ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری (قسط دوم۔ آخری)
بادشاہ ایڈورڈ ہشتم اور چرچ آف انگلینڈ
لگتا ہے کہ شہزادہ ایڈورڈ کے معاشقوں اور دیگر ناگفتنی افعال سے چرچ آف انگلینڈ نے خود کو لاتعلق رکھا لیکن وہ شہزادے کی مذہب سے غیر دلچسپی اور عدم روابط پر تشویش سے خالی نہ تھے کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ جس طرح یہ شہزادہ عوام میں مقبول ہے، کہیں اس کی وجہ سے چرچ کی حکومتی معاملات میں مداخلت اور اثر ورسوخ میں کمی نہ آجائے۔ کیونکہ اول اول یہی مشہورتھا کہ یہ شہزادہ عیسوی مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرانہیں ہے لیکن تخت پر بیٹھنے کے بعد تو یہ بھی کھلا کہ عمل پیرا تو ایک طرف، بادشاہ تو عیسوی مذہب کی تعلیمات و عقائد سے بھی منحرف ہے۔
ایڈورڈ ہشتم کے سوانح نگار Philip Zieglerنے لکھا ہے کہ ’’اگر کسی مسزسمپسن کا کوئی وجود نہ بھی ہوتا تب بھی بادشاہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک تناؤ اور جنگ مقدر تھی۔ ‘‘اپنے نکتہ نظر کی وضاحت میں یہ سوانح نگار مزید بتاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بڑی پختہ اور گہری اقدار ہوا کرتی تھیں اوران کے بارے میں محض سوال کرنے سے بھی بعض دفعہ آئینی سربراہان یعنی بادشاہوں کے لیے گھمبیر مشکلات کے طوفان آجایا کرتے تھے۔
مزید لکھا کہ’’ایڈورڈ ہشتم کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر اس نے ان لوگوں کے مفادات کےبالمقابل کھڑے ہونے کی کوشش کی یا ان لوگوں کی راہ روکنے کی کوشش کی جو خودکو سب سے برتر سمجھتے تھے تو وہ سب اس کے خلاف اکٹھے ہوجائیں گے۔ لیکن ایڈورڈ کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ آملیٹ انڈے توڑ کر ہی بنایا جاسکتا ہے۔ ‘‘
(Ziegler, King Edward VIII)
ایڈورڈہشتم کےبارےمیں مشہور قلم کار H G Wellsکا تجزیہ یہاں درج کرنا بھی مفید رہے گا۔ اس نے لکھا کہ
’’اس نے اپنے ہر فعل سے ثابت کیاکہ گووہ ایک نہایت جدت پسند ذہن کا مالک ہے۔ لیکن وہ اپنی سوچ کو پس پشت بھی ڈال سکتا ہے۔ وہ رسم و تکلف سے بے نیاز غیر روائتی شخص تھا، تبھی تو اس میں اتنی جرأت تھی جو اس نے سماجی امور کے متعلق نہایت بے چین کردینے والے سوالات کو اٹھایااوران کے جواب کی تلاش کی…‘‘
(Baltimore News Post, 9 December 1936)
اس تمام تر تناظر میں چرچ آف انگلینڈ اس نئے بادشاہ کی تخت نشینی پر تشویش کا شکارتھا کیونکہ نیا بادشاہ سوچ سمجھ رکھنے والا اور سوال اٹھانے والا شخص تھا، اور ہر سنی سنائی پر بغیر سوچے سمجھے یا بغیرسوال کیےیقین کرنے کا عادی نہ تھا۔ وہ ایسی دلیل سن کر دنگ رہ جاتا کہ ’’فلاں کام اس وجہ سے نہیں ہوسکتا کیونکہ آج تک کسی نے کیا ہی نہیں۔ ‘‘
(Ziegler, King Edward VIII)
ان مذکورہ بالا خصوصیات کے حامل شخص کو تخت نشین دیکھ کر Cosmo Lang آرچ بشپ آف کنٹبری نے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس شاطر اور ہوشیارشخص نے ایک طرف تو بادشاہ کی تخت سے دستبرداری میں مرکزی کردار ادا کیا اوردوسری طرف خود کو اس طورپر پیش کیا جیسےاس کو حکومت اور بادشاہت کے درمیان ہونے والی راج نیتی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔
جب آرچ بشپ کو اس کے مشیر اعلیٰ Alan Don نے رپورٹ دی ہوگی کہ نئےبادشاہ کو عیسائی رسوم و رواج سے کوئی علاقہ نہیں اور وہ اینگلیکنعیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے۔ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آرچ بشپ پر کیا گزری ہوگی۔ اس نے آرچ بشپ کو بتایا کہ’’یہ اطلاع مجھے ایک ایسے بشپ نے دی ہے جو کابینہ کے ایک رکن سے گفتگو کرتا رہا ہے…‘‘
(Alan C Don‘s diaries, Lambeth Palace Library, MS 2864, 19 February 1936)
آرچ بشپ کے مشیر اعلیٰ کا مذکورہ بالا بیان شاہ برطانیہ ایڈورڈ ہشتم کے دور بادشاہت کے بالکل آغاز میں متنبہ کرنے کے لیے سامنے آیا، ورنہ ایڈورڈ کی عیسوی مذہب سے دوری تو برسوں قبل ہی بالکل عیاں تھی۔
کیونکہ ایڈورڈ کا اپنا اقرار موجود ہے کہ’’مجھےپروٹسٹنٹ عقائد سے کچھ خاص شناسائی اور لگاؤ نہ تھا حالانکہ میں اپنے روز پیدائش سے ہی اس عقیدہ کا محافظ بننے کے لیے پروان چڑھایا گیا تھا۔ ‘‘
(Edward, A King‘s Story)
