سو سال قبل 19؍ فروری 1921ء کومغربی افریقہ کے ملک سیرالیون میں احمدیت کے پہلے صحابی مبلغ کی آمد (قسط اوّل)
سیرالیون مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔یہاںاحمدیت کی آواز (بذریعہ لٹریچر) 1915ء میں پہنچی اور سب سے پہلے امام موسیٰ گابر (GABBER) کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی۔اس کے بعد یہاں 19؍ فروری 1921ء کو حضرت مولانا محمد عبدالرحیم صاحب نیرؓ صحابی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ہاتھوں دوبارہ احمدیت کا بیج بویا گیااورمولوی نذیر احمد (علی) صاحب نے اس بیج کی اپنے خون سے آبیاری کی اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور ان کے بعد دوسرے مجاہدین مبلغینِ اسلام احمدیت اس کی نشوونما کے لیے مصروفِ سعی و جدوجہدرہے۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ کی آمد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ 9؍فروری 1921ء کو لندن سے روانہ ہو ئے اور 19؍فروری1921ء کو سیرالیون پہنچے اور پھر 21؍ فروری کو سیرالیون سے گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے۔اپنے مختصر قیام کے دوران آپ نے سیرالیون میں بڑی جرأت سے پیغام احمدیت پہنچایا جس کی تفصیل خود حضرت مولانا صاحب کے قلم سے صفحۂ قرطاس پر رقم ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جہاز ایٹی پر (جوالڈرڈ میٹرلائن کے بہترین جہازوں میں سے ایک ہے) آلہ بے تار پیام رسانی موجود تھا۔اس خدمتگار مبلغ اسلام سے کام لے کر جہاں عاجز نے حضرت امام المتقین کے حضور دعا کی درخواست بھیجی وہاں ایک پیغام مسٹر خیرالدین افسر تعلیم مسلمانان سیرالیون کے نام بھی ارسال کردیا۔ مسٹر موصوف نے اس پیغام کی حتی الوسع اشاعت کی اور مختلف اقوام کے سردار و امام ایک درجن کی تعداد میں (اپنے زرق برق لباس اور عباو عمامے پہنے ایک وزنی نقرئی ڈھول گلے میں ڈالے ہوئے) سٹیم لانچ میں تختہ جہاز پر اس غریب کے استقبال کے واسطے آگئے۔ علیک سلیک۔ اھلاً و سھلاً مرحبًا پہلے گفتگو عربی میں ہوئی اور الحمدللہ کہ تختہ جہاز پر سوڈانی اور طرابلس مسافروں کے ساتھ لسان فرقان میں گفتگو کا اتفاق ہونے کے باعث عربی میں کلام کرنے کی مشق ہوگئی تھی۔ اس لئے کوئی دقت پیش نہ آئی اور خدائے مسیح کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ وہ مختلف زبانوں میں کلام کریں گے۔ اس کے مطابق اس نے مجھے ایسی توفیق دی کہ میں اس پر خود حیران تھا۔ کنارہ بحر پر موٹریں موجود تھیں۔ان میں سوار کراکر، جلوس نکال، مجھے ایک خوبصورت مسجد میں پہنچایا گیاجہاں پندرہ ہزار مسلمانوں کے قائم مقام موجود تھے۔ میں نے اپنے مشن کی اغراض زبان انگریزی میں بیان کیں۔استقبال کا شکریہ ادا کیا۔اور اخویم خیرالدین نے اس کا مقامی انگریزی میں (جو کبوتر انگریزی PIGEON ENGLISH کہلاتی ہے) ترجمہ کرکے حاضرین کو میرا مطلب سمجھایا اس کے جواب میں چیف الفا یعنی بوڑھے خاص امام نے میری آمد کو رسول اللہﷺ کے بعد مصلحین و مجددین کی آمد کے وعدہ سے مطابقت دے کر میرا شکریہ ادا کیا۔ یہ19فروری کی صبح تھی۔ ایک عالیشان انگریزی وضع کی فرودگاہ میں مجھے اتارا گیا اور ہر قسم کے آرام کا سامان بہم پہنچایا گیا۔ 20 فروری کو تقریروں کا انتظام کیا گیا اور اس کے لئے اطلاعات شائع کی گئیں۔ مساجد آراستہ کی گئیں۔ سرکاری اسلامی مدارس میں جھنڈیاں وغیرہ لگا کر ان کو مزین کیا گیا اور اپنے رنگ میں مسلمانوں نے اظہار خوشی کیا۔ پہلے ایک مسجد میں 8بجے پھر دوسرے مدرسہ میں بارہ بجے اور پھر شام کو تیسرے مدرسہ میں 6بجےتین تقریریں کی گئیں ۔پہلے دو میں اخویم خیرالدین ترجمان رہے۔ اور مرد و عورتوں نے ادب و احترام و محبت سے ان تقاریر کو سنا۔ تقریر سے اول ایک نوجوان نے نہایت سریلی آواز سے نعتیہ اشعار عربی میں پڑھے۔ ہر چار اشعار کے بعد ایک مصرع سب حاضرین ایک آواز سے پڑھتے تھے۔ عجیب سماں تھا۔ ان مجالس میں رکشا کی سواری پر جانا ہوا۔ سرخ عباء والے امام رکشا کے آگے اور سفید عباء پوش لوگ رکشا کے پیچھے، نوجوان طلباء دو رویہ صف بستہ کھڑے نظر آتے تھے۔ میں نے اپنی تقریروں میں برابر مسیح پاک کی آمد کا ذکر کیا اور آمنَّاکے سوا کوئی آواز مخالف نہیں سنی۔ مالکی امام کو علیحدہ تبلیغ کی۔ اس نے اقرار ایمان کیا۔ شام کی تقریر مسیحی لوگوں کے لئے تھی۔ اور وہ توجہ سے سنی گئی۔ چونکہ سیرالیون میں دو مسیحی کالج ہیں۔ دو بشپ رہتے ہیں اور 118 پادری قیام رکھتے ہیں۔ اس لئے مسیحی مجمع تعلیم یافتہ افریقیوں کا تھا۔ تقریر کے بعد سلسلہ سوالات و جوابات شروع ہوا اور مسلمان خوش اور مسیحی متفکر نظر آئے۔ 21؍فروری کو مسیحی حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف سرکار کو توجہ دلائی اور میں خوشی سے اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ حکام بالا دست نے میری حوصلہ افزائی کی …مسلمانان سیرالیون کی خواہش تھی کہ میں اور ٹھہروں مگر جہاز 21؍تاریخ کو تیسرے پہر روانہ ہونا تھا اس لئے ٹھہرنا ممکن نہ تھا ۔جہاز ران کمپنی کے مینیجر نے پوری کوشش سے جہاز پر بروٹوفسٹ کلاس میں انتظام کردیا۔ اور میرے میزبان مسلمان سیرالیون کی ایک جماعت مجھے تختہ جہاز پر چھوڑنے آئی- جزاہم اللّٰہ۔ میری روانگی سے قبل اخویم خیرالدین نے جو کئی برس سے سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ مگر بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اور اس طرح سیرالیون کا واحد اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان احمدی ہوگیا‘‘۔
حضرت عبدالرحیم نیر صاحبؓ تو اس سفر کے بعد پھر کبھی سیرالیون تشریف نہیں لے گئے البتہ حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ تین بار یہاں آئے اور کئی لوگ ان بزرگوں کے ذریعہ سے احمدی ہوئےجن میں سے بعض نائیجیریا چلے گئے، بعض فوت ہوگئے یاالگ ہوگئے۔ حتیٰ کہ1937ء میں سیرالیون میں اس زمانہ کے صرف دو احمدی رہ گئے اور غیر مبائعین کے پراپیگنڈا کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف سیرالیون کی فضا بہت مکدر ہوگئی۔
1937ءحضرت مصلح موعودؓ کا سیرالیون میں دارالتبلیغ قائم کرنے کا فیصلہ
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے 1937ء کے وسط میں دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ کو ہدایت فرمائی کہ مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک میں بھی تبلیغی مراکز کھولے جائیں اور سالٹ پانڈ (گولڈ کوسٹ)سے ان کی نگرانی کی جائے۔ اس پر سب سے پہلے سیرالیون کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
مولوی نذیر احمد صاحب کی روانگی
اس فیصلہ کے مطابق مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ انچارج مغربی افریقہ دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ کا کام مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کو سپرد کرکے 10؍ اکتوبر1937ء کو روانہ ہوئے اور 13؍ اکتوبر 1937ء کو سیرالیون کے دارالحکومت فری ٹاؤن میں پہنچے اور سیرالیون میں دارالتبلیغ کی بنیاد رکھ دی۔
دارالتبلیغ کے ابتدائی حالات
مولوی نذیر احمد صاحب کا بیان ہے کہ
’’یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ غیر مبائعین کے پراپیگنڈا کے اثر کے ماتحت فری ٹاؤن کے غیر احمدیوں نے 60 پونڈ جمع کرکے اس غرض سے لاہور بھیجے ہوئے ہیں کہ وہاں سے ایک مبلغ ان کی امداد کے لئے بھیجا جائے۔ میں نے یہاں آتے ہی پرائیویٹ ملاقاتوں کے ذریعہ جملہ غلط فہمیوں کو جو ہمارے خلاف پیدا کی گئی تھیں دور کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں بعض لوگ جماعت میں داخل ہونے شروع ہوگئے۔ مخالفین کے حوصلے اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ خودبخود ان کی طرف سے لوکل اخبارات میں ختم نبوت کے متعلق مضامین شائع ہونے شروع ہوگئے۔ ہماری طرف سے نہایت تفصیل سے جواب دیئے گئے…مخالفین نے جماعت کی ترقی دیکھ کر لوگوں کو یہ کہہ کر بددل کرنا چاہا۔ کہ اگر احمدیت میں صداقت ہے تو آل مسلم کانگرس کے علماء کو پہلے قائل کیا جائے میں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر کانگرس کے ایک جلسہ میں احمدیت کے متعلق لیکچر کے لئے وقت مانگا۔ اگرچہ علماء نہ چاہتے تھے کہ حق ظاہر ہو۔ مگر ان کے لئے انکار کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ میرے لئے ایک دن مقرر کر دیا گیا۔ بفضلہ تعالیٰ جملہ مخالفین اس دن جمع ہوگئے۔ اور میں نے نہایت تفصیل سے وفات مسیح اور صداقت مسیح موعودؑ پر ڈیڑھ گھنٹہ تک لیکچر دیا۔ بعد میں یہ لیکچر مرتب کرکے ایک اخبار میں بھی شائع کرادیا گیا۔ اس میں پیغامی فتنہ کا بھی تفصیل سے ذکر تھا…اب مخالفت اور بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال ہونے لگا۔ لیکن ہم نے ایک احمدی کے مکان پر ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری کردیا اور پوسٹروں اور لوکل اخبارات کے ذریعہ لیکچروں کا اعلان کرتے رہے اور انفرادی تبلیغ بھی بدستور ہوتی رہی۔ WILBERFORCE MEMORIAL ہال میں بھی جو فری ٹاؤن کا سب سے بڑا اور مشہور ہال ہے۔ چار لیکچر دیئے گئے۔ اور دو دفعہ لوکل BROADCASTING سٹیشن کے ذریعہ ان لیکچروں کا اعلان کروایا گیا۔ اسی طرح ایک عیسائی دوست کے مکان پر بھی ہفتہ وار لیکچروں کا سلسلہ جاری رہا۔ علاوہ افریقن لوگوں کے شامی لوگ بھی بعض لیکچروں میں کثرت سے آتے۔ اور سوالات کا جواب حاصل کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب استفتاء شامی اصحاب کو پڑھنے کے لئے دی گئی۔ اور سات کاپیاں فروخت بھی ہوئیں۔ اسی طرح ’’احمدیت حقیقی اسلام‘‘اور ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ نہایت کثرت سے فروخت کی گئیں اور پڑھنے کے لئے عاریتاً دی گئیں۔ حکومت کے اعلیٰ حکام کو شہزادہ ویلز کی چند کاپیاں تحفہ دی گئیں۔(یہاں سے بعض لوگوں نے ہمارے مضامین جواب کے لئے لاہور بھیجے وہاں سے دو مضمون آئے۔ اور لوکل اخبارات میں شائع ہوئے۔ جن کا جواب ہماری طرف سے فوراً شائع کرا دیا گیا) غیر مبائع مولوی غلام نبی مسلم صاحب بی۔ اے۔ منشی فاضل 19؍ فروری 1938ء کو یہاں پہنچے تھے۔ مگر فضاء اپنے خلاف دیکھ کر اس قدر پریشان ہوئے کہ 26؍ مارچ 1938ء کو لاہور سے اجازت لئے بغیر ہی یہاں سے قرضہ لیکر ہندوستان واپس چلے گئے۔ ہمارے پاس 1901ء سے لےکر 1914ء تک کے انگریزی ریویو موجود تھے۔ جن کے ذریعہ پیغام منافقت طشت ازبام ہوگئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اکثر کتب موجود تھیں۔ ان کو کہاں چھپا سکتے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اخباری مناظرہ بند کرو …ایک تقریب ان کی فوری واپسی کی یہ بھی ہوئی کہ لوکل غیر احمدیوں سے وہ عربی میں بالکل گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ گویا جنہیں اسلام سکھلانے کے لئے آئے تھےعلوم دینیہ میں ان سے کمتر ثابت ہوئے۔ آخر بی۔ اے تک عربی لی ہوئی تھی۔ ایک دو فقرے تو بولتے مگر اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَاور وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کے اٹل قانون نہ ٹوٹ سکتے تھے نہ ٹوٹے۔‘‘
مولوی صاحب کی ان تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں پہلے ہی سال احمدیوں کی تعداد دو سے بڑھ کر تیس تک پہنچ گئی۔ یہ غیر معمولی تائید و نصرت دیکھ کر آپ نے شمالی صوبہ کے دورے شروع کر دیے اور لیکچروں،ملاقاتوں اور لٹریچر کی تقسیم سے جہاں میدان تبلیغ میں وسعت پیدا ہوگئی وہاں جماعت میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔جون 1939ء سے آپ نے سیرالیون کے جنوبی صوبہ میں بھی تبلیغ احمدیت کا آغاز کردیا۔ اس سلسلےمیں آپ پہلے صوبہ کے ایک دارالحکومت ’’بو‘‘ میں تشریف لے گئے اور چھ لیکچر دئے۔ دو لیکچر مساجد میں، ایک عربک سکول میں اور تین مقامی چیف کی عدالت میں۔ ان لیکچروں میں آپ نے اسلام و احمدیت کی صداقت اور عیسائیت کا بطلان واضح کیا۔ ہر لیکچر کے بعد پبلک کو سوالات کا موقعہ دیا گیا۔ پبلک جلسوں کے علاوہ مسلم زعماء کو پرائیویٹ ملاقاتوں میں اور عوام کو مساجد میں قبول احمدیت کی دعوت دی۔ نیز انگریز ڈسٹرکٹ کمشنر اور پراونشل کمشنر سے ملاقات کرکے ان کو جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا۔ بو سے چالیس میل کے فاصلہ پر باؤ ماہوں نامی ایک قصبہ ہے جو سونے کی کانوں کے لئے بہت مشہور ہے اور دور دراز علاقوں کے ہزاروں لوگ یہاں کانوں میں کام کرتے ہیں۔ آپ نے اس قصبہ میں دو ماہ تک تبلیغ کی۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے سو کے قریب احمدیوں پر مشتمل ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بو اور باؤ ماہوں کے علاوہ آپ نے گوراما، وانڈو، سمبارو اور بلاما نامی ریاستوں کا بھی تبلیغی دورہ کیا۔ اور کئی رؤساء اور چیف حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اشاعت اسلام کے کام میں مولوی صاحب کی مدد کرنے لگے۔ ان رؤساء میں سے پیرامونٹ چیف صلاح الدین۔ پیرامونٹ چیف بائیو۔ پیرامونٹ چیف سار سار انڈوپائے۔ رئیس پیرامونٹ چیف خلیل گامانگا۔ پیرامونٹ چیف لحائے بانیاں لا ہائے بایاں۔ خاص طور پر قابل ذکر تھے۔
چونکہ دوسرے افریقی ممالک کی طرح یہاں بھی عیسائی سکول مسلمانوں میں کفر و ارتداد پھیلانے کا موثر ذریعہ بنے ہوئے تھے اور مسلمانوں کا مستقبل اپنے مدارس نہ ہونے کی وجہ سے سراسر تاریک ہورہا تھا اس لئے مولوی نذیر احمد صاحب نے 1939ء میں روکو پرمیں پہلا احمدیہ مسلم سکول قائم کیا جو بہت جلد ترقی کرگیا۔اس شاندار کامیابی سے عیسائی لوگ بوکھلا اٹھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ نہ صرف اس سکول کی عمارت بھی بن گئی۔ بلکہ عمائد مملکت نے اس کی گرانٹ کی بھی منظوری دے دی۔
دوسرا اہم کام جماعت کے استحکام کے لئے یہ انجام پذیر ہوا کہ ابتدا میں احمدی مبلغین پر یہ پابندی تھی کہ وہ جہاز سے اترنے سے پہلے 60 پونڈ بطور ضمانت پولیس کے پاس جمع کرائیں۔ مولوی صاحب کی کوشش سے سیرالیون کے گورنر صاحب نے بہت جلد یہ پابندی اٹھادی۔ اس طرح حکومت سیرالیون نے جماعت احمدیہ کی مستقل حیثیت تسلیم کرلی۔
مقامی مبلغین
سیرالیون کے مقامی باشندوں میں اشاعت احمدیت کے لئے مقامی مبلغین تیار کیے جانے ضروری تھے۔ اس اہم ضرورت کی طرف بھی مولوی نذیر احمد صاحب نے ابتدا ہی سے توجہ شروع کردی تھی۔ چنانچہ آپ نے 1938ء میں شیخ عمر جاہ کو، مارچ 1940ء میں الفا ابراہیم زکی کو، اپریل 1940ء میں مسٹر عقیل تیجان کو، ستمبر 1941ء میں مسٹر محمد کمانڈا بونگے کو، فروری 1942ء میں الفا سوری باہ بنگورا کو اور 1943ء میں الفا فوڈے صالحوکو لوکل مبلغ مقرر کیا۔
ان ابتدائی مخلص مبلغوں کے بعد مندرجہ ذیل لوکل مبلغ وقتاً فوقتاً خدمت دین کے لیے میدان عمل میں آئے۔
الفا موسیٰ سووا (1948ء)۔ الفا عباس کمارا(1962ء)۔ الفا داودا کمارا (1962ء)۔الفا ابراہیم باہ (1962ء)۔ الفا فودامے کورمہ (1962ء)
مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کا ورود
سیرالیون کی وسیع تبلیغی ضروریات کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری لنڈن سے 8؍مارچ 1940ء کو یہاں پہنچے اور آتے ہی مولوی نذیر احمد صاحب کے دوش بدوش تبلیغ احمدیت کرنے لگے۔
مرکزی مبلغین کا پہلا اجتماعی دورہ
تبلیغ احمدیت کے اس سلسلہ میں یہ دونوں مجاہد پہلی بار 14؍ مارچ 1940ء کو فری ٹاؤن سے تبلیغی دورہ پر روانہ ہوئے اور روکوپر، روباتھ کامبا، روسینو، لوٹی، میں پیغام احمدیت پہنچانے کے بعد 3؍اپریل 1940ء کو روکو پر سے واپس فری ٹاؤن پہنچے۔ جہاں اپنے چند روزہ قیام میں بعض اہم تعلیمی فرائض انجام دینے کے بعد 23؍اپریل1940ء کو جنوبی مینڈے (MENDE) پراونس کی طرف روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے صوبہ کے مرکز بو(BO) میں انفرادی تبلیغ کی۔ پھر ایک گاؤں ڈانبارا میں گئے جہاں صرف چار روزہ تبلیغ سے چودہ نفوس پر مشتمل نئی جماعت قائم ہوگئی۔ ڈانبارا سے مویابو آئے اور یہاں بیٹے فوکے باشندوں تک پیغام حق پہنچایا۔
