’’تحدیث نعمت‘‘ (قسط اوّل)
حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی خودنوشت سوانح حیات
انسان نے جب سے اظہارِ خیالات کا ہنر پایا ہے تب سے ہی اپنی قلبی کیفیات اور پیش آمدہ واقعات کو محفوظ کرنے کا شغل بھی اپنارکھا ہے۔ اس کا آغاز تو اگرچہ اشکال اور تصاویر کی صورت میں ہوا تھا تاہم صدیوں کے سفر میں جب قلم کے استعمال نے اس فن کو جِلا بخشی تو کتبات اور مخطوطات کے ذریعے بھی ذاتی افکار اور تاریخِ زمانہ کو محفوظ کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ ہر دَور میں تحریری نوادرات کو محفوظ کرنے اور دوسروں کو ان سے متعارف کرانے کے تعلق میں جو نت نئے ذرائع اور سہولیات میسر آتی رہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمدہ افکار و اندازبیان کو نہ صرف مقبولیت و شہرت حاصل ہوتی رہی بلکہ انیسویں صدی عیسوی سے چھاپہ خانوں کے رواج کے بعد تو تاریخ میں مدفون کئی نامی گرامی بادشاہوں، عظیم مفکرین، بلندپایہ عسکری شخصیات، اہم سیاسی رہنماؤں، ادبی دانشوروں اور سماجی خدمتگاروں، حتیٰ کہ کھلاڑیوں اور فن کاروں تک، الغرض زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھنے والے اَن گنت افراد کی خودنوشت یا نامور شخصیات کے بارے میں رقم کی جانے والی سوانح عمریاں اتنی کثرت سے شائع ہوئی ہیں کہ اس کے نتیجے میں مذہب، ریاست، سیاست اور ادب سمیت علم و تہذیب کی ہرشاخ ہی ثمربار ہوئی ہے۔
ایک ایسی ہی خودنوشت سوانح حیات ’’تحدیث نعمت‘‘ آج ہمارے زیر نظر ہے جو حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی زندگی کے چند منتخب پہلوؤں اور معزز شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ دراصل یہ سیرت کی ایک عمدہ کتاب کے علاوہ تاریخ کی بھی ایک مستند دستاویز ہے۔
حضرت چودھری صاحبؓ کی بلند پایہ شخصیت اور دینی و دنیاوی سطح پر آپؓ کی عظیم الشان کامیابیوں کے بارے میں ایسی بے شمار داستانیں ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دنیا کی نامور ہستیوں نے تحریر کیا۔ علاوہ ازیں آپؓ کے اخلاق عالیہ اور بلند روحانی مقام سے متعلق بھی ہزاروں واقعات سپرد قلم کیے جاچکے ہیں۔ نیز آج بھی ایسی کئی شخصیات حیات ہیں جنہوں نے آپؓ سے براہ راست اکتساب فیض کیا اور اُن کی زندگیوں پر آپؓ کی ہمہ جہت شخصیت کے اَن مِٹ نقوش ثبت ہوئے۔
آپؓ کی خودنوشت سوانح حیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسلوب بیان اپنی سلاست و روانی کے ساتھ سادگی، سچائی اور انکسار کا نہایت خوبصورت مرقّع ہے۔ اس میں درج ہر واقعہ شاہد ہے کہ حضرت چودھری صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے جن غیرمعمولی نعماء سے نوازا تھا، اُن میں حافظے کی نعمت بھی وافر عطا فرمائی تھی۔ یہ گرانقدر تصنیف آپؓ کی بےنفس شخصیت کی بھی آئینہ دار ہے۔ چنانچہ 1971ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے ذریعے آپؓ کی شخصیت کے ایک پہلو ’’جذبۂ خدمت خلق‘‘ کی اس امر سے بھی عکاسی ہوتی ہے کہ اس کتاب کے جملہ حقوقِ اشاعت آپؓ نے ڈھاکہ کے ایک فلاحی ادارے کو عطا فرمادیے۔
اس خودنوشت سوانح حیات کے آغاز میں حضرت چودھری صاحبؓ کی ایک بہت ہی پُراثر تحریر درج ہے جو آپؓ کی اس منکسرالمزاجی کی بھی مظہر ہے جو آپؓ کی منفرد شخصیت کا جزولاینفک بن چکی تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’الہ العالمین! مَیں تیرا نہایت عاجز اور پُرخطا بندہ ہوں۔ تُو میری ہر کمزوری، ہر لغزش اور تقصیر کو خوب جانتا ہے۔ مَیں تیرے بےپایاں احسانات اور اپنی لاتعداد تقصیروں اور خطاؤں کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہوں … تُو جانتا ہے کتنی بار مجھ سے کہا گیا کہ مَیں تیرے انعامات، تیری پردہ پوشیوں، تیری ذرّہ نوازیوں کا کچھ ذکر ضبطِ تحریر میں لے آؤں اور ہر بار میری کمزوریوں کا احساس اور یہ خوف کہ مَیں تیری نظروں میں کہیں بےجا نمائش کا مرتکب نہ ٹھہروں، میرے رستے میں روک بنتا رہا۔ تیرے فضلوں اور احسانوں کو مَیں شمار میں نہیں لاسکتا۔ تُو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے کرم نے مجھے بخشا وہ خالص تیری عطا ہے میرا اس میں کچھ بھی دخل نہیں۔ ذہن تُو نے عطا کیا، حافظہ تُو نے دیا، قویٰ سب تیری عنایت ہیں، وسائل سب تیری بخشش ہیں، خدمت کے موقعے تُو نے پیدا کیے، خدمت کی توفیق تُو نے عطا فرمائی۔ …‘‘