ایڈورڈ ہشتم اپنی تخت نشینی کے ابتدائی دنوں سے متصادم خیالات اور جذبات سے دوچار رہا۔ اور ان ملے جلےجذبات کے اظہار نے آرچ بشپ کی پہلے سے موجود بےچینی اور فکرمندی میں بےحد اضافہ کردیا۔
بادشاہ کو علم تھا کہ اس کی رعایا میں یہ پختہ تاثرپایا جاتا ہے کہ ہماراموجودہ بادشاہ ترقی پسند ہے اور لوگوں نے اسے اپنی امیدوں کا مرکز بنا کر ایک تبدیلی کی آس لگالی ہے۔
ان دنوں کو یاد کرکے ایک موقع پر بادشاہ ایڈورڈ نےبہت برسوں بعد اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ’’رفتہ رفتہ مجھ پر یہ عیاں ہوتا چلا گیا کہ ملک میں بادشاہت کے پہلے سے قائم اور رائج تقاضوں کو نبھاتے ہوئے تو میں اپنی عوام کی توقعات کو کبھی بھی پورا نہیں کرپاؤں گا۔ کیونکہ میرے والد کے زمانہ ٔبادشاہت میں رواج پانے والےرسوم ورواج تو انتہائی قدامت پسندتھے۔ مگر میرے ارادے مجھے اکساتے تھے کہ مروّجہ طریق کو بدل کر ہی میں پہلے کی طرح عوام کے لیے کچھ کر سکتا ہوں۔ ‘‘(Edward, A King‘s Story)
بادشاہ ابھی اپنے طرز حکمرانی کے متعلق اسی ادھیڑ بُن میں مصروف تھا کہ اس کی آرچ بشپ سے پہلی ملاقات کا وقت آن پہنچا۔ یہ جارج پنجم کی وفات سے محض ایک دن بعد کا واقعہ ہے۔ لیکن اس پہلی ملاقات کے دوران ہی چرچ آف انگلینڈ کے ان دونوں سپوتوں کے درمیان بداعتمادی اور مخاصمت کی وہ دراڑ پڑ گئی جو رفتہ رفتہ ایک خلیج میں بدل جانے والی تھی۔
آرچ بشپ Cosmo Lang نے اپنے اس روز کے روزنامچہ میں اس ملاقات کا احوال ان الفاظ میں درج کیا:
’’میری بادشاہ سے طویل گفتگو ہوئی۔ میں نے بادشاہ سے برملا اظہار کیا کہ مجھے علم ہے کہ آپ مجھ سے نالاں رہے ہیں کیونکہ آپ کے والد گرامی مجھ سے آپ کے معاملات میں تبادلہ خیال کر لیا کرتے تھے… بادشاہ ایڈورڈ نے اس بے تکلفی کو قطعاً پسند نہ کیا اور کہنے لگا کہ ہمیشہ سے ہی تخت شاہی پر براجمان اور اس کے ولی عہد کے درمیان مشکلات پیدا ہوتی رہتی ہیں …‘‘
(Cosmo Lang Papers, Lambeth Palace Library, Vol 223)
بشپ اور بادشاہ کی اس ملاقات کے بعد بادشاہ کی طرف سے لکھے گئے روزنامچہ سے بھی قریباًیہی معلومات ابھرتی ہیں۔ سوائے ان منفی پہلوؤں کے، جنہوں نے دونوں کے باہمی تعلق میں جگہ بنالی تھی، دیگر احوال کا اظہار بادشاہ نے اپنی مطبوعہ یادداشتوں میں یوں کیا:
’’یہ بات کسی کو بھی پسند نہیں آسکتی کہ اس کےکسی طرز عمل سے یہ نوبت آجائے کہ وہ اپنے والد اور کسی غیر کے لیے موضوعِ گفتگو بن جائے۔ خیر! آرچ بشپ نے ماضی میں میرے والد کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کا تذکرہ کرکے ایک نہایت نامناسب حرکت کی ہے، اور بطور خاص جب ایک آرچ بشپ پہلی دفعہ نئے تخت نشین بادشاہ سے تعارفی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہو۔ ‘‘(Edward, A King‘s Story)
آرچ بشپ نے اپنے بیان میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ ملاقات مکمل طور پر خوشگوار ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ لکھا کہ ’’یہ بالکل عیاں تھا کہ بادشاہ کی معلومات محدود ہیں۔ اور مجھے اندیشہ ہے کہ بادشاہ کو چرچ اور اس کے معاملات کی کوئی خاص پرواہ بھی نہیں ہے۔ ‘‘
(Lang Papers, Lambeth Palace Library, Vol 223)
ادھربادشاہ نے اپنے روزنامچہ کے اختتام پر اس میٹنگ کے حوالہ سے لکھا کہ’’ اس پہلی ملاقات سے ہی مجھے لگتاہے کہ مجھے آئندہ ایک ایسا جھگڑا درپیش ہوگا جس میں صلح کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘(Edward, A King‘s Story)
شواہد بتاتے ہیں کہ آرچ بشپ Langنے تو پھر سرگرم اور متحرک رہتے ہوئے بادشاہ کے خلاف مورچہ سنبھالے رکھا اور ہر اس آدمی سے رابطہ رکھا جہاں سے اسے بادشاہ کے خلاف ایک ذرّہ بھی مدد یا معلومات ملنے کی توقع تھی۔ اس کے سر پر بس ایک ہی بھوت سوار ہوگیا تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو میں نے بادشاہ کو تخت سے اتارکر ہی دم لینا ہے۔ بشپ کو شاہی محل کے اس عملہ سے کافی امیدیں تھیں جن کو بادشاہ سے معمولی سابھی اختلاف رائے ہوتا یا جو لوگ بادشاہ کی مخالفت کرنے والوں کے حامی معلوم ہوتے۔ بالخصوص وہ افراد جنہیں بادشاہ نے تخت نشین ہونےکے بعد یا تو نوکری سے برخاست کردیا تھا، یا ان کے مراتب گھٹا دیے تھے۔ ایسے لوگ محل سے نکلتے تو سیدھابشپ سے ملنے پہنچتے اور اس رسہ کشی میں بشپ کے مددگار بن جاتے۔
