متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓ سے وابستہ بھارت میں موجود چند مقدس مقامات کا تذکرہ

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

آنحضرتﷺ اور اولیائے امت محمدیہ نےموعود امام الزمان سیدنامسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں اُن میں سے ایک نشان یہ بیان فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو ایک صالح موعود فرزند عطا فرمائے گا۔ جس کے ذریعہ اسلام کی سچائی اور حسن ساری دنیا میں پھیلنا مقدر تھا۔ اس فرزند دلبند گرامی ارجمند کے خصائل و صفات کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی’’ پیشگوئی مصلح موعود‘‘ میں تفصیل سےموجود ہے۔

پیشگوئی مصلح موعود دراصل خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ نشان ہے۔ قادیان کے دس ہندوساہوکاروں نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبولیت دعا اور اسرار مخفیہ پر اطلاع اور تائیدو نصرت کا ایسا نشان جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو، طلب کیا تھا۔ اسی کے مطابق یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا۔ یہ نشان نہ صرف نشان طلب کرنے والے ہندو باشندگان قادیان کے لیے بلکہ یورپ و امریکہ سمیت ساری دنیا کے لیے ایک عظیم الشان نشان ہے۔ اس میں قبو لیت دعا اور اسرار غیبیہ پر اطلاع پانے کے محیر العقول سامان موجودہیں۔ فرزند موعود کا معین وقت میں پیدا ہونا، اس کا اعلیٰ صفات سے متصف ہونا اور اس کے ذریعہ حق کا عروج و غلبہ پانا اور دین اسلام اور قرآن مجید کا کلام اللہ کا شرف ظاہر ہونا اور پھر پسرِ موعود کا جانشین مسیح موعود ہونا اور زمین کے کناروں تک شہرت پانا اور قوموں کا اس سے برکت حاصل کرنا اور اس کا لمبی عمر حاصل کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت کا کبھی منقطع نہ ہونا اور آپ کی نسل کا کثیر ہونا اور آپ کی اولاد میں سے بعض کا کم عمری میں فوت ہوجانا اور آپ کے جدی بھائیوں کی نسل کا منقطع ہونا اور ان کا لاولد رہ کر وفات پانا وغیرہ بہت سے ایسے امور اسرار غیبیہ پر مشتمل ہیں جو بطور نشان اس پیشگوئی میں بیان کیے گئے ہیں۔ جن کا پورا ہونا قطعی اور یقینی طور پر انسانی طاقتوں سے بالاہے۔

یہ تمام امور اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ پیشگوئی مصلح موعود خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ہے۔ جو قیامت تک منکرین ہستی باری تعالیٰ پر اتمام حجت ہے۔

12؍جنوری 1889ء کوان عظیم الٰہی بشارتوں کےحامل موعود فرزند (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانیؓ ) قادیان کی مقدس بستی میں پیدا ہوئے۔اس بستی کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولد،مسکن و مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی طرح اس بستی کی یہ بھی عظیم الشان خوش قسمتی ہے کہ اس میں مصلح موعودؓ کی شکل میں موعود بیٹے کی ولادت ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ چونکہ خود خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اس لیےآپ سے وابستہ تمام مقامات بھی مقدس و متبرک ہو گئے ہیں۔ آج کے اس مضمون میں قارئین الفضل انٹرنیشنل کے لیے بھارت میں موجود سیدنا حضرت مصلح موعودؓ سے وابستہ چند مقامات کا مختصر تعارف پیش کرنا مقصود ہے۔

طویلہ: مقام ظہور پیشگوئی مصلح موعود بمقام ہوشیارپور

شروع1886ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دو ماہ کے لیے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہو۔ اس میں بالا خانہ بھی ہو۔ شیخ مہر علی صاحب نے اپنا ایک مکان جو ’’طویلہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا خالی کرا دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مکان کی بالائی منزل میں 40دن تک دین اسلام کے شرف اور آنحضرتﷺ کی صداقت و عظمت کے اظہار کےلیے اللہ تعالیٰ کے حضور خصوصی دعائیں کیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ایک موعود بیٹے کی خبر دی۔

