احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں
(حصہ دوم)
مرزامرادبیگ آف جالندھر
سیالکوٹ میں قیام کے دوران ایک اورصاحب جن کاذکرملتاہے وہ مرزامرادبیگ صاحب ہیں۔ یہ جالندھر کے رہنے والے تھے۔ مرزاشکستہ تخلص رکھتے تھے۔ عیسائیوں کے ساتھ بحث کرتے اوراسی وجہ سے انہوں نے بعدازاں اپناتخلص مؤحد رکھ لیاتھا۔ یہ بھی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہواکرتے تھے۔ حضرت عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’مرزا مراد بیگ صاحب جالندھر کے رہنے والے تھے۔ ان کا تخلص ابتداءً مرزا شکستہ تھا لیکن بعد میں جب عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کا سلسلہ انہوں نے وسیع کیا۔ اور عیسائیت کی تردید میں مضامین لکھنے شروع کئے۔ تو انہوں نے اپنا تخلص مرزا موحد رکھ لیا۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عیسائیوں سے مباحثات سیالکوٹ میں وقعت اور عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ آپؑ کے طریق استدلال پر لوگ عش عش کرتے اور خود پادری صاحبان بھی آپؑ کی علمی عظمت اور اخلاقی قوت کا احترام کرتے تھے۔ مرزا موحّد کو بھی آپؑ سے تعلقات بڑھانے کا شوق ہوا۔ وہ اکثر آپؑ کی خدمت میں آتے اور عیسائیوں کے اعتراضات کو پیش کرتے۔ ان کے جوابات سنتے اور پھر اپنے رنگ میں ان کو اخبارات کے ذریعہ شائع کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فطرت میں یہ بات واقع ہوئی تھی کہ آپؑ عیسائی مذہب کی غلطیوں اور باطل عقائد کی تردید کے لئے انتہائی جوش رکھتے تھے۔ اور اگر کسی شخص کو اس میں ذرا بھی دلچسپی لیتے دیکھتے تو ہر طرح اس کے شوق اور دلچسپی بڑھانے میں مدد دیتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ آپؑ کے طرز عمل سے پایا جاتا ہےکہ آپؑ اس باطل عقیدہ کفارہ و تثلیث و الوہیت مسیح وغیرہ کے ابطال کے لئے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ مرزا موحّد کے دل میں اس بات نے آپؑ کے لئے ایک خاص عظمت پیدا کر دی تھی۔ اور جب آپؑ سیالکوٹ سے قطع تعلق کر کے قادیان آگئے۔ تو بھی مرزا موحّد صاحب آپؑ کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لایا کرتے تھے۔ اور آپؑ سے استفادہ کیا کرتے۔
ان کے مضامین کا ایک بہت بڑا سلسلہ منشور محمدی میں طبع ہوا کرتا تھا۔ خود انہوں نے بھی آخر میں سیالکوٹ سے وزیرِہند نام ایک اخبار نکال لیاتھا۔ اگرچہ وہ زیادہ تر عام اخبار تھا۔ تاہم اس میں کبھی کبھی عیسائیوں کے متعلق مضامین بھی نکل جایا کرتے تھے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول ص 372، 373)
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ اپنی کتاب Life of Ahmad میں لکھتے ہیں :
“Mirza Murad Beg of Jullundur whose poetic name was Mawahhad told Ahmad that Sir Sayyed Ahmad Khan of Aligarh had written a commentary on the Bible [1862] and that if he wrote to him it would be most useful. Ahmad, thereupon, wrote to Sir Sayyed in Arabic. He also read later a part of his commentary on the Holy Quran, but did not like it. It appeared to him that Sir Sayyed had, perhaps sincerely, adopted an apologetic attitude, as if there were anything in Islam that could not hold its own in the face of modern knowledge and science.(He used to come to Sialkot and later to Qadian to consult Ahmad on religious matters. Often would he put before Ahmad objections raised by Christians against Islam and having learnt the answers he wrote articles in the Manshoor -i- Mohammadi in defence of the faith.)