قبل ازیں جس طرح شہزادے کے پرائیویٹ سیکرٹری Lascellesنے شہزادے کے متعلق باتیں خلافِ ضابطہ اور خلافِ اخلاق وزیر اعظم بالڈوِن تک پہنچائی تھیں، اسی طرح اب کی بار Admiral Lionel Halsey وہ پیادہ تھا جس نے بادشاہ اور محل سے بے وفائی کرتے ہوئے آرچ بشپ کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جس لمحے بادشاہ نے Admiral Lionel Halseyکو اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ سے برطرف کیا، تو وہ سیدھا محل سے نکلا اور چرچ کے ہمنواؤں میں شامل ہوگیا۔ اس کی آرچ بشپ سے ملاقاتوں کی تفصیل اور ان کی باہمی خط و کتابت کا اصل ریکارڈ Lambeth Palace کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ یہ شخص بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ممتاز منصب پر تعینات تھا، مگر اس کی بےدخلی کے بعد جلد ہی اس کی جگہWighamکا تقرر ہوگیا۔
اب Admiral Lionel Halseyکے خطوط بنام آرچ بشپ Cosmo Langکا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی معلومات بادشاہ کے نئے پرائیویٹ سیکرٹری Wigham سے حاصل کردہ ہوتی تھیں۔ اس سے تو یہی خیال ابھرتا ہے کہ بادشاہ کے ذاتی عملہ میں بھی یہ لوگ بے وفا اور کچے دھاگے ثابت ہوئے جو شاہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے وفادار بننے کی دوڑ میں شریک ہوتے چلے گئے۔ ان خطوط کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ نیا پرائیویٹ سیکرٹری صرف چرچ کے نمائندگان کو ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم بالڈون کو بھی محل کے اندر کی خبروں سے آگاہ رکھا کرتا تھا۔
اسی وجہ سے لارڈ Linlithgow وائسرائے ہندوستان نے اپنے سفر لندن کے دوران وزیر اعظم اور آرچ بشپ سے اپنی ملاقات کے دوران ملک میں جاری صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تو عقدہ کھلا کہ اب اسٹیبلشمنٹ نےبادشاہ کے خلاف اس مہم جوئی میں سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ممالک کو بھی اعتماد میں لینا شروع کردیا تھا کیونکہ بالڈون اور آرچ بشپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وقت آنے پر یہی زیر نگین ممالک بادشاہ کے خلاف ہمارا کارگر ہتھیار ہوں گے۔
الغرض بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت نشینی کے معاً بعد ہی حکومت وقت اور چرچ آف انگلینڈ نے اکٹھ کر لیا کہ ہم نے ہر جائز و ناجائز راہ اختیار کرکے اس نئے بادشاہ کو رخصت کرکے ہی دم لینا ہے۔ کیونکہ یہ نیا بادشاہ ہمارے مخصوص عزائم کی راہ میں روک ہے، یوں حکومت وقت اور چرچ آف انگلینڈ کے ناواجب اتحاد سے وجود پکڑنے والی یہ اسٹیبلشمنٹ بادشاہ وقت کے خلاف سازشوں پر کمربستہ ہوگئی۔ اورادھر یہ نیا بادشاہ بھی اپنی بے نیازی میں حد سے بڑھا ہوا تھا اور ان مخالفین کو اپنے خلاف مواد کی فراہمی میں ذرا بھی تعطل نہیں آنے دے رہا تھا۔ مثلاً ایڈورڈ نے زمام حکومت سنبھالتے ہی اپنے والد جارج پنجم کے مستقل طرز عمل کے برعکس چرچ آف انگلینڈ کےخیراتی اداروں کوخطیر رقوم کی ادائیگی روک دی۔ پھر پادریوں نے آرچ بشپ تک شکایت پہنچائی کہ یہ نیا بادشاہ تو شاہی محل کے گرجا گھر میں عبادت سے غیر حاضر رہتا ہےیوں سب لوگوں کا یہ شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ’’نئے بادشاہ کو عیسائی مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ‘‘
(Diaries and Papers of Rev Alan C Don, Lambeth Palace Library,)
(مارچ 1936ء کی متعدد تواریخ کے تحت)
بادشاہ اور چرچ آف انگلینڈ کے درمیان اعتمادکی فضا اتنی آلودہ ہوچکی تھی کہ معمولی سے معمولی بات بھی آرچ بشپ کو پہنچائی جاتی تھی مثلاً ایک دفعہ خبر بھیجی گئی کہ’’شاہی محل کے گرجےمیں ہونے والی عبادت کے دوران بادشاہ بہت بےچین اور بےقرار نظر آرہا تھا۔ ‘‘(ایضاً)
Launcelot Percival شاہی محل کے گرجا گھر میں عبادات کروانےکی اہم ذمہ داری پر تعینات تھا اور ایڈورڈ ہشتم کی تخت نشینی تک اپنی مدت ملازمت کے 14برس مکمل کرچکا تھا۔ لیکن اس کی وفاداری کا یہ عالم تھا کہ وہ بادشاہ کی ہر حرکت و سکون کی اطلاع آرچ بشپ تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا مثلاًاس نے خبر بھیجی کہ بادشاہ اور مسزسمپسن رات کو دیر تک باہر گھومتےرہے، پھر مخبری کی کہ بادشاہ مسزسمپسن پر قیمتی تحائف نچھاور کرتا ہے۔ (ایضاً)
