الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
دورِ اولیٰ اور دور ِآخرین کے دو عظیم الشان وجود
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مارچ اپریل اور مئی جون 2013ء میں جلسہ سالانہ قادیان 2012ء کے موقع پر مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب کی تقریر شائع ہوئی ہے جس کا پہلا حصہ جو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی سیرت سے متعلق تھا گزشتہ ہفتے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو اولاد کی بشارت صرف اسی صورت میں دیتا ہے جب کہ ان کا صالح ہونا مقدر ہو۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام حاشیہ صفحہ 578)
حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی پیدائش سے پہلے ہی خداتعالیٰ نے آپؓ کو الہامِ الٰہی میں قمرالانبیاء قراردیا تھا۔ 20؍اپریل1893ء کو آپؓ پیدا ہوئے۔ آپؓ کی پیدائش بشاراتِ الٰہیہ کے ماتحت ہوئی۔ مگر انکسار کا یہ عالم تھا کہ فرمایا: یہ خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں پیدا ہوااور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لیے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بچوں کی آمین کے موقع پر فرمایا: ’’یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہے۔ اس لیے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اللہﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اورخود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں۔ ‘‘ (الحکم 10-17؍اپریل 1903ء )
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا دل ہر وقت عشقِ الٰہی سے معمور رہتا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں : مَیں نے اپنے دل کے سارے گوشوں میں جھانک کر اور کونے کونے کا جائزہ لے کر آخری نتیجہ یہی نکالا کہ مَیں خدا کے فضل سے اور اسی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اپنے خدا اور اُس کی ہر تقدیر پر پورے شرح صدر کے ساتھ راضی ہوں۔
آپؓ کو خدا تعالیٰ سے جو تعلق تھا اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آپؓ نے ایک مرتبہ بڑے اضطرار سے دعا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے درخواست کی کہ خاتمہ بالخیر کے بارے میں مجھے کوئی تسلی دے دے۔ اس پر آپؓ کو قرآن مجید کا ایک ورق دکھایا گیا جس کے دائیں جانب یہ الفاظ تھے کہ ’’بغیر حساب‘‘ اور باقی سب ورق سفید تھا۔
آپؓ صاحبِ کشف و الہام تھے لیکن بیان کرنے کی عادت نہ تھی۔ ایک دفعہ آپ کو عین بیداری کے عالَم میں غیب سے بالکل صاف آواز سنائی دی کہ ’’السلام علیکم ‘‘۔
جون 1951ء میں آپؓ کو الہام ہوا: ’’محمدی اُٹھ تیری سربلندی کا وقت قریب آگیا ہے۔ ‘‘ (یہاں محمدی سے مراد جماعتِ احمدیہ تھی جسے بعد کے واقعات نے بھی ثابت کیا۔ )
آپؓ نے حکیم مولوی عبداللطیف شاہد صاحب کو حج بدل کے لیے منتخب فرمایا اور ان کو ایک خط میں جن دعاؤں کی تلقین کی اُن کے لفظ لفظ سے اللہ تعالیٰ، نبی کریمﷺ، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، مکہ و مدینہ اورجماعت کے افراد سے محبت اور عشق کا دریا رواں نظر آتا ہے۔
آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعوؑ د سے آپؓ کو انتہائی عشق تھا۔ اسی جذبے کے تحت آپؓ نے ’’سیرت خاتم النبیینؐ‘‘ اور ’’سیرت المہدیؑ ‘‘ جیسی بے نظیر کتب تصنیف فرمائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ’’سیرت خاتم النبیینؐ ‘‘ کوبنظرِ تحسین دیکھتے ہوئے فرمایا:
’’رسول کریمﷺ کی جتنی سیرتیں شائع ہوچکی ہیں اُن میں سے یہ بہترین کتاب ہے۔ اور سیرتوں سے ہی نہیں بلکہ بعض لحاظ سے عربی سیرتوں کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پرتَو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے۔ ‘‘ (الفضل 7 جنوری1932ء صفحہ4)
آپؓ کے فرزند محترم مرزا مظفراحمد صاحب لکھتے ہیں : آپؓ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث، نبی کریمﷺ کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعوؑ دکی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے۔ میرے اپنے تجربہ میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی نبی کریمﷺ یا حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر سے آپؓ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں۔ بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے، پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے۔
ایک صاحب کو آپؓ مسودہ املا کروارہے تھے۔ انہوں نے لکھتے ہوئےﷺ کی بجائے صلعم لکھ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ ناپسندیدہ ہے۔ جب اتنی طویل و عریض عبارتیں لکھی جاسکتی ہیں تو صرف رسول کریمﷺ کے نام کے ساتھ ہی تخفیف کا خیال کیوں آتا ہے۔ اور پھر اپنی قلم سےﷺ لکھ دیا۔ نیز فرمایا انگریزی میں محمد کا مخفف MOHD دیکھ کرہمیشہ ہی مجھے افسوس اوررنج پہنچا ہے۔ نہ معلوم کس نے یہ مکروہ ایجاد کی ہے اور تخفیف کا سارازور صرف ’’محمد‘‘کے نام پر ہی صرف کر ڈالا ہے۔
مکرم چودھری ظہور احمد صاحب سابق آڈیٹر بیان کرتے ہیں کہ میں آپؓ کے پاس انگریزی کا ایک ڈرافٹ درستی کے لیے لے گیا جس میں لفظ محمد (ﷺ )کو MOHD لکھا ہوا تھا۔ جب آپؓ اس لفظ پر پہنچے تو قلم میز پر رکھ دی اور فرمایا: ’محمد‘ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے۔ بعض انگریزی خواں لوگ یہ غلطی کرتے ہیں۔ اسے صرف MD یا MOHD لکھ دیتے ہیں۔ اس معاملہ میں مَیں بہت KEEN (حساس) ہوں۔ میں یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا کہ آنحضرتﷺ کا نام ہم مخفف کر کے لکھیں۔
ایک دوست کی 63 سال کی عمر میں وفات پر آپؓ نے فرمایاکہ بچپن سے آج تک اس عمر کاذکر آتے ہی مجھے آنحضرتﷺ کا خیال آتا ہے۔ اور فرمایا : یہ سب سے کم عمر ہے جو کسی نبی نے (جو کسی حادثہ کے نتیجہ میں فوت نہیں ہوئے) اس ناپائیدار دنیا میں پائی اور اس کے مقابل پرہمارے آقاﷺ نے جو کام کیا وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ مقابل پر اگرسب دوسرے انبیاء کے کام کو رکھا جائے تو پھر بھی آپؐ کے کام کا پلڑا بہت بھاری نظر آتا ہے۔
حضرت مرزا طاہر احمدؒ (خلیفۃالمسیح الرابع)فرماتے ہیں: ’’سنت رسولﷺ کی پیروی کا آپؓ کو اس قدر اہتمام تھا کہ باریک درباریک پہلو بھی نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ کیا بلحاظ رحم اور کیا بلحاظ عدل اور کیا بلحاظ مساواتِ محمدی، ہر اس روش پر سے ہو کر گزرتے رہے۔ جس پر کبھی آنحضرتﷺ اور آپ کے عشاق کا قافلہ گزرا تھا۔ ‘‘ (خالد فروری 1964ء)
آپؓ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کررقت آمیز لہجے میں فرمایا: ہاشمی صاحب! آپ اس بات کے گواہ رہیں اور مَیں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار اور اظہار کرتا ہوں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرورِ کائناتﷺ کی محبت جاگزیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے: اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبّ اس لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے تحت مجھے وہاں آنحضرتﷺ کے قرب سے نواز دے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی محبت آپؓ کے اندرکُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اور آپؓ حضورؑ کی پوری طرح اتّباع فرماتے حتّٰی کہ لباس میں بھی اس کا خیال رکھتے۔ ایک دن مسجد میں نماز پڑھنے تشریف لائے تو خلافِ معمول کوٹ اپنے بازو پر رکھا ہواتھا۔ فرمایا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتّباع میں گھر سے کوٹ پہنے بغیر نہیں نکلا کرتا تھا مگر آج اس قد ر شدید گرمی ہے کہ مجھ سے کوٹ برداشت نہیں ہوسکا۔ مَیں نے سوچا کہ پہن تو سکتا نہیں،کم از کم اسے اپنے ساتھ تو لے لوں اور اس طرح حضرت اقدسؑ کی اس سنت کو پورا کرلوں۔
اپنی وفات سے قبل عیدالفطر کے موقع پرآپؓ بیمار تھے۔ عید کے بعد لوگوں نے مصافحہ شروع کردیا۔ صاحبزادہ مرزاانس احمد صاحب نے عرض کیا کہ اس بیماری کی حالت میں خواہ مخواہ کوفت کیوں اُٹھائی۔ آپؓ نے فرمایا: مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ یہ لوگ جو ہماری عزت کرتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں، یہ سب کچھ اسی لیے ہے کہ ہم مسیح موعودعلیہ السلام کی اولاد ہیں۔ یہ حضرت اقدسؑ کی نمائندگی کی ذمہ داری ہے اور مَیں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں کوتاہی نہ ہو جائے۔ اس لیے تکلیف اٹھا کر بھی ایسا کرتا ہوں۔
آپؓ بی اے میں تعلیم پارہے تھے کہ اچانک کالج چھوڑ دیا اور قادیان آکر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے قرآن و حدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ حضرت قاضی اکمل صاحب کے پوچھنے پر فرمایا:کالج تو پھر مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ قرآن مجید و حدیث پڑھنے کا اور پھر وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر موقع نہ مل سکے۔
آپؓ خلافت کے عاشق اور سلطان نصیر تھے اور ہر راہ سے اس پر دل و جان سے فدا تھے۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ ایک صاحبِ کشف و رؤیا بزرگ تھے۔ وہ قادیان میں بطور درویش مقیم تھے کہ انہیں 1951ء میں الہام ہوا : ’سب کو چھوڑ دو، خلیفہ کو پکڑو‘۔ یہ الہام انہوں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو بھی لکھ دیا۔ آپؓ نے اُن کا یہ الہام اخبار میں شائع کرواتے ہوئے دوستوں سے اِس اُمید کا اظہار کیا کہ وہ اِس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ اباجانؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے بےحد محبت کرتے تھے اور حضورؓ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد اپنا جسمانی رشتہ اپنے روحانی رشتے کے ہمیشہ تابع رکھا۔ دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی امور میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضورؓ کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ آپؓ کی اطاعت و فرمانبرداری کا رنگ ایسا ہی تھا جیسا کہ نبض دل کے تابع ہو۔
مکرم سعداللہ جان صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک دن جب ہم کھانا کھارہے تھے تو ایک دوست نے پیغام دیا کہ حضورؓ نے یاد فرمایا ہے۔ آپؓ نے کھانا چھوڑ دیا اور فوراً پگڑی سر پر رکھ کر چل دیے۔ بچپن کی نادانی کے باعث میں نے عرض کیا کہ کھانا کھا کر تشریف لے جائیں۔ فرمایا: ’نہیں اُن کا حکم مقدّم ہے‘۔ اور پھرکافی دیر کے بعد آکر کھانا کھایا۔
محترم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی بیان کرتے ہیں کہ میری موجودگی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو یاد فرمایا۔ تھوڑی دیر میں آپؓ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے تشریف لے آئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ آپ ریشِ مبارک کو اسی وقت خضاب لگانے سے فارغ ہوئے تھے کہ حکم پہنچ گیا۔ اور آپؓ جلدی میں فوراً ہی آحاضر ہوئے کیونکہ آپؓ کے ناخنوں پر خضاب کے دھبے لگے ہوئے تھے۔