1944ء میں جب سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر بتایا کہ آپ ہی وہ موعود فرزند ہیں جس کا ذکر حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے سبز اشتہار کی پیشگوئی میں فرمایاہے تو اس بات کے اعلان اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے آپ نے قادیان کے علاوہ ہوشیارپور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں جلسوں کا انعقاد کیا۔ ہوشیارپور میں منعقدہ جلسہ میں حضرت مصلح موعودؓ تقریر کے شروع میں اس مکان کا تعارف کرواتےہوئے بیان فرماتےہیں کہ

’’جیسا کہ آپ لوگوں نے سنا ہے آج سے پورے 58سال پہلے جس کو آج 59واں سال شروع ہو رہا ہے 20؍فروری کے دن 1886ء میں اِس شہر ہوشیارپور میں اِس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہو یا حسبِ ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں، قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے، لوگوں کی اِس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اُس کی نصرت اور تائید کانشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اُس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اُس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ مَیں نہ صرف اِن وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اِس وعدہ کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے مَیں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متّصف ہو گا۔ وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، کلامِ الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا، رحمت اور فضل کا نشان ہو گا اور وہ دینی اور دُنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اُسے عطا کئے جائیں گے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اُس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ‘‘

(دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان، انوار العلوم جلد 17 صفحہ140)

قادیان کی مقدس بستی کی اہمیت و برکات

حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا یہ موعود فرند یعنی حضرت مصلح موعودؓ قادیان کی مقدس بستی میں پیدا ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ خود بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھے۔ آپ سے وابستہ تمام مقامات مقدس ہیں۔

امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعو د علیہ السلام ایک جگہ ولی اللہ کے اوصاف و برکات کا ذکر کرتے ہوئے اُس مقام کے بابرکت ہونے کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں۔

’’ اللہ تعالیٰ اُس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اور نہ صرف اس کی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل و عیال، اس کے احباب کے لئے بھی برکات عطا کرتا ہے۔ اور صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اُن کے مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہوتے ہیں اوراُن زمینوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور اُن کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 595ایڈیشن 2003ء مطبوعہ انگلستان)

امام الزمان کا مولدو مسکن و مدفن ہونے کی وجہ سے قادیان کی ساری بستی مقام مقدسہ میں شامل ہے۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 1924ء میں جب یورپ تشریف لے گئے تو وہاں آپؓ کو قادیان کی مقدس بستی کی یاد آئی جوکہ آپؓ کےمحبوب والدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود سے منسلک تھی۔ آپؓ نے اپنے محبوب کے مقام کی محبت کو اشعار میں یوں بیان فرمایا :

خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا

سوتے سوتے بھی یہ کہہ اُٹھتا ہوں ہائے قادیاں

گلشن احمد کے پھولوں کی اُڑا لائی جو بُو

زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 1991ء میں جب ایک لمبی مدت کے بعد قادیان تشریف لائے تو اُس وقت آپ کے جذبات ناقابل بیان تھے۔ قادیان کی مقدس فضا کا ذکر کرتےہوئے آپ فرماتےہیں کہ

’’یہ وہ دن ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں خواب سا محسوس ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ خواب نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے۔ ایسے خوابوں کی تعبیر جو مدّتوں، سالہا سال ہم دیکھتے رہے اور یہ تمنا دل میں کلبلاتی رہی، بلبلاتی رہی کہ کاش ہمیں قادیان کی زیارت نصیب ہو۔ کاش ہم اس مقدّس بستی کی فضا میں سانس لے سکیں جہاں میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے کامل غلام مسیح موعود علیہ السلام سانس لیا کرتے تھے۔ جب میں یہاں آیا اور میں نے اس بات کو سوچا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ایسی فضا میں دوبارہ سانس لیں گے۔ تو مجھے بچپن میں پڑھا ہوا سائنس کا ایک سبق یاد آ گیا۔ جس میں یہ بتانے کے لیے کہ جتنے ایک انسان کے سانس میں ایٹم (Atom) ہوتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہے۔ وہ مثال دیا کرتے تھے کہ سیزر نے جو آخری دفعہ مرتے وقت ایک سانس لیا تھا اس سانس میں اتنے ایٹم تھے کہ اگر وہ برابر ساری کائنا ت میں، ساری فضا میں تحلیل ہو جائیں اور برابر فاصلے پر چلے جائیں تو ہر انسان جو سانس لیتا ہے اس کے ایک سانس میں سیزر کے سانس کا ایک ایٹم بھی ہوگا۔ تو جب میں نے سوچاتو مجھے خیال آیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہاں لکھوکھہامرتبہ سانس لیے، یہ فضا تو آپؑ کے سانسوں کے ان اجزا سے بھری پڑی ہے اور ہر سانس میں خدا جانے کتنے ہزاروں، لاکھوں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سانس کے ایٹم ہوں گے جو آج ہم بھی Inhaleکرتے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ فرمودہ 20؍دسمبر 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 982)

