احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان، بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں
حضرت اقدسؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ امت مسلمہ کے لیے ایک دردناک ماحول تھا۔ ایمان ثریا ستارے پر گویاجاہی چکاتھا۔ہرطرف سے اسلام کو ختم کرنےکے منصوبے کیے جا چکے تھے اور ان پرخطرناک ترین صورت میں عملی اقدام اٹھائے جارہے تھے۔لدھیانہ، امرتسراورسیالکوٹ اس میدان جنگ کے گویا ہیڈکوارٹرتھے اورحضرت اقدسؑ کہ جنہیں محمدی افواج کا کمانڈرانچیف بننامقدرتھا آپؑ کی ٹریننگ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انہی علاقوں اورمقامات کا انتخاب کیا۔ یہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ آپؑ کی ملازمت بھی اور ملازمت کے لیے یہ مقامات مصلحت خداوندی اور مشیت ایزدی کے تحت انتخاب کیے گئے۔
آپؑ اسلام پر ہونے والے ان حملوں سے بخوبی آگاہ ہوچکےتھے۔ آپؑ نے اپنی جوانی اسلام کے دفاع کی خاطر انہی کی کتب کے مطالعہ کے لیے وقف کردی،بلکہ قربان کردی۔آپؑ کی عمر ابھی تیس سال تھی کہ کثرت مطالعہ کی وجہ سے آپؑ کے بال سفیدہوچکے تھے۔سیالکوٹ میں بھی عبادات کے ساتھ ساتھ مطالعہ اور اسلام کے دفاع میں مذہبی گفتگوجوکبھی مناظرے کا رنگ بھی اختیارکرجاتی یہ سب جاری رہا۔
سیالکوٹ میں قیام کے دوران انہی معمولات کی ایک جھلک ہم دیکھتے ہیں۔
پادری الائشہ/الیشع سے گفتگو
یہ صاحب ایک دیسی پادری تھےیعنی ہندوستانی باشندہ تھے اورسیالکوٹ میں حاجی پورہ کے جنوب میں رہائش پذیر تھے۔انہوں نے اپنا نام الیشع رکھ لیاتھا۔پورانام جو انہیں دیا گیاElisha P .Swift،بعض جگہ ان کوالائشہ لکھاگیاہے اور بعض جگہ محض سوِفٹ لکھاگیاہے۔یہ دونوں نام انہی ایک صاحب کے ہی ہیں۔اورجہاں تک الائشہ لکھے جانے کاتعلق ہے تو الیشع کے سپیلنگ ELISHA کو الائشہ پڑھنا بہت حدتک قرین قیاس ہے اس لیے معلوم ہوتاہے کہ عبداللہ آتھم کی طرح جوکہ ATHIMآثم تھا،لیکن آتھم پڑھااورلکھاجانے لگا اسی طرح یہ نام بھی الیشع کی بجائے الائشہ پڑھااورلکھاجانے لگا۔
یہ صاحب ریاست گوالیار کے ایک گاؤ ں Nidhara میں 1824ء میں پیداہوئے۔ ہندوستان کی ریاست راجستھان میں تحصیل باری،ضلع دھولپورکاایک گاؤں ہے۔ Village Nidhara, Tehsil Bari, District Dhaulpur, Rajasthan State, India
ان کانام رام چندتھا۔ یہ ہندودھرم سے تعلق رکھتے تھے۔وہاں کے ریاستی ظلم وستم سے تنگ آکریہ خاندان وہاں سے نکلا۔ اس وقت یہ والدین کے علاوہ پانچ بھائی تھے۔اسی کس مپرسی میں بریلی کے قریب ان کے باپ کاانتقال ہوااور لدھیانہ ہسپتال میں ان کی والدہ کا۔اس ہسپتال کاانچارج ایک عیسائی Dr. Badley تھا جو ایک مقامی لڑکوں کےسکول کی بھی امدادکیا کرتاتھا۔اس نے رام چنداوراس کے دوبھائیوں کواس سکول میں داخل کرادیا۔بعد میں ان تینوں بھائیوں کوڈاکٹر بیڈلے نے لدھیانہ میں یتامٰی کے لیے کھولے گئے اپنے مشن سکول میں بھیج دیا۔جبکہ اس کے دوبڑے بھائیوں رام بخش اور ہربھجن کوسرکاری ملازمت دلوادی۔اوران دونوں کوبعدمیں کابل کی لڑائی میں بھیج دیاگیا جہاں رام بخش تو ماراگیا جبکہ دوسرے بھائی کے واپس لدھیانہ آنےتک اس کے یہ تینوں بھائی عیسائی مذہب اختیارکرچکے تھے۔رام چندنے اپنانام بھی تبدیل کرلیا جوبعدمیں Rev.Elisha P.Swift کے نام سے مشہورہوا۔
(Our India Mission 1855-۔1885A thirty Years History of The India Mission of the United Presbyterian Church of North America.)