محترم مرزا مظفراحمد صاحب کا بیان ہے کہ اپنے عمر بھر کے ایک دوست سے آپؓ ہمیشہ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ اُن سے ایک مرتبہ حضوؓ ر کسی جماعتی معاملے میں ناراض ہوئے۔ اس دوست نے ابا جان کو پیغام بھجوایا کہ مَیں ملنا چاہتا ہوں۔ آپؓ نے پیغام دینے والے سے فرمایا حضرت صاحب اس سے ناراض ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ پہلے حضرت صاحب سے معافی لے، مَیں پھر ملوں گا۔ یوں نہیں مل سکتا۔
مقامِ خلافت کو آپ ہمیشہ مختلف شکلوں میں احبابِ جماعت کے سامنے واضح فرماتے رہتے۔ اس کی ایک نادر مثال فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لیے چندہ کی تحریک ہے جو یوں فرمائی: ’’مرکزِ سلسلہ کی تو یہ حیثیت ہے کہ اگر صرف خلیفۂ وقت کی اکیلی ذات کے لیے ایک عمدہ ہسپتال قائم کرنا پڑے تو جماعت کو اُسے اپنا مقدّس فریضہ سمجھ کر پورا کرنا چاہئے۔ ‘‘
محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ فسادات 1953ء کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے مولانامودودی صاحب کے شرانگیز رسالہ ’’قادیانی مسئلہ‘‘ کا خود جواب لکھوایا اور پھر فرمایا کہ میاں بشیر احمد صاحب بھی اسے دیکھ لیں۔ چنانچہ عاجز مسودہ لے کر حضرت میاں صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے اپنے قلم سے اس کے اختتام پر ایک ضروری نوٹ کا اضافہ کیا جسے حضورؓ نے پسند فرمایا۔
مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب نے آپؓ کی وفات پر کہا:
وہ صاحبِ قلم اور وہ نکتہ نواز
وہ روشن ضمیر اور وہ دانائے راز
وہ خلقِ مجسم تھا کردار میں
ابلتے تھے نغمات گفتار میں
اطاعت پہ ایمان رکھتا تھا جو
مقامِ خلافت سمجھتا تھا وہ
تھا راہِ وفا میں جو ثابت قدم
جِسے چاند نبیوں کا کہتے تھے ہم
اسلام اور احمدیت کے شاندار مستقبل کے متعلق آپؓ یقینِ محکم کی چٹان پر کھڑے تھے۔ ایک مرتبہ روسی وزیراعظم مسٹر خروشیف نے یہ بڑھ ہانکی کہ ’میں ساری دنیا پر اشتراکی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے توقع ہے کہ میری اس کوشش کی تکمیل کا دن دُور نہیں ‘۔ یہ الفاظ پڑھ کر آپؓ کی غیرت جوش میں آئی اور آپؓ نے ’’غالب کون ہوگا؟ اشتراکیت یا اسلام؟‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں حضرت مسیح موعودؑکی پیشگوئیاں درج کرنے کے بعد لکھا: ’’انسانی زندگی محدود ہے۔ مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے حق میں لکھی ہے۔ روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جو ان ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ ’زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحالِ زار‘۔ اب اسلام کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آرہا ہے۔ اور دنیا دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہونا ہے یا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کا ڈنکا بجتاہے۔ ‘‘ (الفضل 28جولائی 1960ء )
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
قادیان کے درویش آپؓ کے بے حد منظورِ نظر تھے۔ اُن کی خدمت ایک مشکل معاملہ تھا۔ قادیان کے ہردرویش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا، اس کے رشتہ داروں اور متعلقین کی مشکلات کا دُور کرنا، ہردرویش کے لیے آرام و آسائش کا بہم پہنچانا۔ بیماروں کی تیمارداری، ناداروں کی حاجت روائی، حکومتوں سے ربط و ضبط رکھنا۔ جلسہ سالانہ پر وفود کا بھیجنا۔ یہ اور اس قسم کے سینکڑوں کام تھے جنہیں آپؓ تن تنہا سرانجام دیتے تھے۔ ہر درویش اور اس کے رشتہ دار سے آپؓ کو ایسی محبت تھی جو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے ہوتی ہے۔ ہر ایک کی تکلیف کو آپؓ اپنی تکلیف جانتے تھے۔ 1951ء میں ربوہ میں تار گھر کھُلا تو اس تار گھر سے ہندوستان میں سب سے پہلے آپؓ نے قادیان کے امیر جماعت کو تار بھجوائی۔