کمرہ پیدائش حضرت مصلح موعودؓ

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نشان قرار دیا ہے۔ اور خاص طور پر الہام الٰہی میں اسے ’’الدار‘‘کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ اسی’’الدّار‘‘ کے ایک کمرے میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت 12؍جنوری1889ءکو ہوئی تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاءرضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ

’’حضرت اماں جان اُمّ المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی۔ بشیر اوّل قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا۔ تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئےجو گول کمرہ کے ساتھ ہے۔ شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی۔ تم (یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد)نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے۔ شریف بھی اسی دالان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں۔ مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پیدا ہوا جو غربی گلی کے ساتھ ہےاورکنویں سے جانب غرب ہے۔ امۃ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیداہوئی اور امۃ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پیدا ہوئی۔ ‘‘

( سیرۃ المہدی حصہ چہارم صفحہ 182روایت نمبر1276)

اسی تاریخی اور بابرکت کمرے کی لمبائی مشرق سے مغرب کی طرف 19 فٹ 10 انچ ہےاور چوڑائی شمال سے جنوب تک 9 فٹ 10 انچ ہے۔ آجکل یہ کمرہ نوافل اور زیارت کےلیے کھلا ہے۔

متبرک کوٹھڑی

حضرت مصلح موعودؓ قیام نماز کے حوالہ سے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئےتحریرفرماتےہیں کہ

’’جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کےوقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سےنہیں کہ خوبصورت ہےبلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا، پہن لیا۔ تب مَیں نےاس کوٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کر لیا۔ اور ایک کپڑابچھاکر نماز پڑھنی شروع کر دی اور مَیں اس میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا۔ اس اقرار کے بعد مَیں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے ابھی باقی تھے۔ میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم مَیں کیوں رویا۔ فلسفی کہے گااعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ مذہبی کہے گا کہ تقویٰ کا جذبہ تھا۔ مگر مَیں جس سےیہ واقعہ گزرا کہتا ہوں، مجھے معلوم نہیں مَیں کیوں رویا؟ ہاں یہ یاد ہے کہ مَیں اس امر کا اقرار کر تا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اور وہ رونا کیا بابرکت ہوا اور وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی۔ جب اس کا خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹریاکے دورہ کانتیجہ نہ تھے پھر وہ کیا تھا؟ میرا خیال ہے کہ وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھا۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے کسی فقرہ یاکسی نظر کا نتیجہ تھے اگر یہ نہیں تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے۔ ؟‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ 97)

مسجد مبارک

مسجد مبارک قادیان کی وہ مبارک مسجد ہے جس میں سیدنا مصلح موعودؓ کو بکثرت نمازیں ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس مسجد کا حضرت مصلح موعود کی زندگی سے ایک گہرا تعلق ہے۔ اس حوالہ سے بہت سی روایات موجود ہیں۔ ایک روایت قارئین الفضل کے لیے پیش ہے۔

حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مصلح موعودؓ کے مسجد مبارک میں ادائیگی نمازکے حوالہ سے بیا ن کرتےہیں کہ