حضرت چودھری صاحبؓ ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے جو دنیاوی لحاظ سے مسلم لیگ کے صدر، پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور لمبا عرصہ عالمی عدالت انصاف کے جج اور صدر کی حیثیت سے ممتاز عہدوں پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے لیے آپ کی عرقریزی، عربوں اور اسلامی ریاستوں کی آزادی کے لیے آپؓ کی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ متعدد ممالک کے اعلیٰ ترین اعزازات آپؓ کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیے گئے۔ لیکن کامرانیوں سے بھرپور ایسی زندگی گزارنے کے بعد آپؓ نے اُن لمحات کو اپنی زندگی کے بہترین لمحات قرار دیا جب آپؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ بعدازاں مہدیٔ آخرزمان پر کامل ایمان رکھتے ہوئے ساری زندگی آپؓ کا لائحہ عمل وہی رہا جو خلافت احمدیہ کے ایک ادنیٰ غلام کا ہونا چاہیے۔نہایت محبت، عقیدت اور عاجزی کے ساتھ آپؓ نے خلفائے احمدیت کی اطاعت کی اور خلفائے کرام کی دعاؤں کے خصوصی مورد بنے۔ اس خوش بختی نے آپؓ کی استعدادوں کو غیرمعمولی جِلا عطا فرمائی اور اخلاقی و روحانی مراتب کے ساتھ ساتھ بےشمار دنیاوی اعزازات بھی آپؓ کی جھولی میں ڈال دیے۔ ذیل میں اس کتاب سے اُن واقعات سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے جن کا تعلق حضرت چودھری صاحبؓ کی روحانی زندگی سے ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت سے مشرّف ہونا
حضرت چودھری صاحبؓ اپنی روحانی زندگی کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ میں 6؍فروری 1893ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ میری والدہ کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے سچے خوابوں اور بشارتوں سے نوازتا تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت بھی اپنے خوابوں کی بِنا پر کی جس کے چند دن بعد والد صاحب نے بھی بیعت کرلی۔ یہ وہ دن تھے جب ستمبر، اکتوبر 1904ء میں حضرت اقدسؑ سیالکوٹ میں جلوہ افروز تھے۔ والدہ صاحبہ اور والد صاحب کی بیعت کے وقت مَیں بھی موجود تھا۔ مجھے حضورعلیہ السلام کی زیارت کی سعادت پہلی مرتبہ 3؍ستمبر1904ء کو لاہور میں نصیب ہوئی تھی جب حضورؑ کی موجودگی میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے حضورؑ کا لیکچر پڑھ کر سنایا تھا۔ میرے والد صاحب سیالکوٹ سے یہ لیکچر سننے لاہور گئے تھے اور میری خوش نصیبی سے مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے۔ میری نشست پلیٹ فارم پر حضورؑ کے قدموں کے قریب ہی تھی اور مَیں سارا وقت حضورؑ کے مبارک چہرے پر ٹکٹکی لگائے رہا تھا۔ مجھے اس دن سے حضورؑ کے جملہ دعاوی پر پختہ ایمان ہے اور حضورؑ کے دعاوی کی نسبت کبھی کسی قسم کی الجھن میرے دل میں پیدا نہیں ہوئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہ عَلیٰ ذٰلِک۔ حضورؑ کے قیامِ سیالکوٹ کے دوران مجھے کئی بار حضورؑ کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی اور انہی دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کی زیارت بھی پہلی بار نصیب ہوئی۔
حضرت چودھری صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ مَیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ لوں۔ لیکن مَیں آشوبِ چشم کی وجہ سے اس میں باقاعدہ نہیں رہا تھا چنانچہ کالج جانے سے چند ماہ قبل جب والد صاحب کو میری رفتار کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ کالج جانے سے پہلے تم سارے قرآن کریم کا کم سے کم سادہ ترجمہ ضرور سیکھ لو۔ چنانچہ روزانہ سبق دیتے ہوئے انہوں نے یہ ترجمہ مجھے سکھادیا۔ اولاد پر ماں باپ کے احسانات کا سلسلہ لامتناہی ہوتا ہے۔ مجھ پر میرے والد صاحب کے بےپایاں احسانات میں سے ایک احسانِ عظیم یہ تھا کہ انہوں نے مسلسل توجہ فرماکر مجھے قرآن کریم کے سادہ ترجمے سے شناسا کرادیا اور اس کے نتیجے میں قرآن کریم کے ساتھ میری اجنبیت دُور ہوگئی اور میرے دل میں قرآن کریم کا احترام اور عظمت قائم ہوگئے۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے ہوسٹل میں ایک کمرے میں ہم آٹھ طالب علم تھے۔ مَیں اکیلا احمدی تھا۔ دوتین اُن میں سے کبھی شرارت پر آتے تو مجھے دق کرتے۔ تعطیلات میں جب مَیں گھر گیا تو مَیں نے والد صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ میری رہائش کا انتظام ہوسٹل سے باہر کردیا جائے۔ وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے فرمایا تم ابھی سے گھبراگئے ہو زندگی میں تو تمہیں اس سے بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔ اگر ابھی سے برداشت کی عادت نہیں ڈالوگے تو آگے چل کر کیا کروگے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی دستی بیعت کا شرف
اسی سال حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا والد صاحب کو خط آیا جس کا مضمون فقط اتنا تھا کہ اب آپ اپنے بیٹے کی بیعت کرادیں۔ مَیں صدق دل سے حضورعلیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا۔ بیعت کرنے میں مجھے کسی قسم کا تامّل نہیں تھا۔ مَیں تو اپنے تئیں اس وقت سے ہی احمدی سمجھتا تھا جب میرے والدین نے 1904ء میں بیعت کی تھی۔ یہ خط پڑھنے کے بعد مَیں والد صاحب کی عدالتوں میں تعطیلات ہونے پر اُن کے ہمراہ قادیان حاضر ہوا۔ حضورعلیہ السلام صبح سیر کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس وقت خدام کو حضورؑ کی خدمت میں حاضر رہنے اور حضورؑ کے کلماتِ طیبہ سے مستفید ہونے کا موقع میسر آجاتا تھا۔ پھر ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد بھی حضورؑ کچھ وقت کے لیے مسجد مبارک میں تشریف فرما رہتے تھے۔ اس وقت بیعت بھی ہوجاتی تھی۔ مَیں نے 16؍ستمبر1907ء کو بعدنماز ظہر مسجد مبارک میں حضورؑ کی خدمت میں گذارش کی کہ میری بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضورؑ نے اجازت بخشی اور مَیں حضورؑ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہ عَلیٰ ذٰلِک۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بےشمار احسانات میں سے جن کا یہ عاجز مورد ہوا یہ ایک بہت بڑا احسان تھا کہ آپؓ نے والد صاحب کو یہ تحریک فرمائی اور اس سے فائدہ اٹھاکر مَیں نے حضورعلیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کا سانحہ