(Life of Ahmad by Dard,p.40)
مرزا مراد بیگ آف جالندھر جن کاتخلص مؤحد تھا۔ انہوں نے حضرت احمدؑ کوبتایاکہ سرسیداحمدخان آف علیگڑھ نے بائبل کی ایک تفسیر1862ءمیں لکھی ہے۔ اوریہ کہ اگرحضرت احمدؑ ان کوخط لکھیں توان کے لئے مفیدہوسکتاہے۔ لہٰذاحضرت احمدؑ نے سرسید احمدخان کوعربی میں ایک خط لکھا۔ اوربعدازاں ان کی قرآن کریم کی وہ تفسیربھی پڑھی مگرانہیں پسندنہ آئی۔ ان کویہ احساس ہواکہ سرسیداحمدخان نے شایدخلوص نیت سے معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیاہے کہ جیسے اسلام موجودہ سائنس اورجدیدعلوم کاسامنا نہیں کرسکتاتھا۔
مرزامؤحدسیالکوٹ آیاکرتےتھےاوربعدازاں قادیان بھی آیاکرتے تھے۔ اورحضرت احمدؑ سے مذہبی امور پر گفتگوکرنے کے لئے اکثروہ حضرت احمدؑ کے سامنے عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات پیش کرتے تھے۔ اور ان کے جوابات پاکر منشورمحمدی میں مذہب کے دفاع میں مضامین لکھاکرتے۔
نصراللہ عیسائی ہیڈماسٹر مشن سکول سیالکوٹ
جامع مسجد کے سامنے جس بیٹھک میں حضوراقدسؑ رہائش پذیرتھے اس کے قریب ایک شخص فضل دین نامی بوڑھے دکاندارتھے جو رات کوبھی دکان پرہی رہاکرتے تھے۔ کچھ دوست احباب شام کویہاں جمع ہوتے اور کبھی کبھی حضرت اقدسؑ بھی تشریف لے جایاکرتے۔ علامہ سیدمیرحسن صاحب جو کہ ان شاملین میں سے ایک تھے بیان کرتے ہیں :
’’بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دکاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے۔ ان کے اکثر احباب شام کے بعد ان کی دکان پر آجاتے تھے۔ چونکہ شیخ صاحب پارسا آدمی تھے۔ اس لئے جو وہاں شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے۔ کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہِ گاہِ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ آجایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی۔ مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی، جلد اول روایت نمبر280)
یہ نصراللہ صاحب شکارپورسندھ کے مسلمان گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کاخاندان بمبئی منتقل ہوگیا۔ 28؍ جولائی 1856ء کو انہوں نے بپتسمہ لیا۔ پادری ٹامس ہنٹر چرچ آف سکاٹ لینڈ جب 1857ء میں بمبئی سے سیالکوٹ پہنچے تو انہوں نے نصراللہ کو بھی اپنی معاونت کے لئے سیالکوٹ بلالیالیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد فوجی بغاوت /غدرکی وجہ سے حالات خراب ہوجانے کی بنا پر یہ واپس بمبئی چلے گئے اور1861ء میں ان کی بیوی اوربیٹی نے بھی پادری جے شیرف کے ہاتھ سے بپتسمہ لے لیا۔ اور اسی سال یہ گھرانہ سیالکوٹ آگیا اور چرچ آف سکاٹ لینڈ مشن سکول سیالکوٹ چھاؤنی میں سات سال تک کام کیا، جہاں جنوری 1863ء کو اس سکول کے ہیڈماسٹر مقررہوئے۔
( ماخوذاز ’’پادری ایم اسماعیل کے حالات زندگی‘‘ ص 13-28 مصنفہ بشپ ولیم جی ینگ)
سرسیداحمدخان سے خط وکتابت