آپؓ نے ایک مرتبہ ناظر صاحب امورعامہ قادیان کو لکھا کہ ’’قادیان کی انجمن اور میَں جو اُن کا ناظر ہوں، درویشوں کے لیے گویا باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ‘‘
آپؓ نے زندگی بھر اپنے آپ کو خدمتِ اسلام کے لیے وقف رکھا اور جو عہد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ابتدائی زندگی میں کیا تھا، اُسے عسر اوریُسر کی حالت میں بھی نبھایا اور خوب نبھایا۔ ایک بیماری میں کسی نے عرض کیا کہ جب ڈاکٹر بار بار آپ کو مکمل آرام کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ آرام کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا کہ یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ میں خدمتِ دین سے ہٹ کر آرام کروں۔ اس واسطے جب کبھی تھوڑا بہت افاقہ ہوتا ہے تو کچھ خدمت دین کر لیتا ہوں۔
سلسلہ کے اموال کی حفاظت کا آپ بے حد خیال رکھتے اوراپنی ذاتی ضروریات کے لیے دفتر کی سٹیشنری اور دیگر اشیاء استعمال نہیں فرماتے تھے اور کارکنوں کو بھی تلقین فرماتے رہتے کہ بعض اوقات غیر ارادی طور پر بھی انسان دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ سے فائدہ اٹھالیتا ہے اس لیے کبھی کبھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور خزانہ میں داخل کروا دیا کرو۔
اسی طرح ایک درخواست پیش ہونے پر فرمایا کہ سلسلہ کے اموال کی حفاظت کرناہم سب کا فرض ہے۔ پوری تحقیق کے بعد کسی کی درخواست پر سفارش کی جایا کرے۔
آپ نہایت عالی حوصلہ، صابر اور زبردست قوتِ برداشت کے مالک تھے۔ ایک شخص نے آپ کو بہت تنگ کیا حتیٰ کہ خطوط میں دھمکیاں دیں۔ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے اینٹ کا جواب کم از کم اینٹ سے دینا چاہا اور جوابی مضمون لکھا مگر یہ کوہِ وقار اپنی جگہ سے نہ ہلا اور سختی کا جواب سختی سے دینا پسند نہ فرمایا۔ اس طرح آپؓ نے یہ کوشش فرمائی کہ بعید کو بعیدتر نہ کیا جائے بلکہ قریب لانے کی کوشش کی جائے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ لکھتے ہیں : اپنے تمام واقفیت کے حلقہ پر نظر دوڑا کر پورے وثوق اور شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپؓ اس زمانے کے بہترین ناصحین میں سے تھے۔
آپؓ نے جس مسئلے پر بھی قلم اُٹھایا، اُسے نہایت صاف، دلنشین اور آسان انداز میں بیان فرمایا۔ آپؓ کی تحریر دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ آپؓ نے اپنے پیچھے جو وسیع زندہ جاوید لٹریچر کا سرمایہ چھوڑا، وہ رہتی دنیا تک سلطان القلم کے بیٹے اور عظیم شاگرد ہونے کی حقانیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا رہے گا۔ آپؓ کے قلم سے قریباً ہر دینی موضوع پر متعدد قابلِ قدر کتب کا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ الفضل اوردیگر رسائل میں سینکڑوں مضامین شائع ہوئے۔ آپؓ کو موقع اور وقت کے مطابق اپنی تحریر میں ایسا زور پیدا کرنے پر بھی قدرت حاصل تھی جس سے کلام میں ایک اعلیٰ درجہ کی تاثیر پیدا ہو جاتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے انتخاب کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ لکھتے ہیں : ’’اے جانے والے! تجھے تیرا پاک عہدِ خلافت مبارک ہو کہ تُو نے اپنے امام و مطاع مسیح کی امانت کو خوب نبھایا اور خلافت کی بنیادوں کو ایسی آہنی سلاخوں سے باندھ دیا کہ پھر کوئی طاقت اسے اپنی جگہ سے ہلا نہ سکی۔ جا اور اپنے آقا کے ہاتھوں سے مبارکباد کا تحفہ لے۔ اوررضوانِ یار کا ہار پہن کر جنت میں ابدی بسیرا کر اور اے آنے والے! تجھے بھی مبار ک ہو کہ تُو نے سیاہ بادلوں کی دل ہلا دینے والی گرجوں میں مسندِ خلافت پر قدم رکھا ہے۔ اور قدم رکھتے ہی رحمت کی بارشیں برسادیں۔ تُو ہزاروں کانپتے ہوئے دلوں میں سے ہوکر تختِ امامت کی طرف آیا اور پھر صرف ایک ہاتھ کی جنبش سے ان تھرّاتے ہوئے سینوں کو سکینت بخش دی۔ آ اور ایک شکور جماعت کی ہزاروں دعاؤں اور تمنّاؤں کے ساتھ ان کی سرداری کے تاج کو قبول کر۔ تُو ہمارے پہلو سے اُٹھا ہے مگر بہت دُور سے آیا ہے۔ آ۔ اور ایک قریب رہنے والے کی محبت اور دُور سے آنے والے کے اکرام کا نظارہ دیکھ۔ ‘‘ (سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ334)
یہ اقتباس آپؓ کے پارہ ہائے نثر میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ الفاظ کی موزونیت، اندازِ بیان، زورِ کلام، تاثر، روانی، سلاست، غرضیکہ سب کچھ اس میں موجود ہے۔
آپؓ نے جماعت کی علمی خدمت صرف اور صرف ثواب اور خدمتِ دین کی غرض سے فرمائی اور اپنی کتابوں کی اشاعت اور فروخت سے کبھی مالی تعلق نہ رکھا اور نہ ہی اس کے نفع نقصان میں کوئی حصہ رکھا۔ حتّی کہ اپنے لیے اور دوستوں کو تحفہ دینے کے لیے جو نسخے لیتے، وہ بھی قیمتاً خریدتے۔
اپنے رفقائے کار کے ساتھ حسن سلوک آپؓ کو اپنے عظیم والدسے ورثہ میں ملا تھا۔ چنانچہ مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ کی تیاری کے دنوں میں رات بارہ ایک بجے تک کام ہوتا۔ ایک رات دو بجے تک کام کرتے رہے۔ بارش اور ہوا کی وجہ سے سردی بہت تھی۔ حضرت میاں صاحبؓ ایک خوشنما دلائی اوڑھے ہوئے تھے۔ مَیں نے عرض کیا: یہ دلائی مجھے عنایت فرمادیں۔ آپؓ نے اسی وقت دلائی اتار کر مجھے دے دی۔ میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایسی سردی میں آپؓ نے دلائی اتار دی ہے۔ مَیں نے پھر عرض کیا کہ میں گھر تک چلتا ہوں، وہاں سے یہ لے آؤں گا۔ چنانچہ مکان پر جاکر آپؓ نے وہ دلائی مجھے دے دی۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ دفتر کے نیچے سے آپؓ کی آواز آئی۔ دیکھا تو آپؓ رضائی لیے کھڑے تھے۔ فرمایا: مَیں جب بستر میں لیٹ گیا تو مجھے خیال آیا کہ آج سردی بہت ہے، دلائی میں آپ کا گزارا کیسے ہوگا۔ ملازم سب سوئے ہوئے تھے۔ مَیں نے سوچا یہ ثواب خود ہی حاصل کرلوں۔
واقفین زندگی کا بے حد احترام کرتے۔ کئی مرتبہ آپ کسی اہم کام میں مصروف ہوتے یا بیماری کے باعث بستر سے الگ ہونا بھی دوبھر ہوتا مگر جونہی کوئی مبلغِ سلسلہ یا واقفِ زندگی ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو سب کام چھوڑ کر تشریف لے آتے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ نقرس کی تکلیف کے باعث بڑی مشکل سے دیوار کے ساتھ سہارا لے لے کر باہر تشریف لائے اور اگر خود باہر نہ آسکتے تو مہمان کو اپنے کمرے میں ہی بُلالیتے۔
آپؓ کی غرباء پروری کی شہادت دیتے ہوئے آپؓ کی وفات پر اخبا ر ’’بھیم پترکا‘‘ جالندھر نے لکھا: ’’احمدی جماعت کے ممتاز اور ٹھکرائی خلق کے عظیم خدمت گار مرزا بشیر احمد صاحب ایک لمبی علالت کے بعد چند دن ہوئے پاکستان میں رحلت فرماگئے۔ مرزا صاحب علم و ادب اور بلند ترین انسانی قدروں کے مجسمہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی بنی نوع انسان کی بہتری اور بہبودی کے لیے صرف کی۔ اچھوت پکارے جانے والے کروڑوں دبے کچلے لوگوں کو سماجی مخلصی سے نجات دلانے کے لیے جو قابلِ داد خدمت انہوں نے حیران کُن طریقوں سے سرانجام دی، اس کے لیے انہیں ہمیشہ کے لیے یاد کیا جاتا رہے گا۔ ‘‘ (بحوالہ الفضل ربوہ 29 اکتوبر1963ء)