مئی 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے اور احمدیہ بلڈنگس میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ پہلے سے حضور علیہ السلام کے الہامات میں متواتر آپ کی وفات کی طرف اشارہ ہو رہا تھا۔ لیکن طبعاً آپ کے خدام میں سے کسی کا ذہن اس دردناک تصوّر کا متحمّل نہ ہوتا تھا کہ حضورؑ کے وصال کا وقت قریب ہے۔ حتٰی کہ
اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَالْمَوْتُ قَرِیْبٌ
جیسے چونکا دینے والے الفاظ سے بھی اکثر اذہان نے یہی مراد اخذ کی کہ اس میں ہر انسان کو انجام سے متنبہ کرنا مقصود ہے۔ حضورؑ نے بھی کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ فرمایا اور متواتر اعلائے کلمۃاللہ کی سعی میں بشاشت اور اطمینان کے ساتھ مصروف رہے۔ گورنمنٹ کالج میں ہم پانچ چھ احمدی طالب علم تھے اور ہم سب بالالتزام حضور علیہ السلام کی قیام گاہ پر حاضر ہوتے رہتے تھے۔ 26؍مئی کو مَیں حسب معمول دوپہر کا کھانا اوّل وقت میں ہی کھاکر لیٹ گیا تھا۔ دفعۃً شیخ تیمور صاحب نے میرا پاؤں ہلایا اور پریشانی کی حالت میں کہا فوراً میرے کمرے میں آؤ۔ مَیں جلدی میں اُٹھ کر ان کے پیچھے ہولیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر انہوں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ فوت ہوگئے ہیں۔
اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
باقی احمدی دوست بھی ان کے کمرے میں جمع ہوگئے تھے۔ یہ دل ہلادینے والی خبر ایسی غیرمتوقع تھی کہ دل مانتا ہی نہ تھا کہ یہ صحیح ہوسکتی ہے۔ لیکن شک کی گنجائش بھی نظر نہ آتی تھی۔ جب ہوش ٹھکانے آئے تو ہم سب جلدی میں ہراساں اور پریشاں احمدیہ بلڈنگس پہنچے۔ وہاں مکان کے اندر تو وہی سماں تھا جس کی توقع کی جاسکتی تھی اور جس کا اندازہ ہر مخلص اور دردمند دل کرسکتا ہے۔ لیکن مکان سے باہر سڑک پر مخالفین سلسلہ جس قسم کے مظاہروں سے اپنے اخلاقی فقدان کا اعلان کررہے تھے وہ نہایت اندوہناک اور قابلِ افسوس تھا۔ نماز جنازہ کے بعد ہم میں سے اکثر قادیان جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اور جو گاڑی عصر کے وقت لاہور سے بٹالہ جاتی تھی اور جس کے ساتھ ایک خاص ڈبے میں حضور علیہ السلام کی نعشِ مبارک کو لے جانے کا انتظام کیا گیا تھا، اس میں سوار ہوگئے۔ دوسرے بزرگوں کے متعلق تو مجھے پوری طرح یاد نہیں، لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے متعلق یاد پڑتا ہے کہ آپ تیسرے درجے کے ڈبے میں ہمارے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے۔ گفتگو کا تو کوئی موقع نہیں تھا، سب لوگ دعا اور درودشریف کے ورد میں مصروف تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ سارا وقت سر جھکائے مراقبے کی حالت میں نظر آتے تھے۔ امرتسر پہنچنے تک مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ پلیٹ فارم کے اس حصے میں جہاں اوپر چھت نہیں تھی اور پلیٹ فارم بھی کچھ کھلا تھا حضرت مولوی صاحبؓ نے نماز پڑھائی۔ امرتسر کی جماعت کے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے۔ کچھ رات گئے گاڑی بٹالہ پہنچی۔ یہاں جہاں کہیں کسی سے ہوسکا ایک دو گھنٹے سستالیا۔ آدھی رات کے کچھ بعد یہ محزون قافلہ پاپیادہ قادیان روانہ ہوگیا۔ چونکہ گرمی کا موسم تھا اور ہجوم کی کثرت سے گرد اُڑتی تھی اس لیے رفتار بہت دھیمی تھی تاکہ احباب کو تکلیف نہ ہو۔ اور نعش مبارک کو کندھا دینے والے آرام اور سہولت سے سفر طے کرسکیں۔ قادیان کی سڑک پر احباب ٹولیوں میں بکھر گئے تھے اور قافلہ اندازاً دو میل تک پھیل گیا تھا۔ راستے میں جہاں فجر کا وقت ہوا اور وضو کے لیے پانی میسر آسکا احباب نے باجماعت نماز ادا کرنے کا انتظام کرلیا۔ طلوع آفتاب کے وقت قافلہ قادیان پہنچا وہاں پہنچ کر نعشِ مبارک کو حضورؑ کے باغ والے مکان کے دالان میں رکھ دیا گیا۔
جوں جوں باہر کی جماعتوں کو حضورؑ کے وصال کی اطلاع ملتی گئی، احباب دُور و نزدیک سے قادیان جمع ہوتے گئے۔ اور خاموشی سے زیرلب درودشریف پڑھتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے حضورؑ کے چہرہ مبارک کی زیارت کرتے رہے۔
خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا انتخاب