اب شاہی محل سے آرچ بشپ تک پہنچائی جانے والی یہ خبریں کتنی ہی لایعنی اور بودی ہوں، لیکن اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کرنا آسان ہورہا ہے۔
آرچ بشپ آف کنٹبری کی سرکاری رہائش گاہ Lambeth Palace کے شعبہ آرکائیوز میں محفوظ امریکی اخبارات کے تراشوں کے انبار آرچ بشپ کا ایڈورڈ ہشتم اور مسزسمپسن کے معاملے میں حد سے زیادہ تجسس عیاں کررہے ہیں، کیونکہ ان دنوں میں امریکہ میں ذرائع ابلاغ کے لیے شاہ برطانیہ کایہ معاشقہ اوراس سے جڑی ضروری و غیر ضروری باتیں ہی اخبارات کا پیٹ بھرنے کا سامان بنی ہوئی تھیں۔ اور آج ان اخباری تراشوں کے انبار کے ساتھ ساتھ مزید دلچسپی اور حیرت کا سامان آرچ بشپ کے نام لکھے گئے وہ خطوط ہیں جو تراشے بھیجنے والے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ یقیناً یہ خطوط بادشاہ کے بارے میں چرچ آف انگلینڈ کی سخت بےچینی اور اس صورت حال کی سنگینی کو بھی عیاں کررہے ہیں۔
نئے بادشاہ کے آنے سے ملک میں بدلتی ہوئی صورت حال سے پریشان آرچ بشپ کواپنی سب سے زیادہ تضحیک اور تذلیل کا احساس تب ہوا جب اسے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی طرف سے مشاورت میں شامل کرنے کا کوئی اشارہ نہ ملا، حالانکہ اس سے قبل جارج پنجم کے دور بادشاہت میں آرچ بشپ کوہر معاملے میں مشاورت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ آرچ بشپ کے لیے یہ سب سے تشویش ناک امر تھا۔ اس صورت حال میں آرچ بشپ کو حکومتی امور پر اپنی گرفت ڈھیلی ہوتی محسوس ہوئی۔ ادھر حکومت بھی اسی تشویش کا شکار تھی۔
مذکورہ بالا تاریخی واقعات اور حقائق کی روشنی میں بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اس موقع پر چرچ آف انگلینڈ اور برطانیہ میں وزیر اعظم بالڈوِن کے زیر قیادت حکمران طبقےکو شدت سےاحساس ہوا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم دونوں مزید نقصان سے بچنے کے لیے اپنے ہی بادشاہ کو رخصت کرنے کی سوچیں۔ ایسانہ ہو کہ پانی سر سے مزید گزر جائے۔ یوں دنیا نے دیکھا کہ سلطنت برطانیہ کی دو طاقتور ترین اکائیوں نے خطرناک گٹھ جوڑ کیااورمنافقت کا خطرناک ترین اورمہلک ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے بادشاہ کے خلاف سازشوں میں متحد ہوگئے۔
چرچ اور حکومت کا بادشاہ کے خلاف گٹھ جوڑ
چرچ آف انگلینڈ اور حکومت برطانیہ کے اتحاد سے وجود پکڑنے والی اسٹیبلشمنٹ نے ہر قانونی اور اخلاقی ضابطے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شاہ برطانیہ ایڈورڈ ہشتم کو راہ سے ہٹانے کی ٹھانی، اور نہایت بدلحاظ ہوکر اپنےملک کے بادشاہ کے خلاف ہی مورچہ زن ہوگئے۔ یہ تک بھول گئے کہ ملک پر حکمرانی کے لیے صدیوں سے رائج نظام کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی تیسری اکائی یہی بادشاہت ہے جس کی دشمنی میں وہ سب اخلاقیات فراموش کیے بیٹھے ہیں۔
اس وقت تک امریکی پریس میں بادشاہ اور مسزسمپسن کے معاشقے کی بار بار اور طرح طرح کی خبروں کی بدولت ہر طرف اسی معاملہ کے چرچےعام ہوچکےتھے۔ یہی وہ موقع تھا جب برطانیہ میں اسٹیبلشمنٹ نے پریس کے ہتھیار کو اپنے ہاتھ میں لےکر اسے بادشاہ کے خلاف موثر ترین رنگ میں استعمال کرنے کی ٹھانی اور اپنے بادشاہ کی بدنامی کے لیے ملکی اخبارات و رسائل کو وسیلہ بنا لیا۔ اس مرحلےپرملک کے سب سے مشہور اور وسیع ترین اشاعت والے روزنامے The Times کے مدیرGeoffrey Dawson کے ساتھ آرچ بشپ آف کنٹبری کی خفیہ ملاقات ہوتی ہے، جو کسی بھی طرح معمولی، روایتی یا نظر انداز کرنے والی بات نہ تھی اور اس سے یہ بھی کھل کر سامنے آتا ہے کہ تب ملک کے قریباًتمام مؤثر ادارے کس طرح بے بس ہوکر آرچ بشپ کے سامنے دست بستہ کھڑے تھے اوروہ ان کو بےجان پتلیوں کی طرح اپنی مرضی سے نچا رہا تھا۔ اب یہاں کسی کو اگر ہمارے بیان پر شبہ گزرے تو وہ آرچ بشپ اور ایڈیٹر کی ملاقات کا احوال اور تفصیلات Lambeth Palace Library, Bodleian Library اور Oxford Universityمیں جاکر بآسانی خوددیکھ اور پرکھ سکتا ہے۔