’’ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج رات مسجد مبارک میں گزاروں گا۔ اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب میں مسجدمیں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اور اس کے الحاح کی وجہ سے میں نما ز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا۔ اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا میں نے دعا کی کہ یا الٰہی یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے۔ اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے میں کہہ نہیں سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے۔ مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میاں محمود صاحب ہیں میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا۔ تو آپ نے فرمایا میں نے یہی مانگاہے کہ ’’ الٰہی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 16؍فروری 1968ء)

مسجد مبارک کی بنیاد( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی عینی شہادت کے مطابق) 1882ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ کی تحقیق کے مطابق 1883ء میں رکھی گئی تھی۔ حضرت اقدسؑ کے چوبارہ کے ساتھ جہاں مسجد کی تاسیس ہوئی در اصل کوئی جگہ موزوں نہیں تھی کیونکہ’’بیت الفکر‘‘ کے عقب میں گلی تھی۔ اور گلی کے ساتھ آپؑ کے چچا مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا۔ جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کےکھنڈرپڑے ہوئے تھےاور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بو سیدہ سی دیوار کھڑی تھی۔ حضورؓ نے اسی دیوار اوراپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے سقف تیار کرایا۔ اینٹوں کی فراہمی کے لیے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی۔ مسجد کا اندرونی حصہ حتمی طور پر 9؍اکتوبر1883ء تک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا لیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی۔

مسجد مبارک کا دوسرا نام ’’بیت الذکر‘‘بھی ہے۔ اس مسجد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

1۔ أَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔ بَیْتُ الْفِکْرِوَ بَیْتُ الذِّکْرِوَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔

(تذکرہ صفحہ 105)

ترجمہ : کیا ہم نے ہرایک بات میں تیرے لیےآسانی نہیں کی ؟کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا۔ اور جو بھی اس میں داخل ہوگا وہ امن میں آجائے گا۔

2۔ ’’جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و تعبدّ و صحت نیت و حُسن ایمان داخل ہوگا وہ سوءِ خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔ ‘‘

(تذکرہ صفحہ106)

3۔ مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔

(تذکر ہ صفحہ 106)

ترجمہ: یہ مسجد برکت دہندہ (یعنی برکت دینےوالی ہے)اور برکت یافتہ (یعنی اسےبرکت دی گئی ہے)اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا۔

مسجد مبارک کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا خصوصی ارشاد

سیدنا حضرت المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مورخہ 9؍مارچ 1944ء کو بعد نماز عصرمسجدمبارک میں اسی مسجد کے متعلق فرمایا تھا:

’’جو لوگ قادیان آتے ہیں ان کو روزانہ کوئی نہ کوئی نماز مسجد مبارک میں اداکرنی چاہئے۔ ‘‘

’’یہ برکت دینے والی جگہ ہے۔ یہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور ہر کام جو یہاں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا۔ اس بات کو کہنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ خدا کہہ رہا ہے۔ اگر خدا ایک دفعہ بھی کسی چیز کو مبارک قرار دیدے تب بھی اس کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا نے بار بار مبارک کہا۔ اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد برکت دہندہ اور نزولِ برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اس مسجد میں کیا جائے گا وہ مبارک ہوگا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز مبارک ہے جو اس مسجد میں ادا کی جائے۔ وہ سجدہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیاجائے۔ وہ قیام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے۔ وہ تشہد مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے۔ وہ سلام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے۔ وہ تکبیر مبارک ہے جو اس مسجد میں کی جائے۔ وہ دعائیں مبارک ہیں جو اس مسجد میں کی جاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں، اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں، اور پھر انسان اُن برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے ……تو اس سے زیادہ محروم اور بدقسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(الفضل6؍اپریل1944ءجلد32صفحہ1)

مندرجہ بالا الہامات اور ارشادات سے مسجد مبارک کی اہمیت و مقام واضح ہے۔

مسجد اقصیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ5؍فروری 1932ء میں فرمایا:

’’اس مسجد کا نام خدا تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ رکھا ہے اور اس کے متعلق فرمایا ہے کہ

مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فَیْہِ۔

یعنی جو کام یہاں کیا جائےگا وہ بابرکت ہوگا۔ تو اس مسجد کی نماز اس کے لئے زیادہ ثواب کا موجب ہوگی۔ ‘‘