بعد مشورہ جس میں اراکین صدرانجمن احمدیہ شامل تھے۔ یہ طے پایا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ حضور علیہ السلام کے خلیفہ ہوں اور آپ کی اطاعت جماعت پر ایسے ہی واجب ہوگی جیسے حضور علیہ السلام کی واجب تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے یہ درخواست منظور فرمائی اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں جماعت کو نئے حالات میں اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر جماعت کی بیعت لی۔ اور باغ کے اس حصہ میں جو آموں والا باغ کہلاتا تھا حضورؑ کا جنازہ پڑھایا۔ اور حضورؑ کی تدفین مقبرہ بہشتی میں عمل میں آئی۔
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلیٰ سَیِّدِہٖ وَاٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَخُلَفَائِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
27؍مئی 1908ء کی رات قادیان ٹھہر کر 28؍مئی کو مَیں لاہور واپس آگیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں حاضری
ستمبر 1904ء سے لے کر حضور علیہ السلام کے وصال تک خاکسار کو کئی دفعہ حضور علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ستمبر کی تعطیلات میں ا ور سالانہ جلسہ کے ایام میں مَیں اپنے والد صاحب کے ہمراہ قادیان حاضر ہوا کرتا تھا۔ حضور علیہ السلام جب سیر کو تشریف لے جاتے تو خاکسار بھی خدام کے زمرے میں رہا کرتا اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد مسجد مبارک میں بھی حضورؑ کی مجلس میں حاضر رہتا۔ کسی خاص مہمان کے آنے یا رخصت ہونے پر بھی بعض دفعہ حضورؑ باہر تشریف لاتے یا مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوتے تو زیارت کا شرف حاصل ہوجاتا۔ جب میاں فضل حسین صاحب انگلستان سے تعلیم کی تکمیل کے بعد واپس اپنے وطن بٹالہ تشریف لائے تو ان کے والد صاحب جن کے حضورعلیہ السلام کے ساتھ خاندانی مراسم تھے، انہیں ساتھ لے کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے لیے دعا کی درخواست کی۔ خاکسار اس موقع پر بھی حاضر تھا۔ میاں فضل حسین صاحب نے آریہ سماج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نسبت کچھ تشویش کا اظہار کیا۔ جس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’آریہ سماج مذہبی جماعت کی حیثیت سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے گا کیونکہ اس کی بنیاد روحانیت پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر عطا فرمائے تو آپ اپنی زندگی میں ہی آریہ سماج کا بطور مذہبی جماعت کے زوال دیکھ لیں گے۔ ‘‘ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ میاں صاحب کی وفات 1936ء میں ہوئی، اس وقت تک آریہ سماج کی مذہبی حیثیت ختم ہوچکی تھی۔
صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات کے وقت بھی خاکسار قادیان میں حاضر تھا۔ اس وقت مہمان خانے سے جو رستہ ڈھاب کے بند پر سے حضورؑ کے باغ اور بہشتی مقبرے کو جاتا ہے اس کے درمیانی حصے میں ڈھاب پر پُل نہیں تھا۔ صاحبزادہ مبارک احمد کا جنازہ مقبرے تک لے جانے کے لیے ایک عارضی پُل کی ضرورت پیش آئی جو جلدی میں سکول کے بنچوں اور میزوں کے ساتھ تیار کیا گیا۔ خاکسار نے بھی اس کی تیاری میں حصہ لیا۔ جنازے کے بعد تدفین میں کچھ وقفہ تھا کیونکہ قبر ابھی تیار نہ ہوئی تھی۔ اس عرصے میں حضورؑ اس قطعے میں جو بعد میں خاص صحابہ کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا تشریف فرما رہے اور خدام کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے۔ آپؑ کے چہرۂ مبارک پر غم کے کوئی آثار نہ تھے اور نہ آپؑ کے کلام کے انداز سے یا آواز سے ظاہر ہوتا تھا کہ آپ اپنے فرزند ارجمند کے جنازے کے بعد اس کی تدفین پر دعا کے انتظار میں تشریف فرما ہیں۔ آپؑ کے کلام کا انداز بالکل وہی تھا جو روزمرّہ کی مجلس میں ہوا کرتا تھا۔ حضور علیہ السلام صبر جمیل کا کامل نمونہ تھے۔
مسجد مبارک کی توسیع سے پہلے کا واقعہ ہے۔ چند مہمان جن میں حضرت سیّد حامد شاہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور والد صاحب شامل تھے، مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ خاکسار بھی کھانے میں شامل تھا۔ میری نشست اس دروازے کے عین سامنے تھی جس سے حضورؑ اپنے مکان سے مسجد میں داخل ہوا کرتے تھے۔ دروازے کی زنجیر مسجد کی طرف سے لگی ہوئی تھی۔ حضورؑ کے مکان کی طرف سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو مَیں نے زنجیر کھول دی۔ دروازہ کھلنے پر دیکھا کہ حضورؑ دستِ مبارک میں ایک طشتری لیے کھڑے ہیں جس میں گوشت کی بریاں ران رکھی ہوئی ہے۔ حضورؑ نے السلام علیکم فرماکر طشتری خاکسار کو دے دی اور حضورؑ واپس تشریف لے گئے۔ حضورؑ کی مشفقانہ مہمان نوازی اور خدام پروری اور اس بریاں گوشت کی لذّت زائد از ساٹھ سال کے بعد بھی خاکسار کی یاد میں ایسی ہی تازہ ہیں کہ گویا یہ کل کا واقعہ ہے۔