ریاست گورامہ کے مرکزی قصبہ ٹونگے میں جب جماعت کا قیام ہوا تو وہاں کے مسلمان علماء اور عیسائی پادریوں نے مل کر جون 1940ء کو احمدیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا جس پر یہ دونوں مبلغ بیماری کی حالت میں 16میل پیدل پہاڑی سفر کرکے وہاں پہنچے۔ مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک امریکن عیسائی پادری مسٹر لیڈر ( MR LEADER ) سے ایسا زبردست مناظرہ کیا کہ وہ میدان مباحثہ سے بھاگ نکلے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی سیرالیون جماعت کو تبلیغ کی تحریک اور سیرالیون کا ملک گیر تبلیغی سروے
مولوی نذیر احمد صاحب کو سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی طرف سے بھی ایک چٹھی ملی جس میں حضور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’سیرالیون میں جماعت کی ترقی کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اگر صحیح طریق سے کوشش کی جائے تو بہت جلد سارے سیرالیون میں احمدیت پھیل سکتی ہے‘۔ مولوی صاحب کو حضور کا یہ ارشاد پڑھ کر بہت ہی فکر اور قلق ہوا۔ مولوی محمد صدیق صاحب اس وقت ضلع کینیما کے قصبہ بلاما (BLAMA) میں مقیم تھے۔ آپ فوراً ’بو‘سے بلاما مشورہ کے لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور ہمارے کام سے مطمئن معلوم نہیں ہوتے اور مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کام کی موجودہ رفتار ملک میں کوئی مذہبی ہل چل پیدا نہیں کررہی حالانکہ سچائی کا بیج بونے کے لئے ایک تہلکہ اور ہنگامہ برپا کر دینے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم چند ایک جگہ جماعتیں قائم کرکے سمجھ بیٹھے ہیں کہ بہت کام ہوچکا ہے اور اس طرح ہم کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے عرض کیا جو آپ فرمائیں میں حاضر ہوں۔ چنانچہ اسی ہفتے جماعت کے دس پندرہ مخلصین کو بلا کر ایک میٹنگ کی گئی اور جملہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔ بالآخر علاوہ دیگر تجاویز کے ایک تجویز یہ قرار پائی کہ سردست دونوں مبلغین میں سے کوئی بھی ایک مقام پر لمبا عرصہ قیام نہ کرے اور کسی جگہ کو اپنا مرکز نہ بنائے۔ بلکہ کچھ عرصے کے لیے سارے سیرالیون کو سروے اور EXPLORE کرکے ایسے علاقے ڈھونڈے جائیں جو احمدیت کے لئے زرخیز ثابت ہوں۔
چنانچہ اس کے بعد حضور کو مفصل رپورٹ اور دعا کے لیے لکھ کر یہ پروگرام بنایا گیا کہ مولوی نذیر احمد صاحب سیرالیون کے شمالی سرے سے جنوبی سرے تک اور مولوی محمد صدیق صاحب مشرقی سرے سے مغربی سرے تک سارے ملک کا ایسے طور پر دورہ کریں کہ ہر قصبہ اور ہر بڑے گاؤں میں ٹھہر کر تبلیغ کی جائے۔ چنانچہ اگلے چھ سات ماہ ان مجاہدین نے دو دو افریقن طالبعلموں کے ساتھ متواتر لمبے دوروں میں گزارے جس کے نتیجہ میں محض خدا کے فضل و کرم سے ملک کے مختلف حصوں میں آٹھ دس نئی جماعتیں قائم ہوگئیں جو ترقی پذیر ہیں۔ چنانچہ علاقہ ٹونگیا TONGIA اور اس کے اردگرد کی مخلص جماعتیں انہیں مبارک ایام کی یادگار ہیں۔
اسی طرح خدا کے فضل سے مگبورکا اور بو میں شاندار احمدیہ مراکز کی تکمیل سے احمدیت کے قدم سیرالیون میں مضبوطی سے قائم ہوگئے اور ملک میں احمدیت کے وسیع اثر و نفوذ کی راہیں کھل گئیں۔
سیرالیون کے احمدیوں پر مظالم کا پہلا دور
اکتوبر 1943ء میں جماعت ہائے ہانگا، پوئے ہوں۔ مانو کوٹو ہوں،ٹونگیا اور کویا کو ان کے چیفوں اور لوکل نمبرداروں کی طرف سے سخت اذیت پہنچانی شروع کردی گئی۔ تقریباً آٹھ احمدیوں کو ٹونگیا میں صرف احمدیت کی وجہ سے آٹھ پونڈ جرمانہ کیا گیا اور دو دن قید میں رکھا گیا۔ ایک دن ان احمدی روزہ داروں کو روزہ کی حالت میں صبح سے شام تک سورج کی تپش میں رکھ کر سزا دی گئی اور آئندہ کے لئے قانون بنا دیا گیا کہ کوئی احمدی مسجد یا گھر میں نماز ادا نہ کرے۔ اسی طرح ایک افریقن احمدی مبلغ کو تین پونڈ جرمانہ کرنے کے علاوہ ان کو بالکل برہنہ حالت میں ہاتھ پاؤں باندھ کر ساری رات قید رکھا گیا۔ ہانگا اور پوٹے سون میں بھی نماز کی ممانعت کے علاوہ 6 پونڈ جرمانہ کیا گیا۔
