یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (قسط دوم)
[تسلسل کے لیے دیکھیں اخبار الفضل انٹرنیشنل 26؍جنوری 2021ء]
ایک امریکن میاں بیوی سیاح سے عیسائیت اور اپنی صداقت کے موضوع پر گفتگو
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پیغام، دعویٰ اور اس کے دلائل آپ کی زندگی میں ہی دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے تھے، جیسے آسمانی بجلی کی چمک مشرق سے مغرب کو چلی جاتی ہے اسی طرح قادیان سے نکلنے والی آواز براعظم امریکہ تک بھی پہنچ گئی۔
تاریخ احمدیت سے پتہ چلتا ہے کہ مورخہ 7؍اپریل 1908ء بروز منگل صبح ساڑھے دس بجے قادیان میں ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی لیڈی مس بارڈون کے ہم راہ آئے، اور اپنا تعارف کروایا کہ ہم شکاگو امریکہ سے آئے ہیں۔ ہم ملک ملک سیاحت کررہے ہیں اور ہندوستان کے سیاسی اور مذہبی حالات جمع کررہے ہیں، ان کے ساتھ ایک صاحب مسٹر بانسر تھے جو سکاٹ لینڈ انگلستان سے تھے۔ یہ لوگ قریباً دس بجے قادیان پہنچے۔
مسجد مبارک کے نیچے دفاتر میں ان کو اچھی طرح عزت سے بٹھایا گیا۔ اورچونکہ انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی اس لیے حضرت اقدسؑ بھی وہیں تشریف لے آئے۔ شروع میں ڈپٹی مجسٹریٹ علی احمد صاحب ایم اے اور بعد ازاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ترجمانی کی خدمت کی سعادت حاصل کی۔
سیاح نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے مسٹرڈوئی کو کوئی چیلنج دیا تھا۔ کیا یہ درست ہے ؟
اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ ہم نے ڈوئی کو چیلنج دیا تھا۔ اس کے بعد سوال و جواب کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا۔
یہاں بھی ایک معاند احمدیت ہی پیغام احمدیت کی تشہیر کا موجب بنا۔
اسی نشست کے دوران کچھ دیر بعد امریکن سیاح نے سوال کیا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے اس کی سچائی کے دلائل کیا ہیں ؟
حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ خود آپ کا اتنے دور دراز ممالک سے یہاں اک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ہماری صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کہ ہم بالکل گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا:
یَاتُوْنَ مِنْ کُل فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے اور خدا کی مدد ایسی راہوں سے آئے گی کہ وہ لوگوں کے بہت چلنے سے گہرے ہو جائیں گے۔ اللہ نے مجھے قبل از وقت بتایا کہ لوگوں کی بکثرت آمد سے تھک نہ جانا، اکتا نہ جانا۔ یہ باتیں مجھے اردو اور انگریزی میں بھی الہاماً بتائی گئی تھیں۔
یہ گفتگو بہت دلچسپ رہی۔ سیاح نے کہا کہ ہم تو آپ کی عظمت کی وجہ سے اتنا لمبا سفر کرکے آئے ہیں نہ کہ آپ کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس گفتگو کے دوران اپنے دعویٰ کی دلیل میں دو مرتبہ دو بچوں کو بطور مثال پیش فرمایا۔
پہلی دفعہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے بیٹے کو بازو سے پکڑ کر مہمانوں کے سامنے کیا کہ اگر یہ بچہ پیش گوئیاں کرے تو سب ہنسیں گے لیکن ستّر سال بعد وہ باتیں ناممکن حالات کے باوجود پوری ہوجائیں تو پھر کیا جواب دو گے؟
دوسری دفعہ قبولیت دعا کے ثبوت کے طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا بیٹا عبدالحئی موجود تھا، حضورؑ نے اس بچہ کی بازوپکڑ کر ایک دشمن کی طرف سے ابتر کے طعنے اور اس بچہ کی پیدائش کی پیش خبری کے واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی۔
سیاح نے سوال کیا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیاہے؟ حضورعلیہ السلام نے مفصل جواب دیا۔ ایک اقتباس پیش ہے:
’’ہمارے آنے کا یہ مقصد ہے کہ عیسائیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو غلطیاں (خواہ وہ عملی ہوں یا اعتقادی) پیدا ہو گئی ہیں ان کی اصلاح کی جاوے۔ بھلا آپ ہی بتائیں کہ آیا عیسائیت یورپ میں اپنی اصلیت پر ہے؟یا عیسائیوں نے توریت یا انجیل کی تعلیم کے کسی نقطہ پر بھی عمل کیا ہے؟تمام یورپ کی عملی حالت کیا کہہ رہی ہے؟آیا ان لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ پربھی ایمان ہے؟اور کیا ان کو خدا کا خوف بھی ہے؟‘‘
قارئین کی سہولت کے لیے عرض ہے کہ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 513تا 521میں یہ دلچسپ اور ایمان افروز گفتگو محفوظ ہے۔
اس موقع پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مہمان نوازی کے خلق کا اظہار یوں ہوا ہے کہ گفتگو کے اختتام پر آپؑ نے مہمانوں کی خدمت میں چائے پیش کروائی۔ مہمانوں نے حضرت اقدسؑ کا بہت شکریہ ادا کیا۔
اس گفتگو کے بعد ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ اس دوران بھی سلسلہ کلام جاری رہا۔
معلوم ہوتا ہےکہ یہ مہمان کوئی عام سیاح نہ تھے بلکہ زیرک لوگ تھے، مثلاًانہوں نے کھانے کے دوران حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا۔ مفتی صاحبنےمبنی بر حقیقت جواب دیا کہ
’’وہ ہوگا جو خدا کو منظور ہوگا اور جو ہمیشہ انبیاء کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے۔ ‘‘
کھانے پینے کے بعد یہ لوگ مدرسہ تعلیم الاسلام میں گئے جہاں ایک طالب علم محمد منظور علی شاکر نے سورہٴ مریم کی ابتدائی آیات نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس وقت ہائی کلاس میں طلباءکی قرآن شریف کی گھنٹی چل رہی تھی۔ بعد ازاں یہ مہمان رخصت ہو کر بٹالہ چلے گئے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ513تا521، ایڈیشن1988ء)
٭…٭… (جاری ہے)…٭…٭