حضورؑ کا لباس سادہ ہوا کرتا تھا۔ عمامے کے اندر حضورؑ نرم رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ کرتا جو عموماً ململ کا ہوتا تھا، صدری اور لمباکوٹ اور ہلکی تنگ موری کی شلوار، گرم موسم میں بھی صدری اور کوٹ عموماً گرم کپڑے کے ہوا کرتے تھے۔ جب حضورؑ باہر تشریف لے جاتے تو ہاتھ میں چھڑی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ستمبر کے مہینے میں خاکسار نے دیکھا کہ دوپہر کےو قت کھانے کے بعد اور ظہر سے پہلے حضورؑ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب والے مکان کے دروازے سے جو مسقّف گلی میں کُھلتا تھا باہر تشریف لائے اور گلی میں سے ہوکر اس زیرتعمیر مکان کے صحن میں تشریف لے گئے جس میں بعد میں سیّدہ اُمّ طاہر احمد صاحبہؓ کی رہائش رہی۔ اس وقت معمار اور مزدور کھانے کے لیے گئے ہوئے تھے اور کام بند تھا۔ حضورؑ تھوڑی دیر تک عمارت کو دیکھتے رہے اور پھر اسی راستے واپس تشریف لے گئے۔ خاکسار نے حضورؑ کو گلی میں تشریف لاتے وقت سے لے کر واپس تشریف لے جاتے وقت تک دیکھا۔ حضورؑ اس وقت صرف رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھے اور صدری زیب تن تھی۔ حضورؑ نے کوٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ دستِ مبارک میں چھڑی تھی۔ خاکسار کچھ فاصلے پر حضورؑ کے پیچھے پیچھے رہا، مخل نہیں ہوا۔
حضورؑ کے چچا مرزا نظام الدین صاحب حضورؑ کے سخت مخالف اور معاند تھے۔ انہوں نے طرح طرح کی تحقیر اور ایذادہی کو اپنا مسلک بنا رکھا تھا۔ حضورؑ کا ایک الہام تھا:
یَنْقَطِعُ اٰبَاءَکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ۔
ان کا ایک بچہ بیمار ہوا اور بیماری زور پکڑ گئی۔ حضور مولوی نورالدین صاحبؓ معالج تھے۔ حضورؑ جب مسجد مبارک میں رونق افروز ہوتے تو بعض دفعہ حضرت مولوی صاحبؓ سے اس بچے کی صحت کے متعلق بھی دریافت فرماتے۔ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحبؓ نے بچے کی حالت کے متعلق تشویش کا اظہار کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اللہ تعالیٰ اپنی مصلحتوں کو خود جانتا ہے۔ ہمارے لیے ہمدردی اور خدمت لازم ہے، آپ پوری توجہ سے علاج جاری رکھیں اور جو کچھ بھی ضروری ہو عمل میں لائیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا ذکرخیر
اوائل 1911ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آیا جس سے آپؓ کی دائیں کنپٹی پر زخم ہوگیا جو بعد میں ناسور کی شکل اختیار کرگیا۔ حادثے کے صدمے سے فوری طور پر ان کی طبیعت بہت کمزور ہوگئی۔ آپؓ نے کاغذ کے ایک پُرزے پر کچھ لکھا اور اسے ایک لفافے میں بند کرکے لفافے پر کچھ لکھا اور اسے دوسرے لفافے میں بند کرکے یہ لفافہ شیخ محمدؐ تیمور صاحب کے سپرد کردیا اور فرمایا : یہ میری وصیت ہے۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپؓ کو شفا دے دی۔ بعد میں جب آپؓ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے اپنی وفات سے دو تین دن قبل ایک باقاعدہ وصیت لکھ کر مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو دی اور فرمایا یہ پڑھ لیں اور پڑھ کر سنادیں۔ یہ وصیت شائع بھی ہوگئی۔ اندریں حالات اس لفافے کے کھولنے کی ضرورت پیش نہ آئی جو آپؓ نے 1911ء میں گھوڑے سے گرنے کے حادثے کے بعد شیخ محمد تیمور صاحب کے سپرد کیا تھا۔ لیکن آپؓ کے وصال کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے وہ لفافہ کھولا۔ اندر کے لفافے پر لکھا تھا کہ جس شخص کا نام اس لفافے کے اندر ہے اس کی بیعت کرنا۔ اور لفافے کے اندر کاغذ کے پُرزے پر ’’محمود‘‘ لکھا تھا۔ 1911ء کے حادثے کے وقت مَیں لاہور میں تھا قادیان میں نہ تھا اور حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کے وصال کے وقت لندن میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مندرجہ بالا روایت پختہ سماعی شہادتوں کی بِنا پر درج کی گئی ہے۔ اس بات کی شہادت خود مولوی محمد علی صاحب کی تحریروں میں بھی موجود ہے کہ 1911ء میں حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ نے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ کی بیعت کی وصیت کی تھی۔
مارچ، اپریل 1911ء میں بی اے کے امتحان سے فارغ ہوکر اور چند دن سیالکوٹ میں ٹھہر کر مَیں قادیان حضرت خلیفۃالمسیح اوّل کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ ابھی حضورؓ حادثے کے اثرات سے پوری طرح صحت یاب نہیں ہوپائے تھے اور آپؓ کا وقت زیادہ تر اپنے رہائشی مکان کے مردانہ دالان میں گزرتا تھا۔ نمازیں بھی آپؓ وہیں ادا فرماتے تھے اور وہیں درس و تدریس اور صدور احکام کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ خاکسار بھی دن کا اکثر حصہ وہیں آپؓ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ مغرب کے وقت حضورؓ دالان سے صحن میں تشریف لے جاتے تھے اور مغرب کی نماز صحن میں ادا فرماتے تھے، ظہر اور عصر کی نمازوں کے وقت حضورؓ پلنگ کے ساتھ قبلہ رُخ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اور بیٹھے ہوئے ہی نماز ادا فرماتے تھے۔ عموماً شیخ محمد تیمور صاحب کو ارشاد ہوتا کہ نماز پڑھائیں۔ اگر شیخ صاحب موجود نہ ہوتے تو اپنے کسی اَور شاگرد کو نماز پڑھانے کے لئے فرماتے۔ پہلے دن جب خاکسار حاضر ہوا اور ظہر کی نماز کی اذان ہونے پر آپؓ نے حاضرین کو ارشاد فرمایا ’’جائیں نماز پڑھیں ‘‘ تو خاکسار بھی تعمیلِ ارشاد میں اٹھ کھڑا ہوا۔ آپؓ نے خاکسار کی طرف دیکھ کر فرمایا ’’میاں تم یہیں نماز پڑھ لیا کرو‘‘۔ چنانچہ عرصۂ قیامِ قادیان میں خاکسار ظہر و عصر اور مغرب کی نمازیں آپؓ کے ساتھ ہی ادا کرتا رہا۔ ظہروعصر کی نمازوں میں آپؓ کی بائیں طرف تو پلنگ ہوا کرتا تھا اور دائیں طرف خاکسار کھڑا ہوجاتا تھا اور بوجہ ادب اور اس لیے بھی کہ زیادہ قریب کھڑا ہونا آپؓ کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو، ذرا فاصلہ چھوڑ کر کھڑا ہوتا تھا لیکن آپؓ خاکسار کو اپنے قریب کھڑا کرلیا کرتے تھے۔ مقتدیوں کی تعداد چھ سات ہوا کرتی تھی۔ ایک روز عصر کی نماز کے وقت شیخ محمد تیمور صاحب موجود نہ تھے، آپؓ نے نظر اٹھاکر حاضرین کا جائزہ لیا اور خاکسار کو فرمایا ’’میاں تم نے قرآن پڑھا ہے تم نماز پڑھاؤ‘‘۔
ان ایام میں آپؓ شیخ محمد تیمور صاحب کو صحیح بخاری پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ صاحب ایک حدیث پڑھتے اور اگر کسی بات کو وضاحت طلب سمجھتے تو آپؓ سے استصواب کرتے یا اگر آپؓ خود کچھ بیان فرمانا چاہتے تو بیان فرما دیتے۔ لیکن آپؓ کا دربار تو ہر وقت ہر کس و ناکس کے لیے کھلا ہوتا تھا۔ درمیان میں کوئی سائل یا حاجتمند آتا تو اُس کی طرف توجہ فرماتے۔ اگر دفتر سے کوئی کاغذ آجاتا تو اس پر حکم صادر فرماتے۔ غرض ایک سلسلہ تمام وقت جاری رہتا۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ شیخ صاحب نے ایک حدیث پڑھی اور اس کے متعلق کوئی سوال کیا۔ اتنے میں حضورؓ کی توجہ کسی اَور طرف ہوگئی تھی۔ آپؓ نے وہ سوال نہ سنا۔ جب آپؓ فارغ ہوئے اور شیخ صاحب کی طرف متوجہ ہوئے تو شیخ صاحب نے اگلی حدیث پڑھ دی۔ آپؓ نے فرمایا پچھلی حدیث میں فلاں بات قابلِ غور تھی۔ شیخ صاحب نے کچھ شکوے کے رنگ میں کہا مَیں نے دریافت تو کیا تھا آپ نے جواب نہ دیا مَیں نے خیال کیا آپ بتانا نہیں چاہتے۔ خاکسار کو شیخ صاحب کی اس حرکت پر تعجب ہوا لیکن حضورؓ مسکرادیے اور کہا شیخ خفا ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اَور واقعہ ہوا جو بالکل اس واقعہ کی ضد اور کمال ادب کی مثال تھا۔ مولوی غلام نبی مصری صاحب جو آپؓ کے ایک ممتاز شاگرد تھے، صحن کی جانب سے داخل ہوئے اور السلام علیکم کہہ کر سامنے کی دیوار میں جو الماری تھی اس میں سے کوئی کتاب لے کر دروازے کی طرف لَوٹے۔ دروازے کے قریب پہنچے تو حضرت خلیفۃالمسیح نے آپؓ کو دیکھ کر فرمایا ’’مولوی صاحب السلام علیکم‘‘۔ مولوی صاحب نے ’’حضور وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر کمال انکسار کے لہجے میں عرض کی ’’خاکسار نے السلام علیکم کہا تھا لیکن حضور تک پہنچا نہ سکا۔ ‘‘
برسوں بعد مولانا روم کا یہ شعر نظر سے گزرا۔؎
از خدا جوئیم توفیقِ ادب
بے ادب محروم ماند از فضلِ رب
آنکھیں نم ہوئیں اور دل حسرت سے بھر گیا کہ معلوم نہیں غفلت اور نادانی میں کتنے مواقع جذب فضل کے گنوادیے۔
رَبَّنَا لَاتَؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَانَا۔
دوپہر کے وقت ڈاکٹر صاحبان آپؓ کے زخم پر مرہم پٹّی کے لیے حاضر ہوتے اور مجلس برخاست ہوجاتی۔ ڈاکٹر صاحبان کے رخصت ہوجانے کے بعد آپؓ کچھ دیر استراحت فرماتے۔ اس وقت آپؓ کے شاگردوں میں سے کوئی ایک آپؓ کی پیٹھ کی طرف پلنگ پر بیٹھ جاتا اور آہستہ آہستہ آپؓ کا بدن دباتا۔ ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ ڈاکٹر صاحبان کے رخصت ہوجانے پر صرف خاکسار ہی دالان میں حاضر رہ گیا۔ شوق اور اخلاص کہتا تھا کہ یہ موقع خدمت کا غنیمت ہے۔ حجاب اور ادب روک رہے تھے۔ خاکسار کو کبھی بدن دبانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا تھا۔ خوف تھا کہ بجائے حضور کے لیے آرام کا موجب بننے کے بیزاری کا باعث نہ بنوں۔ آخر جرأت کرکے حصولِ ثواب کی نیت سے خاکسار نے حضورؓ کا بدن دبانا شروع کیا۔ چند منٹوں کے بعد خیال آیا کہ شاید حضورؓ کی آنکھ لگ گئی ہے اور میرا بدن دباتے رہنا حضورؓ کے آرام میں مخل ہوگا۔ اس خیال سے خاکسار نے دبانا بند کردیا۔ ابھی خاکسار نے پلنگ سے ہٹنے کے لیے کوئی حرکت نہیں کی تھی کہ حضورؓ نے کروٹ پر لیٹے لیٹے ہی اپنا بازو اٹھاکر خاکسار کے چہرے کو اپنے مبارک چہرے کے قریب کرلیا اور دو تین منٹ تک اسی حالت میں رکھا۔ پھر اپنا بازو ہٹالیا اور فرمایا: میاں ! ہم نے تمہارے لیے بہت بہت دعائیں کی ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیحؓ صحن میں رونق افروز تھے۔ باہر سے ایندھن کی لکڑی ڈیوڑھی تک پہنچائی گئی۔ ایک دو نوجوان شاگردوں نے لکڑی کو ڈیوڑھی سے اٹھاکر باورچی خانے میں لانا شروع کیا۔ مَیں بھی ان شاگردوں میں شامل ہوگیا کہ حضورؓ کی نگاہ پڑ گئی۔ فرمایا: میاں ! یہ تمہارا کام نہیں، تم چھوڑ دو۔