بعدمیں یہ سکول لدھیانہ سے سہارنپورمنتقل ہوگیا تو سوِفٹ نے لدھیانہ کے اسی سکول کی ایک لڑکی Salina Mariahسے شادی کرلی۔1846ء میں یہ سکول کسولی کے نزدیک Sabatu کے علاقہ میں منتقل ہوگیا … وہاں اس سکول کے ہیڈکے طورپر پندرہ ماہ کام کیا۔ا س کے بعد تین سال تک مشن سکول انبالہ کے صدرمدرس رہا۔پھر سرکاری خزانے میں ملازمت اختیارکرلی جو پندرہ ماہ تک جاری رہی۔اس کے بعد اس ملازمت سے استعفیٰ دے کروہ لاہور چلاآیا۔اور Rev.C.W.Forman کی ماتحتی میں مشن سکول کے نائب صدرمدرس کے طور پرکام شروع کیا۔ بعدمیں وہ اس سکول کے بھی صدرمدرس بن گیا …ازاں بعد مسٹر فورمین نے ان کوگوجرانوالہ بھیجا جہاں اس نے لڑکوں کاسکول کھولااوراپنی بیوی کی نگرانی میں لڑکیوں کاایک سکول۔ دوسال کے بعد وہ لاہورواپس چلاآیا اور لاہورمیں Catechistمناداورمناظرکی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ 1856ء میں موسم گرمامیں موصوف نے لاہورکے اس مشن سے تعلق منقطع کرتے ہوئے جولائی میں سیالکوٹ مشن سے تعلق جوڑلیااور مذہبی عیسائی مناظرکی حیثیت سے کام شروع کردیا۔ موصوف اس زمانے میں بڑے مشہورعیسائی مناظرتھے اور یہ سمجھاجاتاتھا کہ ان جیسا مناظر اور الٰہیات کاماہرعالم ہندوستان میں شاذ ہی ہوگا۔خودبھی انہیں اپنے علم پربہت نازتھا۔
علامہ سیدمیرحسن صاحب نے اس زمانے کے تفصیلی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
’’مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا۔چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے۔ اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے۔ مباحثہ ہوا۔پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی۔مرزا صاحب نے فرمایا۔نجات کی تعریف کیا ہے؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟مفصل بیان کیجئے۔پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول ص93،سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)
پادری ٹیلر سے مباحثہ
ریورنڈ جان ٹیلر، سیالکوٹ کے ایک اَورپادری جو کہ سکاچ مشن کی طرف سے نئے نئے مشنری کے طورپرمتعین ہوئے تھےاورگوہدپورمیں رہائش پذیرتھے۔ان سے بھی اکثر حضورؑ کی مذہبی گفتگورہتی اور وہ اس بحث مباحثہ کے لیے بعض اوقات حضورؑ کے گھربھی آجایاکرتے۔علامہ سیدمیرحسن اپنی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ
’’پادری ٹیلر صاحب ایم۔اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا۔یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتےتھے۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے۔اور آدم کی شرکت سے جو گناہگار تھا بری رہے۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے۔پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی۔جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔پس چاہیئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول ص93،سیرت المہدی جلداول روایت نمبر150)
حضرت معراج دین عمرصاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی تھے اورخودبھی ادیبانہ مزاج رکھتے تھے،حضرت اقدسؑ کی مختصر سوانح بھی لکھ چکے تھےلکھتے ہیں:
’’ان دنوں سیالکوٹ سکاچ مشن کے ایک پادری صاحب تھے جو بڑے جہاندیدہ اور فاضل تھے اوراپنے لوگوں میں بڑے معزز وممتاز شمارہوتے تھے۔ایک دفعہ اتفاق سے کہیں ان کی آپ سے ملاقات ہوگئی۔اثنائے ملاقات میں بہت کچھ مذہبی گفتگوہوتی رہی۔آپ کی تقریر اوردلایل نے پادری صاحب کے دل میں ایساگھرکرلیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کابہت شوق جم گیا۔اسی شوق میں اکثر ہوتاکہ دفترسے رخصت کے وقت پادری صاحب آپ کے دفترمیں جاتے اورپھرآپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کے فرودگاہ تک پہنچ جاتے اوربڑی خوشی کے ساتھ اسی چھوٹے سے مکان میں جوعیسائیوں کے خوش منظر اورپرتکلف مساکن کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا تھا بیٹھے رہتے اوربڑی توجہ اورمحویت اورایک قسم کی عقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت کے تکلفات کو بھی اس جگہ بھول جاتے۔ بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کواس سے روکا اورکہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایاکریں۔لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور لطف سے جواب دیا کہ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اسکو نہیں سمجھتے اورمیں خوب سمجھتاہوں۔‘‘
(’’براہین احمدیہ‘‘(حضرت مسیح موعودمرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام کے مختصرحالات)شائع کردہ معراج الدین عمرصاحبؓ: ص66)
پادری بٹلریا ٹیلر
سیالکوٹ میں جوپادری آپؑ سے بحث مباحثہ کرتے ان میں ایک نام بٹلرکا آتاہے۔علامہ میرحسن صاحب کی روایت میں بھی یہ نام آیاہے۔اس ضمن میں یہ قابل تحقیق امرہے کہ یہ نام کیاتھا۔سب سے پہلے محترم برادرم مرزاخلیل احمدقمرصاحب نے اس کی طرف توجہ دلائی کہ یہ نام اغلباًٹیلرہے اورسہوکتابت سے بٹلربن گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ریسرچ سیل کوارشاد ملاکہ اس پرتحقیق کی جائے۔اوراس تحقیقی رپورٹ پرحضورانورایدہ اللہ کے ارشاد مبارک کی روشنی میں یہ فیصلہ ہواکہ جہاں جہاں ان کانام بٹلردرج ہے وہاں درست نہیں بلکہ اس پادری کانام ٹیلرہی تھا۔ ریورنڈ جان ٹیلر! REV.JOHN TAYLOR
ریورنڈجان ٹیلرایک تعارف REV. JOHN TAYLOR
مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں جان ٹیلرکامختصرتعارف بھی کرادیاجائے۔
جان ٹیلرDreghorn,Ayrshireمیں یکم فروری 1837ء کو پیدا ہوا۔ یہWilliam T.Merchant and Grace Reidکاسب سے بڑابیٹاتھا۔kilmarnock Academy and Univ.of Glasgowمیں تعلیم پاتے ہوئے 1859ء میں ایم اے کیا۔ 24؍اگست 1859ء میں ہندوستان تقرری ہوئی۔ 3؍ستمبرکوہندوستان کے سفر کا آغاز کیا۔20؍جنوری کوبمبئی اور 18؍مارچ 1860ء کوسیالکوٹ پہنچا۔1858ء میں جان ٹیلرکی شادی Robert Brownکی بیٹی Margaret سے ہوئی۔جس سے ان کی اولاد میں ولئیم William،رابرٹ Robert،گریس Grace،جیمز James، ایڈمنڈEdmondپیداہوئے۔
17مارچ 1868ء کو Neilstonکے مقام پروفات ہوئی جب وہ بیماری کی بنا پررخصت پرآیاہواتھا۔اور St. Andrew›s Churchyard, Kilmarnock میں تدفین ہوئی۔اس مقام پرا س کے شاگردوں نے اس کی یادمیں ایک صلیب بھی نصب کی تھی۔
مضمون کے تسلسل کوجاری رکھتے ہوئے سیالکوٹ کی کچھ اورشخصیات کاذکرکرتے ہیں۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