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سرسیداحمدخان صاحب قوم کی ہمدردی اوراصلاح کاجذبہ اپنے دردمنددل میں لے کرکھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کا ایک محدودہی سہی لیکن پڑھالکھاطبقہ ان کی طرف مائل ہورہاتھا۔ ڈاکٹر محمد اقبال کے استادمحترم علامہ سیدمیرحسن صاحب بھی ان کے معتقدین میں سے ایک تھے۔ مرزاموحدصاحب کہ جن کا اوپر کی سطروں میں ذکرہواہے یہ بھی سرسیداحمدخان صاحب کے معتقدین میں سے تھے۔ سیالکوٹ میں ہی ان کے متعلق حضرت اقدسؑ سے سرسیدکاغائبانہ تعارف کرایاگیا۔ اورآپؑ نے یہیں سے انہیں ایک خط بھی لکھاجوکہ عربی زبان میں تھا۔ علامہ سیدمیرحسن صاحب کی یہ روایت حیات احمدؑ اور سیرت المہدی میں موجودہے وہ بیان کرتے ہیں :
’’چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے۔ اور مراد بیگ نام جالندھرکے رہنے والے تھے۔ مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے توراة وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط وکتابت کریں۔ اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی۔ چنانچہ مرزا صاحب نے سر سید کو عربی میں خط لکھا۔ ‘‘ (حیات احمد جلد اول صفحہ94)
علامہ موصوف مزیدبیان کرتے ہیں
’’اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی۔ تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی۔ جب میں اور شیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔ اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا۔ راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے۔ فرمایا :۔ کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں۔ جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سُن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا۔‘‘
(حیات احمدجلد اول ص97)
ایسابھی معلوم ہوتاہے کہ سرسیداحمدخان صاحب قرآن کریم کی جوتفسیرلکھناچاہ رہے تھے اس کے لئے وہ کسی گہرے دینی علم رکھنے والی شخصیت کی تلاش میں بھی تھےاور اس سلسلہ میں وہ حضرت اقدسؑ سے مددلیناچاہ رہے تھے لیکن حضرت اقدسؑ کو ان کااندازتفسیراورانداز فکرپسندہی نہ آیا۔ لیکن سرسیدکے ساتھ ایک گونہ تعلق آپؑ کو رہااور ان کی ہمدردئ قوم وملت اور زیرکی ودانائی کی تعریف فرمائی۔
یہاں یہ ذکر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ سید میرحسن کے بڑےبھائی سید عبدالغنی جو کہ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے اور انہوں نے کچھ عرصہ دینانگر ضلع گورداسپور میں پوسٹ ماسٹرکی حیثیت سے بھی کام کیا ان کی سرسیدسے خط وکتابت تھی۔ سرسیدکا ان کے نام ایک خط جو ملاحظہ کرنے کے قابل ہے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’مخدومی مکرمی سیدعبدالغنی صاحب
آپ کاعنایت نامہ علی گڑھ سے ہوکرالٰہ آباد میرے پاس پہنچا…حضرت مرزا(غلام احمد) صاحب (قادیانی) کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے۔ ایک بزرگ، زاہد، نیک آدمی ہیں۔ جوکچھ خیالات ان کے ہوگئے ہوں، ہوگئے ہوں۔ بہت سے نیک آدمی ہیں جن کواس قسم کے خیالات پیداہوچکے ہیں۔ ہم کوان سے نہ کچھ فائدہ ہے نہ کچھ نقصان (مگر) ان کی عزت اوران کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اورنیکی کے لازم ہے۔ ان کے خیالات کی صداقت وغیرصداقت سے بحث محض بے فائدہ ہے۔ ہمارے لئے مفیدہمارے اعمال ہیں۔ ان کے اچھے ہونےپر کوشش چاہیے۔ فقط خاکسار سیداحمد
از الٰہ آباد 14نومبر 1892ء‘‘
(علامہ اقبالؒ کے استاد شمس العلماء مولوی سیدمیرحسن۔ حیات وافکار، مصنفہ ڈاکٹرسیدسلطان محمودحسین ص 23)
(باقی آئندہ)