ایک روز مغرب کی نماز میں تھے کہ حضورؓ کے بچوں میں سے ایک آکر گود میں بیٹھ گیا۔ جب حضورؓ نماز سے فارغ ہوئے اور بچے کی طرف شفقت سے متوجہ ہوئے تو بچے نے جوش کے ساتھ رونا شروع کردیا اور ساتھ ہی اپنے ننھے سے ہاتھ کو زور سے حضورؓ کے رخسار پر مارنا شروع کیا۔ حضورؓ ہنستے بھی جاتے تھے اور بچے کی تسکین کی کوشش بھی کرتے جاتے تھے۔ بچے کی طبیعت دیر کے بعد سنبھلی لیکن حضورؓ کی شفقت میں فرق نہ آیا۔
ایک روز مجلس میں حضورؓ نے ذکر فرمایا کہ ہمیں پیاس کی تکلیف رہتی ہے۔ حضورؓ خود اعلیٰ درجے کے طبیب تھے اور حضورؓ کے مشیروں میں ڈاکٹروں اور اطباء کی کمی نہ تھی۔ خاکسار ایک نادان نوعمر تھا۔ وفور اخلاص میں سادگی سے عرض کردیا کہ اگر حضورؓ چائے میں الائچی اور دارچینی استعمال فرمائیں تو ممکن ہے فائدہ ہو۔ مسکراکر فرمایا: میاں ! مَیں اگر دودھ یا دودھ ملی ہوئی کسی شَے کا استعمال کروں تو مجھے تکلیف ہوجاتی ہے۔ اور ساتھ ہی کسی خادم کو ارشاد فرمایا: اندر کہہ دو ہمارے لیے چائے تیار کرکے بھیج دیں جس میں الائچی اور دارچینی ہو۔
حضورؓ کی بڑی صاحبزادی آپؓ کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں بیعت ہونے سے بہت پہلے مولوی عبدالاحد صاحب غزنوی امرتسری کے عقد میں آئی تھیں۔ ان کے صاحبزادے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی آپؓ کے نواسے تھے۔ 1911ء میں مَیں قادیان میں حاضر تھا تو وہ بھی امرتسر سے تشریف لائے، پہلے بھی آیا کرتے تھے گو سلسلہ سے منسلک نہ تھے۔ اب کی بار انہوں نے آپؓ کی خدمت میں گذارش کی کہ مَیں کچھ عرصہ ٹھہر کر آپؓ سے علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا جب تک چاہیں ٹھہریں لیکن جو علم آپ پڑھنا چاہتے ہیں وہ آپ کے گھر میں بھی بہت ہے۔ اس پر انہوں نے ایک رقعہ لکھ کر آپؓ کی خدمت میں پیش کیا جس میں اپنی درخواست دہرائی اور عربی کا ایک شعر لکھا جس کا ترجمہ یہ تھا: ’’تیری بخشش سے بہت بعید ہے کہ تُو ایک نافرمان کو مایوس کرے اور اگر مَیں تیرے دروازے سے لَوٹادیا جاؤں تو کونسا دروازہ کھٹکھٹاؤں ؟‘‘۔ آپؓ پڑھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ شعر تو اللہ تعالیٰ ہی کے شایانِ شان ہے۔ ہاں اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے تو جو پڑھنا چاہیں پڑھ لیں۔
انگلستان روانگی اور حضورؓ کی شفقتیں
بی اے میں کامیابی کے بعد خاکسار نے حضورؓ سے مزید تعلیم کے لیے انگلستان جانے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے فرمایا کہ آپ بھی اور آپ کے والد صاحب بھی استخارہ کریں۔ پھر اگر اطمینان ہو تو اجازت ہے۔ چنانچہ مَیں نے قادیان میں ہی استخارہ شروع کردیا اور تیسری رات کسی نے مجھے مخاطب کرکے کہا: …تو پھر انگلستان جاؤ۔ اس سے مجھے اطمینان ہوگیا۔
انگلستان روانہ ہونے سے قبل خاکسار جب قادیان میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے جو ہدایات دیں اُن میں درج ذیل بھی شامل تھیں :
1۔ اس دعا کا ورد رکھنا:
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی جَلِیْسًا صَالِحًا۔
2۔ جب کسی سفر کے آخر میں منزل مقصود کے قریب پہنچو اور شہر یا بستی کی آبادی نظر آنا شروع ہو تو یہ دعا کیا کرو:
اللّٰھُمّ رَبّ السّمٰوٰت السّبع وَمَا اظْلَلْنَ وربّ الْاَرضین السّبع ومَا اقللن ورَبِّ الرّیاح وماذرین وربّ الشّیاطین وما اضللن اِنِّی اَسْئَلُکَ خَیْرَ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَخَیْرَ اَھْلِھَا وَشَرِّ مَافِیْھَا وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ھٰذِہ الْقَرْیۃ وَشَرِّ اَھْلِھَا وَخَیْر مَافِیْھَا۔ اللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حیاھا وَ أَعِذْنَا من وباھا اللّٰھُمَّ حَبِّبْنَا اِلیٰ أھلھا وحَبِّب صالحی أھلھا اِلَیْنَا۔
اے اللہ! جو ربّ ہے ساتوں آسمانوں کا اور اس کا بھی جو کچھ ان کے سائے میں ہے۔ اور ربّ ہے ساتوں زمینوں کا اور ہر اُس چیز کا جو اس پر قائم ہے اور ربّ ہے ہواؤں کا اور ہر اُس چیز کا جسے وہ لیے پھرتی ہے۔ اور ربّ ہے سب سرکشوں کا اور اُن کا جنہیں وہ گمراہ کرتے ہیں۔ مَیں طالب ہوں تجھ سے اس آبادی کی ہر بھلائی کا اور اس میں رہنے والوں کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور تیری حفاظت کا طالب ہوں اس بستی کے ہر شر سے اور اس میں رہنے والوں کے ہر شر سے اور جو کچھ بھی اس کے اندر ہے اس کے ہر شر سے۔ یا اللہ! تُو اس کی ہر خوشگوار چیز ہمیں عطا فرما اور اس کی ہر ضرررساں چیز سے ہماری حفاظت فرما۔ اے اللہ! تُو اس میں رہنے والوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال دے اور اس میں رہنے والوں میں سے نیک بندوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے۔
3۔ کہا جاتا ہے کہ انگلستان چونکہ ایک سرد ملک ہے اس لیے وہاں سردی کے دفاع کے لیے شراب کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم طبیب ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ بات بالکل غلط ہے۔ اگر تمہیں سردی کی مدافعت کی ضرورت محسوس ہو تو کوکو استعمال کریں۔ اس میں خوراکیت بھی ہے اور سردی کے اثر کو بھی زائل کرتی ہے۔