آرچ بشپ نے دی ٹائمز کے مدیر سے اپنی اس ملاقات کا احوال اپنی ڈائری میں یوں لکھا:
’’میری اس کے ساتھ ایک طویل اور خفیہ ملاقات ہوئی جس میں اس نے مجھے بتایا کہ بہت ممکن ہے کہ دی ٹائمز بہت جلد اس معاملے میں مداخلت کرے گا۔ ‘‘
عین ضرورت کے وقت اس کرم فرمائی پر آرچ بشپ بھی مؤقر اخبار کے مدیرکا اس قدر ممنون ہوا کہ اگلے ہی دن یعنی 12؍نومبر1936ء کوایک خط بھی لکھ ڈالا۔ اس خط کا نصف ورق تو کاٹ دیاگیا ہے لیکن باقی ماندہ ورق مع تحریر Lambeth Palaceکی لائبریری کی الماری میں آج بھی موجود ہے۔ جس پر درج ہے کہ
’’مجھے یہ بتانے کی قطعاً حاجت نہیں کہ میں گذشتہ روز آپ سے ہونےوالی خفیہ گفتگو پر کتنا ممنون ہوں۔ میں آپ سے مل کر اور دیگر ذمہ دار افراد سے رابطوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ بات انتہائی ضروری ہوچکی ہے کہ جلد تر کچھ ایسی کارروائی ہو جس سے صورت حال کا ازالہ ہوسکے۔ اب میں تو صرف امید ہی کر سکتا ہوں کہ وزیر اعظم جلد تر کوئی فیصلہ کن اقدام کریں گے۔ ‘‘
(Cosmo Lang Papers, Lambeth Palace Library, Vol 129)
اب بظاہر اس خط سے ’’دیگر ذمہ دارافراد‘‘کی تعیین نہیں ہورہی، البتہ وزیر اعظم بالڈوِن کا نام واضح طور پر درج ہے۔ سو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اُس زمانہ میں آرچ بشپ نے ملک کی ہر اہم شخصیت کو اپنی مٹھی میں قید کررکھا تھا اور ہر طرف اسی کا سکہ چلتا تھا۔
درج بالا حوالے سے ظاہرہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اخبار کا مدیر آرچ بشپ کے بعد وزیر اعظم بالڈون سے بھی جاکر ملا، اور وزیر اعظم کو بھی بادشاہ کی وجہ سے پیداشدہ صورت حال کی وجہ سے اتنا ہی فکرمند اور مضطرب پایا۔
(Geoffrey Dawson Papers, Bodleian Library, University of Oxford, V 55)
یوں ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے گویا برطانوی اخبارات کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ زرد صحافت کے سہارے بادشاہ کے بارے میں طرح طرح کی سنسنی خیز کہانیاں چھاپنا شروع کردیں تا اصل معاملات عوام کی نظر سے اوجھل رہیں۔
یہاں حضرت مصلح موعودؓ کا تجزیہ درست ترین ثابت ہورہاہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے مسزسمپسن کی کہانی تو محض بہانہ بنانے کے لیےتراشی تھی، کیونکہ آرچ بشپ نے نہایت مہارت اور چالاکی سےبادشاہ کے معاملہ میں ایک جال بنا تھا اور سب کردار آرچ بشپ کی عین مرضی کے مطابق پھنستے چلے گئے۔
بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے علیحدگی کے معاً بعد لکھا گیا آرچ بشپ کا درج ذیل خط اس کے طرز عمل کا عکاس ہے:
’’جیسے جیسے مہینے گزرتے گئے، اور بادشاہ کے مسزسمپسن کے ساتھ تعلقات مزید بدنامی کا باعث بنتے گئے۔ مجھ پر میرے ضمیر کا بوجھ بڑھتا جاتا کہ مجھے ایسے شخص کو بطور بادشاہ تخت پر بٹھانا ہے۔ ‘‘
(Cosmo Lang Papers, Lambeth Place Library, Vol 223)
اپنے اس خط میں اس نے مزید لکھا کہ ایڈورڈ کی رسمِ تاجپوشی ایسے ہی تھی جیسے:
’’گویاتمام مقدس الفاظ کسی اندھیرے کنویں میں پھینک دیے جائیں۔ ‘‘یہ وہ بات تھی جو کہ آرچ بشپ نے اپنے ایک قریبی ساتھی کو لکھی۔ ایسے الفاظ کہنے کی وجہ نہ صرف اس کایہ ارادہ تھا کہ بادشاہ کی تاجپوشی نہ ہونے پائے، بلکہ بالڈوِن کےان ارادوں سےملتے جلتے ارادوں کی تکمیل بھی جو بالڈون نے کئی برس اپنے ان الفاظ میں ظاہر کیے تھے کہ’’اگر کبھی وہ تخت نشین ہوا تو…‘‘(ایضاًجلد318)
بادشاہ کے خلاف محاذ آرائی کی کہانی میں آگے چل کر یہ نظر آتا ہے کہ آرچ بشپ نے چرچ آف انگلینڈ کے تمام عمائدین کو اعتماد میں لینے کی ٹھانی تا وہ فیصلہ کُن اقدامات کے لیے راہ ہموار کرسکے۔ اس نےچرچ کے ان سب Bishopsکو اپنے کمرہ میں طلب کیا، جہاں کی سب کھڑکیاں مضبوطی سے بند کر دی گئی تھیں۔ ماحول کی سختی اور گرانی سب حاضرین محسوس کررہے تھے۔ آرچ بشپ کےماتحت کام کرنے والا بشپ Herbert Henson بہت عرصہ بعد بھی اس دن کو یاد کرکے رازداری کے اس انوکھےانداز پر حیران ہوتا تھا۔
گو اس خفیہ اجلاس کی کوئی کارروائی ضبط تحریر میں نہ لائی گئی تھی لیکن بشپ Herbert Hensonکی ڈائری کے اوراق اندر کی کہانی سنانے کے لیے کافی ہیں۔ اس نے لکھا کہ سب سے پہلے ہمیں آرچ بشپ نے تاجپوشی کے بارے میں بتایا اور پھر کہا:
’’جب بادشاہ خود ہی یہ ظاہر کررہا ہے کہ اسے تاجپوشی کی تقریب میں مذہبی رسومات کے علاوہ سب کچھ قبول ہے، تو اس صورت میں یہ بالکل قابلِ قبول نہیں کہ ایسے بادشاہ کی تاجپوشی کر کے قوم میں ہیجان پیدا کیا جائے۔ ‘‘
(Bishop Henson Papers, Durham Cathedral Library, under 17 November 1936)
آرچ بشپ کے مذکورہ بالا بیان میں دراصل بادشاہ کے اس ارادہ کی طرف اشارہ تھا کہ وہ تاجپوشی کی رسم کے موقع پر مذہبی رسوم ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ جبکہ یہ مذہبی رسومات برطانوی شاہی خاندان کی تاریخ میں تاجپوشی کا محورہیں۔ بادشاہ ایڈورڈنے تخت شاہی کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اس میٹنگ کی کارروائی کی بھی صدارت کی جس کے سپرد تاجپوشی کی تقریب کے انتظامات کو مکمل کرنا تھا اور اسی کمیٹی کی نظر میں تاجپوشی کے موقع پر عیسائی مذہب کے مطابق رسومات کی ادائیگی بھی ضروری تھی جبکہ بادشاہ کو اس سے اتفاق نہ تھا۔ تب آرچ بشپ نے اپنی تمام تر توانائیاں اس بات کی اہمیت اجاگر کرنے میں صرف کردیں کہ تاجپوشی کے موقع پر عیسائی مذہب کے مطابق شاہی رسومات کی تکمیل لازمی ہے جبکہ بادشاہ ان رسومات کو غیر ضروری اور فضول قرار دےکر ان کی ادائیگی پر رضامندنہ تھا۔
(Edward Owens, The Family Firm: Monarchy, Mass Media and the British Public 1932- 53, University of London Press)
مؤرخین اور سوانح نگارمتفق ہیں کہ’’آرچ بشپ کی طرف سے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے خلاف الزامات کی طویل فہرست میں تاجپوشی کے موقع پر مذہبی رسوم کی عدم ادائیگی محض ایک معاملہ تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر آرچ بشپ نے بادشاہ کو تخت شاہی سے دستبردار کرواکراپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ مبادا یہ نیا بادشاہ ملک میں کوئی جدت اور تبدیلی لے آئے۔ کیونکہ ملک میں کوئی بھی بہتری، تبدیلی اور جدت نہ تو چرچ آف انگلینڈ کے لیے قابل قبول تھی اور نہ ہی ملک میں سرگرم عمل مقتدر حلقے کسی تبدیلی کو برداشت کرنے والے تھے۔ ‘‘
(ایضاً)
اس مشکل ترین مرحلے پر شاہ برطانیہ ایڈورڈ ہشتم نے ہر ممکن طریق اختیار کیا جس کی اسے قانون کے تحت اجازت تھی اور تخت شاہی پر قائم رہا۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ملکی قانون کے اندر رہ کر ایک مطلقہ مسزسمپسن سے شادی کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے اسٹیبلشمنٹ کے جذبات کے احترام میں اس حد تک لچک دکھائی کہ وہ مسزسمپسن سے morganatic شادی کے لیے بھی تیار ہے۔ جس کا مطلب تھا کہ مسزسمپسن قانونی طور پر تو بادشاہ کی اہلیہ ہوں گی لیکن ملکہ معظمہ کے شاہی خطاب کی حامل نہیں اور نہ ہی ان دونوں کی اس شادی سے ہونے والی اولاد کو تخت نشینی کی فہرست میں شامل سمجھاجائے گا۔
مگر وزیر اعظم بالڈوِن نے اس معاملے کے اس حل کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور آج یہ صاف عیاں ہوچکا ہے کہ بادشاہ کے مقابل پر اس طرح کے فیصلوں میں وزیر اعظم بالڈون اکیلا نہ تھا بلکہ اس کا گٹھ جوڑ کہیں اور چل رہا تھا۔ کیونکہ آرچ بشپ کا مطالبہ تھا کہ بادشاہ کو’’جلد از جلد‘‘ تخت سے ہٹایا جائےاور اپنی اس خواہش کا برملا اظہار اس نے بالڈوِن کے نام جس خط میں کیا تھا اس کے لفافے پر لکھا تھا:’’ذاتی۔ خفیہ‘‘
(Stanley Baldwin Papers, Cambridge University Library, Vol 176, 25 Nov 1936)
اس خط کی اختتامی سطور پر درج تھاکہ’’اب ہماری مشترکہ تشویش اور مشترکہ امید ہی اس خط میں درج مطالبہ کی اصل بنیادہے۔ ‘‘(ایضاً)
ادھربرطانوی پارلیمنٹ کے اندر ایسا نہ تھا کہ سبھی ممبرانِ پارلیمنٹ بالڈوِن کے حلیف تھے۔ متعدد وزراء مثلاً ونسٹن چرچل وغیرہ تھےجن کے پہلو میں نہ صرف بادشاہ کے لیے نرم گوشہ تھا بلکہ وہ اس نئے بادشاہ کے ہمدرد تھے۔
(Montgomery Hyde, Baldwin: the Unexpected Prime Minister, Hart-Davies, MacGibbon, London, 1973)
