مسنون طور سے خدا کا فضل تلاش کرو
ایک صاحب گو ڑ گاؤں سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضرت اقدس سے شرف بیعت حاصل کیا۔ بعد از بیعت حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ
ہماری طرف سے تو آپ کو یہی نصیحت ہے کہ مسنون طور سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرکے یہ امر صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ ان کی پیروی کے سوا کوئی راہ اس کی رضا جوئی کی باقی نہیں ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا جویاں ہو اسی دروازہ کو کھٹکھٹائے۔ اس کے لیے کھولا جائے گا۔ بجزاس دروازہ کے تمام دروازے بند ہیں۔ نبوت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی۔ شریعت قرآن شریف کے بعد ہرگز نہیں آئے گی۔ انسان کو کشوف اور وحی اور الہام کا بھی طا لب نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ سب تقویٰ کا نتیجہ ہیں۔ جب جڑ ٹھیک ہو گی تو اُس کے لو ازم بھی خود بخود آجا ئیں گے۔ دیکھو جب سورج نکلتا ہے تو دھوپ اور گر می جو اس کا خا صہ ہیں خود بخود ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان میں تقویٰ آ جاتا ہے تو اس کے لوازم بھی اس میں ضرور آجاتے ہیں۔ دیکھو جب کوئی دوست کسی کے ملنے کے واسطے جاوے تو اس کو یہ امید تو نہ رکھنی چاہیے کہ میں اس کے پاس جاتا ہوں کہ وہ مجھے پلاؤ، زردے اور قورمے اور قلیئے کھلائے گا اور میری خاطر تواضع کرے گا۔ نہیں بلکہ صادق دوست کی ملاقات کی خواہش ہوتی ہے بجز اس کے اور کسی کھانے یا مکان یا خدمت کی پروا اور خیال بھی نہیں ہوتا مگر جب وہ اپنے صادق دوست کے پاس جو اُس سے مہجور تھا جاتا ہے تو کیا وہ اس کی خاطرداری کا کوئی دقیقہ باقی بھی اٹھا رکھتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جہاں تک اس سے بن پڑتا ہے وہ اپنی طاقت سے بڑ ھ کر بھی اس کی تواضع کے واسطے مکلّف سامان کرتا ہے۔
غرض یہی حال روحانیت اور اس دوست اعلیٰ کی ملاقات کا ہے۔ الہامات یا کشوف وغیرہ خبروں کے سہارے والا ایمان، ایمان کامل نہیں۔ وہ کمزور ایمان ہے جو کسی چیز کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ انسان کی غرض اور اصل مدعا صرف رضاءِ الٰہی اور وصول الی اللہ چاہیے۔ آگے جب یہ اس کی رضا حاصل کر لے گا تو خدا تعالیٰ اس کو کیا کچھ نہ دے گا۔ خودا س امر کی درخواست کرنا سوءِ ادب ہے۔
دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرمایا ہے
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(اٰل عـمران:32)
خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے اور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملادے۔ انسان کا مدعا صرف اس ایک واحد لا شریک خدا کی تلاش ہونا چاہیے۔ شرک اور بدعت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رسوم کا تابع اور ہوا وہوس کا مطیع نہ بننا چاہیے۔ دیکھو میں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔
ہمارا صرف ایک ہی رسولؐ اور ایک ہی کتاب ہے
ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے۔ اور صرف ایک ہی قرآن شریف اس رسول پر نازل ہواہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں۔ آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اوروظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں۔ سو تم ان سے پرہیز کرو۔ ان لوگوں نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے خا تم الا نبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنا لی ہے۔ تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فر مان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ بھولا ہوا ہے وہ جو اِن راہوں کو چھو ڑ کر کوئی نئی را ہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں۔ بلکہ اَور اَور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 123۔ 125۔ ایڈیشن 1984ء)