکہ گناہ کی لڑائی میں یہ فتح پا لیتا ہے اور ان سے بچتا ہے اور نیکیاں اس سے بلا تکلّف صادر ہونے لگتی ہیں۔ پس اس اطمینان کی حالت پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے لوامہ کی حالت پیدا ہو اور گناہ کی شناخت ہو۔ گناہ کی شناخت حقیقت میں بہت بڑی بات ہے جو اُس کو شناخت نہیں کرتا اس کا علاج نبیوں کے پاس نہیں ہے۔ [(البدر سے) ’’یہ بات غلط ہے کہ کسی نبی یا ولی کے پاس جانے سے ایک دم میں ہی ایک پُھونک سے سب کچھ ہوجاتا ہے اور وہ ہدایت پاتا ہے۔ ہدایت تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے یہ نہ نبی کا کام ہے نہ کسی اَور کا‘‘(البدر جلد 2نمبر7 صفحہ 52مورخہ 6؍مارچ 1903ء)] نیکی کا پہلا دروازہ اسی سے کھلتا ہے(کہ) اوّل اپنی کورانہ زندگی کو سمجھے اور پھر بُری مجلس اور بُر ی صحبت کو چھو ڑکر نیک مجلس کی قدر کرے۔ اس کا یہی کام ہونا چاہیے کہ جہاں بتایا جائے کہ اس کے مرض کا علاج ہوگا وہ اس طبیب کے پاس رہے اور جو کچھ وہ اس کو بتاوے اس پر عمل کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہو۔ دیکھو بیما ر جب کسی طبیب کے پاس جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ طبیب کے ساتھ ایک مباحثہ شروع کر دے بلکہ اس کا فرض یہی ہے کہ وہ اپنامرض پیش کرے اور جو کچھ طبیب اس کو بتائے اس پر عمل کرے۔ [(البدر سے)’’اگر علاج اچھا ہو تو اس کے پاس رہے ورنہ نہیں۔ کیا اگر ایک بچہ ابتداہی میں اُستاد سے الف پر بحث کرے کہ یہ الف کیوں ہے تو وہ کیا حاصل کرے گا یہ تو بدبختی کی نشانی ہے۔ ‘‘(حوالہ ایضاً ایضاً)]اس سے وہ فا ئد ہ اُٹھائے گا۔ اگراُس کے علاج پر جر ح شروع کر دے تو فائدہ کس طرح ہوگا۔
انسان کی پید ائش کی علّتِ غائی
انسان کا فرض ہے کہ اس میں نیکی کی طلب صادق ہو اور وہ اپنے مقصد زندگی کو سمجھے۔ قرآن شریف میں انسان کی زندگی کا مقصدیہ بتا یا گیا ہے۔
مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57)
یعنی جن اور انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ جب انسان کی پیدائش کی علّتِ غائی یہی ہے تو پھر چاہیے کہ خدا کو شناخت کریں۔ جبکہ انسان کی پیدائش کی علّتِ غائی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے اور عبادت کے واسطے اوّل معرفت کا ہونا ضروری ہے۔ جب سچی معرفت ہو جاوے تب وہ اس کی خلاف مرضی کو ترک کرتا ہے اور سچا مسلمان ہو جاتا ہے۔ جب تک سچا علم پیدا نہ ہو کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھو جن چیزوں کے نقصان کو انسان یقینی سمجھتا ہے ان سے بچتا ہے مثلاً سمّ الفارہے جانتا ہے کہ یہ زہر ہے اس لیے اس کو استعمال کرنے کے لیے جرأت اور دلیری نہیں کرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا موت کے منہ میں جانا ہے۔ ایسا ہی کسی زہر یلے سانپ کے بل میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یا طاعون والے گھر میں نہیں ٹھہرتا۔ اگرچہ جانتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے منشاء سے ہوتا ہے۔ تاہم وہ ایسے مقامات میں جانے سے ڈرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ پھر گناہ سے کیوں نہیں ڈرتا؟[(البدر سے) ’’صرف یہی ہے کہ اس کو یقین نہیں ہے اور اس کو اس بات کا مطلق علم نہیں ہے کہ گناہ مُہلک ہے‘‘۔ (البدر جلد 2نمبر7مورخہ 6مارچ 1903ء صفحہ 52)]
انسان کے اندر بہت سے گناہ ایسی قسم کے ہیں کہ وہ معرفت کی خوردبین کے سوا نظر ہی نہیں آتے۔ جُوں جُوں معرفت بڑھتی جاتی ہے انسان گناہوں سے واقف ہوتا جاتا ہےبعض صغائر ایسی قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ ان کو نہیں دیکھتا لیکن معرفت کی خوردبین ان کو دکھا دیتی ہے۔
غرض اوّل گناہ کا علم عطا ہوتا ہے۔ پھر وہ خدا جس نے
مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ(الزلزال:8)
(فرمایا ہے)اس کو عرفان بخشتا ہے۔ تب وہ بندہ خدا کے خوف میں ترقی کرتا اور اس پاکیزگی کو پالیتا ہے جو اس کی پیدائش کا مقصد ہے۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 94تا96۔ ایڈیشن 1984ء)