(اخبارالفضل قادیان دار الامان مورخہ 14؍فروری 1932ء صفحہ7 نمبر97 جلد1۔کالم نمبر2)

سیدنا المصلح الموعودرضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ الہام مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی ہے۔

اسی طرح جلسہ سالانہ 1932ءپر حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے زائرین ارضِ حرم کو شعائر اللہ کی زیارت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’شعائر اللہ میں مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، منارۃ المسیحؑ شامل ہیں۔ ان مقامات میں سیر کے طور پر نہیں بلکہ ان کو شعائر اللہ سمجھ کر جانا چاہئے۔ تاکہ خدا تعالیٰ ان کے برکات سے مستفیض کرے۔ منارۃ المسیح کے پاس جب جاؤ۔ تو یہ نہ سمجھوکہ یہ منارہ ہے بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جہاں مسیح موعود اُترا۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ میں جب جاؤ۔ تو یہ نہ سمجھو کہ وہ اینٹوں اور چُونے کی ایک عمارت ہے۔ بلکہ یہ سمجھو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے دنیا میں خدا کا نور پھیلا۔ پھر جب مسجد مبارک میں جاؤ۔ تو یہ سمجھو کہ یہ وہ مقدس جگہ ہے۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان دار الامان مورخہ یکم اکتوبر 1936ء جلد نمبر24 شمارہ نمبر79صفحہ 6)

مسجد اقصیٰ کی بہت خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس میں نمازیں ادا کرتے رہے۔ خاص طور پر مسجد مبارک تعمیر ہونے سے پہلے تو آپؑ اسی مسجد میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اس مسجد کے قدیمی حصہ کے درمیانی محراب میں حضورؑ نے مورخہ 11؍ اپریل 1900ء کو عید الاضحی کے موقع پر عربی زبان میں فی البدیہہ خطبہ عید ارشاد فرمایا جو خطبہ الہامیہ کے نام سے موسوم ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اس بابرکت خطبہ الہامیہ میں موجود تھے۔

قصرِخلافت

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے عہد خلافت میں کوئی قصرِ خلافت نہ تھا اس کی ضرورت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عہد خلافت کے شروع زمانہ میں پیش آئی تھی۔ آہستہ آہستہ جب جماعت ترقی کرنے لگی اور دفاتر کے کام بڑھنے شروع ہو ئے تو ضرورت کے پیش نظر خلیفہ سے متعلق کاموں اور خطوط کے جوابات دینے کے لیے ایک علیحدہ مستقل ادارہ قائم کرنا پڑا۔ اس ضرورت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے 22؍مئی 1926ءمیں قصر خلافت کی بنیاد رکھی۔

قصر خلافت کی عمارت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے قمرالانبیاءؓ کی نشست گاہ اور سید ناصر شاہ صاحبؓ کے مکان کے درمیانی حصہ میں قائم ہے۔ اور یہ عمارت دو منزلہ ہے اس میں آنے کےلیے حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے گھر سے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے گھر کے باورچی خانہ کے اوپر سے بھی راستہ ہے اسی طرح مسجد مبارک کے جانب سے بھی آسکتے تھے اور پھر احمدیہ چوک سے بھی سیدھی گلی سے اس تک پہنچا جا سکتا تھا فی الحال اس عمارت میں جانے کے لیے دو جانب راستے موجود ہیں۔ ایک تو مسجد اقصیٰ کی جانب سے ہے یعنی مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں کے نیچے سے ہے۔ اور ایک راستہ احمدیہ چوک سے آنے والی سیدھی گلی سے ہے۔