گو ملک کا ایک مؤقر اخبار دی ٹائمز تو اسٹیبلشمنٹ کاہمنوا بن چکا تھا، لیکن اس کشمکش کے عرصہ میں ملک کے زیادہ مقبول اور معروف اخبارات بادشاہ کے حامی و ہمدرد تھے۔ عوام ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ ان کا نیا بادشاہ تخت چھوڑ کر جائے کیونکہ ان کی نظر میں مسزسمپسن والا معاملہ خاص قابل ذکر اور اہمیت کے لائق نہ تھا۔ اقتدار اور اثر و رسوخ کی اس تگ و دو کے ایام میں یہ امکان بھی زیرِ بحث آتا رہا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر کچھ وزرا ءمل کر’’بادشاہ کی پارٹی ‘‘کی بنیاد رکھ دیں گے۔ لیکن اس طرح کی کسی بھی غیر روایتی کوشش کے سامنے خود بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کھڑا تھا کیونکہ اسے اپنے ملک اور سلطنت کا مفاد زیادہ عزیز تھا۔ وہ اپنے ذاتی معاملہ کے لیے ملک میں تقسیم اور تفریق کا بیج بونے کے حق میں نہیں تھا۔
پھر2؍دسمبر1936ء کی وہ بوجھل شام آن پہنچی جب وزیر اعظم برطانیہ بالڈوِن خود چل کر بادشاہ سے ملاقات کے لیے شاہی محل حاضر ہوااورعرض کی کہ اب معاملہ ہنگامی توجہ کا متقاضی ہے۔ فوری اور حتمی فیصلہ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے بادشاہ کے سامنے درج ذیل تین تجاویز رکھیں۔
اول:بادشاہ مسزسمپسن کو چھوڑ دے۔
دوم: بادشاہ مسزسمپسن سے morganaticشادی کرلے جس کے بعد وہ بادشاہ کی قانونی بیوی تو ہوگی لیکن ملکہ کا خطاب نہ مل سکے گا(ساتھ یہ بھی بتادیا کہ کابینہ اورنوآبادیات اس تجویز کو رد کرچکے ہیں )۔
سوم: بادشاہ تخت شاہی کو چھوڑ کر الگ ہوجائے۔
بالڈوِن کو پہلے ہی علم تھا کہ بادشاہ اب صرف تیسری تجویز پرعمل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ بالڈون نے اگلی صبح ہی آرچ بشپ سے ملاقات رکھی جس میں گذشتہ شام بادشاہ سے ہونے والی ملاقات کا احوال پیش کیا، کیونکہ ان کو پختہ یقین تھا کہ وہ دونوں اب بالآخر بادشاہ وقت کو راہ سے ہٹانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
شاہ برطانیہ ایڈورڈ ہشتم نے جب دیکھا کہ اس کے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اب اس کو تخت شاہی پرموجود رہنے نہیں دے گی، اس نے خود ہی تخت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
بادشاہ نے 10؍دسمبر کو تخت شاہی سے الگ ہونے کے سرکاری کاغذ پر دستخط کیے اور اگلے روز 11؍دسمبر 1936ء کو ملکی ریڈیو پر نشر ہونے والے اپنے پیغام کے ذریعہ عوام الناس کے لیے اس فیصلہ کا اعلان کیا۔
آزادیٔ اظہار کے علمبرداروں سے سوال
بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے تخت چھوڑنے کے اس واقعہ کی تحقیق کے دوران جن دستاویزات اور سرکاری اور غیر سرکاری کاغذات کو تلاش کرنے اور پرکھنے کا موقع ملا، ان سے یہ ناخوشگوار تاثر ابھرتا ہے کہ کس بے دردی سے شاہ برطانیہ کو برطانوی اسٹیبلشمنٹ نےپہلے الگ کرکے دیوار سے لگادیا اور پھراسے راہ سے ہی ہٹا دیا۔
شاہ ایڈورڈ ہشتم کا ارادہ تھا کہ وہ اپنی عوام کو درست حالات سے واقف کرنے کے لیے قوم سے بذریعہ ریڈیو خطاب کرےگا۔ اس نے لکھا:
’’میں نے اس ملاقات میں قوم سے بذریعہ ریڈیو خطاب کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس مشورہ نے اسے (یعنی وزیر اعظم کو) ششدر کردیا، اورمجھے محسوس ہوا گویا وہ اپنے دل میں کہہ رہا ہو کہ، ’’اف خدایا! اب یہ نوجوان مزید کیا مطالبے کرے گا؟‘‘(Edward, A King‘s Story)
ایڈورڈ اپنے وزیراعظم کی سوچ کا دھارا سمجھنے میں غلطی پر نہ تھا۔ کیونکہ بالڈون نے یہ تجویز کابینہ کے سامنے رکھی اور واپس آکر صاف کہہ دیا کہ تجویز منظورنہیں ہوسکی ہے۔
(Baldwin Papers, Vol 176)
ملکی اسٹیبلشمنٹ کو اس تنہا بادشاہ سے اتنا خطرہ تھا کہ کہیں یہ عوام کی ہمدردیاں نہ سمیٹ لے، کہ ملک کے بادشاہ کو بھی عوام سے مخاطب ہونے کا قانونی حق نہ دیا گیا۔ اس جائز قانونی حق سے محروم کرنے والے یہ بھی بھول گئے کہ ایڈورڈ ہشتم ابھی ملک کا بادشاہ ہے۔ محل کے باہر جمع لوگوں کے ہجوم کی بھی پرواہ نہ کی جو جھوم جھوم کر ترانے گا رہے تھے کہ ’’بادشاہ کی عمر دراز ہو…۔ ‘‘یہ سب لوگ بادشاہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ لیکن آزادیٔ اظہار رائے پر یقین رکھنے اور اس پر فخر کرنے کا اعلان کرنے والوں نے طاقت کے نشے میں نہایت بے رحمی سے اس نعرے کا بھی خون کر ڈالا۔
ستم ظریفی کی انتہاملاحظہ ہوکہ آرچ بشپ لینگ کو بادشاہ کے تخت سے الگ ہونے کے چند دن بعد پورا موقع دیا گیا کہ وہ قوم سے مخاطب ہوسکے۔ ملک کا انتظام چلانے والوں نے جب یہ دیکھ لیا تھا کہ’’عوام الناس میں پایا جانے والا اضطراب کسی طور پر بھی کم نہیں ہورہا۔ ‘‘