ٹونگیا کے امام اور دیگر مخلصین کی آنکھوں میں پسی ہوئی مرچیں ڈالی گئیں۔ بعض کو رمضان میں بحالت روزہ کئی کئی گھنٹے تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑا رکھا گیا۔ پانگوما (PANGUMA) کے بعض احمدیوں کو گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر ان سے احمدیت سے توبہ کرانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بعض سے بیگار کے کام اور شدید محنت کے اور ادنیٰ درجہ کے کام کئی روز تک لئے جاتے رہے۔ بعض احباب کو ناقابل ادا جرمانے کئے گئے۔ بعض کی بیویاں ان سے چھین لی گئیں۔ بعض کو ان کے آبائی گاؤں سے نکال کر ان کی جائیداد پر قبضہ کیا گیا۔ بعض کو لوکل عہدوں سے ہٹا کر ذلت آمیز سلوک کیا جاتا رہا۔
مولوی نذیر احمد صاحب نے ایک طرف حضور کی خدمت میں 21؍ اکتوبر 1943ء کو بذریعہ تار دعا کی درخواست کی اور دوسری طرف مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو کینما ڈی سی اور چیفس کے پاس ان ظالمانہ کارروائیوں کے انسداد وغیرہ کے لئے روانہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مہم کامیاب رہی اور دسمبر 1943ء کے آخر میں تمام احمدی قیدی نہ صرف آزاد ہوئے اور آزادانہ طور پر احمدیت پر عمل کرنے لگے۔ بلکہ تمام جرمانے بھی حکومت نے واپس دلا دیئے۔
سیرالیون کے احمدیوں پر مظالم کا دوسرا دور
اگرچہ ان تکالیف کا تو ازالہ ہوگیا مگر اگلے سال (1945ء) میں مظالم کا دوسرا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے سیرالیون سے رپورٹ بھجواتے ہوئے لکھا۔
’’سیرالیون کی بعض احمدی جماعتوں کو ان علاقوں کے پیرامونٹ چیف بہت تنگ کررہے ہیں اور ہرممکن کوشش سے اپنے علاقے کے جملہ احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں۔ ایک علاقہ کے احمدیوں کو طرح طرح کے جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعہ نہ صرف ضلع کے حکام کے سامنے بدنام کیا جارہا ہے بلکہ قید بھی کیا جارہا ہے۔ … چونکہ وہاں کے احمدی نئے تھے۔ ان میں سے سات آٹھ نے بظاہر تکالیف اور مشکلات سے ڈر کر احمدیت سے انکار کردیا ہے۔ لیکن بعض اب تک صبروتحمل سے برداشت کررہے ہیں۔ اس بارے میں میں تین بار خود اس علاقہ میں جاچکا ہوں۔ حالانکہ میرے ہیڈکوارٹر سے بہت دور ہے۔ اور ڈویژنل کمشنر صاحب کو بہ تفصیل توجہ دلاچکا ہوں۔ مگر اب تک ہمارے یہ بھائی تکالیف میں چلے آتے ہیں۔ میں نے ڈویژنل کمشنر صاحب کو کہا تھا کہ احمدیوں کو مذہبی آزادی دلانے کے علاوہ انہیں اپنی مسجد بنانے کے لئے چھوٹی سی جگہ دلوائی جائے۔ کیونکہ ان کی تعداد پہلے بیس کے قریب تھی اور وہ کسی کمرے میں اکٹھے نماز نہ پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے چیف کو لکھ دیا کہ احمدیوں کو گاؤں سے ایک میل دور مشن یا مسجد بنانے کے لئے جگہ دی جائے تاکہ احمدیوں اور غیراحمدیوں میں جھگڑا نہ ہوسکے۔ چیف نے ایسا ہی کیا۔ لیکن چونکہ جگہ دور اور جنگل میں تھی اور مسجد کے لئے نامناسب اس لئے ہمارے آدمی بیچارے بے بس ہوکر رہ گئے۔ چیف کی طرف سے تکالیف اسی طرح جاری ہیں۔ اب یہ معاملہ بھی ایک دفعہ پھر ڈویژنل کمشنر صاحب کے ہاں اپیل کے رنگ میں پیش کررہا ہوں۔ اور انہوں نے اگر کوئی مناسب کارروائی نہ کی تو آگے اپیل کروں گا۔ ہم نے آجکل یہاں جملہ عمارتیں شروع کررکھی ہیں جس کی وجہ سے سخت مالی مشکلات ہیں اور مشن تقریباً 130 پونڈ کا مقروض ہے۔ اس کے علاوہ سکولوں کے بارے میں مخلص کارکن، مخلص ٹیچروں اور مخلص لوکل مبلغوں کی کمی ہمارے کام میں آج کل سخت رخنہ انداز ہے۔‘‘
اسی ضمن میں مولوی صاحب نے ایک دوسری رپورٹ میں لکھا کہ
’’عرصہ زیر رپورٹ میں تین پیرامونٹ چیفس کی طرف سے جماعتوں کو احمدیت کی وجہ سے تکالیف پہنچائی گئیں۔ باڈو کی جماعت کو عیدالفطر کے موقعہ پر ان کے چیف نے غیراحمدی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ مگر انہوں نے انکار کردیا۔ جس پر چیف نے بعض کو قید کی سزا دی اور بعض کو جرمانہ کردیا۔ اسی طرح بو کے چیف نے بھی ایسی ہی حرکت کرنی چاہی اور عیدالفطر کے موقعہ پر غیراحمدی امام کے پیچھے نماز ادا نہ کرنے پر احمدیوں کو قید کرنا چاہا۔ مگر احمدیوں نے فوراً ڈی۔ سی کو اطلاع کردی اور ڈی۔ سی صاحب نے چیف کو پیغام بھیجا کہ وہ مذہبی امور میں جماعت کو کسی امر پر مجبور نہ کرے۔ اسی طرح بادو کا معاملہ بھی خاکسار نے اس ضلع کے ڈی۔ سی کے ہاں پیش کیا۔ اس نے گو فیصلہ احمدیوں کے حق میں دیا۔ مگر ایسے رنگ میں کہ احمدی چیف سے دبے رہیں۔ اور چیف کی ظاہری پوزیشن پر کوئی حرف نہ آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد پھر اسی چیف نے احمدی امام کو پکڑ کر چودہ دن جیل میں ڈالے رکھا۔ میں نے پھر ڈی سی کے ہاں رپورٹ کی۔ مگر ڈی سی صاحب نے عمداً کوئی توجہ نہ کی۔ میں نے پھر لکھا اور یاددہانی کرائی مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب سہ بارہ یہ معاملہ ڈویژنل کمشنر کے ہاں پیش کیا گیا ہے۔ جس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ اسی طرح نانوا کی احمدی جماعت کو بھی ابھی تک سخت تکالیف دی جارہی ہیں۔ بذریعہ قید اور جرمانوں او دوسرے کئی طریقوں سے احمدیوں کو احمدیت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مگر سوائے چند ایک کے باقی بفضلہ تعالیٰ اب تک احمدیت پر قائم ہیں اور صبر سے سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔‘‘
وقف عارضی کی تحریک میں سیرا لیون کی انفرادیت
لوکل مبلغین کی کمی اور تبلیغی و تربیتی کام کو وسیع کرنے کے لئے 1945ء میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے سیرالیون کے مخلص احمدیوں کو تبلیغ کے لئے ایک ایک ماہ وقف کرنے کی تحریک شروع کی جس پر پہلے سال بیس احمدیوں نے لبیک کہا۔ اس کے بعد یہ تعداد ہرسال بڑھتی رہی۔ چنانچہ 1951ء میں سیرالیون کے چھتیس احمدیوں نے نہایت جوش و اخلاص سے حصہ لیا۔ اور ان کے ذریعہ اس سال اکتیس افراد بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوئے۔ جس پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اظہار خوشنودی فرمایا۔ اگلے سال 1952ء میں قریباً اسی احمدیوں نے ایک ایک ماہ وقف کیا۔ یہ تبلیغی خصوصیت سارے مغربی افریقہ میں تنہا سیرالیون کے احمدیوں کو حاصل ہے کہ وہاں 1945ء سے اب تک وقف عارضی کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور بہت مفید نتائج پیدا کررہا ہے۔
مولوی نذیر احمد علی صاحب کی المناک وفات
مولوی نذیر احمد صاحب سیرالیون مشن کا چارج مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کو دیکر واپس قادیان کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے بعد ایک عرصہ تک مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مبلغ کے فرائض بجالاتے رہے۔ مولوی نذیر احمد صاحب 12؍فروری1945ء کو قادیان پہنچے۔ جہاں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے آپ کو پورے مغربی افریقہ کا رئیس التبلیغ نامزد کرکے اعلان فرمایا کہ ’آئندہ ان کا نام مولوی نذیر احمد علی‘ ہوگا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر مولوی صاحب موصوف 26؍ نومبر 1945ء کو قادیان سے پھر عازم مغربی افریقہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ قریشی محمد افضل صاحب، صوفی محمد اسحٰق صاحب اور مولوی عبدالحق صاحب ننگلی بھی تھے۔مبلغین کا یہ وفد 26؍ فروری 1946ء کو فری ٹاؤن پہنچ گیا۔مولوی نذیر احمد علی صاحب دوسرے مبلغین کو سیرالیون میں متعین کرکے خود پورے مغربی افریقہ کی تبلیغی مہمات پر کنٹرول کرنے کے لیے ستمبر 1946ء کو گولڈ کوسٹ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ ربوہ سے 1954ء میں آخری بار سیرالیون آئے اور ایک لمبی بیماری کے بعد سیرالیون کے شہربو میں 19؍مئی 1955ء کو رحلت فرما گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ آپ مغربی افریقہ کی سرزمین کے پہلے جاں نثار مبلغ تھے جو میدان تبلیغ میں شہید ہوئے۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
مولوی صاحب(رضی اللہ عنہ) کی سیرالیون میں شہادت کے ضمن میں یہ امر خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ آپ نے 26؍ نومبر 1945ء کو قادیان سے مغربی افریقہ روانہ ہوئے ایک ایڈریس کے جواب میں فرمایا تھا:
’’آج ہم خداتعالیٰ کے لئے جہاد کرنے اور اسلام کو مغربی افریقہ میں پھیلانے کے لئے جارہے ہیں …ہم میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ سمجھیں کہ دنیا کا کوئی دور دراز حصہ ہے۔ جہاں تھوڑی سی زمین احمدیت کی ملکیت ہے۔ احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ اس تک پہنچیں اور اس مقصد کو پورا کریں جس کی خاطر اس زمین پر ہم نے قبروں کی شکل میں قبضہ کیا ہوگا۔ پس ہماری قبروں کی طرف سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اپنے بچوں کو ایسے رنگ میں ٹریننگ دیں کہ جس مقصد کے لئے ہماری جانیں صرف ہوئیں اسے وہ پورا کریں۔‘‘
دارالتبلیغ سیرالیون مولوی محمد صدیق صاحب کے عہد امارت میں
مولوی صاحبؓ کی دوبارہ روانگی کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حکم دیا۔ کہ ’مبلغ سال میں ایک دو دفعہ ضرور کسی ملک میں جمع ہوکر مجلس شوریٰ منعقد کیا کریں‘۔ اس ارشاد کی تعمیل میں پہلی مجلس شوریٰ 3؍مئی 1946ء کو بو میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری امیر و انچارج مشن سیرالیون کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں جماعت احمدیہ کی تعلیمی و تربیتی ترقی کے ذرائع،مشن کی آمد بڑھانے اور اخراجات سے متعلق ایک معین طریق کار طے کیا گیا۔ اس پہلی شوریٰ میں یہ بھی قرار پایا کہ ’مبلغوں کو اہم مقامات پر متعین کیا جائے۔ اور ہر چھ ماہ کے بعد ان کی تبدیلی کی جائے۔‘ چنانچہ چودھری احسان الٰہی صاحب جنجوعہ کے سپرد جماعتوں کا دورہ کیا گیا اور صوفی محمد اسحٰق صاحب، مولوی عبدالحق صاحب ننگلی اور چودھری نذیر احمد صاحب رائے ونڈی بالترتیب علاقہ فری ٹاؤن، روکوپر، بوسے بیلاہول اور بوئیدد، مگبورکا، مٹوٹوکا، مشنز اور اضلاع مکینی اور ٹونکولیلی کے حلقوں میں متعین کیے گئے۔ عیسائیت کے خلاف مجاہدین احمدیت کی سرگرمیاں یکایک اتنی تیز ہوگئیں کہ امریکن مشن کے پادری مسٹر ڈیوڈ کار نے انہی دنوں اخبار ریسینٹ افریقن (بابت فروری 1947ء) میں لکھا۔
’’موجودہ حالات میں یہ بہتر ہوگا کہ ان لوگوں (یعنی سیرالیون کے باشندوں کو) اسلام کی طرف جھکاؤ کے باعث اب چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ یہ پہلے سے اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ اسلام نے ایک اعلیٰ ضابطہ پیش کیا ہے۔ اور اخلاقی اعتبار سے کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ عیسائیت اسلام کی مضبوط بنیادوں کے خلاف کیوں دائمی لیکن نتیجہ ناکام جنگ جاری رکھے۔ اس نوعیت کی جنگ اب تک جاری ہے اور دونوں طرف سے تعلیماتی جدوجہد کا دباؤ انتہائی درجہ پر ہے۔ کیونکہ کچھ عرصہ سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ جو اسلامی کمک یہاں پہنچی ہے۔ روکو پرکے نواحی علاقہ میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہوگئی ہے۔ اور اب عیسائیت کے مقابلہ پر تمام تر کامیابی اسلام کو نصیب ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا کہ کامبیا میں امریکن (عیسائی) مشن کو بند کرنا پڑا ہے۔‘‘
سیرالیون میں تبلیغی جہاد کرنے والے دیگر مبلغین
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے سیرالیون میں اسلام اور عیسائیت کی تبلیغی جنگ کو فیصلہ کن مراحل تک پہنچانے کے لئے یہاں پے درپے مبلغین بھجوائے ۔چند ابتدائی مبلغین کے نام یہ ہیں۔
مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سندھی۔ مولوی محمد صادق صاحب لاہوری۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل۔ مولوی محمد عثمان صاحب۔ مولوی عبدالکریم صاحب۔ مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری۔ مولوی محمود احمد صاحب چیمہ۔ ملک خلیل احمد صاحب اختر۔ قاضی مبارک احمد صاحب۔ ملک غلام نبی صاحب۔ مولوی محمد بشیر صاحب شاد۔ مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل۔ قریشی محمد افضل صاحب۔ سید احمد شاہ صاحب۔ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی۔ شیخ نصیرالدین احمد صاحب۔ میر غلام احمد صاحب نسیم۔ مولوی عبدالقدیر صاحب۔ مولوی اقبال احمد صاحب غضنفر۔
(باقی آئندہ)