اس دو منزلہ عمارت میں گیلریز وغیرہ ملا کر کل 12؍ کمرے ہیں اور کمروں کے سامنے اوپرنیچے برآمدہ موجود ہے۔ اور سامنے صحن۔ چھت پر جانے کےلیے کچھ سیڑھیاں سیمنٹ کی بنی ہوئی ہیں اور کچھ لکڑی کی۔ اوپر جانے کےلیے دو طرف سیڑھیاں موجود ہیں۔ ایک راستہ برآمدہ سے ہے۔ اور دوسرا باہر کی اس گلی سے ہے جو گلی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اےؓ کے مکان کی طرف آنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ قصرِ خلافت کی یہ عالیشان عمارت مکرم مولوی فضل الٰہی صاحب سرگودھا والے کی زیرِ نگرانی تعمیر ہوئی اس تعلق سے اخبار الفضل میں درج ہے کہ

’’حضور کا مکان تو اب بفضلہ تعالیٰ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔

مولوی فضل الٰہی صاحب سرگودھا والے نے اپنے فرائض متعلقہ محبت و محنت سے ادا کرنے کی کوشش کی۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء۔ ‘‘

(الفضل 18؍اکتوبر 1926ء صفحہ 1)

قصرِ خلافت کے مکمل ہونے کے بعد حضور افراد جماعت سے اسی مکان میں ملاقات فرمایا کرتے اور ڈاک وغیرہ کا کام بھی اسی عمارت میں ہونے لگا۔

خدا نے بنایا ہے معمار تم کو

تمہیں سونپ دی قصر دیں کی عمارت

تقسیم ہند کے بعد اس عمار ت کے نچلے حصہ کو لائبریری کے طور پر استعمال کیا گیا۔ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں اس بلڈنگ کا از سر نو رینویشن ہوا اور آج اس کی شان دیکھنے کےلائق ہے۔

قصر خلافت میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کی ایک مقبول دعا

تقسیم ہند کے وقت سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان کی حفاظت کے لیے درویشان قادیان کی عظیم الشان تحریک فرمائی۔ جس کے نتیجہ میں احمدیت کے جاںنثار اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے لبیک کہتےہوئےحاضر ہوئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی اولاد اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے افراد کے بارے میں آپ نے یہ اصول اپنایا کہ باری باری قادیان آ کر رہیں اور چند مہینے رہا کریں تاکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی موجودرہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم اپنی باری میں قادیان تشریف لائے۔ آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ میں قادیان مستقل طور پر بطور درویش رہوں۔ اس کے لیے آپ نے قصر خلافت میں خصوصی دعا کی جو مقبول ہوئی۔ اس واقعہ کی تفصیل پیارےآقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیا ن کرتےہوئے فرماتےہیں کہ

’’اپنی اس خواہش کا ذکر کرتے ہوئے میاں وسیم احمد صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ میری یہ دلی خواہش اور دعا تھی کہ مَیں قادیان میں ہی رہ کر خدمت بجا لاؤں۔ چنانچہ اس کے لئے ایک دن مَیں نے اپنا جائے نماز لیا اور قصر خلافت قادیان کے بڑے کمرے میں چلا گیا اور وہاں جا کر مَیں نے نفل شروع کر دئیے اور جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ دعا قبول ہونی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے سامان پیدا کرتا ہے، مجھے اتنی الحاح کے ساتھ دعا کا موقع ملا کہ لگتا تھا کہ خداتعالیٰ اس کو قبول فرما لے گا اور مَیں نے دعا کی اور خداتعالیٰ سے کہا کہ مَیں نے قادیان سے نہیں جانا تُوکوئی ایسے سامان کر دے اور پھر کہتے ہیں کہ قادیان کے غیر مسلموں نے حکومت کو شکایت کی کہ یہ قافلے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہاں آتے ہیں تو یہاں کے وفادار بن جاتے ہیں، اور پاکستان جاتے ہیں تو پاکستان کے یہ لوگ وفادار بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ یہی کہتے ہیں اس لئے اس سلسلے کو بند کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ ان کی شکایت پر حکومت نے یہ پابندی لگا دی کہ کوئی آ جا نہیں سکتا اور اس طرح میاں صاحب پھر مستقل قادیان کے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے وہاں رہنے کا انتظام کر دیا۔ ‘‘

(بحوالہ خطبہ جمعہ 4؍ مئی 2007ء)