(Lang Papers, Lambeth Palace Library, Vol 318)
اس ہیجان کو روکنے کی کوشش میں آرچ بشپ کا خطاب ریڈیو پر نشر کروادیا گیا۔
آرچ بشپ لینگ کے سوانح نگار Robert Beaken کی رائے بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ اس خطاب میں آرچ بشپ کی آواز کی گھبراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
(Robert Beaken, Cosmo Lang: Archbishop in War and Crisis, IB Tauris, London, 2012)
اسی تقریر کی طرف حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے مضمون مطبوعہ الفضل قادیان 22؍دسمبر1936ء میں ذکر فرمایا تھا، لیکن تب آپؓ نے اس تقریر کے متن کے منتخب حصوں کو صرف اخبارات وغیرہ میں ہی پڑھا ہوگا کیونکہ اُس دَور میں غالباً قادیان میں انگلستان سے نشر ہونے والی ریڈیو تقاریر تک رسائی ممکن نہ تھی۔
برٹش لائبریری کے صوتی آرکائیوز میں محفوظ آرچ بشپ کی تقریر سن کرہر کوئی آج بھی آرچ بشپ لینگ کے سوانح نگار Robert Beakenکی رائےکی صداقت کو پرکھ سکتا ہے۔
(British Library, Sound Archives, T8077./0404)
آرچ بشپ لینگ کے معتمد ساتھی Alan Donنے اپنی ڈائری میں لکھا ہےکہ اپنی تقریر ریکارڈ کروانے کے لیے جانے سے پہلے کس طرح آرچ بشپ گھٹنوں کے بل گر کر دعائیں کر رہا تھا۔
(Don Diaries, Lambeth Palace Library, under 15 December 1936)
یہاں اس ڈائری نویس نے اپناذاتی تاثر ان الفاظ میں محفوظ کیا کہ
’’مجھے ذاتی طور پر اس صورت حال کی شدت کا کچھ کچھ احساس ہے کیونکہ شاید یہ اسی عوامی شبہ کےیقین میں بدلنے کا ڈر تھا…کہ آرچ بشپ ہی وہ شخص ہے جس نے بادشاہ کو تخت سے اتارنے کی ساری سازش تیار کرکے عملدرآمد کیاتھا۔ ‘‘
(ایضاً)
اختتامیہ
یقیناً اس حقیقت کا ادراک انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ ایسا شخص جو برطانیہ سے ہزاروں میل دور پنجاب کے ایک چھوٹے سے دورافتادہ گاؤں کا باسی ہے، وہ انگلستان میں بادشاہ کی تخت نشینی، وہاں سر اٹھانے والی سازشوں اوربالآخر بادشاہ کے تخت چھوڑنے کے واقعات کی جزئیات سے بھی مکمل آگاہ تھا اور اس اہم واقعہ کو افسانوی رنگ دینے کی تمام کوششوں کے باوجود اصل حقائق سے درست ترین تجزیہ کرنے میں غیرمعمولی طور پر کامیاب رہا۔ وزیر اعظم اور آرچ بشپ کی خفیہ خط و کتابت کوتو ابھی حال ہی میں رسائی دی گئی ہے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے تجزیہ فرمایا اور اپنی رائے کا اظہار فرمایا، اس وقت یہ سب خفیہ مواد قابلِ رسائی نہیں تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی یہ رائے زبردست طریق سے صائب ثابت ہوتی ہے کہ چونکہ بادشاہ نے اپنے جائز قانونی حق کی حفاظت کی خاطر تخت شاہی کو چھوڑ دیا تھا اس لیے وہ کبھی بھی فراموش نہیں کیاجاسکے گا۔ کیونکہ اس بادشاہ نے اس اسلامی تعلیم کی ضرورت کو اپنے عمل سے اجاگر کر دیا کہ ضرورت کے تحت جہاں ناگزیر ہو، طلاق دی بھی جاسکتی ہے اور مطلقہ عورت سے بیاہ عین فطرت کے مطابق ہے۔
اب یہاں چنداں ضرورت نہیں کہ برطانوی شاہی خاندان کے ان افراد کی فہرست پر غور کیا جائے جنہوں نے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے بعد اب تک طلاق کا حق استعمال کیا ہے اور اپنی آزاد مرضی سے دوبارہ شادی کی ہے۔ کیونکہ یہ فہرست طویل ہے اور شاید اس میں اضافوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سیکولر ہونے کے دعوے کرنے والی نام نہاد ترقی یافتہ مغربی حکومتیں کیا آج بھی چرچ کے ہاتھوں میں نہیں کھیل رہی ہیں ؟لیکن یہ کھلی سچائی آج ہمارے اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔
کیا آج بھی عیسائی چرچ امور سلطنت پر اثر انداز ہونے میں ملوث ہے یا یہ قصہ پارینہ ہوچکا ہے؟یا مغربی دنیا میں چرچ کی انتظامیہ ریاستی امور میں اپنی دخل اندازیوں میں اس قدر ماہر ہوچکی ہے کہ اپنی مداخلت کو خفیہ رکھنے میں کامیاب ہے؟مسلم ممالک کے ملاں بھی کہتے ہوں گے کہ ’’بد سے بدنام بُرا!‘‘
ان چبھتے سوالات کے جوابات ابھی دھندلکوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ شاید اگلی چند دہائیوں میں ان کے جوابات منظر عام پر آجائیں۔
٭…٭…٭