4۔ ہمیں خط لکھتے رہنا ہم تمہارے لیے دعا کریں گے۔
5۔ انگلستان میں ہندوستانی طلباء سے زیادہ میل جول نہ بڑھانا وہاں کے شریف طبقہ سے میل جول رکھنا۔
خاکسار نے حتّی الامکان آپؓ کی فرمودہ ہدایات کی پابندی کی اور بفضل اللہ ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔
لندن کے قیام کے دوران میرے لیے یہ احساس بہت تسکین اور اطمینان کا موجب رہا کہ حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ اور میرے والدین میری حفاظت اور ترقی کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ میرے ہر عریضے کا جواب اپنے مبارک قلم سے لکھتے اور اس میں بڑی شفقت کا اظہار فرماتے۔ خاکسار بھی اپنی ہر دلچسپی کا اظہار حضورؓ کی خدمت میں بلاتکلّف گذارش کردیتا۔ ایک دفعہ میرے عزیز دوست مسٹر آسکربرنلر نے ذکر کیا کہ میرے اعصاب پر کچھ بوجھ محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے مَیں پوری توجہ سے مطالعہ نہیں کرسکتا اور نیند بھی اچھی طرح نہیں آتی۔ مَیں نے حضورؓ کی خدمت میں گذارش کردیا۔ حضورؓ نے کمال شفقت سے ان کے لیے کچھ ہدایات تحریر فرمائیں جن میں سے ایک جو مجھے یاد رہ گئی ہے وہ یہ تھی کہ پڑھتے وقت روشنی کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھیں بلکہ ایسے طور پر بیٹھیں کہ روشنی بائیں کندھے کے اوپر سے کتاب یا کاغذ پر پڑے۔ شاید یہ بھی تحریر فرمایا کہ رات کو نہ تو پیٹ بھرکر کھائیں نہ ہی خالی پیٹ سوئیں۔
حضورؓ کا خاکسار کے نام آخری شفقت نامہ وصال سے صرف چند دن پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ مَیں ایک نادان نوجوان تھا۔ 1907ء میں تو ابھی میری عمر بھی چودہ سال ہی تھی، آپؓ نے اس وقت کمال شفقت اور ذرّہ نوازی سے میرے والد صاحب کو توجہ دلائی کہ مجھے اب بیعت کرنی چاہیے اور اس دن سے حضورؓ کے وصال تک یہ عاجز آپؓ کی پیہم شفقت اور عنایات کا مورد رہا۔
فَجَزَاہُ اللّٰہ اَحْسَنَ الْجَزَاء وَجَعَلَ اللّٰہُ الْجَنَّۃ الْعلیا مثواہ۔
اور میری کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ آپؓ کے فیض کا چشمہ ہر ایک کے لیے یکساں بہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے آپؓ کو شاہانہ مرتبہ عطا فرمایا تھا اور نہایت پُرشوکت اور بارعب شخصیت عطا فرمائی تھی لیکن آپؓ کا دربار ہر کس و ناکس کے لیے کھلا رہتا تھا۔
آپؓ کا لباس وضع قطع، کھانا پینا نہایت سادہ تھے۔ آپؓ علم و عرفان کے سمندر تھے۔ طبّ میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ قادیان جیسی بستی میں رہتے ہوئے بھی غیرازجماعت امراء آپؓ کی خدمت میں طبّی مشورے کے لیے حاضر ہوتے تھے اور بڑی بڑی رقوم آپؓ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے تھے۔ لیکن آپؓ غریب اور امیر میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے تھے۔ آپؓ صبح جب مجلس میں رونق افروز ہوتے تو زائرین اور حاجت مند لوگوں کا تانتا بندھ جاتا۔ کوئی زبانی گذارش کرتا کوئی تحریری، درس تدریس، مطب، خلافت کے فرائض کی سرانجام دہی، وعظ و نصیحت سب جاری رہتے، ہدیے، تحائف، نذرانے پیش ہوتے رہتے۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی ہوتی رہتی۔ جس جیب میں ہدیوں اور نذرانوں کی رقوم بغیر التفات کے رکھی جاتیں، اُس میں سے سائل اور حاجت مند کی حاجت روائی کمال فیاضی سے ہوتی چلی جاتی۔ خالی جیب ہی آکر بیٹھتے اور جہاں تک حاشیہ نشین اندازہ کرسکتے مجلس برخاست کرنے پر خالی جیب ہی تشریف لے جاتے۔
میرے جرمن دوست آسکر نے ایک دفعہ مجھ سے کہا مَیں چاہتا ہوں کہ تمہاری معاشرت کا اپنی معاشرت کے ساتھ موازنہ کروں۔ تم اپنے ذہن میں کسی ایسی زندہ شخصیت کا نام رکھ لو جو تمہارے خیال میں تمثیلی شخصیت ہو اور مَیں بھی ایک ایسی شخصیت کا نام اپنے ذہن میں رکھ لوں گا۔ مَیں تم سے سوال کروں گا کہ فلاں حالات میں تمہارے تجویزکردہ شخص کا کیا طرزعمل ہوگا؟ تم مجھے بتاتے جانا۔ مَیں تمہارے جواب سے اندازہ کرسکوں گا کہ کس کا معیار بلند ہے۔ مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کا انتخاب کرلیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر ان صاحب کو کوئی شخص ملنے کے لیے آئے اور وہ اسے نہ ملنا چاہیں تو اطلاع ہونے پر وہ اسے کیا کہلا بھیجیں گے؟ مَیں نے کہا اوّل تو اطلاع کی ضرورت نہ ہوگی، اُن کا دربار عام ہوتا ہے لیکن اگر وہ کسی سے نہ ملنا چاہیں تو صاف کہہ دیں گے ہم آپ سے نہیں ملنا چاہتے۔ اس پر آسکر نے کہا تو پھر وہ جیتے۔ مَیں نے کہا کیسے؟ کہا اس لیے کہ جو شخصیت میرے ذہن میں ہے وہ اطلاع ہونے پر کہلوادیں گے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں اور یہ لفظاً صحیح نہیں ہوگا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اُن کے ذہن میں اُن کے والد صاحب تھے۔
انگلستان میں میرے قیام کے دوران حضورؓ کی وفات ہوگئی اور وطن واپسی کے وقت میرے دل میں یہ بڑی حسرت تھی کہ اس ہمہ تن شفقت ہستی کا دیدار نہ ہوگا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