تقسیم ہند کے وقت قصر خلافت میں انعقاد میٹنگز

1947ء کے پر آشوب زمانہ میں قصر خلافت میںحفاظت مرکز کے لیے میٹنگز کا انعقاد بھی ہوتا رہا۔ اسی طرح کی ایک میٹنگ کے حوالہ سے عینی شاہد مکرم ڈاکٹر میاں محمد طاہر صاحب اپنے مضمون میں 1947ء میں دفاع قادیان کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ

’’جب فسادات شدید ہوگئے تو ایک کمیٹی قائم کردی گئی جس کے اراکین قصر خلافت میں جمع ہوگئے اور ان میں سے اکثر کا قیام حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے گھر میں تھا۔ 3؍اکتوبر کو پو پھٹنے سے پہلے دارالصحت کی طرف سے قادیان کے مرکزی حصے پر حملہ ہوا۔ ایک طرف گلی میں سے حملہ آور بڑھ رہے تھے اور دوسری طرف اجاگر سنگھ کے کئی منزلہ مکان سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ بندوقوں کا رخ مسجد اقصیٰ، قصر خلافت، حلقہ مسجد فضل اور دارالصحت کی طرف تھا اور حملہ آوروں کا مقصد قادیان کے مرکزی حصے پر قبضہ کرنا تھا۔ اس وقت ہمارے نگران حلقہ مرزا محمد حیات صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں قصر خلافت میں جاؤں اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ سے پوچھوں کہ اب ہمارے لئے کیا حکم ہے کیونکہ اس وقت تک ہمیں قادیان کے اندرلڑنے کی اجازت نہ تھی۔ ہم لوگ حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحبؓ کے مکان سے ملحقہ مکان میں جمع تھے۔ میں اسی وقت خان محمد امین خان مبلغ بخارا کے مکان کی چھت پر سے ہوتا ہوا مرزا گل محمد صاحبؓ کے مکان کی طرف بڑھا تو گولیاں میرا تعاقب کرتی رہیں۔ وہاں سے مسجد مبارک سے ہوتا ہوا قصر خلافت میں داخل ہوگیا۔ سیڑھیوں پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ پھر گولیوں کی آواز سنائی دی جو میرے سیدھے ہاتھ والی دیوار پر لگ رہی تھیں۔ میں تیزی سے سیڑھیاں اتر کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے مکان میں داخل ہوگیا۔ تخت والے کمرے میں میرے والد میاں عطاء اللہ صاحب (ایڈووکیٹ راولپنڈی) ٹہل رہے تھے۔ حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ وہیں تخت پر بیٹھے تھے۔ میں نے سلام کے بعد میاں صاحب کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ تو مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے ہیں اور یہ کہ لڑائی کی اجازت ہوچکی ہے۔ … اباجان کے بستر کے قریب ہی بندوق اور کارتوسوں کا تھیلا رکھا تھا، میں نے اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے مسکراتے ہوئے اباجان کو سلام کیا۔ انہوں نے بھی مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’اچھا بیٹا! جاؤ اب قیامت کے دن ملیں گے۔ ‘‘

(ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘جولائی 1997ء کینیڈا )

مسجد نور

مسجد نور بھی قادیان کی اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اس تاریخی مسجد کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 5؍مارچ 1910ء کو رکھی تھی۔ اس کی تعمیر پر تین ہزار روپے صَرف ہوئےتھے جو حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے فراہم کیے تھے۔ یہ مسجد تعلیم الاسلام اسکول اور کالج کے احاطہ میں ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات حضرت نواب محمد علی صاحبؓ کی کوٹھی دارالسلام میں 13؍ مارچ 1914ء کو ہوئی تھی جو کہ کالج اور مسجد نور کے شمالی جانب واقع ہے۔ 14؍مارچ1914ء کو اِسی مسجد، مسجد نور میں حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ثانی قرار پائے اور تقریباً دو ہزار لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسی وقت بیعت کی تھی۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ہائی اسکول کے شمالی میدان میں پڑھایاتھا۔

یہی وہ تاریخی مسجد ہےجس میں جماعت احمدیہ کی اکثریت نے قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کےارشادات کی تعمیل میں خلافت سے وابستہ رہنے کا عہدکیا تھااور معدودے چند لوگ مولوی محمد علی صاحب کی سرکردگی میں خلافت سے رُوگردانی اختیار کرتے ہوئے قادیان کو چھوڑکر لاہور چلے گئے تھے۔