قادیان کی ایک بوڑھی خاکروبہ سلام کے لیے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپؓ نے فرمایا اُٹھو کرسی پر بیٹھو۔ وہ عورت جس کی ساری عمر مٹی میں لتھڑے ہوئے گزری، اُسے بہ اصرار کرسی پر بٹھایا اور خادم سے کہا کہ قادیان سے آئی ہے، پرانی خادمہ ہے، اس کے لیے چائے لاؤ۔
حضرت شیخ محمد احمدصاحب مظہر نے آپؓ کی سیرت کا خلاصہ بہت خوبصورت اور وجد آفریں انداز میں کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعوؑ د نے اپنی جماعت کو جن ہدایات پر کاربند ہونے کے لیے فرمایا ہے وہ ہدایات زیر عنوان ’’ہماری تعلیم‘‘ کشتی نوح میں درج ہیں اور دراصل یہ تعلیم قرآن حکیم اور حدیث شریف کا خلاصہ اور لب ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؒ کی زندگی اس تعلیم کا عملی نمونہ تھا۔ آپؓ کے اندر علم اور عمل کے کمالات تھے، عفو و درگزر، رفق و مدارات،تحمل اور برداشت، زہد و تعبد، اپنوں اور بیگانوں کی خیرخواہی اور ہمدردی، شجاعت اورانتظامی قابلیت، مہمات امور میں اور مشکل حالات میں ہمیشہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے جاںبکف اورسینہ سپر ہوجانا۔ یہ وہ اخلاق عالیہ تھے جن کو ایک دنیا نے مشاہدہ کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان اخلاق کریمہ کی وجہ سے آپؓ ایک ایسے انسان تھے جو احسن تقویم کا زندہ نمونہ تھے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات پر معاندین احمد یت کے انسانیت سوز طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں: جب حضرت مسیح موعو دؑ کی وفات کی خبر مخالفوں تک پہنچی تو … ان لوگوں نے ہمارے سامنے کھڑے ہوکر خوشی کے گیت گائے اور مسرت کے ناچ ناچے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے۔
پھر آپؓ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہماری غم زدہ آنکھوں نے ان نظاروں کو دیکھا اور ہمارے زخم خوردہ دل سینوں کے اندر خون ہو ہو کر رہ گئے۔ مگر ہم نے ان کے اِس ظلم پر صبر سے کام لیا اور اپنے سینوں کی آہوں تک کو دباکے رکھا۔ اس لیے نہیں کہ یہ ہماری کمزوری کا زمانہ تھا…. بلکہ اس لیے کہ خدا کے مقدس مسیح نے ہمیں یہی تعلیم دی تھی کہ
گالیاں سن کے دعادو، پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھائو انکسار
….. ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں۔ ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب خدا تمہیں دنیا میں طاقت دے اور تم اپنے دشمنوں کا سر کچلنے کا موقعہ پاؤ اور تمہارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کرکے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینا اور ہماری کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تا لوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو دشمن کے سامنے دب کر رہے اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کردیا۔ بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کوخدا پر چھوڑ نا۔ ‘‘ (سلسلہ احمد یہ جلد اول صفحہ 185-186)
آپؓ نے 2 ستمبر 1963ء کو وفات پائی۔ اس موقع پر مکرم ثاقب زیروی صاحب نے اپنی ایک نظم میں کہا:
روح تھی جِس کی غمِ انسانیت سے بے قرار
گفتگو تھی جس کی گلہائے مروّت کی بہار
اِک دِل بیدار چشمِ خود مگر رکھتا تھا
جو ذرّے ذرّے پر محبت کی نظر رکھتا تھا
جو عندلیبِ گلشنِ احمد وہ قمرالانبیاء
مہدی موعود کی قلبی دعاؤں کا صِلا