الحمد للہ ابھی تک اس مسجد میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کی شکار گاہ و مقامِ پکنک

آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔

(سنن ابن ماجہ باب فی القدر )

حضرت مصلح موعودؓ آنحضورﷺ کےاس ارشاد کے پیش نظر قادیان کے قریب جاری دریا بیاس کے قریبی علاقوں میں شکار و پکنک کےلیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ان سفروں میں بھی آپ کی سیرت کے کئی پہلو نمایاں ہو کر نظر آتےہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سےچند ایک روایات درج کی جاتی ہیں۔

حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ

’’ایک دفعہ ہم نے سنا کہ صاحبزادہ صاحب (مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود صاحب )بیٹ میں شکار کوآ رہے ہیں ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔ کھانے کا وقت ہوا تو آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے جو کھانا ساتھ لائے ہوئے تھے کھایا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو مقامی امام کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔ اسی طرح عصر کے وقت بھی ہوا وہاں لوگوں نے درخواست کی کہ ایک رات ہمارے پاس ٹھہریں۔ مگر آپ نے جواب دیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ایک ہی دن کی اجازت لے کر آیا ہوں۔ پھر کبھی آئوں گا تو رات ٹھہرنے کی اجازت لے کر آئوں گا۔ لہٰذا پھر جب آئے تو اپنا وعدہ پورا کیا اس بات سے ہم نے خلیفہ کی اطاعت کا سبق سیکھا۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 5؍نومبر2007ء)

حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ(مہر آپا)حرم حضرت مصلح موعودؑ بیان فرماتی ہیں :

’’ایک دفعہ حضرت اقدس ہم لوگوں کو راجپورہ (قادیان) پکنک کے لئے لے گئے۔ دریا سبزہ کھیتوں وغیرہ سے ہم لوگ خوب محظوظ ہوئے خود ساتھ لے جا کر شکار کرنا نشانہ لگانا سکھاتے رہے۔ جتنی دیر ہم پکنک کے لئے ٹھہرے آپ نے نہ صرف اپنے گھر والوں کا ہی خیال رکھا۔ بلکہ کام کرنے والوں کا اس حد تک خیال کرتے رہے کہ اپنے ہاتھ سے کھانے پینے کی اشیاء اٹھا اٹھا کر ان لوگوں کو دیتے۔ اور ہمیں ساتھ ساتھ نصیحت فرماتے کہ ان کام کرنے والوں کا خاص خیال رکھا کرو۔ اور انہیں پوری طرح آزادی دو کہ یہ لوگ بھی پکنک میں مساوی انجوائے کریں۔ ‘‘

(الفضل 26؍مارچ 1966ء)

آخر پر خاکسارمقامات مقدسہ کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ایک اقتباس سے اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہے۔ حضورؓ فرماتےہیں کہ

’’ مومن کے ایمان کی سچی علامت یہی ہے کہ جب وہ کسی ایسے مقام سے گذرے جو خدا تعالیٰ کے کسی عذا ب کو یاد دلانے والا ہو تو وہاں اُس کے اعضاء اور جوارح سے کسی قسم کی بیباکی ظاہر نہ ہو تی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اس کے دل پر طاری ہو اور وہ اس عذاب کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھ رہا ہو جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا۔ اسی طرح جب وہ مسجد میں آئے یا کسی ایسی جگہ جائے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا کوئی نشان ظاہر کیا ہو تو وہاں فضول اور لغو باتیں نہ کرے بلکہ ذکر الٰہی اور خدا تعالیٰ کی یاد کرے۔ نمازیں پڑھے، دعاؤں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی کوشش کرے یا اگر باتیں ہی کرنی ہوں تو دین کی باتیں کرے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 345)

پس یہ وہ آدابِ مقامات ہیں جوایک مسلمان کے دل میں ہونے چاہئیں۔ آج ہمیں اس حوالے سےاپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس مقامات کے آداب و تقدس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button